ملالہ کے نام

مصنف : ادریس آزاد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2018

ملالہ کے نام
*ادریس آزاد*
ملالہ!
آپ کو کتنی مبارک دوں؟
جو عورت آپ سے پہلے
ہمارے شہرِ خون آشام میں
پامال ہوتی تھی
وہ اب بے آبرْوئی کے جہنم میں نہیں رہتی
وہ اب آزاد عورت ہے
وہ اب اس زندگی کی قید سے آزاد عورت ہے
وہ خط جو آپ نے لکھے
انہوں نے ایسے خط کھینچے
کہ اب ہر موڑ پر "خط" ہیں
وہ جن کے بعد
اب تک آسماں سے
آتش و آہن برستے ہیں
وہ جن کے بعد بچے 
اپنی تختی اور بستوں کو ترستے ہیں
وہ جن کے بعد بستی کے جواں
چْن چْن کے مارے جارہے ہیں
اور دونوں سمت سے
تکبیر کی آواز آتی ہے
ملالہ! آپ کو
دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ مبارک ہو
یہ عورت کے حقوق اور آدمیت کے شَرَف
کی جنگ لڑنے کا 
حسین انعام ہے
یہ امن کا پیغام ہے
پیغام ہے ایسا
کہ اے چارہ گرِ اکنافِ عالم!
اے کہ ایٹم بم کے خالق!
قاہر و جابر!
خدائے آہن و آتش!
ہماری سرزمینیں 
آپ کے قدموں میں بچھنے کے لیے
بے تاب رہتی ہیں
ہمارے گھر، ہمارے کھیت کھلیاں
کام دھندے، روزگارِ زندگی
سب آپ ہی کی راہ تکتا ہے
ملالہ!
آپ کو یہ امن کا تمغہ مبارک ہو
یہ ایسی دھات سے ڈھالا گیا ہے 
جورگ وپئے میں
لہْو کے ساتھ بہتی ہے
وہ جس کو ڈھونڈنے
بارہ ہزار افراد
نکلے تھے
مہم جْو آج تک 
واپس نہیں لوٹے
کسی کی ماں
کسی کا باپ 
کچھ کی بیویاں
اب آپ کے چہرے کو تکتے ہیں
تو کہتے ہیں
ملالہ!
آپ کو تمغے مبارک ہوں
ہمارے آپ جیسے کتنے بچے
جل گئے انگار وادی میں
ہماری آپ جیسی لاڈلی
معصوم پریاں
بھْن گئی ہیں
آسمانوں سے برستے آگ کے
کالے جہنم میں
ملالہ!
آپ کے جانے کے بعد
اب بچیّوں کے درکنار
اب تو وہاں
بچوں کے سب اِسکول بھی
فوجی ٹھکانے ہیں
ملالہ! 
آپ کی جرأت 
ہمیشہ یاد رکھی جائیگی
ایسے
وہ جیسے آج بھی جاپان والے
جرأتِ تسخیر کی برسی مناتے ہیں
ہم اپنی عزت و توقیر کی برسی منائیں گے

جانے کیا ہے،
جانے کیا ہے موت، کیا ہے زندگی
چلتے چلتے کیسے تھم جاتی ہیں تصویریں تمام
خاک ہو جاتی ہے پھر سے مشتِ خاک
گاہے گاہے سنگ ہو جاتے ہیں چہروں کے نقوش
اپنے اپنے زاویے پر منجمد
دم بخود رہتے ہیں محوِ انتظار
*خورشید رضوی*
خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دور تک گیا
کچھ اور ابر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا
کل جس کے قرب سے تھی گریزاں مری حیات
آج اس کے نام پر بھی میر ا دل دھڑک گیا
میں سوچتا ہوں شہر کے پتھر سمیٹ کر 
وہ کون تھا جو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا
احباب جبرِ زیست کے زنداں میں قید تھے 
محسن میں خود صلیبِ غزل پر لٹک گیا
*محسن نقو
ی*