ایک دوست نے بیان کیا کہ :شہر کے ایک محلہ سے گزر ہوا، دیکھا کہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے کسی اہم معاملے کی پوچھ تاچھ کررہے ہیں، میرا فطری تجسس بیدار ہوگیا، میں بھی قریب پہنچا اور ایک شناسا سے پوچھا،معلوم ہواکہ اب سے تقریباً دس ماہ قبل ایک نوجوان کا نکاح ایک امیر باپ کی بیٹی سے ہوا تھا، بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی، پوری رات ڈھول تاشے اور ساؤنڈ و باجے سے پورے محلہ میں دن جیسا سماں رہا، پورے محلے والے پوری رات چین کی نیند نہ سوسکے، غرض اسراف اور فضول خرچیوں کی شاہ کار بن کر یہ شادی ہوگئی۔شادی کے بعد نئی تہذیب کے مطابق ہنی مون منانے کا پروگرام بنا کہ کسی سرسبز و شاداب اور پْربہار جگہ جانا چاہیے، چناں چہ ایسا ہوا اور تقریباً دو ماہ تک شادی کی تقریبات، تفریحات کا سلسلہ چلتا رہا، بیوی چوں کہ امیر باپ کی بیٹی تھی، سہیلیوں میں اور معاشرہ میں اس کی ناک اونچی ہی رہے اس لیے اس کا مزید مطالبہ ہوا کہ ابھی شادی کو صرف دو ہی مہینے ہوئے ہیں، ذرا تاج محل آگرہ، جو کہ محبت کی نشانی ہے، شادی کے بعد جوڑے کا وہاں جانا ہماری سوسائٹی اور تہذیب کا حصہ ہے، ضرور چلاجائے، شوہر جو اپنے مقدور سے زیادہ اخراجات سے گراں بار ہوچکا تھا، بیوی کی دلجوئی کے لیے مزید قرض لے کر اس کے لیے بھی تیار ہوگیا، خیر وہاں سے واپسی ہوئی، پھر مزید تفریحات اور سیاحتی مقامات کی سیر کا پروگرام بنتا رہا اور شوہر اپنی جھوٹی شان باقی رکھنے کے لیے بیوی کی دلداری کے لیے مالی اعتبار سے گراں بار ہوتا رہا ہے، ایک ماہ پہلے شوہر نے عاجز آکر مزید تفریحات پر بیوی کو لے جانے سے انکار کردیا، لڑکی ناراض ہوگئی اور میکے چلی گئی، پھر کچھ لوگوں نے صلح صفائی کرادی اور بات اس پر طے ہوئی کہ شوہر اب اپنے گھر کے بجائے سسرال ہی میں رہے گا۔بیوی نے اپنی امیرانہ شان دکھاتے ہوئے یہ شرط رکھ دی کہ شوہر اب اپنے گھروالوں، ماں باپ، بھائی بہن اور دیگر اعزہ و احباب سے بھی نہیں ملے گا، یہ زن مرید شوہر اس پر بھی تیار ہوگیا، لیکن اچانک ماں کی بیماری کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے ملنے گھر آگیا۔ اب بیوی نے اس پرواویلا شروع کردیا اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی، عاجز اور پریشان شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی اور دس ماہ کے اندر نکاح، شادی اور طلاق سب کچھ ہوگیا۔
بیان کرنے والے یہ پوری داستان بیان کررہے تھے اور میرے ذہن میں اسی شہر سہارنپور کی صدیوں پرانی نہیں، بلکہ صرف اناسی(79) سال پہلے کی ایک شادی کا منظر ابھر رہا تھا، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ کے سادہ لیکن پرکشش انداز بیان میں ملاحظہ فرمائیں:
حسب معمول مدرسہ مظاہرعلوم کے سالانہ جلسہ کے لیے مورخہ 2/محرم1352ھ مغرب کے قریب چچا جان نور اللہ مرقدہ(حضرت مولانا محمد الیاس صاحب) تشریف لائے اور فرمایا کہ ہمارے یہاں میوات کے جلسوں میں نکاحوں کا دستور پڑگیاہے ، کل کے جلسہ میں حضرت مدنی سے یوسف و انعام کا نکاح پڑھوادوں ؟ میں نے کہا شوق سے ،مجھ سے کیا پوچھنا ،عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد میں نے اہلیہ مرحومہ اور دونوں بچیوں کے کان میں ڈال دیا کہ چچا جان کا ارادہ یہ ہے کہ دونوں بچیوں کانکاح پڑھوادیں میری اہلیہ نے دبے لفظوں میں کہا کہ تم دو چار دن پہلے کہتے تو میں ایک ایک جوڑا تو ان کے لیے سلوادیتی۔ میں نے کہا اچھا مجھے خبر نہیں تھی کہ یہ ننگی پھررہی ہیں، میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ کپڑے پہنے پھرتی ہیں، میرے اس جواب پر مرحومہ خاموش ہوگئیں۔ جامع مسجد آتے ہوئے حضرت مدنی سے میں نے عرض کردیا کہ یوسف ، انعام کا نکاح پڑھنے کے لیے چچاجان فرمارہے ہیں، حضرت مدنی نے بہت اظہار مسرت فرمایا اور کہا ضرور پڑھوں گا، ضرور پڑھوں گا۔ جامع مسجد پہنچنے کے بعد حضرت مدنی نے فرمایا کہ مہر کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا ہمارے یہاں مہر مثل ڈھائی ہزار ہے، حضرت مدنی نے فرمایا میں مہر فاطمی سے زیادہ پر ہرگز نکاح نہیں پڑھوں گا ۔میرا اور حضرت کا جامع مسجد کے در میں بیٹھے بیٹھے اس مسئلہ پر مناظرہ ہوا، بالآخر حضرت مدنی قدس سرہ ممبر پر تشریف لے گئے اور سادہ نکاحوں کی فضیلت ، برکت پر لمبا چوڑا وعظ شروع کیا، حضرت مولانا حکیم جمیل الدین نگینوی ثم الدہلوی، جو اس جلسہ میں شریک تھے، انہیں ساڑھے دس بجے کی گاڑی سے جانا ضروری تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ آپ حضرت مدنی سے فرمادیں کہ نکاح جلد پڑھ دیں، تاکہ ہم لوگ بھی نکاح میں شرکت کرکے جاویں، میں نے حضرت کی خدمت میں اطلاع پہنچادی ،حضرت مدنی کو یہ خیال ہوگیا کہ بعض لیگی حضرات میری تقریر سننا پسند نہیں کرتے، اس لیے اولاً تو خوب ناراض ہوئے، لیکن معاً دونوں لڑکوں یوسف و انعام کو ممبر کے پاس کھڑا کرکے خطبہ پڑھ کر نکاح پڑھ دیا اور پھر اپنے وعظ میں مشغول ہوگئے، چوں کہ عزیزان مولویان یوسف وانعام یہیں سہارنپور میں پڑھتے تھے، اس وجہ سے لڑکیوں کے نظام الدین دہلی جانے کا سوال ہی نہ تھا، میرے گھر ہی میں شب جمعہ کو دونوں کی چارپائیاں علیحدہ علیحدہ بچھوادی جاتیں، جب سال کے ختم پر وہ حضرات نظام الدین گئے تو اپنی اپنی بیویوں کو بھی چچا جان کی معیت میں ساتھ لے گئے۔’’
شہر ایک ہی ہے ،لیکن انداز کس قدر بدل گیا ہے ،ایک طرف ایسی سادگی کہ شریک حیات فرماتی ہیں کہ کم از کم دوتین دن پہلے ہی بتادیتے اور ایک طرف اتنا ہنگامہ کہ پورا محلہ رات بھر چین کی نیند نہیں سوسکا،دونوں کے اپنے اپنے طبعی اور فطری اثرات ہیں جو مرتب ہوکر رہے،ایک شادی دنیا اور آخرت کی سعادتوں سے ہم کنار کررہی ہے تو دوسری شادی لڑائی، جھگڑے اور آپسی نفرت وعداوت پیدا کر کے دنیوی زندگی کو اجیرن بنارہی ہے۔
اسلام نے شادی اور نکاح کو کس قدر آسان اور سہل بنایا تھا ،مگر آج ہم مسلمانوں نے اس میں طرح طرح کی خرافات داخل کرکے کس قدر مشکل بنادیا ہے، آج مسلم معاشرہ کی اکثر شادیوں کا نقشہ وہی ہوتا ہے جو پہلے بیان ہوا کہ شادی و نکاح کی خوشی کی خاطر حقوق اللہ کی پامالی کی جاتی ہے، اسراف اور فضول خرچی جو حرام ہے ،محض جھوٹی شان دکھلانے کے لیے کس قدر بے خوفی کے ساتھ اس کا ارتکاب کیا جارہا ہے، نوجوان، غل غپاڑے میں مشغول ہیں، پٹاخے چھوڑرہے ہیں، راستہ چلنے والوں کو اذیت الگ ہورہی ہے۔مذہب اسلام کی تمام تعلیمات و احکامات میں یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور اس میں غیر اسلامی کسی فعل کی کسی طرح کی آمیزش نہ ہو، اسی کے ساتھ اسراف اور فضول خرچی جیسی شیطانی حرکتیں ،بھلا کیا یہ اسلامی نکاح ہے؟ کیا اللہ رسول کے ماننے والے مسلمان کی شادیاں اسی انداز کی ہوتی ہیں؟