یہ وہ مذہب تو نہیں۔۔۔۔۱

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2011

            گھر کے حالات تناؤ کا شکار تھے کیونکہ گھر کی بہو روٹھ کر میکے چلی گئی تھی۔ اس تناؤ کے خاتمے کے لیے، صاحب خانہ، جو بڑے چاؤ سے بیٹے کی دلہن لائے تھے ، اپنی انا کی قربانی دے کر بیٹے کے سسرال جانے کو تیار ہو گئے۔

            بیٹے کے سسر خود عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے عالم کے شاگرد تھے اور انہیں ‘‘اپنے مسلک’’ کی سچائی ، حقانیت اور ‘‘حرف آخر’’ ہونے پر بڑا مان تھا۔ خیر مہمان کی مہمان نوازی کی گئی ۔ کھانے کے بعد جب اصل موضوع کی طرف بات چلی تو عالم باپ نے اپنی بیٹی بھیجنے سے یکسر انکار کر دیا کیونکہ ان کی بیٹی کو خدشہ تھا کہ سسرال والے اسے ہلاک کر دیں گے۔ بڑے مان اور چاؤ سے دلہن بیاہ کر لانے والا باپ اپنی ‘‘چہیتی بہو’’ کے منہ سے یہ خیالات سن کر شرمندگی کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ بہو کی غلط فہمی دور کر سکے مگر نتیجہ ندارد۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ جب میری بیٹی آپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تو آپ ہمارے حال پر رحم کیوں نہیں کرتے ، کیا آپ اسے مار کر ہی دم لیں گے؟ لڑکی کے سسر نے ایک بار پھر سے اپنی انا کو قربان کرتے ہوئے نہایت منت سماجت سے دوبارہ ساری یقین دہانیوں کی فہرست گنوانی شروع کر دی۔ لڑکی کا باپ یہ ساری یقین دہانیاں سنتا رہا اور گفتگو کے اختتام پر بولا کہ مجھے آپ کی کسی یقین دہانی ، کسی واسطے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ آپ کے ‘‘مسلک’’ میں تو جھوٹ بولنا ویسے ہی ‘‘ثواب’’ سمجھا جاتا ہے …… یہ سن کر لڑکے کے باپ کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک مذہبی آدمی کے ہاتھوں وقت سے بہت پہلے ہی مر گیا ہو……!

٭٭٭

            وہ ‘‘اپنے مسلک’’ پر نہایت سختی سے کاربند تھا اور باقی ساری دنیا کو بھی اسی مسلک پر لانا چاہتا تھا۔ اپنی اسی سختی کی بدولت وہ فکر معاش سے بھی دوچار تھا اور یہ حقیقت اس کے گھریلو حالات سے بھی عیاں تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے سب رشتہ دار اس کے ‘‘ہم مسلک’’ نہ تھے۔ اس کے خالو نے اسے ایک محترم شخصیت کے پاس ملازمت کے لیے بھیجا جو کہ خود بھی مذہبی علوم پر اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔ وہ بادل نخواستہ بزرگ کے پاس گیا اور ان سے اپنا تعارف اپنے خالو کے حوالے سے کروایا تو وہ برزگ بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ بزرگ اس کے خالو کی بہت عزت کرتے تھے۔ محترم بزرگ نے نوجوان کو چائے کی پیالی پیش کی ۔ نوجوان نے فوراََ محترم بزرگ سے ان کے ‘‘مسلک’’ کے بارے میں جاننا چاہا ۔ بزرگ نے اسے سمجھایا کہ بیٹامسلک وسلک کچھ نہیں ہوتا لیکن نوجوان جو کہ ‘‘خود ساختہ تعبیر’’ کے مطابق ‘‘پکا مسلمان’’ تھا ، وہ اس بات سے متاثر نظر نہ آیا۔ نوجوان نے دوبارہ ان کے مسلک کے بارے اصرار کیا تو محترم بزرگ نے اپنا دینی رحجان بیان کر دیا ۔ ‘‘پکا مسلمان’’ نوجوان غصے سے اٹھا اور چائے کی پیالی کو ٹھکرا کر محترم بزرگ کے رتبے ، عمر اور شفقت کو ٹھوکر مار کر وہاں سے چل دیا…… اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ یہاں کس کے توسط سے آیا تھا…… وہ سوچتا بھی کیوں کیونکہ وہی تو ’’پکا مسلمان’’ تھا۔

٭٭٭

            حضورﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ ایک اور موقع پر فرمایا جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (گویا) وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ ایک اور موقع پر فرمایا جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ پھر فرمایا تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔ اوپر بیان کی گئی دونوں مثالیں محض کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور میں حیران ہوں کہ ہم آخر کس نبی کے امتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں؟ ہم آخر کس مذہب کے پیروکار ہیں؟ قرآن نے تو ہمارا نام ‘مسلم’ رکھا تھا ، یہ ہم ‘‘مسلکی’’ کب سے ہو گئے؟ ہم نے اختلاف رائے کو قبول کرنا کب سے چھوڑ دیا؟ حضرت زید بن ثابتؓ کو رسول خدا نے جب فرمایا کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دو تو انہوں نے کہا ، یا رسول اللہﷺ کیا یہ حکم ہے؟ حضور نے فرمایا نہیں ، زید نے کہا تو پھر میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا اور انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔

            تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے سے لیکر صحابہؓ تک اور پھر وہاں سے لیکر آج تک ‘‘اختلاف رائے’’ ہوتا آیا ہے مگر یہ اختلاف رائے ‘‘مخالفت’’ کب بن گیا ، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ یقینا وہ مذہب نہیں جو محمد الرسول اللہﷺ کا مذہب ہے۔