سماجیات
پبلک بیت الخلاء کی اہمیت
صہیب جمال
میں کوئی سات بجے شام بہادر آباد ،کراچی، آفس سے نیچے اترا تو ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ میرے گاڑی کا دروازہ کھلنے سے پہلے ہی میرے قریب آ گیا ،یہ بچہ اپر مڈل کلاس کا معلوم ہو رہا تھا ۔ مجھے اس کے حلیے سے پیسے مانگنے والے کا گمان بھی نہیں ہو رہا تھا ، اور ویسے بھی میں دیکھ رہا تھا کہ اسے مٹھائی کی دوکان والے نے میری طرف بھیجا تھا۔
وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور کہا "انکل مٹھائی والے انکل نے بتایا ہے کہ آپ کا آفس اوپر ہے ، وہ سامنے میری والدہ ہیں اور ان کو واش روم جانا ہے"
یہ بات سن کر کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کی والدہ کو واش روم جانا ہے تو یہ مجھے کیوں بتا رہا ہے۔ اس کی والدہ کو جب میں نے دیکھا تو وہ چادر میں لپٹی ایک اچھے گھر کی خاتون دکھائی دے رہی تھی اور اس کے چہرے سے اس کا اندرونی کرب بھی ظاہر ہو رہا تھا۔ اس کا کرب دیکھ کراندازہ ہوا کہ بچہ کیا کہنا چاہ رہا ہے ۔میں نے بچے سے کہاکہ "سامنے دروازے سے اوپر سیکنڈ فلور پر لے جاؤ وہ میرا آفس ہے وہاں لڑکا ہوگا جب تک تم لوگ اوپر جاؤ گے میں اس کو کال کردوں گا "، میں نے اوپر خدابخش کو کال کی کہ ایک بچہ اور اس کی والدہ ہوں گی ان کو واش روم جانا ہے۔
بالکل اسی طرح جس دن بے نظیر کا قتل ہوا تھا اس دن بھی ایسی کچھ صورتحال پیش آئی تھی اچانک مارکیٹ بند ہونے اور خواتین کے پاس سواری نہ ہونے کی وجہ سے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا تھا جن میں سے کافی خواتین اس کرب میں مبتلا تھیں۔ اسٹاپ پر آفس ہونے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا خواتین کو ہم نے آفس کا واش روم پیش کیا تھا۔
کراچی ہو یا پاکستان کا کوئی بھی شہر ہو اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے ، کیونکہ ہم نے اس کو کچھ سمجھا ہی نہیں ۔ ہم فٹ پاتھ پر بہتے پیشاب کو پھلانگ کر گزر تو سکتے ہیں مگر یہ سوچتے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس تکلیف و کرب کے لیے کوئی جگہ مخصوص ہونی چاہیے ، سڑکوں اور گلیوں میں بہتی اس گندگی کا تدارک ہونا چاہیے ۔ مردوں کی ضرورت تو مساجد اور دیواریں پورا کر دیتی ہیں خواتین کے لیے کون سوچے گا ؟ بڑے شاپنگ مالزمیں تو سہولت موجود ہے مگر اولڈ سٹی یا کچھ بازاروں میں خواتین کو جس کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو خود اس تکلیف سے گزرا ہو۔
کچھ مرد حضرات تو شوقیہ اپنی یہ ضرورت کھلے عام پوری کرتے ہیں جن کے کچھ قدم پر مساجد یا دوسرے ذرائع موجود ہوتے ہیں وہ اس کو شرم و حیا کے خلاف یاگندگی اور غلاظت میں شمار ہی نہیں کرتے۔
میرا تو مشورہ یہ ہے کہ لائف بوائے ،سیف گارڈ صابن بنانے والی کمپنیز ہر شہر کی بلدیہ کے ساتھ مل کر پبلک واش روم بنائیں اور اس کو اپنے نام سے برانڈ کر دیں باقاعدہ کسی کو ٹھیکے پر دے کر فیس بھی وصول کریں کیونکہ ان کا اشتہارات اور پروموشن کا کروڑوں کا بجٹ ہے ان کے دیکھا دیکھی چار کمپنیز اوربھی شامل ہوسکتی ہیں۔ حکومت کے قائم کیے چند واش روم انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں کئی جگہوں پر تو ہیروئن پینے اور بیچنے والوں کا ہی قبضہ ہے اور باہر سے ہی واش روم اتنے بدشکل ہیں کہ اندر جانے کی کسی کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔
سیلانی ، ایدھی ، الخدمت ، خدمت خلق ، چھیپا یہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ، یقین مانیں یہ انسانی خدمت بھی ہے اور طہارت و حیا کی خدمت بھی اور یہ تو ہمارا مذہب بھی کہتا ہے کہ طہارت نصف ایمان ہے ۔
***