جواب :اصولاً ٹی وی نشریات مباحات کے دائرے کی چیز ہیں۔ یعنی یہ اصولی حیثیت میں نہ گناہ کا مسئلہ ہیں نہ ثواب کا لیکن ان کی نوعیت اس کو جائز اور ناجائز بنا دیتی ہے۔ وہ نشریات جن میں کوئی بھی اخلاقی خرابی ہے ان کے نشر کرنے والے گنہگار ہیں۔ اس میں ہر ایک اپنی شرکت کے اعتبار سے سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ پاکستان میں جن چینلز کو قانونی اجازت حاصل ہے ان پر بھی ایسی چیزیں آتی ہیں جو قابل اعتراض ہیں مراد یہ ہے کہ ان کو پھیلانے سے گناہ ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس سے بچیں لیکن یہاں میں یہ وضاحت کر دوں قانونی چینلز کو چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی اصولاً جائز ہے۔ گناہ کا پہلو آمدنی میں نہیں بعض نشریات میں ہے لیکن آپ اگر جان بوجھ کر ایسی فلمیں یا گانے یا فحاشی پر مبنی کوئی بھی چیز نشر کریں گے تو آمدنی بھی ناجائز ہو جائے گی۔
(مولانا طالب محسن)
جوا ب :ہمارے نزدیک صرف وہی تصویریں اور مجسمے حرام ہیں جن کو مقدس سمجھا جاتا اور ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ چونکہ ان کھلونوں کا اس طرح کے کسی تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ان کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ہمارے گھروں میں ایسی تصویریں بھی موجود ہو سکتی ہیں ان کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے۔آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کے کرنے کا طریقہ کیا ہے۔سجدہ تلاوت ایک نفلی عمل ہے اور یہ قرآن مجید کے ساتھ پڑھنے والے کے زندہ تعلق کو ظاہر کرتا ہے اس لیے اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ وہ تلاوت کرتے ہوئے جنت کے ذکر پر طلب کی دعا ، جہنم کے ذکر پر پناہ کی دعا اور اسی طرح ان مواقع پر سجدہ بھی کرتے تھے جن میں اس مناسبت کا مضمون آتا ہے۔ ہمارے لیے اس اسوہ میں قرآن کے ساتھ حقیقی تعلق کا نمونہ ہے جس کی پیروی میں ظاہر ہے برکت بھی ہے اور اجر بھی۔ کرنے کا طریقہ کوئی خاص مقرر نہیں ہے آپ چاہیں تو نماز کی طرح باقاعدہ مصلے پر بھی یہ سجدہ کر سکتے ہیں اور چاہیں تو بیٹھے بیٹھے بھی سجدہ کر سکتے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ روح سے انسان سمیع و بصیر بن جاتا ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے حیوانی قالب کو نفخ روح سے انسانی شعور عطا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ روح کے بارے میں کوئی بات کہنا نا ممکن ہے اور شاید ہمارے لیے مفید مطلب بھی نہیں ہے۔روح کی پاکیزگی کی اصطلاح قرآن مجید میں نہیں آئی۔ قرآن مجید میں تزکیہ نفس کی اصطلاح آئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان ، عمل اور اخلاق کو پاکیزہ بنائے اور اس کا طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنا ، ماننا اور اپنانا ہے۔ چونکہ یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک کامل نمونے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اس لیے وہی سمجھ، رویہ ، ایمان اور عمل معتبر ہے جو حضور کے اسوہ کے مطابق ہو۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔ یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کریں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :میں آپ کے سوال کو اس معنی میں لے رہا ہوں کہ قرآن مجید میں رزق کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لیے بھی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی یہ مال و دولت کے لیے بھی ہے، متاع حیات کے لیے بھی آیا ہے اور ہدایت و معرفت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مختصرا ًہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رزق کا لفظ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو عطا ہونے والی ہر عنایت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :حج بدل کسی شخص کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو حج پر بھیجنا ہے۔ اس کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو خود حج کرنے سے معذور ہو۔ جس حدیث میں صدقہ جاریہ کا لفظ آیا ہے اس میں صدقہ جاریہ کے اعمال الگ بیان ہوئے ہیں اور صالح اولاد کا ذکر الگ ہوا ہے۔جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سواے تین کے : صدقہ جاریہ ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صالح اولاد جو دعا کرے۔اصلاً صدقہ جاریہ ایک الگ چیز ہے اور صالح اولاد کی دعا ایک الگ چیز ہے۔ اولاد کو صدقہ جاریہ کہنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ والدین کے سکھائے ہوئے اعمال کو جاری رکھتی ہے۔ لیکن یہ بات حدیث کے مضمون کا اطلاق ہے براہ راست حدیث سے ماخوذ نہیں ہے۔ بچے کے کان میں اذان کیوں کہی جاتی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ والدین کا عمل ہے یعنی ان کی طرف سے اولاد کے کان میں پہلی بات کیا ڈالی جانی چاہیے۔ دوسری یہ کہ اس عمر کے تمام واقعات انسان کے لاشعور کا حصہ بنتے ہیں اور یہ چیز اس کی شخصیت کے بنیاو میں ایک کردار ادا کرتی ہے اگرچہ وہ اپنی عمر کے کسی حصے میں بھی اسے دوبارہ یاد نہیں کر سکتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ بھی دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)