میری پیدائش ضلع اعظم گڑھ کے بومے گاؤں میں ہوئی۔ میرا پرانا نام ہیرا لال تھا۔ میرے والد بابو نندن بھاردواج جی ایک بڑے مذہبی ہندو ہیں۔ میرے خاندان اور گاؤں کے بہت سے لوگ دہلی میں بلڈنگ پینٹنگ کا کام کرتے ہیں۔میرے والد صاحب دہلی میں پان بیڑی سگریٹ کی دکان کرتے ہیں۔
اب سے تقریباً سات سال قبل جب میری عمر بارہ سال کی تھی، میں اپنے والد صاحب کے ساتھ پان کی دکان پر تیمور نگر ، نئی دہلی میں بیٹھتا تھا۔ہماری دکان کے اوپر ایک بلڈنگ میں ابا جی ابو فیاض صاحب کڑھائی وغیرہ کا کارخانہ چلاتے تھے۔ ہمارے والد صاحب نے کارخانے میں رات قیام کو لیے ان سے کہا۔ انھوں نے منظور کر لیا۔ میں رات کو کارخانے کے کاری گروں کے ساتھ سویا کرتا تھا۔ رات کو روزانہ ابا جی سارے کاری گروں کو بٹھا کر ‘‘فضائل اعمال’’ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ میں بھی سنتا تھا۔ مجھے یہ باتیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ میں جلدی رات کو جا کر تعلیم کا انتظار کرتا تھا اور اگر ابا جی ناغہ کرنا چاہتے تو میں ان سے تھوڑی دیر تعلیم کرنے کے لیے کہتا۔ یہ لوگ نماز پڑھنے جاتے تو میں بھی ان کے ساتھ جا کر کبھی کبھی مسجد کے باہر کھڑا ہو جایا کرتا۔ مجھے نماز پڑھتے ہوئے لوگ بہت اچھے لگتے۔ ایک رات کو میں نے ابو فیاض صاحب سے پوچھا: ‘‘ابا جی ! کیا مسلمان ہو سکتا ہوں؟’’ انھوں نے بڑے پیار سے کہا: ‘‘بیٹا! ضرور اور اگر تم مسلمان نہیں بنو گے تو دوزخ کی آگ میں ہمیشہ جلو گے۔’’ میں نے کہا : ‘‘تو پھر آپ مجھے مسلمان کر لو۔’’ انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا۔ میرا نام کالے رنگ کی وجہ سے بلال احمد رکھا اور بتایا کہ بلال ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اذان دینے والے مؤذن تھے۔ انھوں نے ایمان کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں۔ میں بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۔۲۵ کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتا۔ اباجی نے مجھے نماز پڑھنے جانے سے منع کیا کہ مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر میرے گھر والے مجھے ماریں گے۔ میں نے ابا جی سے کہا کہ ایک بار آپ نماز کو جا رہے تھے تو میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ ابا جی! آپ ایک ٹائم کی نماز نہیں چھوڑتے؟ آپ نے یہ کہا تھا کہ جو ایک وقت کی نماز چھوڑ دے، وہ اسلام سے نکل جاتا ہے، تو کیا میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں۔ اگر میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں تو ایسے مسلمان ہونے کا کیا فائدہ ! آپ مجھے ایک نمبر کا مسلمان کریں اور اگر ایک نمبر کا مسلمان میں بھی ہوں تو بے نمازی مسلمان اسلام سے نکل جاتا ہے۔ ابا جی نے جواب دیا کہ بات تو سچی یہی ہے کہ نماز کے بغیر کچھ مسلمانی نہیں۔ تم ابھی چھوٹے ہو اور گھر والوں کا ڈر ہے، اس لیے میں تم سے کہتا تھا۔ میں نے کہا: ابا جی! اللہ کا ڈر زیادہ ہونا چاہیے یا ماں باپ کا؟ میری بات سن کر انھوں نے کہا: اچھا بیٹے! تم چھپ کر نماز کے لیے چلے جایا کرو۔ رمضان کا مہینا آیا۔ میں مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتا۔ شاید میرے گھر والوں نے مجھے کبھی مسجد جاتے دیکھ بھی لیا۔ میں روزے بھی رکھ رہا تھا، گھر والے دن میں کھانے کو کہتے ، میں بہانا کر دیتا، اس سے ان کو شک ہو گیا۔
ایک روز جمعہ کی نماز پڑھ کر ٹوپی اوڑھے ذاکر باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی ۔۲۵ کی مسجد سے آ رہا تھا، میرے والد صاحب نے دیکھ لیا، مجھے پکڑ لیا۔ مجھ سے پوچھا: تو مسجد میں کیا کرنے گیا تھا؟ مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے کہہ دیا کہ میں اب میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گیا تھا۔ وہ مجھے بہت برا بھلا کہنے لگے۔ پکڑ کر کمرے میں لے گئے اور وہاں میرے بھائی اور خاندان کے لوگ جمع تھے۔ وہ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے آئے تھے۔ مجھے الگ الگ سمجھاتے رہے، مگر میں کہتا رہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، اب مجھے دوبارہ کوئی ہندو نہیں کر سکتا۔ میرے بڑے بھائی نے میری پٹائی شروع کر دی۔ چانٹے، گھونسے بے تحاشا مارے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ یہ بات دماغ سے نکال دو کہ اب آپ مجھے ہندو بنا سکتے ہو۔ اگر تمھیں کامیابی چاہیے اور مرنے کے بعد کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو مسلمان ہوجاؤ اور کلمہ پڑھو۔ وہ مجھے مارتے اور میں ان کو کلمہ پڑھنے کو کہتا۔ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی غصہ آ گیا۔ انھوں نے مجھے پھنٹیوں اور ڈنڈوں سے مارنا شروع کیا۔ میرے سر سے او رجسم سے خون بہنے لگا۔ میں نے جوش میں آ کر کہا: میری آخری بات سن لو، اس کے بعد جو چاہے کرنا۔ میں نے اپنے پاؤں کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ تم مجھے یہاں سے کاٹنا شروع کرو اور اوپر تک میرے ٹکڑے کرتے جاؤ، تب بھی جب تک میرے گلے اور زبان میں جان رہے گی، لا الٰہ الا اللہ کہتا رہوں گا۔ اب تمھاری مرضی ہے، جو چاہے کرو۔ ان لوگوں نے اس درجہ میرا ارادہ مضبوط دیکھ کر مجھے چھوڑ دیا۔ میں رات کو موقع پا کر وہاں سے بھاگ آیا۔ دو روز تک مجھے تلاش کرتے رہے۔ تیسرے روز ابا جی ابو فیاض پر دباؤ دینے لگے کہ تم نے ہمارے لڑکے پر جادو کرا دیا۔ وہ لڑکا تمھارے پاس ہے۔ اگر لڑکا کل تک ہمارے پاس نہیں آیا تو پولیس میں تمھارے خلاف رپورٹ کر دیں گے۔ ابا جی نے ان کو بہت سمجھایا کہ بھلائی کا بدلہ تمھارے یہاں یہی ہے۔ تمھارے بچوں کو بغیر کرائے اتنے روز رکھا، اس کا بدلہ یہ ہے؟ مگر وہ نہ مانے۔ ابا جی کو فکر ہوئی۔ میں دہلی ہی میں تھا۔ مجھے پتا لگ گیا کہ گھر والے ابا جی کو پریشان کر رہے ہیں۔ میں خود کارخانے آ گیا اور ان سے کہا کہ آپ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے پتا جی کو سونپ آئیے اور ان سے کہہ دیجیے کہ آپ کا بچہ یہ ہے۔ اب آئندہ میں ذمہ دار نہیں۔ ابا جی نے کہا کہ وہ تمھیں جان سے مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے پتا جی (والد صاحب) کے پاس لے گئے او ران سے کہا کہ یہ لڑکا، اللہ کا شکر ہے، خود آ گیا۔ مجھے تو اس کی کچھ خبر نہ تھی، مگر ا ب اس کو پکڑو او راب آئندہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
اس کے بعد میرے والد اور گھر والے مجھے میرے گاؤں اعظم گڑھ لے گئے۔ بہت سے سیانوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کو دکھایا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ مجھ پر جادو کرایا گیا ہے۔ بہت اتار کروایا۔ میں گھر میں چھپ کر نماز پڑھتا رہا۔ کچھ روز تو مجھے بند رکھا، مگر میرے گاؤں کے ایک مسلمان بھائی نے مجھے سمجھایا کہ یہاں سے نکلنے کے لیے تمھیں اپنا رویہ ڈھیلا رکھنا چاہیے۔ میں نے اپنے رویے میں ذرا نرمی برتی، گھر والوں نے سوچا کہ جادو اتروانے سے اب اثر کم ہو رہا ہے۔ میری ماں اپنے مائیکے جا رہی تھیں، وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئیں کہ ماحول بدل جائے گا۔ وہاں ہمارے ننھیال کے پڑوس میں ایک بڑے سمجھ دار مسلمان رہتے تھے۔ میری والدہ مجھے ان کے پاس لے گئیں کہ اس کو سمجھاؤ، ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ انھوں نے میری ماں کو بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ تم اس کو اپنی اجازت سے جانے دو۔ یہ لڑکا ہر گز آپ کے یہاں رہنے والا نہیں اور اس نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مالک کی خاص مہربانی اس پر ہے۔ اس پر وہ تیار ہو گئیں اور میں ننھیال سے ہی ابا جی کے پاس آیا۔ انھوں نے مجھے مظفر نگر اپنے گاؤں بھیج دیا، پھر ایک مدرسے میں داخلہ کرا دیا۔ میں نے قرآن شریف ناظرہ پڑھا، اردو پڑھی، کچھ پارے حفظ کیے، پھر مولوی کلیم صاحب کے مشورے سے ندوۃ العلماء لکھنؤ کی ایک شاخ میں خصوصی اول کلاس میں داخل لے لیا۔ الحمد للہ میری پڑھائی بہت اچھی چل رہی ہے۔
میرے ابا جی میرے پہلے پتا جی (والد صاحب) سے ہزار گنا زیادہ مجھے چاہتے ہیں۔ لوگ مجھے ان کا اصلی بیٹا سمجھتے ہیں۔ میری امی بھی میرے دوسرے بھائی بہنوں سے زیادہ میری بات مانتی ہیں۔ ایک روز مجھے دیکھ کر ایک رشتے دار نے میرے بھائیوں سے کہا اب تو زمین میں اس کا بھی حصہ ہو گا تو میرے سارے بھائی فوراً کہنے لگے : ہاں! زمین میں سب سے پہلے یہ حصے دار ہے۔ اللہ نے یہ بھائی تو ہمیں بڑے احسان کے طور پر دیا، ورنہ کہاں ہم گنوار ور کہاں مدینہ جیسی یہ بھائی چارگی۔ اس بھائی پر ہم اپنی جان بھی دے دیں تو ہم خوش قسمتی سمجھیں گے۔
ایک بار دہلی میں بس سے جا رہا تھا۔ نظام الدین کے قریب سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ میرا بھائی سائیکل پر جا رہا ہے۔ میں نے اس کو آواز لگائی۔ اس نے مجھے دیکھا، سائیکل دوڑائی، مگر وہ بس کے ساتھ کہاں تک دوڑتا۔ میں آگے سٹاپ پر اتر گیا۔ وہ ہانپتا ہوا آیا، مجھ سے لپٹ گیا اور ہاتھ جوڑنے لگا۔ اس نے کہا: پتا جی (والد صاحب) مرنے والے ہیں۔ تجھے بہت یاد کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: اچھا، میں کل آؤں گا۔ میں نے ابا جی سے اجازت چاہی۔ انھوں نے جانے کی اجازت دے دی۔ میں گیا تو وہ بالکل ٹھیک تھے۔ مجھے بہت دیر تک سمجھاتے رہے۔ کہا: تو میرا سب سے اچھا بیٹا ہے، تو ہی دھوکا دے جائے گا تو میں کیا کروں گا۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے ایک پنڈت جی سے مشورہ کیا تھا، انھوں نے تجھے مار ڈالنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم نے ا س کو نہ مارا تو سارے خاندان کا دھرم (مذہب) بھرشٹ (تباہ) کر دے گا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں نے کتنے لاڈ سے اس کو پالا، کس دل سے اس ماروں؟
میں نے ان سے کہا: پتا جی (ابو جی) جب آپ لوگ مجھے پکڑ کر لائے تھے، اس وقت بھی میں نے آپ سے کہا تھا، وہی اب بھی کہتا ہوں: اگر آپ میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں گے تو جب تک زبان میں دم ہے، لا الٰہ الا اللہ کہتا رہوں گا۔ میں تو اس لیے آیا ہوں کہ آپ میرے پتا جی ہیں۔ آپ نے مجھے پالا ہے۔ ماں نے دودھ پلایا ہے۔ اگر آپ ہندو مر گئے تو ہمیشہ نرک (جہنم) کی آگ میں جلیں گے۔ آپ سبھی لوگ مسلمان ہو جائیں اور میرے ساتھ چلیں۔ وہ کچھ نہیں بولے اور بڑے مایوس ہوئے۔
میرے ایک چچا سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ وہ بھی اسلام کے بہت قریب ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آئے ہوئے ہیں تو میں نے موقع مناسب جان کر دہلی کا سفر کیا۔ والد صاحب نے بتایا کہ تیرے چچا کہہ رہے تھے کہ سچا دھرم (مذہب ) او رعقل میں آنے والا مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم لوگ ہندو اس لیے ہیں کہ ہندو سماج میں پیدا ہوئے، مگر ہندو دھرم (مذہب) کی کوئی بات عقل میں آنے والی کہاں ہے؟ وہ کہہ رہے تھے کہ یا تو تم سب گھر والے مسلمان ہو جاؤ یا پھر اپنے لڑکے کو چھوڑ دو۔ اس کو پھر ہندو بنانے کی کوشش کرنا انیائے (ناانصافی) ہے۔
میں نے پتا جی (والد صاحب) سے کہا: آپ نے کیا سوچا؟ انھوں نے جواب دیا کہ سچی بات تو یہی ہے کہ اسلام ہی صحیح ہے، مگر اپنے سماج کو چھوڑ کر ہم مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟ لوگ کیا کہیں گے! میں بہت دیر تک ان کو سمجھاتا رہا، مگر ان کو برادری اور سماج کے ڈر کے سامنے مرنے کے بعد کی آگ کا کچھ ڈر نہ لگا۔ میرا دل بہت دکھا اور گھر آ کر بہت رویا۔ مجھے مولوی کلیم صاحب کی وہ تقریر ، جو انھوں نے ایک بار مدرسے میں کی تھی، یاد آ گئی۔ آپ اسلام کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو لوگ غلط فہمی یا اسلام کو غلط دھرم (مذہب) سمجھنے کی وجہ سے اسلام کے دشمن تھے، ان پر جب دعوت کا حق ادا کیا گیا تو وہ سب مسلمان ہو گئے، چاہے وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوں، چاہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ ہوں، مگر وہ لوگ جو اسلام کو مذہب سمجھ کر حسد کی وجہ سے یا برادری اور سماج کے خوف کی وجہ سے اسلام سے دور رہے، وہ ہدایت سے محروم رہے، خواہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت کرنے والے چچا ابو طالب ہی کیوں نہ ہوں! مجھے یہ خیال آیا کہ میرے پتا جی (والد صاحب) اسلام کو حق بھی کہہ رہے تھے اور برادری کے خوف سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہوئے۔ اللہ نہ کرے، کہیں اسلام سے محروم ہی نہ رہ جائیں۔ وہ اگر اسی طرح کفر پر مر گئے تو ہمیشہ کی آگ میں جلیں گے۔ میرے ماں باپ مجھے بہت پیارکرتے ہیں۔ میرے اللہ! ان کو ہدایت سے نواز دے۔ اللہ تعالیٰ مجھے علم عطا فرمائے، قرآنی مسلمان بنا دے۔ میرے گھر والوں کو ہدایت عطا فرمائے، آمین
٭٭٭