کسی نے خوب کہا ہے کہ استاد سبق دیتا ہے اور امتحان لیتا ہے جب کہ زندگی امتحان لیتی ہے اور سبق دیتی ہے۔
امتحان لینے والے استاد کو کبھی کبھی زندگی ایسے مقام پر لا کھڑا کرتی ہے کہ زندگی کا ستایا ہوا استاد نہ تو سبق دے سکتا ہے نہ امتحان
لے سکتا ہے کیونکہ زندگی خود اس سے امتحان لے رہی ہوتی ہے۔
اسکول کے ایک فنکشن کے دوران انجم کو ایک کال آئی جو کچھ دنوں سے مسلسل آرہی تھی لیکن انجم نے دھیان نہ دیا ۔آج اس قدر گھنٹی بجنے پر انجم نے فون رسیو کر لیا دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز سنائی دی ۔السلام علیکم ، مس ۔انجم بہت حیران تھی کہ یہ کون ہے
انجم : وعلیکم السلام ۔جی آپ کون ؟آپ مس انجم ہیں نا ؟ میں آپ کا ایک اسٹوڈنٹ بات کر رہا ہوں ۔جس کو آپ دودماغ والا کہتی تھیں۔یاد آیا مس ، ہاں یہ یاد ہے کہ کسی بچے کو ایسا کہتے تھے ۔لیکن نام یاد نہیں آ رہا ۔اچھا آپ ایسا کریں شام میں فون کیجیے گا ابھی ڈیوٹی ٹائم ہے ۔ٹھیک ہے مس میں شام کو بات کروں گا ۔جب تک آپ مجھے پہچانیے۔ انجم : (ہنستے ہوئے ) اچھا ٹھیک ہے اوکے پھر اللہ حافظ ۔دوپہر تک انجم کو اس دو دماغ والے اسٹوڈنٹ کا نام یاد آ چکا تھا ۔شام کو فون آنے تک انجم کو اس اسٹوڈنٹ کے ساتھ ساتھ ماضی کی بے شمار باتیں یاد آنے لگیں ۔ بیل بجنے پر انجم نے فون اٹھایا ۔انجم : السلام علیکم ،نعیم وعلیکم السلام۔ مس میرا نام یاد آیا آپ کو ؟انجم : جی ہاں نعیم۔ نعیم ہیں نا آپ؟نعیم : جی بالکل مس میں نعیم ہوں ۔ آپ کیسی ہیں مس ؟انجم الحمدللہ ،میں ٹھیک ہوں ۔ آپ اپنی سنائیں نعیم : اللہ کا شکر ہے مس آپ کی دعائیں ہیں۔
انجم : نعیم ۔آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا ؟نعیم : مس آپ کی دوست کی ہمشیرہ میرے ماموں کے اسکول میں پڑھاتی ہیں ان سے لیا تھا۔ انجم : اچھا ٹھیک ۔ آج کل کیا کر رہے ہو؟نعیم: مس ! میں آج کل لندن میں پڑھ رہا ہوں۔
انجم ،اچھا ماشااللہ، بہت خوشی ہوئی سن کر ۔کتنا عرصہ ہوا گئے ہوئے ؟نعیم : دو سال ہو گئے ہیں یہاں ۔ بہت مشکل سے دو سال پورے کیے ہیں ۔انجم ،جب زندگی میں کسی مقصد کو پانا ہو تو مشکلوں سے نہیں گھبراتے بیٹا۔نعیم، جی اسی لیے تو دو سال بھی گزر گئے ۔ مس ایک بات پوچھوں؟انجم : ضرور۔ بولیں ۔نعیم :میں جب پاکستان میں تھا تو میں نے ایک خبر سنی تھی آپ کے ۔وہ مس آ پ کے بھائی کے متعلق ۔
کیا وہ واقعی میرامطلب ۔انجم:(بات کاٹتے ہوئے ) ہاں وہ بدنصیب بہن میں ہی ہوں نعیم ۔یہ درست ہے کہ بھائی جان کا قتل ہوا تھا آج سے پانچ سال قبل۔نعیم : بہت دکھ ہوا مس ۔میں نے تعزیت کے لیے ہی فون کیا تھا ۔ہیلو۔ ہیلو ۔مس آپ، آپ رو رہی ہیں سوری مس پلیز۔انجم: نعیم یہ کل کی بات لگتی ہے ۔ابھی تک دل اس بات کو ماننے کو تیار نہیں آج بھی میری ماں دروازہ اس آس پر کھلا رکھتی ہے کہ شاید بھائی جان اچانک آجائیں اور یہ حادثہ صرف ایک بھیانک خواب ہو ۔
نعیم ، آئی ایم سوری مس، میرا مقصد آپ کو دکھی کرنا ہرگز نہیں تھا ۔آپ کا زخم پھر سے ہرا کر دیا میں نے ۔انجم ،یہ زخم مندمل ہی کب ہوا تھا ؟زندگی تو اسی دن سوہان روح ہو گئی تھی جب بھائی جان اپنے قدموں پر گئے تھے اور لوگوں کے کاندھوں پر واپس آئے تھے ۔نعیم : (بات کا رخ بدلتے ہوئے)مس آپ کے والدین خیریت سے ہیں ؟انجم : ہاں روح سے خالی زندہ جسم کے ڈھانچے ہیں ۔جوان بیٹے کا جنازہ بوڑھے کاندھوں کا کیا حال کر سکتا ہے؟نعیم : جانتا ہوں مس مرنے والے کے ساتھ کوئی نہیں جاتا لیکن وہ زندوں میں بھی نہیں رہتا ۔یقین کریں مس ۔جب میں نے یہ خبر سنی تھی مجھے شدید صدمہ ہوا تھا۔ آج کل آپ کہاں جاب کر رہی ہیں ؟ انجم : بس بیٹا سب زندگی کے پیچ و خم ہیں ان سے انسان باہر ہی نہیں نکل پاتا ۔نعیم : مس اللہ آپ کو اور آپ کی فیملی کو صبر جمیل دے ۔ میں جب پاکستان آؤں گا تو آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہونگا ۔اب اجازت دیں میں آپ کو کال کرتا رہوں گا۔ انجم : اچھا ٹھیک ہے ۔اللہ آپ کو کامیابیاں اور لمبی عمر دے ۔اللہ حافظ۔
پھر اکثر نعیم فون کرتا رہتا کبھی ہفتہ بعد کبھی دو ہفتے بعد۔ایک دفعہ نعیم نے بتایا کہ جب یہ سانحہ پیش آیا تھا تووہ ایوب میڈیکل ہاسپٹل میں اپنی خالہ کی علالت کے سبب وہاں ہی تھا بلکہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے ایمبولینس میں آئی ہوئی لاشوں کو اسٹریچرپر ڈالنے میں مدد کی تھی لیکن نعیم مس انجم کے بھائی کو نہیں جانتا تھا ۔دوبارہ کال آنے پر نعیم نے اس قتل کی وجہ دریافت کی ۔نعیم :مس آپ کے بھائی وہاں گئے کیوں تھے ؟انجم : (ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے )بس کبھی گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس جاتے ہیں ۔ ایک جرگہ کے ساتھ کسی کا فیصلہ تھا۔ بھائی چنداور بے گناہ لوگوں کے ساتھ اس جرگہ میں شامل ہوئے۔نعیم : مس میں نے سنا تھا کہ فیصلہ بخوشی ورضا سے ہو گیا تھا ؟انجم :ہاں علاقے کے معزز لوگوں کے درمیان جرگے کا فیصلہ سب کی رضا سے احسن طریقے سے ہوا لیکن جن چند لوگوں کو اعتراض تھا وہ جرگے میں شامل ہی نہ ہوئے اور انہوں نے راستے میں کلاشنکوف سے گاڑی پر دیوانہ وار حملہ کر دیا بندے تو دور کی بات گاڑی چھلنی ہو چکی تھی (کچھ وقفے کے بعد انجم دوبارہ گویا ہوئی)کچھ مجرم گرفتار ہوئے جنہیں سزا ہوئی اور ایک بڑا مجرم سعودیہ فرار ہو گیا ۔چاروں طرف صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔نعیم : جی میں نے سنا تھا کہ ایک سعودیہ فرار ہو گیا تھا۔انجم : کاش! مجھے وہ قاتل مل جاتا اور میں اسے بتا سکتی کہ کس طرح ہم جیتے جی مر چکے ہیں ۔نعیم : صبر کریں مس ۔اللہ بہت بڑا ہے ۔انجم : اس بے رحم کو خیال تک نہ گزرا ہو گا کہ اس نے کس بری طرح ایک ماں کی آنکھوں کو بے نور کر دیا کس طرح ایک باپ کی آس چھین لی ۔اس ظالم نے ایک چار سالہ بچے کو یتیم کردیا ۔ بہنوں سے خوشیاں اور بھائیوں سے امید ہتھیا لی۔کیسے صبر کروں نعیم جب میں روز اپنی ماں کو یہ دعا کرتے دیکھوں ـ"کاش وہ زندہ ہو ،مجھ سے بے شک نہ ملے بس زندہ ہو ، اسے کچھ نہ ہوا ہو ، یہ ایک خواب ہو یا اللہ !!!! یہ صرف ایک خواب ہو۔" اور اپنے باپ کے بوڑھے ہاتھوں کو رو رو کر جوان بیٹے کے لیے دعا کرتے دیکھوں ۔تو کیسے صبر کر لوں کیسے صبر کر وں جب سکول کی parents meeting میں میرا بھتیجا اپنے باپ کو لے جانے کی ضد کرے ۔نعیم : تقدیر کا فیصلہ ہے مس ہم سب مجبور ہیں ۔انجم : اگر تقدیر بندوق کی نوک سے ہی لکھی جاتی ہے تو میں نے بھی اپنے بھائی کے خون میں ہاتھ رنگنے والوں کے لیے تقدیر سوچ رکھی ہے۔نعیم : یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے مس پانچ سال گزر چکے ہیں بھول جائیں اس بات کو ۔انجم: (بات کاٹتے ہوئے ) ناممکن ہے یہ ۔سال گزرے ہیں زندگی باقی ہے اسے سبق سکھانا ہے نعیم ۔
وہ کسی کا ہنستا بستا گھر اجاڑ کر آزاد گھوم رہا ہے اور پتا نہیں کتنے گھر اجاڑے گا۔ نعیم : مس عبداللہ بن اقلیم کا نام سنا ہے؟انجم : میں نے صرف نام سن رکھا ہے اس مردود قاتل کا اور اسے سبق سکھانا ہی زندگی کا مقصد ہے بس ! نعیم : مس میں اسے جانتا ہوں۔ انجم :( حیرت سے چیختے ہوئے ) کیا تم جانتے ہو ؟؟ کہاں ہوتا ہے وہ کہاں رہتا ہے؟جلدی بتاؤ۔
نعیم، نہیں مس اسے سیاست دانوں کی اسپورٹ حاصل ہے اور آ پ برائے مہربانی یہ خیال اپنے دل سے نکال دیں ۔انجم : نعیم مجھے اس کا پتہ چاہیے پلیز نعیم میرے اسٹوڈنٹ ہونے کا ثبوت دو ، پلیز ۔ نعیم : آج کل کہاں ہے مجھے معلوم نہیں ۔انجم : بہانے مت بناؤ نعیم مجھے اس کے بارے میں معلومات درکار ہیں نعیم : مس میں آپ کو معلوم کر کے بتا سکتا ہوں لیکن اس کے لیے آپ کو میری ٹیچر ہونے کا ثبوت دینا پڑے گا ؟مس آپ نے ہمیشہ معاف کر ناسکھایا ہے یقین کریں مس آپ کا سکھایا ہوا سنق آج بھی یاد ہے ۔آپ کی تربیت کو زندگی سے فراموش نہیں ہونے دیا ۔
مس ایک مرتبہ روڈ ایکسیڈینٹ میں میرے کزن کی موقع پر ہلاکت ہو گئی۔ ڈرائیور کو ہم نے پکڑ لیا لیکن سب کا آخری فیصلہ اسے معاف کر نے کا ہوا ۔انجم : اتفاقیہ حادثات اور دانستہ کلاشنکوف چلانے میں فرق ہے۔ نعیم : مس میری گزارش ہے آپ اسے معاف کر دیں اس سے آپ سخت مشکل میں پڑ سکتی ہیں
انجم : روز مرنے جینے کے کھیل سے ایک دفعہ مرنا آسان ہوتا ہے نعیم۔ نعیم: آپ کی مرضی مس ،میں آپ کو ایک ہفتہ میں تمام معلومات کسی سے لے کر دونگا میں پاکستان میں ہوتا تو اور بات تھی ۔ انجم : پلیز نعیم یہ تمہارا مجھ پر احسان ہو گا ۔نعیم : کیسی باتیں کر رہی ہیں مس آپ ۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن پھر بھی میں آپ سے ملتمس ہوں میری گزارش پرغور ضرور کیجیے گا ۔ آپ کا کوئی منفی فیصلہ آگے زندگی میں میری سوچ بدل سکتا ہے ۔ طالب علم استاد کی باتوں کو لا شعوری طور پر زندگی میں اپناتے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے ایک استاد کو ماڈل ہونا چاہیے۔ یہ الفاظ آپ کے ہی ہیں ناں مس۔انجم : (گہری خاموشی کے بعد) میری زندگی کو مزید مشکل نہ بناؤ۔ پلیز مجھے معلومات دو اگر تم دے سکتے ہو تو۔
یہ ایک ہفتہ انجم کی زندگی کا مشکل ترین ہفتہ تھا جب اس نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے قاتل سے انتقام لے یا اسے معاف کر دے اور استاد ہونے کا ماڈل رول پلے کرے ۔ پانچ سالوں میں اس نے انتقام کا جو پودا اپنے خون کو جلا کرپروان چڑھایا تھا اسکی جڑیں وہ جسم سے نوچ پھینکے یا نہ۔
باتوں کو عملی زندگی میں سمونا کس قدر کٹھن ہے یہ آج احساس ہوا۔انجم کی آنکھیں اشکبارتھیں ۔ایک شخص کو سبق دینا ایک نسل کو سبق دینے کے مترادف ہے ۔ استاد طالب علموں کا امتحان لیتا ہے اور زندگی استادوں کا۔
اگلے ہفتے نعیم نے تمام انفارمیشن اکھٹی کر کے کال کی ۔نعیم : مس ہر انفارمیشن اکھٹی کر لی ہے ۔ کیا آپ کو میری درخواست یاد ہے۔
انجم : کیا کیا انفارمیشن اکھٹی کی ہیں آپ نے ؟ْ
نعیم : جو جو آپ نے کہا تھا وہ سب۔ انجم : (پر اطمینان لہجے میں) مگر، نعیم، اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔