ہماری کمپنی کی خدمات:
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں ہم پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کے ذریعے حج پر گئے تھے۔اِس پرائیویٹ حج کمپنی کا نام ‘‘مدنی توگیروی ٹریولز (پرائیویٹ)لمٹیڈ’’ تھا جس کا صدر دفتر لاہور میں ہے۔مکہ شریف پہنچ کر ،معلوم ہوا کہ ہم وہاں تین چار دیگرکمپنیوں کے ساتھ اشتراک میں ہیں اور اُن میں سے بڑی کمپنی ‘‘طواف گروپ’’ ہے۔آگے پھرہمارا یہ مکمل گروپ ، کسی سعودی کمپنی کے تابع تھا جس کی ایک معلم صاحب سربراہی کرتے تھے اور اُسے مکتب کہا جاتاتھا اورہر مکتب کو ایک نمبر الاٹ کر دیا گیا تھا ،ہمارا مکتب نمبر۷۲ تھا۔اِس مکتب میں پاکستان کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ بھی شامل تھے۔گویا سعودیہ میں جو خدمات و ضروریات پوری کی جارہی تھیں وہ ساری ، معلم صاحب اور اُس کے مکتب کی طرف سے تھیں اور اِن خدمات کا معاوضہ ہم پیکج فیس کی شکل میں اپنے حج ٹور آپریٹر کو ادا کر چکے تھے۔ یہ ایک پیچیدہ اور کثیر سطحی نظام ہے جو ایک عمدہ ترتیب سے اپنا کام کر رہا تھا۔اِس نظام میں جہاں ہمارے سفری انتظامات اورقیام و طعام کا بندوبست تھا وہاں اس مبارک سفر کی بخوبی انجام دہی کے لیے تربیتی نظام بھی وضع کیا گیا تھا ۔ پاکستان میں بھی ،لاہور میں ایک دو نشستیں رکھی گئیں تھیں جن سے ،بوجوہ ،یہ خاکسار تو مستفید نہ ہو سکاتھا اور کچھ کا اہتمام قیام حجاز کے زمانے میں بھی ،مختلف اوقات میں ،کیا گیا تھا۔ایک دوبار تو بندہ اِن میں حاضر ہوا اور ایک آدھ بارنہ شریک ہو سکا۔مکہ شریف میں ہوٹل کی طعام گاہ میں یہ تربیتی نشستیں منعقد ہوتی تھیں۔اگرچہ مجھے یہ فارمیلٹی لگتی تھی لیکن کسی نہ کسی پہلو سے یہ فائدہ مند ضرور ہوتی تھیں،فارمیلٹی اِن معنوں میں کہ شاید ،اِن تربیتی نشستوں کا انعقاد حکومتی ضابطہ اخلاق میں شامل تھا،اِس لیے ہماری ٹریول ایجنسی کی انتظامیہ کو طوعاً وکرہاًپابندی کرنی پڑتی تھی۔بہرحال ،ایک دو نشستیں جو ہمارے ہوٹل الرشد مکہ میں منعقد ہوئیں، اُس میں،دیگر کے علاوہ، ہمارے ایک ٹرینرمحترم کرنل ظفرصاحب نے خاصی محنت سے،لیکچر تیار کیے ہوئے ہوتے تھے اور بڑے مشفقانہ انداز سے ہمیں مقامات ِحج اور مناسک حج سے آ گاہ کرتے تھے ۔ اِن نشستوں میں ہمارے اُس شیڈول کا بھی اعلان و تعارف کرایا جاتاتھا ،جس کے مطابق کمپنی ہمیں چلا رہی تھی۔یہ شیڈول ، ہوٹل کے نوٹس بورڈ پر بھی چسپاں کر دیئے جاتے تھے۔
مکہ شریف میں ایک نشست تو ۱۷۔جولائی کو منعقد ہوئی اور دوسری ۲۶ ۔جولائی کو ، اِس دوسری نشست میں کمپنی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہمارا یہ گروپ ۲۸ ۔ جولائی کو،صبح ۸۔بجے، مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہوگااور وہاں سے ۶۔اگست ۲۰۱۹ء کو مکہ واپسی ہوگی۔یہ بھی بتایا گیا کہ مکہ واپسی پر ہمارا قیام اِس ہوٹل کی بجائے،کدائی کے علاقے میں واقع ایک اور بلڈنگ میں ہوگا۔یہ بھی ہدایت کی گئی کہ مدینہ طیبہ کے قیام کے دِنوں کے لحاظ سے ،اپنا سامان لے لینا اور باقی سامان یہیں کمپنی کے سپرد کر دینا ہوگا اور یہ لوگ خود ،اُس نئی بلڈنگ میں ،یہ سامان پہنچا دیں گے۔چونکہ ،مکہ واپسی پر،ایام حج قریب آ چکے ہوں گے تو لہٰذا ،اُس بلڈنگ سے ہی ہم منیٰ کی عارضی قیام گاہوں میں منتقل کر دیئے جائیں گے اور مناسک حج ادا کر لینے کے بعد ،پھر کمپنی والے ہمیں واپس اُس بلڈنگ میں لائیں گے اور اُسی بلڈنگ سے ہی ،۲۰۔اگست کو ہماری وطن واپسی ہوگی۔
چونکہ اب ہم نے مدینہ طیبہ جانا تھا ،اِس لیے اِس نشست میں کرنل صاحب نے مدینہ طیبہ کے حوالے سے نہایت عمدہ اور جذبات سے بھر پور لیکچر دیا ،ماشاء اللہ،جس نے ہمارے دِلوں میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس کی زیارت کا ذوق شوق افزوں ترکر دیا۔اِس کے علاوہ قیام منیٰ اور مناسک حج کا بھی ضروری تذکرہ کر دیا اور کچھ دیگرچیزوں کا تذکرہ اگلی نشست پر اُٹھا دیا۔قیام منیٰ کے بارے میں میرے بہت سے ترددات تھے بلکہ میں خاصا نروس تھا۔کئی قسم کے خوف میں گھرا تھا۔ہمارے سب سے قیمتی ایّام وہاں گزرنے تھے اور مجھے اُس کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہ تھیں۔الحمدللہ ،کہ کرنل صاحب نے اِس لیکچر میں ،اِن ترددات کا ،بڑی عمدگی سے ازالہ کر دیااورکئی پہلوؤں سے اطمینان ہوگیا کہ یہ مرحلہ بھی بخیرو خوبی گزرے گا ،ان شاء اللہ ۔
ہمارا یہ سفر نہایت قیمتی سفر تھا۔زندگی کا اہم ترین سفر تھا۔اِس سفر کو قیمتی بنانے اور مفید تر بنانے میں ،نہ جانے کون کون سے لوگ پس پردہ محنت کر رہے تھے۔یہ ٹھیک ہے کہ اُن سب کا روزگار اِس سے وابستہ ہوگا ،لیکن پھر بھی ، میں اِن تمام پس پردہ یا پیش پردہ کام کرنے والے لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔اِن لوگوں کی محنت رنگ لا رہی تھی اور ہم لمحہ بہ لمحہ حج کی طرف آگے بڑھ رہے تھے اور حرم میں اطمینان سے اپنی عبادات ومناجات کر رہے تھے۔
اِن نشستوں کے کامیاب انعقاد کرنے اور ہمارے اِس پاکیزہ سفر کو مفید تر بنانے میں، ایک بڑی دِل آویز شخصیت کو میں ،بڑے انہماک اور شوق سے کام کرتے ہوئے دیکھا کرتاتھا۔اُن کی بدن بولی سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اللہ کریم کے مہمانوں کی بھر پور خدمت کرنا ،اِن کی سب سے بڑی چاہت ہے اور شاید اِن کا فرض منصبی بھی ہے۔اِ ن تربیتی پروگراموں کے علاوہ بھی ، میں انھیں ،روزانہ میس میں بھی،بڑی مستعدی سے اور نرمی سے، لوگوں کو ہدایات دیتے دیکھا کرتا تھا۔ نہایت محنتی،اپنے کام کی لگن رکھنے والے اور اپنے کام کو بخوبی سمجھنے والے۔ اکثراُن کے ہاتھوں میں قلم کاغذ ہوتا تھا،موبائل فون پر کبھی ہدایات دے رہے ہوتے اور کبھی ہدایا ت لے رہے ہوتے تھے۔کبھی اُردو میں بات کر رہے ہوتے اور کبھی رواں عربی میں۔ میس میں موجودگی کے دوران میں،کھانا کھاتے وقت، خاکسار اُن کو قریب سے آبزرو کرتارہتا تھا، میرا جی چاہتا کہ اِن کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کروں ، لیکن کچھ اُن کی مصروفیت،کچھ ہماری مصروفیت اور آڑے آتی رہی۔یہ ہیں محترم بھائی حاجی صفی اللہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ۔
خیر البشر ﷺ کے دیس میں
لرزیدہ لرزیدہ
ادب ہی ادب
قال اللہ تبارک وتعالیٰ:
یا ایھاالذین آمنولا تقدموابین یدی اللہ و رسولہ واتقوااللہ،ان اللہ سمیع علیم۔یا ایھا الذین آمنوالا ترفعو اصواتکم فوق صوت الننبی
ولاتجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون۔ان الذین یغضضن اصواتھم عند رسول اللہ،
اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقویٰ،لھم مغفرہ و اجر عظیم۔
رب کریم کا ارشاد گرامی ہے :‘‘اے ایمان والو!اللہ اور اُس کے رسول سے آگے قدم نہ بڑھاؤ،اللہ سے ڈرو،جو بلاشبہ،سننے والا اور جاننے والا ہے۔اے ایمان والو!نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو،اور اُنھیں ،اس طرح اُونچی آوایں دے کر نہ بلاؤجس طرح تم ایک دوسرے کو آوازیں دیتے ہو،جو لوگ رسول کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں،یقیناً،اُن کے دِل،اللہ کے خوف کے حوالے سے آزمائے جا چکے ہیں،اور اُنھی کے لیے بخشش بھی ہے اور اجر عظیم بھی۔ ’’ (الحجرات :۴۹:۱تا۳ ) ۲۸۔جولائی بروز اتوار
آؤ مدینہ چلتے ہیں
ہمارے پروگرام کے مطابق،۲۸۔جولائی ۲۰۱۹ء کو،بروز اتوار ،صبح ۸۔بجے ہمیں مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ کمپنی والے دو تین دنوں سے ہمیں تیار کر رہے تھے۔اورآج اتوار تھا حسب پروگرام ،اپنا سامان سمیٹ کر ،ہوٹل کی لابی میں،کمپنی کی طرف سے متعینہ جگہ پر رکھ کر،حرم میں حاضر ہو گیا۔حسب معمول،فجرکی نماز،مسجد الحرام کی چھت پرادا کی، اب میں ریلنگ سے لگا کعبے کانظری طواف کر رہا تھا۔لب پر دعائیں ہیں، آنکھوں میں نمی ہے اور خیالات کی پرواز نہ جانے کہاں سے کہاں گاہے یہاں پراپنا گزرا ہوا وقت یاد آتا اور گاہے کعبہ شریف کی تاریخ ۔کبھی اپنے آپ کو مکہ کی گلیوں میں پاتا اور کبھی تاریخ و سیرکی کتابوں کے اوراق پلٹتاجارہا تھا۔‘‘ڈاکٹر صاحب ! ہوٹل چلیں، وقت تنگ ہے، تیاری کرنی ہے ،آج مدینے جانا ہے ۔ ’ میرے ساتھی شکیل صاحب نے مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا ۔یہ میرے بعد حرم آئے تھے اور چھت پر مجھے تلاش کر رہے تھے ۔ میں نے اُن کی آنکھوں میں،مدینہ پاک کی محبت کی جھلک دیکھی،چمک اور تڑپ دیکھی،اپنا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا۔اورپھر میں اُ ٹھ کھڑاہوا، اللہ کے گھر سے اجازت چاہی اور اللہ کے محبوب کے در پر حاضری کی اُمید لیے،ہم مسجد الحرام سے نکل آئے۔ ہوٹل پہنچے تو ابھی بسوں کی آمد نہیں ہوئی تھی میس میں جا کر ناشتہ کیا اور میں توہوٹل لابی میں آگیا اور شکیل بھائی ،اپنا سامان اور دوسرے ساتھیوں کو لانے کمرے میں چلے گئے۔ لابی میں خوب رونق تھی بلکہ قدرے افراتفری تھی۔لفٹوں میں بھی خوب رش تھا ہمارے گروپ کے ہی کافی لوگ تھے،کچھ بنگالی بھی آج مدینہ طیبہ جا رہے تھے۔اُ ن کی بسیں تو آچکی تھیں اورہمارے لوگ منتظر تھے۔ہماری کمپنی کے لوگوں نے نہایت ہی منظم پروگرام ترتیب دے رکھا تھا۔ہم سب کو پہلے سے ہی مناسب ہدایات دے رکھی تھیں،بسوں کے نمبر الاٹ کر دیئے گئے تھے۔سامان کی بسوں میں منتقلی اور وہ بھی سواریوں کے حساب سے،کمپنی کے لوگوں نے ہی کرنی تھی۔ہر بس کے لیے انچارج بنائے گئے تھے جو کمپنی کے اپنے ملازم ہی تھے ،البتہ ،ہمارے ساتھی حاجی محمد یونس صاحب کو ہمارے والی بس کا انچارج بنایا گیاتھا۔ آپ ایک تجربہ کار اور اعلیٰ منتظم تھے۔عربی زبان سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور کمپنی کے مالکان سے بھی اچھی جان پہچان رکھتے تھے۔بنگالیوں کے روانہ ہوتے ہی، ہماری بسیں بھی آ گئیں اور ہمارے قافلہ کے لوگوں نے اپنی اپنی نامزد کردہ بسوں میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ہمارے کمرے کے ساتھی بھی لابی میں آ چکے تھے۔ حاجی محمد اکرم صاحب بڑی نستعلیق شخصیت ہیں ،بڑے مترتب اور منظم طریقے سے رہتے ہیں۔وہ سب سے آخر میں آتے ،اِس لیے کہ اُنھوں نے ، کمرے کو سمیٹ سماٹ کر اور ترتیب دے کر نکلنا ہوتا تھا۔ہمارے یونس صاحب ،جتنے عمر رسیدہ تھے ، اُتنے تیز اور ہر کام جلدی سے کرنے کے عادی تھے۔اب بھی ،اکرم صاحب ،حسب عادت،لیٹ تھے تو حاجی محمد یونس صاحب گرجے ، ‘‘یہ کیا ہے بی بیوں کی طرح تیار ہوتے رہتے ہیں،ڈاکٹر یا ر دیکھو!اکرم صاحب کو ،ساری دنیا آگئی ،وہ ابھی کمرے میں میک اپ کر رہا ہوگا،او منڈے آ!فون کرو اُسے۔’’حاجی صاحب نے بیک وقت مجھے اور شکیل کو مخاطب کیا ۔ میں ہنس پڑا ،کیونکہ سامنے ہی حاجی صاحب ، اپنا بیگ اُٹھائے ،زیر لب مسکراتے چلے آرہے تھے۔آتے ہی مجھے کہتے ہیں ،‘‘آپ کا ٹوتھ برش ،اُدھر ،واش روم میں ہی رہ گیا تھا ،یہ لیجئے ،جناب۔’’ میں نے کہا ،اکرم صاحب ! آپ کی یہی عادتیں تو ہمیں آپ سے محبت کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔’’وہ حسب معمول مسکرا دیئے۔ہماری بس کی اکثر سواریاں بیٹھ چکی تھیں، ہم بھی بس میں سوار ہوگئے۔سیٹیں پہلے ہی میں نے قبضہ میں کر لی ہوئی تھیں ۔ شکیل اور میں ایک سیٹ پر،اور حاجی صاحب اور اکرم صاحب دوسری سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے ۔ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ محترم یونس صاحب کو ہمارے والی بس کا انچارج بنایا گیاتھا،بس میں بیٹھ کر انھوں نے کچھ ضروری ہدایات دیں اور بس کو چلا دیا۔الحمد للہ ،ہمارے محترم نے اِس ذمہ داری کو نہایت ہی ذمہ داری سے نبھایا اور پورے سفر میں ہم سب کاپوری طرح دھیان رکھا اورہمارے سفر کو سہل بنایا۔جزاہ اللہ تعالیٰ۔
سوئے مدینہ ہم روانہ ہوئے :
درود و سلام کی صداؤں میں ہمارا یہ متبرک سفر شروع ہوا۔یہ ایک اچھی ،بڑی اور ائیر کنڈیشنڈ بس تھی۔گو صبح کا وقت تھا لیکن باہرموسم سخت گرم تھالیکن بس میں نہایت عمدہ کولنگ تھی۔صبح کے نو بج کر بیس منٹ پر ،ہماری بس ہوٹل کے باہر سے،سوئے مدینہ روانہ ہوئی۔سڑکوں پر بہت رش تھا۔
دو ہفتے قبل ،اتوار کے ہی دِن ،لاہور سے جدہ اورجدہ سے مکہ آئے تھے،دِ ن کا وقت تھا،اور اب ،یہاں سے مدینہ طیبہ کی طرف جا رہے تھے تو بھی دِن کا وقت ہے،اس طرح آتے جاتے ،شہر بے نظیر مکہ شریف کی خوب سیر ہوئی۔ یہ سر بفلک عمارتوں کا نظارہ ہے۔وسیع و عریض سڑکیں اور اُن پر دوڑتی بھاگتی رنگ برنگی گاڑیاں کے لشکارے ہیں ۔ سب سے عجیب چیزیہ ہے کہ مکہ شریف بنیادی طور پر ایک پہاڑی شہر ہے لیکن تمام بڑی بڑی سڑکیں اوربڑے بڑے پلازے اورمارکیٹیں ،بالکل ہموار لگتی ہیں ،گویا پہاڑوں کو زمین بوس کر کے یہ تعمیرات کی گئی ہیں۔ نہ پُر پیچ چڑھائیاں ہیں اورنہ ہی موڑپہ موڑ،جیسا کہ ہمارے ہاں شمالی علاقہ جات کا سفر کرتے ہوئے آپ ملاحظہ کرتے ہیں۔ جہاں پہاڑ ہموار کرنا مشکل ہوا ،وہاں پہاڑ کے اندر سے سرنگ بنا لی گئی ہیں ۔ایسی بے شمار سرنگیں ،آپ کو مکہ شریف میں ملتی ہیں۔مکہ شریف کی شاہراہوں پر چلتے پھرتے کئی باران سرنگوں میں سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔یہ سرنگیں واقعی نہایت شاندار اورجدید فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔سڑکوں کے کنارے کنارے اور پہاڑوں کے اُوپر،درخت اور سبزہ بہت کم ہے،بہت ہی کم۔خشک کالے پہاڑ ہیں،بالکل بے آب و گیاہ البتہ ،کہیں کہیں،بعض شاہراہوں کے بیچ میں گرین بیلٹ اور کچھ درخت لگائے گئے ہیں جو ماحول کو دلکش بنا رہے ہیں۔
اِنھی پتھروں پہ چل کے آ سکو تو آؤ:
ہم سوئے مدینہ روانہ ہیں۔مکہ شریف سے شمال کی سمت مدینہ شریف ہے ۔شہر کے اندر مختلف سڑکوں پر دوڑتے بھاگتے ،شدید رش کے باعث ،سارا شہر گھومتے گھماتے ، قریباًایک گھنٹہ بعد ، ہم مسجد عائشہ پہنچ گئے جہاں سے احرام باندھ کر دوبارہ سے عمرہ کیا جاتا ہے۔حالانکہ عام دنوں میں ،حرم سے پندرہ بیس منٹوں میں ٹیکسیاں یہاں ،مسجد عائشہ میں لے آتی ہیں۔یہ تنعیم کا علاقہ ہے۔ یہاں پر ہی پولیس کامرکزِ تفتیش ہے ۔ یہ چیکنگ پوائنٹ ہے لیکن ہمیں زیادہ نہیں ٹھیرنا پڑا ،اِس جگہ چند لمحے رکنے کے بعد ، تنعیم کے علاقے سے گزرتے ہوئے،ہم مکہ شریف سے باہر نکل آئے ۔البتہ کافی دور تک مضافات مکہ کی کالونیاں اور توسیعی منصوبوں کی تعمیرات زیب ِ نظر رہیں،مکہ انڈسٹریل اسٹیٹ کا بورڈ بھی نظروں سے گزرا۔ پھر وسیع و عریض صحرا،پتھریلی زمین اور دُور دُورتک پہاڑوں کا ساتھ شروع ہو گیا۔کولتار کی سیاہ سڑک کے دونوں طرف ریت چمکتی تھی۔موٹر وے کے دونوں طرف ،چمکتی ریت تھی یاپتھر ہی پتھر بچھے ہیں۔
آپ لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پر جاتے ہیں تو سڑک کے دونوں طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے ،چارسو ہریالی کی چادر بچھی ہوتی ہے،لہلہاتی فصلیں ہوتی ہیں اور گل و بوٹے کی ایک بہار ہوتی ہیں۔سڑک کے دونوں طرف درخت ہی درخت ہوتے ہیں لیکن یہاں، میرے سوہنڑے سجن صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس میں، ہر طرف پتھروں کی فصل اُگی ہے،رنگ برنگے پتھر،ہر سائز کے پتھر، چاروں طرف پتھروں کے کھیت ہی کھیت نظر پڑتے ہیں۔ریت اور سیاہ کنکریاں اور پتھر،جنھیں دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھرا جائیں لیکن یہ میرے محبوب کا دیس ہے ،یہاں آنکھیں پتھراتی نہیں بلکہ ڈبڈباتی ہیں ،جھلملاتی ہیں کیونکہ ایک ایک پتھر میرے سوہنڑے سجن ﷺ کی یاد دلاتا ہے۔
بس تیزی سے بھاگتی جارہی ہے اور پتھروں کے کھیت پیچھے کو دوڑتے جا رہے ہیں۔کوئی اور ملک یا شہر ہوتا تو ریت کے اِس وسیع ساگر کو دیکھ کر دِل گھبرا جاتا ،لیکن اِن پتھروں میں تو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی یادیں بسی تھیں۔یہ راستہ تو پیارے رسول کے شہر کو جا رہا تھا اور زبان حال سے ہمیں کہہ رہا تھا، انھی پتھروں پہ چل کے آ سکو توآؤ،لیکن پتھر وں پر کہاں،ہم تو شاندار سڑک پر شاندار گاڑی میں بیٹھے ،آرام سے سفر کر رہے ہیں۔پتھروں پر تو پیارے رسول چلے ہونگے،ان سنگریزوں نے تو میرے محبوب کے قدموں کو زخمی کیا ہوگا۔
ہائے !وہ کیسے سخت حالات تھے جب ہجرت فرما کر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِن راہوں سے گزرتے تھے۔
محبوب یادیں:
یہ وہ سڑک یا راستہ توہرگز نہیں تھا جہاں سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہجرت کے-08 دنوں میں گزرے تھے بلکہ یہ جدید موٹر وے تھی جو ہجرت کے راستے سے ہٹ کر بنائی گئی ہے۔(یہاں سفر نامے کے مصنف کی بات محل نظر ہے ۔ مکہ سے مدینہ جو جدید موٹر وے جا رہی ہے اس کا نام ہی شارع الہجرۃ ہے اور یہ عین اسی راستے پر بنائی گئی ہے جو حضور کی ہجرت کا راستہ تھا) ہم آنحضو ر ﷺ کے نقوش پا پر تو نہیں تھے،لیکن لینڈ سکیپ تو وہی تھا۔زمین تو وہی تھا۔راہ نہ سہی ،وہ گردِ راہ ضرورزیب ِ نظر تھی جو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس سے اُٹھ رہی تھی۔اچانک کہیں سے گرد وریت کا ایک طوفان اُٹھا ،کچھ دیر ہمارے ساتھ ساتھ چلااور پھر ختم ہوگیا۔میرے آگے بیٹھے زائر نے کہا،‘‘یہ توایک بہت معمولی سی آندھی تھی ،لیکن سنا ہے کہ عرب کے صحراؤں میں ایسے ایسے طوفان بادو باراں اُٹھتے ہیں کہ جو چند منٹوں میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو ایک جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔’’‘‘ہاں ،سنا تو میں نے بھی یہی ہے،اللہ کا شکر ہے کہ یہ طوفان ٹل گیا۔’’
نہایت شاندارکشادہ موٹر وے ہے۔بڑا ہموار اور پر سکون سفر ہے۔باہردھوپ چمک رہی ہے گاڑی کے اندر ایئر کنڈیشنر خوب کام کر رہا ہے۔اس جدید مشین نے نہ صرف بس کے ماحول کو ٹھنڈا کر رکھاہے ،بلکہ لگتا ہے کہ اِس نے ہمارے جذبات کوبھی ٹھنڈا کردیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وطن کی حاضری ہے اوراِن مسافروں کے چہروں پر کوئی چمک نہیں، جذبات میں کوئی ہلچل نہیں ،لب پر درود نہیں اور جسم و جان میں کوئی بجلی نہیں کوند رہی۔مدینے پاک کے مسافر سوئے ہوئے ہیں،ڈرائیور اپنی دھن میں گاڑی چلائے جا رہا ہے یا کبھی کبھار ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر سے گپ شپ لگا لیتا ہے۔مدینہ پاک کا سفر ،اُس کی تو یہ روٹین ہوگی شاید،لیکن میرے ہم سفروں کے جذبات کیوں سرد ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ آدھے سے زیادہ مسافر سوئے ہوئے تھے۔‘‘صلو علی الحبیب ’’کا نعرہ بلند کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن نہیں کر پایا۔
بچپن سے سنتا پڑھتا آیا تھاکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ایک جلیل القدرصحابی تھے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتوں اور سنتوں کے عاشق تھے ۔ وہ جب کبھی مدینے سے مکہ آیا کرتے اور جب واپس جایا کرتے تو ہر اُس جگہ پر رکتے جہاں حضور ﷺ نے پڑاؤ کیا ہوتا۔وہ اس راستے کے اُن پتھروں، درختوں اور چٹانوں تک کو پہچانتے تھے جن کے سائے میں وقتاًفوقتاً میرے آقا ؐنے استراحت فرمائی ہوتی اوروہ اُن پتھروں کے پاس جا جا کر پیارے رسولﷺ کی یادوں کو تازہ کرتے۔روایات میں آتا ہے،کہ وہ اپنے ساتھیوں کوبتایا کرتے تھے کہ اس جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہے،یہاں آپ سوئے رہے اور یہ جگہ وہ ہے جہاں آپؐ نے کھانا تناول فرمایا،حتیٰ کہ جہاں آپ نے رفع حاجت فرمائی وہ جگہیں بھی حضرت عبداللہ ابن عمر کو یاد تھیں ۔افسوس کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔وقت کے ان طویل فاصلوں نے سب کچھ مٹاکر رکھ دیا۔
مکہ شریف سے چلے ہوئے ہمیں قریباًدو گھنٹے گزر چکے ہیں۔راستے میں بس والوں نے تھوڑی سی ہماری خدمت بھی کی۔حاتم طائی کے اہل وطن کا بھلا ہو کہ ہم مسافروں کی لذت کام و دہن کے لیے انھوں نے بڑی ‘‘سخاوت’’ کی اور ہمیں دوچار بسکٹ اور جوس کے ایک ننھے منے پیکٹ سے نوازا اور، یہ لیجیے،ہماری بس ایک ریسٹو رنٹ کے آگے رک گئی ہے۔ڈرائیور نے ہمارے حاجی صاحب کو بتایاکہ بیس منٹ بس رکے گی ،آپ لوگ نماز ظہر ادا کر لیں۔حاجی صاحب نے ہم سب کو آگا ہ کیا اور فرمایا ،‘‘رش بہت ہے ،زائرین کی لا تعداد بسیں رکی ہوئی ہیں،بس سے اُتر کر سامنے مسجد میں نماز ادا کر کے جلد واپس لوٹیں ، میں یہ جھنڈا لے کر اپنی بس کے سامنے موجود ہونگا،تاکہ واپسی پرآپ کوبس پہچاننے میں دشواری نہ ہو۔’’۔
بہر حال ہم نیچے اُتر آئے ہیں۔حسب توقع دوپہر خوب روشن اور خوب گرم ہے۔سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے، اچھی ہوا چل رہی ہے لیکن گرمی کا غلبہ ہے ۔
زائرین کی لا تعداد بسیں رکی ہوئی ہیں ۔ خاصی چہل پہل ہے۔زائرین میں اکثریت دیگر مختلف ممالک سے ہے، پاکستانی بہت کم ہیں ۔ویران سی جگہ ہے ۔ آس پاس کوئی آبادی نہیں،کوئی خاص ریسٹورنٹ بھی نہیں ہے۔ہم مسجد کی طرف چلتے ہیں۔دور سے یہ تو کوئی جنوبی پنجاب کی مظلوم سی مسجد لگتی ہے۔مسجد میں بہت رش تھا۔دو چاربیت الخلا تھے اورنام کا وضو خانہ تھا۔ہر مقام پر لوگ ٹوٹے پڑے تھے۔
سعودی عرب میں نماز کے لیے سہولیات کا یہ بُرا عالم!میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
لوگ وضو کے لیے ایک جگہ (کوئی ٹینکی سی تھی)سے بوتلیں بھر بھرکر ،وضو کر رہے تھے۔بوتلیں بھرنے کے لیے بھی لوگ ایک دوسرے کے اُوپر چڑھے ہوئے تھے۔میں نے جب یہ عالم دیکھا ،بیت الخلا میں جانا تو بھول ہی گیا،ہاتھ میں پکڑی ،اپنے پینے کے لیے ،منرل واٹر کی بوتل سے ہی،نیچے زمین پر بیٹھ کر وضو کیا اور آدھی بوتل پانی بچا کر اپنے ساتھی کی طرف بڑھائی تاکہ وہ بھی اِس سے وضو کر لیں۔مسجد کے اندر بھی گرمی سے برا حال تھا۔قالین وغیرہ تو بچھے ہوئے تھے ،اے سی تھا یا نہیں،معلوم نہ ہو سکا۔
میں نے تو ظہراور عصر اکٹھے پڑھ لیں ،یہ سوچ کر نہ جانے عصر کے وقت کن حالات کا سامنا کرنا پڑے،اگر رکے نہ رکے ، رکے تو پانی ملے نہ ملے ،وغیرہ وغیرہ ،ایسے وہم اور خدشات تھے کہ جن کے باعث ،جمع بین ا لصلوٰتین کو میں نے واجب جان لیا۔ بظاہر لگ یہی رہا تھا کہ شاید ہماری نماز عصر راستے میں کہیں ضائع ہی نہ ہو جائے۔
یہ کون سا علاقہ تھا کوئی خبر نہ ہوسکی۔کچھ لوگ ریستوران کی طرف بھی بڑھے کہ کچھ کھا پی لیا جائے لیکن وہاں بھی کچھ یہی عالم تھا۔نہ کوئی بیٹھنے کی جگہ اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی خاص بندوبست ۔دُور سے ہی زائرین کا رش اور دھکم پیل دیکھ کر، ہم تو ریستوران کی بنائے، بس میں ہی واپس آگئے۔حاجی صاحب کی بات ٹھیک تھی ، اتنے رش میں اپنی بس تلاش کرنا نہایت مشکل ہوتا ،اگر حاجی صاحب قربانی نہ دیتے اور جھنڈا لے کر گاڑی کے آگے کھڑے نہ ہوتے۔ایک ایک کر کے ہمارے سارے ہمسفر ،بدقت تمام،آہی گئے اور بس روانہ ہوگئی۔
نہ جانے کیا وجہ تھی کہ سفر نہایت سست رفتاری سے کٹ رہا تھا۔ گاڑی چلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔اگرچہ شاہراہ پر لگے سائن بورڈ سے معلوم ہو رہا تھا کہ حد رفتار ۱۲۰ کلو میٹر فی گھنٹہ ہے،مان لیا ،کہ یہ بڑی گاڑی تھی،اِن کی رفتار شاید کم رکھی گئی ہو ،لیکن اتنی کم بھی نہیں ہوگی جتنی پر ہمارا بس ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا۔ مختلف سائن بورڈ گزر رہے تھے،جن سے مدینہ طیبہ کا باقی رہ جانے والا فاصلہ معلوم ہوجاتا۔کوئی بڑا شہر یا قصبہ جو اِس شاہراہ پر واقع ہو ،نہیں آیا ۔ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔البتہ وقفے وقفے سے مختلف قصبوں یا شہروں کی طرف جانے کے لیے موٹر وے پر مخرج (exits)ضرور آتے رہے ۔تقریباً اڑھائی بجے دِن ،ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہمارے ترجمان ،حاجی یونس صاحب نے آگاہ کیا کہ، ‘‘ہماری گاڑی خراب ہوگئی ہے،ڈرائیور نے کمپنی کو اطلاع دے دی ہے ،جلد ہی مکینک اور متحرک ورکشاپ آ جائے گی یا متبادل بس آئے گی ،آپ لوگ اطمینان رکھیں اور بس کے اندر ہی تشریف رکھیں۔ ’’ ہماری گاڑی تو ٹھیک نہ ہوسکی البتہ متبادل گاڑی آگئی اور ہم اُس پر سوار ہو گئے۔قریباًچالیس منٹ ہمارے ضائع ہو گئے لیکن الحمدللہ سفر دوبارہ شروع ہو گیا اورسوئے مدینہ روانہ ہوئے۔
منظرابھی بھی ،وہی پتھریلا تھا،حدِنگاہ تک صحرا ہی صحرا تھا،ریت کم پتھر زیادہ۔انسانی آبادی کاتو نام و نشان ہی نہیں تھا البتہ بندروں کے غول ضرور نظر آئے۔کوئی بڑا شہر یا گاؤں راستے میں نہیں آیا،البتہ شاہراہ پر لگے سنگ ہائے میل کے ذریعے،مختلف شہروں ،قصبوں اور علاقوں کے نام پڑھنے کو ملتے رہے۔بعض نام تاریخ و سیر کی کتابوں میں پڑھے ہونے کے باعث مانوس سے لگتے تھے ،بیشتر ہمارے لیے اجنبی تھے۔مکہ مکرمہ سے نکلنے کے بعدوادی عسفان سے گزرے تھے۔سیرت پاک کے حوالے سے ،یہاں پر ،فتح مکہ کے لیے آتے ہوئے ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا ، پڑاؤ ہوا تھا اور مکے کا لیڈر ابو سفیان یہیں آکر ،سرکارِ مدینہ ؐسے ملاقات کرتا ہے اور تسخیر ہوتا ہے۔آگے ایک جگہ ایک یونیورسٹی کا بورڈ اور دور کچھ عمارا ت نظرپڑیں،بظاہر تو چاروں طرف ویرانہ تھا،نہ جانے یہ چشمہ علم کونسا اور کس قسم کا تھا،ہم تو بس گزرتے چلے جا رہے تھے۔خلیص،الجحفہ،رابغ صغیر،ینبع،الظبیہ اور الجمعہ وغیرہ نام ہیں جو ہم نے سائن بورڈزپر لکھے پڑھے جہاں ان علاقوں کا مخرج آتا تھا۔اسی طرح ،المسماۃ،وادی ستارہ،الابیار،حرۃ الشرع اور الفارع وغیرہ۔ایک جگہ پر بورڈ پر لکھا تھا‘‘ اُم الرجوم’’،کسی علاقے کا نام لگتا تھا،ہم نے اپنے ذہن میں اس کا ترجمہ کیا ‘‘پتھروں کی ماں’’،یہ ترجمہ صحیح یا غلط مجھے نہیں معلوم ،لیکن جس طرح‘‘ پتھروں کی آبادی کی کثرت’’ہم دیکھتے آرہے تھے تو یہی ترجمہ مجھے مناسب لگا۔اب عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھامدینہ طیبہ ابھی ایک سو کلو میٹر دور تھا۔ڈرائیور صاحب نے ایک جگہ روک کرنماز کے لیے دس منٹ کے وقفے کا اعلان کیا۔یہاں بھی ویرانہ ہی ویرانہ تھا ،کوئی آبادی یا کوئی شاپنگ سنٹر یا کوئی پمپ شمپ نہیں تھا ،بس ایک مسجد تھی اور دو چار دکانیں،البتہ یہ والی مسجد کشادہ اورعمدہ حالت میں تھی، لیکن وضو گاہ اور غسل خانے،یہاں بھی معیاری نہیں تھے۔میں توگرمی میں چہل قدمی ہی کرتارہااور شغل آوارہ نظری میں ہی مصروف رہا کیونکہ نماز عصرتو میں پچھلے سٹاپ پرہی پڑھ آیا تھا۔
اِس سٹاپ پر بھی حاجی صاحب نے خاصی محنت سے اپنی سواریاں اکٹھی رکھیں۔نماز پڑھ کر دوبارہ روانہ ہوئے۔اب ہم مدینہ پاک سے قریب ہورہے تھے۔کچھ دیربعد پہاڑ سڑک کے بالکل قریب آگئے۔اونچے اور خشک پہاڑ اور پھر جلد ہی پہاڑوں کا یہ سلسلہ ختم ہوا ، توقدرے اچھی زمین آگئی اوراب کہیں کہیں سبزہ بھی نظر آنا شروع ہوگیا۔کھجوروں کے باغات بھی دِکھائی دینے لگے۔ہمارا اشتیاق بڑھ رہا ہے ۔ جذبات مچل رہے ہیں۔دِل تھام کے بیٹھو شہر مدینہ آیا ہی چاہتا ہے۔مدینہ پاک کا صنعتی شہرindustrial city بھی آگیاہے۔اب شہر طیبہ ۱۰ کلو میٹر کی دوری پر ہے۔(جاری ہے )