اللہ ایسا اَحَدّ ہے کہ اُسکی کسی بھی صفت کے پیمانے پر نہ تو کوئی شخصیّت اُسکی ہمسر ہو سکتی ہے نہ کوئی نظام۔ خواہ وہ شخصیّت نبیوںؑ کی ہو یا فرشتوں کی۔ خواہ وہ نظام روزِ جزا بپا ہونے سے پہلے کا ہو یا بعد کا۔ یعنی جنّت دوزخ کے نظام کو بھی بالآخِر فنا ہونا ہے کیونکہ ابدیّت فقط اللہ کے لیے مخصُوص ہے۔تمام مخلُوقات بشمُول آسمانوں زمینوں ستاروں سیّاروں حتیٰ کہ جنّتوں اور دوزخ کو بھی اپنے لیے طے کردی گئی اینفینیٹی کے بعد فنا ہونا ہو ہے۔ سُورۃ الرحمٰن کی چھبیسویں آیت میں اللہ خُود کو ہر چیز سے مُمتاز کرتے ہُوئے ایک عمُومی قانُون دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ اِس سے اگلی آیت میں اللہ اپنے ہی اوّل اپنے ہی آخِر ہونے پر مہر لگا کر یہ واضع کر رہا ہے کہ ہمیشگی کی صِفّت میں بھی اُس کا کوئی شریک نہیں۔ یعنی پھر جنّت یا دوزخ میں مخلُوقات کے ہمیشہ رہنے کے تصوّر کو انہی آیات کے تناظُر میں دوبارہ سمجھنا ہوگا کیونکہ اگر جنّتی اوّل نہ سہی آخِر بھی سمجھے جائیں تو اللہ کی آخِر والی صفّت پر ضرب لگے گی۔ اُدھر سُورۃ النساء کی ایک سو بائیسویں آیت میں اللہ فرماتے ہیں کہ نیک اعمال والے جنّت کے باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ لیکِن سُورۃ ہُود کی ایک سو چھے سے ایک سو آٹھ آیت تک غور سے پڑھیں تو اللہ بہت خُوبصورت انداز میں اپنے لیے ہمیشگی اور انسانوں کے ہمیشہ میں فرق بتاتے ہیں۔ اِن آیات میں جہنمیوں کے جہنم اور جنتیوں کے جنّتوں میں اُس وقت تک رہنے کی بات کی گئی ہے جب تک تمام آسمان اور تمام زمینیں (یعنی نظام) باقی رہیں گے۔
یعنی انسانوں کے لیے ہمیشہ کا تصوُر اُس نظام کے لیے طے کردہ تقدیر تک کا ہے۔ بالآخِر اُس نظام کو بھی ہر چیز کی طرح فنا ہونا ہے۔ یعنی جنتی اور دوزخ والے تب تک وہاں رہیں گے جب تک وہ نظام باقی رہے گا یہی اُنکی ہمیشہ ہوگی۔ یعنی جنّتوں اور دوزخ کی فنا کا وقت میرے تصور کے لفظ ہمیشہ کے بھی بعد یعنی اِنفینیٹی جِتنا دُور ہے لیکن فنا تو انہیں بھی ہونا ہے کیونکہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک موجُودگی صرف احدّ کا خاصّہ ہے۔
قُرآن کی رُو سے نہ تو یہ دُنیا میرا پہلا پڑاؤ ہے نہ کسی جنّت کا کوئی باغیچہ یا دوزخ کا کوئی گڑھا میری آخری منزِل ہوگا۔ جنّت میں بھی جنّتیوں کو ارتقاء اور شعُور کی منزلیں طے کرتے ہُوئے طبق در طبق اُوپر کی طرف چڑھتے جانا ہے۔ کون جانے ایک طبق سے دوسرے طبق کے درمیان میرے وقت کے تصوُر کے مطابِق کتنے وقت کا فاصلہ ہو یقیناََ یہ فاصلہ بھی اِنفینیٹی ہی کہلائے گا۔ یعنی مجھے تو جنّت کے ایک طبق کے پڑاؤ کا وقت ہی ہمیشہ جتنا لگے گا۔کون جانے وہاں اگلے طبق تک پُہنچنے کے لیے کِس پیمانے پر امتحان ہو گا لیکِن سُورۃ اِنشقاق کی اُنیسویں آیت یہ تو واضح کرتی ہے کہ ہر طبق کی حالت یعنی سٹیٹ اور نوعیت پچھلی سے الگ ہوگی۔ قُرآن ہی کی رُو سے نہ تو جنّتوں میں سے کسی جنّت میں ویسا کُچھ ہے جِس کا میں تصوُر کر سکُوں نہ ہی دوزخ ویسی ہے جیسی اُسکی شبیہہ میرا چشمِ تصوُر بُنتا ہے۔
میری دُنیاوی موت اُس فنا کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو علم کی اپنے لیے طے کردہ انتہا کے بعد میں اللہ کے انعامِ خاص کے طور پر میں قبُول کروں گا۔ موت تو دُنیا اور آخرت کے بیچ ایک پڑاؤ ہے جِس کے دوران نفس کی شکل میں ہی سہی میں موجُود تو ہُوں گا۔ حالتِ نیند میں ہی سہی وہ حالت بھی تو میری موجُودگی ہی ہوگی۔ میری موت بہرحال میری فنا نہیں فنا تو عدم وجُود کا نام ہے مجھے ایک دِن بہرحال فنا ہونا ہے کیونکہ میں احَد نہیں ہُوں۔ باقی تو صرف اللہ ہی کو رہنا ہے۔٭٭٭