سوال :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟
جواب :میری پیدائش ۶؍دسمبر ۱۹۷۰ء میں جلال پور گاؤں جو اب نوئیڈا (گوتم بدھ نگر ) میں ایک گوئل خاندان میں ہوئی ،پتاجی بجلی بورڈ میں ملازم تھے ،میرا نام انہوں نے ونود کمار گوئل رکھا تھا۔ پرائمری تک گاؤں کے اسکول میں پڑھا اس کے بعد دلی پبلک اسکول سے بارہویں کلاس کی ،اور کمپیوٹر سائنس سے سافٹ ویر انجینیرنگ کی ،بعد میں ایک امریکی کمپنی میں نوئیڈا ہی میں ملازمت لگ گئی ،ابھی بھی وہیں پر کام کر رہا ہوں ۔میرا ایک چھوٹا بھائی ہے پر مود کمار اس کا نام ہے ،اور ایک بہن ہے ،میرے پتاجی اب ریٹائرڈ ہو گئے ہیں وہ پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتے ہیں اس کاروبار میں اللہ نے ان کو بہت ترقی دی ہے ۔
سوال :اپنے قبول اسلام کا حال سنایئے؟
جواب :مولانا احمد صاحب اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو ان کے چاہے بغیر گردن پکڑ کر جنت میں لے جاتے ہیں اور وہ خود بار بار دوزخ کی طرف بھاگتے ہیں میں شاید ان میں سے ایک نالائق خوش قسمت ہوں ۔
سوال :آپ نے خوب بات کہی ،نالائق خوش قسمت ہیں ،وہ نالائقی اور خوش قسمتی ذرا بتایئے۔
جواب :چار سال پہلے میں نے اس کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ میرے ساتھیوں میں ایک لڑکا کان پور کا برہمن فیملی سے تعلق رکھتا تھا،اس نے اسلام قبول کر کے محمد یوسف اپنا نام رکھ لیا تھا،اور بہت مذہبی مسلمان ہو گیا تھا،اس نے داڑھی رکھ لی تھی اور پینٹ شرٹ چھوڑ کر کرتا پائجامہ اور شیر وانی پہننے لگا تھا ۔مجھے اس کے مذہب بدلنے پر حیرت تھی ،میں اس سے اس کے فیصلے پر بہت بحث کرتا تھااور اس کو واپس ہندوبننے کے لئے کہتا تھا۔گھنٹوں اس سے بات ہوتی رہتی تھی،وہ بحث میں اکثر مجھ سے کہتا تھا ونود بھائی میں اپنے اللہ سے دعا کر رہا ہوں آپ مجھے ہندو بننے کو کہہ رہے ہیں آپ کو خود مسلمان ہونا پڑے گا۔بحث کرتے جتنی مرتبہ بھی وہ یہ بات کہتا میرا دل اندر سے ڈر جاتا تھا کہ کہیں میرے بھاگ میں مسلمان ہونا نہ ہو میں ڈر کر بحث بند کر دیتا تھا۔تقریباً ًچار مہینے تک مذہب پر ہماری باتیں ہوتی رہیں۔ ایک روز صبح صبح یوسف آفس آئے اور مجھ سے کہا کہ آج ہم دونوں کمپنی سے چھٹی لے کر کسی پارک میں چلتے ہیں اور بیٹھ کر کچھ باتیں کر یں گے ،میں نے پہلے تو منع کیا کہ باتیں کرنے کے لئے چھٹی لینے کی کیا ضرورت ہے ،مگر یوسف نے بہت ضد کی اور میں نے بھی چھٹی لے لی اور ہم پارک میں گئے ۔بہت محبت سے وہ مجھے اسلام قبول کرنے اور کلمہ پڑھنے کو کہتا رہا ، اور مجھے اس درد سے سمجھایا کہ مجھے ماننا پڑا ، اور میں نے کلمہ پڑھ لیا اس نے کہا کہ رات خواب میں مجھے تمہارا نا م عبید اللہ بتایا گیا ہے ،میں تمہارا نا م عبید اللہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ہم لوگ چائے و غیرہ پی کر گھر چلے گئے ۔ اگلے روز وہ کچھ کتابیں لے کر آیا اور مجھے دیں کہ ان کو پڑھنا۔ ہمارے آفس میں ایک جاوید نام کا لڑکا بستی کا اور کام کرتا تھا،میری یوسف نے اس سے ملاقات کرائی اور قبول اسلام اور نئے نام سے تعارف کرایا ،ایک ہفتہ کے بعد ایک روز آفس آیا اور مجھے بتایا کہ کچھ گھر یلو حالات کی وجہ سے اب نو کری چھوڑ کر جانا ہوگا۔ میں نے د بئی میں نوکری تلاش کر لی ہے اور پرسوں میری فلائٹ ہے ،مجھ سے کہا کہ آپ کو ایمان پر جمنا ہے ،ایمان اس کائنات کی سب سے قیمتی چیز ہے آدمی تانبہ خریدتا ہے تو کچھ قیمت دینی پڑتی ہے ،چاندی خریدے تو اور قیمت دینی پڑتی ہے ،سونے کے لئے اور بھی زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے ،ایمان تو بہت قیمتی چیز ہے اس کے لئے بڑی قیمت دینی پڑے گی تو دیکھو ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنا ۔ اس کے بعد وہ دبئی چلے گئے ۔جاوید بہت مذہبی مسلمان نہیں تھا ،وہ مجھے میرے چاہنے کے باوجود وقت نہیں دے سکا۔میں نے ایک مولانا صاحب سے جاکر نماز وغیرہ سیکھنا شروع کی ۔ہمارے گھر میں گھر کا ایک چھوٹا سامندر تھا جس میں بہت سی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک روز ایک مورتی گنیش جی کی اس میں سے اٹھائی اور نہر میں ڈال دی۔ مورتی کو نہر میں ڈالنا تھا کہ شیطانوں کو طیش آ گیا۔ہمارے گھر پر مصیبت آنا شروع ہو گئی ، میری موٹرسائیکل اچانک پیڑ سے ٹکرا گئی۔ میرا پیر ٹوٹ گیا،پلاسٹر چڑ ھا یا ہڈی نہیں جڑ سکی آپریشن کرانا پڑا۔میں ابھی ٹھیک نہیں ہو اتھا کہ چھوٹے بھائی پر مود زینے پر سے پھسل گیا،اس کے بہت چوٹ آئی ۔پتاجی (والد صاحب )بیمار ہوئے ،بہنوئی اسپتال میں ،کبھی کوئی حادثہ ہوتا تھا کبھی کوئی۔ میرے پتاجی نے بہت سے جوتشیو ں سے رائے لی،سیانوں کو دکھایا سب لوگ یہی کہتے تھے کہ کسی بات کی وجہ سے کوئی دیوتا ناراض ہیں مگر علاج کسی سے نہ ہو پایا ۔دادری میں ایک پیر جی صاحب رہتے تھے،لوگ ان کو بہت صاحبِ کمال سمجھتے تھے، بڑی دیر میں ان کے یہاں نمبرآتا تھا،پریشان ہو کر ہمارے پتاجی ان کے یہاں گئے ۔میں بھی ان کے ساتھ تھا،انہوں نے بتا یا کہ آپ کے بچوں میں سے کسی نے اپنا دھرم چھوڑ کر دوسرے دھرم کو اپنا یا ہے اسی وجہ سے پریشانی ہے ،اچانک یہ بات سن کر میں ان کا بہت معتقد ہو گیا ۔میں نے ان کو صاف صاف بتا دیا ،انہوں نے مجھ کو بتایا کہ جب تک تم اسلام سے توبہ کر کے اپنے آبائی ہندو دھرم میں نہ آؤ گے اسی طرح گھر میں پریشانی ہوتی رہے گی۔
سوال :پیر جی نے یہ بات کہی؟
جواب :جی ہاں ،بڑی لمبی داڑھی اور بہت سارے ان کے چیلے انہوں نے یہ بات کہی ۔ میں نے بھی ان کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے تین مہینے پہلے اسلام قبول کر لیا ہے ۔میرے پتاجی نے مجھے سمجھایا اور میں بھی اچانک پیر جی کے بتانے سے ان کا بہت معتقد ہو گیا تھا۔روز روز کی پریشانی سے میں بھی عاجز آ گیا تھا،اس لئے گھر والوں اور پیر جی کے زور دینے پر میں مرتد ہونے پر تیار ہو گیا ۔میرے پتاجی مجھے لے کر ایک پنڈت جی کے یہاں گئے ،اور پنڈت جی نے ہنومان مندر میں مجھے نہلا کر شدھی کی ۔میرے مرتد ہو کر ہندو بن جانے سے گھر کی پریشانیوں پر جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جاتا ہے والا معاملہ ہو گیا ۔گھر میں سکون و چین ہو گیا ،مگر اندر سے مجھے بڑی بے چینی ہوتی تھی۔کئی بار سوتے سوتے جیسے یوسف کی آواز میرے کانوں میں آتی تھی اس ایمان کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا ،تانبہ خریدنے کے لئے قیمت دینی پڑتی ہے ،چاندی خریدنے کے لئے اور بھی زیادہ اور سونے کے لئے اور بہت زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے ،ایمان کا ئنات کی سب سے قیمتی چیز ہے اس کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا اور میری آنکھ کھل جاتی ،اور مجھے کئی کئی روز بے تابی سی رہتی ۔کسی مسلمان کو دیکھتا میں بے چین سا ہو جاتا،کسی مسجد کے مینار دیکھتا تو عجیب سی بے چینی کی کیفیت مجھ پر طاری ہو جاتی ۔
سوال :اس دوران آپ پوجا وغیر ہ کرنے لگے ؟
جواب :ہاں میں پریشانیوں سے بچنے کے لئے پوجا وغیرہ کرتا تھا،مگر میری پوجا عقیدت سے نہیں بلکہ شر سے بچنے کے لئے ڈر کی وجہ سے تھی،جیسے کوئی بد معاشوں یا پولیس سے ڈر کر کوئی کام کر ے یا بیان دے
سوال :اس کے بعد پھر اسلام کی طرف دو بارہ کس طرح آنا نصیب ہوا؟
جواب :میں نے کیا آنا تھا؟ میرے اللہ نے میرے چاہے بغیر مجھے ایمان و اسلام کا سایہ عطا کیا۔ ہوا یہ کہ ایک روز میں آفس سے آیا تو ہمارے گاؤں میں ایک جماعت آئی ہوئی تھی۔جماعت والے گشت کر رہے تھے،میں گھر جا رہا تھاراستے میں میں نے جماعت کو دیکھا،میرے دل میں بے چینی ہو ئی کہ مجھے ان کے ساتھ مسجد میں جانا چاہئے اور نماز پڑھنا چاہئے ،مگر مجھے بہت ڈر لگا کہ اگر میں نے نماز پڑھی تو گھر میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے ۔رات تک عجیب بے چینی کی کیفیت رہی ،رات میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ کچھ جماعت والے مجھے بلانے آئے کہ مسجد میں ہمارے حضور ﷺ تشریف رکھتے ہیں،آپ کو بلاتے ہیں ،میں خوشی سے بولا،مجھے ؟مجھ گندے کو ہمارے نبی نے بلایا ہے۔انہوں نے کہا ہاں ،آپ کو ہی بلایا ہے، میں نے کہا کیا کہہ کر بلایا ہے؟انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ عبید اللہ کو بلا کر لاؤ ،میں بہت خوش ہوا،اور مسجد میں گیا تو بہت ہی خوبصورت نورانی شکل میں ہمارے نبی ﷺ ممبر پر تشریف رکھتے ہیں ۔میں نے سلام کیا آپ نے کھڑے ہو کر مجھے گلے لگا یا اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے ہی تمہارا نام عبید اللہ رکھا ہے ۔تمہیں معلوم ہے عبید اللہ کا مطلب ہے صرف اللہ کا بندہ اور تم شیطانوں سے ڈر گئے یہ دنیا تو مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے جب تم یہاں کی مشکل سے ڈ ر گئے اور برداشت نہ کر سکے تو آخرت میں جہنم کی سزا کس طرح برداشت کر سکتے ہو ،میری آنکھ کھل گئی صبح کے ساڑھے چار بجے تھے،سردی کا زمانہ تھا ،میں بے چین ہو گیا ،میں نے غسل کیا اور مسجد پہنچ گیا،جماعت کے کچھ لوگ اٹھ گئے تھے میں نے ان سے معلوم کیا کہ امیر صاحب جاگ گئے ہیں ؟انہوں نے کہا کہ ہاں ،وہ نماز پڑھ رہے ہیں ،میں ان کے پاس گیا اور ان سے خوشامد کر کے وقت لیا اور پھر اپنا خواب اور اپنا حال بتایا۔وہ میوات کے رہنے والے عالم تھے ، ایک مدرسہ میں پڑھاتے تھے،انہوں نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھا کر ایمان کی تجدید کے لئے کہا۔میں نے کلمہ پڑھا اور پھر تہجد اور فجر کی نماز پڑھی ،امیر صاحب نے مجھے اوکھلا جا کر آپ کے والد صاحب مولانا محمد کلیم صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا۔اور بار بار زور دے کر آج ہی جا کر ملنے کے لئے مجھ سے وعدہ لیا،اور پتہ اور فون نمبر ان کے پاس تھا دیا ۔میں گھر گیا ،صبح آفس گیا،فون پر رابطہ تو نہیں ہو سکا ،دن میں دو پہر پہلی بار یوسف کا دوبئی سے فون آیا،میرا حال معلوم کیا میں نے ان سے کہا کہ مجھے لمبی بات کرنی ہے ،فون کاٹ دیا ،آفس سے نکل کر باہر میں نے یوسف کو فون ملایا اور پوری داستان ،رات کا خواب اور ایمان کی تجدید کی بات بتائی ۔یوسف نے بتایا کہ آپ کا نام میں نے خواب میں اللہ کے رسول ﷺ کے بتانے پر رکھا تھا،مجھے خواب دکھائی دیا تھا کہ تم چلے جاؤ گے تو اسے کون دعوت دے گا،جاؤ اس کو کلمہ پڑھواؤ اور اس کا نام عبید اللہ رکھو۔یوسف نے بھی مجھے حضرت صاحب سے ملنے پر زور دیا اور بتایا کہ میں نے ان ہی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔میں اپنے اسلام کے لئے کئی مہینے بھٹکتا رہا ،پھر کسی نے مولانا صاحب کا پتہ بتایا تھا۔انہوں نے مجھے فوراً کلمہ پڑھوایا اور میرا نام محمد یوسف رکھا اور قانونی کارروائی پوری کرائی۔میں شام کو آفس سے ذرا جلدی اجازت لے کر اوکھلا گیا،بٹلہ ہاؤس جامع مسجد پہو نچا ،امام صاحب نے بتایا کہ ابھی مغرب کی نماز حضرت نے یہاں ہی پڑھی ہے ،شاید ابھی ابھی نکلے ہیں ،انہوں نے کسی کو دوڑا یا اور حضرت کو اطلاع دی ۔ حضرت مولانا باہر نکلے ہی تھے واپس آئے مسجد میں بیٹھ کر ملاقات ہوئی ،میری پوری داستان بہت غور سے سنی ،اٹھ کر مجھے گلے لگایا ،بہت مبارک باد دی ،کئی بار میری پیشانی کو بوسہ دیا ۔آپ کیسے خوش قسمت ہیں شان ہدایت نے خود آپ کو قبول کیا ہے اور کس شان سے قبول کیا ہے مگر اب دو بارہ چانس نہیں ملے گا ،اب ہر قیمت پر ایمان کی حفاظت کرنا ہے ۔ مولانا صاحب نے کہا کہ یوسف میاں کو مجھ سے رابطہ کرا کے جانا چاہئے تھا،شاید ایک بار وہ آفس کے کسی انجینئر کے اسلام پر بحث کا ذکر کر رہے تھے ،وہ شاید آپ کا ہی ذکر کر رہے تھے۔میں نے کہا ہاں ،مہینوں سے میری ہی بحث ان سے ہوتی رہی ،حضرت صاحب نے مجھ سے بتایا کہ شیطان ،جنات اصل میں انسان کو ہدایت سے ہٹا نے کی کوشش کرتے تھے اگر آپ جمے رہتے تو اللہ تعالیٰ بادل چھانٹ دیتے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے تھا۔
سوال :اس کے بعد آپ نے گھر والوں کو بتایا ؟
جواب :مولانا احمد صاحب ،اب میرا اسلام پہلے اسلام سے بالکل مختلف تھا۔ میرے اللہ نے میری مدد فرمائی اور مجھے ہمت دی اور پوری دنیا بلکہ اگر کہوں کہ پوری کائنات سے مخالفت مول لے کر میں نے اللہ کا صرف اللہ کا ہونے کا عزم کیا تھا ۔میں نے رات کو جا کر گھر والوں کو جمع کیا اور کہا جس چیز کو میرا دل ،میرا دماغ ،میرا ضمیر حق جان اور مان چکا ہے میں ان جھوٹے دیوتاؤں کے ڈر سے اسے نہیں چھوڑ سکتا،اب آپ پر آفت آئے یا کچھ ہو ،میں نے اسلام قبو ل کیا ہے اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ میرے گھر والوں نے مجھے پچھلی مصیبتیں یا د دلائیں ،میں نے کہا اس سے ہزار گنا آفتیں آئیں تو آئیں ،میں حق سے نہیں ہٹ سکتا۔اب اگر میرا اسلام تمہیں پسند نہیں ہے تو میں آپ اور آپ کے گھر کو چھوڑسکتا ہوں میرے گھر والوں نے مجھے پیار سے سمجھایا ،اور جب میں نے سخت رخ اختیار کیاتو میرا چھوٹا بھائی پرمود غصہ میں آ گیا ،میرے والد نے بھی اس کا ساتھ دیا۔میں رات کو گھر چھوڑ کر جانے لگا،میری ماں مجھے ایک کمرے میں لے گئی ،دیر تک روتی رہی ،میری پیدائش اور پھر پرورش کی مصیبتیں رو رو کر یاد دلاتی رہی ،میں بھی روتا رہا اور بار بار ماں کو سمجھاتا رہا ،میری ماں آپ نے پال کر مجھ پر احسان کیا ہے ،اس کے بدلے میں آپ سے کہتا ہوں یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے،کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایئے اور مرنے کے بعد کے جیون کو بنا لیجیے۔بعد میں وہ بھی غصہ ہو گئی ،اور رات کے ایک بجے میں گھر سے نکل آیا ، سردی کی رات تھی ،کچھ دور پارک میں جا کر ایک شیڈ کے نیچے بیٹھ گیا۔میں نے سامنے ایک ٹنکی سے وضو کیا اور گھاس میں اللہ کے حضور نماز کی نیت باندھی ۔نماز پڑھ کر اللہ کے حضور گریہ وزاری شروع کی ۔اللہ کے حضور میں گھنٹوں فریاد کی ،میرے اللہ میرا نام آپ نے اپنے نبی سے عبید اللہ رکھوایا، میرے اللہ میں صرف آپ کا بندہ ہوں ،میرے اللہ جب آپ نے مجھے صرف اپنا صرف اپنا بندہ بنا یا ہے تو پھر آپ کے کرم سے میں نے اپنے محبت کرنے والے بھائی ،بہنوں ،اپنے گھر بار کو شفقت سے پالنے والے باپ کو اور بلکتی اور سسکتی ماں کو صرف آپ کے لئے چھوڑآیا ہوں ،میرے اللہ بس آپ اپنا ہی بندہ بنا لیجئے ، میرے اللہ اب پھر مجھے دوبارہ گمراہ ہونے سے بچا لیجئے ۔مجھے یاد آیا حضرت مولانا نے ایک دعا مجھے لکھ کر دی تھی،اور اس کو روز انہ ذکر کرنے کے لئے کہا تھا،رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْ بَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابَ (آل عمران:۷)ترجمہ :اے ہمارے پروردگار تو ہمارے دلوں کو کج نہ کیجئے بعد اس کے کہ آپ ہم کو ہدایت کر چکے ہیں اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت (خاص )عطا فرما یئے ،بلا شبہ آپ بڑے عطا فرمانے والے ہیں ۔
بار بار اس کا ہندی ترجمہ پڑھتا رہا ۔مولوی احمد اس رات کی دعا اور اللہ کے حضور فریاد کی لذت اور مزہ میں بتا نہیں سکتا،ایسا لگتا تھا اللہ کی رحمت میری بلائیں لے رہی ہے،اور مجھے سب کچھ چھوڑ کر اندھیری سردی کی رات میں اس میدان میں آسمان کی چھت کے نیچے اللہ کا بندہ بن جانے میں ایسا مزہ آیا اور پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ جب یہاں اس کے بننے کی آرزو میں ایسا مزہ ہے ،جنت میں جمعہ کے دن اللہ کا دیدار کرنے میں کتنا مزہ ہوگا ، ایک عجیب سا نشہ اور مزہ نہ جانے سردی کی لمبی رات جیسے پلوں میں ختم ہو گئی ہو۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب :میں صبح کو اوکھلا آیا مولانا صاحب کو تلاش کیا کہ مشورہ کروں مگر مولانا صاحب فجر کے بعد سفر پر جا چکے تھے ،مجھے کسی نے مرکز نظام الدین جانے کا مشورہ دیا،وہاں پر لوگوں نے پھر مولانا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا۔اگلے روز مولانا صاحب سے ملاقات ہوئی ، مولاناصاحب نے مجھے اپنے ایک دوست کے یہاں چند روز کے لئے بھیج دیا۔دور روز تک مشورہ ہوتا رہا میں بار بار اسلام پڑھ کر ایک عالم اور داعی بننے کی خواہش کرتا رہا۔مولانا نے میرے کاغذات بنوائے اور پہلے جماعت میں وقت لگانے کا مشورہ دیا۔ چالیس روز کے لئے میں جماعت میں چلا گیا،واپس آیا تو مولانا کے مشورہ سے کرناٹک کے ایک مدرسہ میں اپنی جماعت کے امیر صاحب کے ساتھ جا کر داخلہ لے لیا۔دو سال پہلے مولانا صاحب سے ملنے آیا تو انہوں نے گھر والوں سے دعوتی سلسلہ میں رابطہ کے لئے کہا،میں نے کہا کہ میں نے اللہ کے لئے چھوڑ دیا تو چھوڑ دیا ،پھر کہیں ان کی وجہ سے نہ بھٹک جاؤں۔ مولانا نے کہا جس طرح اللہ کے لئے چھوڑنے میں مزہ ہے اسی طرح اللہ کے لئے ملنے اور اللہ سے ان کو ملانے میں اس سے زیادہ اللہ کا قرب ملے گا۔میں نے گھر فون کیا ممی نے فون اٹھایا اور بلک بلک کر رونے لگیں ،میرا پتہ معلوم کیا ،میں نے ہمایوں کا مقبرہ کا پتہ بتایا،وہ ملنے آئیں اور گھر میں جو حالات آئے بڑے درد کے ساتھ بتاتی رہیں ۔میں نے کہا یہ ہمایوں کا مقبرہ ہے ،کیسے کیسے بڑے چھوٹے سب مر گئے ،ممی ہمیں بھی مرنا ہے ،میری ماں میں آپ کا بیٹا ہوں آپ سے سچی محبت کرتا ہوں ،آپ کلمہ پڑھ لیجئے ،میری ماں میری محبت میں بالکل سوکھ گئی تھیں ،میرے اللہ کا کرم گھنٹوں کی خوشامد کے بعد وہ تیار ہو گئیں اور میں نے ان کو حضرت مولانا سے ملوایا حضرت نے ان کو دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام سلمی رکھا۔میری چھوٹی بہن بھی ساتھ تھیں مولانا نے ان کو سمجھایا وہ بھی تیار ہوگئیں حضرت نے ان کا نام اسماء رکھا۔
سوال :اس کے بعد آپ کی تعلیم کا کیا ہوا؟
جواب :والد ہ نے گھر جانے کا اصرار کیا ، حضرت صاحب کی خوشامد کرتی رہی ، حضرت نے مجھے حکم دیا کہ ماں کی بات مان لو اور والد سے ایمان پر جمنے کی نصیحت کی اور وعدہ کیا کہ میں نوئیڈا میں ایک استاذ کا نظم کردوں گا جو آپ کو عا لمیت کرا دے گا۔میں گھر چلا گیا شروع میں والد صاحب نے بہت مخالفت کی مگر اللہ نے میرا ساتھ دیا،میرے رب کا کرم ہے ،میرے والد اور میرے بھائی الحمد للہ مسلمان ہیں ۔
سوال :خاندان والوں اور سماج کی طرف سے کچھ مخالفت نہیں ہوئی ۔
جواب :بہت ہوئی ،اسکی لمبی داستان ہے ،یہ دو سال ان کی مخالفتوں کے ساتھ ایک لمبی زندگی ہے حضرت کے مشورہ سے ہم نے وہاں سے ہجرت کر لی ،اور دہلی میں رہنے لگے ہیں ،ان مخالفتوں میں کیو نکہ اللہ نے ایمان عطا فرمادیا تھا عجیب مزہ تھا۔
سوال :کچھ بتایئے؟
جواب :وہ ایک لمبی کہانی ہے ،کسی وقت پھر فرصت سے سن لیجئے گا۔
سوال :اچھا ارمغان کے قارئین کے لئے کچھ پیغام آپ دیجئے۔
جواب :ہر چیز پر جمنے کے لئے استقامت کی ضرورت ہے ،ساری کائنات اور کل مخلوق کی نفی کر کے اس اکیلے کا بن جانے کا مزہ اس دنیا کی بلکہ اگر میں کہوں کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور مزہ کی چیز ہے ۔انسان کمزور ہے ،بس اللہ تعالیٰ ذرا ارادہ اور نیت دیکھتے ہیں اور اپنے کو یکسو (حنیف )بنا لے پھر وہ ہمت بھی دیتے ہیں ،اور توفیق بھی ، قربان اس کی رحمت کے مزہ بھی اور لذت بھی دیتے ہیں،اور اس پر نور علی نور آخرت میں اجر عظیم بھی ،ایسے دینے والے کریم و رحیم رب کے علاوہ کون ہے دل لگانے کے لائق ؟اور قربان ہونے کے لائق اور روتے ہوئے ......مگر اس کا ہو جانے کے لئے سب کی نفی ضروری ہے ،لا الہ الا اللہ میں پہلے نفی بعد میں اثبات ہے سب کو ٹھکرا ئے اور سب سے ٹکرانے کے عزم کے بنا اس کا بننا چاہے تو بس دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔
سوال :بہت شکریہ عبید اللہ بھائی اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس نفی و اثبات کا مزہ چکھا دے۔
مستفاز از ماہ نامہ ‘‘ارمغان ’’جنوری ۲۰۱۰ء