مجھ سے بچھڑ نہ جائے میرا سایہ ، ماں
میں کچھ اور بھی ہو جاؤں گا تنہا ، ماں
جب تک تیری گود میں تھا ، میں راجہ تھا
اب میں ہوں اور میرے ہاتھ میں کاسہ ماں
اس کی لاش ملی تھی گندے نالے سے
جس کا رستہ دیکھ رہی تھی بیوہ ماں
اپنا بِکھرا رزق اکٹھا کرنا ہے
مجبوری ہے چلتا ہوں میں ، اچھا ، ماں
اپنے اپنے ، ہمدردوں کا نام لکھو
جب یہ حکم ملا تو میں نے لکھا ماں
ساری دنیا گھور اندھیرا ، کالی رات
اور اس رات میں سورج ، چاند ، ستارا ماں
حسن جاوید
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
تابش
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اسلم کولسری
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا