سوال / جواب

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2018

جواب:اللہ تعالیٰ نے نبوت کا ادارہ ایک خاص مقصد کے لیے بنایا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک بے کم و کاست پہنچ جائے۔ یہ پیغام عام طور پر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں ہوتا اور وہ اسے سننا ہی نہیں چاہتے۔ اب اللہ تعالیٰ کو اس کار عظیم کے لیے انسانوں میں سے ہی افراد کا انتخاب کرنا تھا۔ دوسری طرف عام انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے جو دنیا بنائی ہے اس میں ان طبقات کو (جن کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے) ہمیشہ کمزور سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں یہ ضروری تھا کہ نبی اس شخص کو بنایا جائے جس کے مقام اور حیثیت کی بنا پر لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ تو ہو جائیں۔ اگر یہ منصب کسی کمزور طبقے کے فرد کو دیا جاتا تو کوئی اس کی بات ہی نہ سنتا۔ جس کے نتیجے میں وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہی نہ ہو پاتا جس کے لیے نبوت کا ادارہ بنایا گیا ہے۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ فوجیوں کو جنگوں میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے جسمانی طور پر بہترین فٹنس کے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اب ایک شخص یہ اعتراض کرے کہ فوج میں معذوروں کو نہ لینا عدل کے خلاف یا معذوری کے خلاف امتیازی سلوک ہے تو یہ اعتراض درست نہیں ہوگا۔ فوج کا میرٹ اور عدل ہی یہ ہے کہ وہاں جسمانی طور پر فٹ لوگ لیے جائیں۔
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج میں رائج انھی امتیازات کے خاتمے کے لیے انبیاء کو بھیجا ہے۔ ان کی تعلیم ہی یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ کل قیامت کی اصل زندگی میں یہ لوگ ہی ہیں جو سب سے زیادہ مقام پائیں گے۔ ہاں آج کی امتحان کی دنیا میں کوئی چھوٹا ہے اور کوئی بڑا، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی مرد ہے اور کوئی عورت۔ لیکن یہ سب امتحان کے لیے ہے نہ کہ خدا کا ابدی فیصلہ۔ اس کا ابدی فیصلہ کل قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور وہاں وہ عزت پائے گا جو تقوی والا ہوگا۔امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
عورتوں کو ماہواری کی تکلیف کیوں
آپ کے طویل ای میل میں مرکزی سوال ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہر ماہ ما ہواری کے ایام اور زچگی کی تکلیف میں کیوں ڈالا۔ پھر یہ کہ اس تکلیف میں جسمانی طور پر ڈالنے کے ساتھ نماز روزہ نہ کرنے کا حکم دے کر اسے ایک روحانی اذیت میں بھی ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا۔ جبکہ وہ اس کے بغیر بھی پورا نظام بنا سکتے تھے۔
اس بات کے جواب میں پہلی اور اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کو دی گئی کوئی سزا نہیں ہے۔جس طرح کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہورہا ہے۔ نہ ہی یہ بات ہے کہ اللہ نے صرف عورتوں پر مشقت ڈالی ہے اور مرد کوئی ان کے لاڈلے ہیں ان کو ہر طرح کی مشقت سے بری رکھا ہے۔دیکھیے یہ نسوانی تکالیف اس مجموعی خدائی ا سکیم کا حصہ ہیں جس کے تحت امتحان کی اس دنیا میں کوئی نہ کوئی تکلیف ہر کسی کو لاحق ہوتی ہے۔ عورتوں کو اگر ایام و زچگی کی تکلیف لگی ہے تو مردوں کو ہر دور میں اپنے خاندان کی کفالت اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست جسمانی اور ذہنی مشقت جھیلنے کی مشقت لگادی گئی ہے انھی مشقتوں کی وجہ سے مجموعی طور پر ان کی اوسط عمر عورتوں سے ہمیشہ کم رہی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جان جانے ، زخمی ہوجانے ، حادثات کا شکار ہوجانے جیسے اندیشوں سے نہ صرف دوچار رہتے ہیں بلکہ تازیست عورتوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ، زیادہ درد اور زیادہ اسٹریس برداشت کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ جو مرد اس مشقت کو مشقت سمجھتے ہیں ، ان کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے مگر جو مرد اسے خدائی اسکیم کا حصہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔اس لیے اصل مسئلہ انداز فکر کا ہے ، خدائی نظا م میں کسی خامی یا کمزوری کا نہیں۔ اگر حیض و زچگی کے مراحل ایسے ہی ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہوتے تو اس دنیا میں کوئی خاتون زندہ نہ ہوتی اور سب اس تکلیف کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو چکی ہوتیں۔تاہم اس کے باوجود ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے ؟ کیا ساری تکالیف ختم کر دی جائیں ؟ایسا ہوا تو پھرآپ کا امتحان بھی نہیں رہے گا۔ اور امتحان نہیں تو پھر جنت ملنے کا امکان بھی نہیں رہے گا۔
آپ کے سوال سے دوسری بات یہ عیاں ہے کہ آپ انسانی سماج میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیرمساویانہ سلوک پر ناخوش ہیں۔ آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ یہاں بارہا خواتین کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے۔ مگر اس میں اصل قصور انسانوں کا ہے۔ انسان ہر کمزور کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔خود خواتین بھی جب طاقت کے مقام پر آتی ہیں تو دوسرے کمزوروں کے ساتھ اکثر یہی سلوک کرتی ہیں۔ یہی اس دنیا کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دنیا بنا کر ایسے ہی لوگوں کو ڈھونڈرہے ہیں جو اختیار کے باوجود زیادتی نہ کریں اور جن پر زیادتی ہو وہ منفی سوچ کا شکار ہونے کے بجائے صبر سے کام لیں۔ چنانچہ دنیا کی اس خرابی میں بھی یہی حکمت ہے کہ اس خرابی کے بغیر وہ اعلیٰ انسان نہیں مل سکتے جو جنت میں بسائے
جائیں جہاں کوئی حیض ہو گا نہ دیگر تکالیف۔ آپ کے سوال کا یہ پہلو بھی جواب طلب ہے کہ خواتین کو اس میں نماز روزہ سے کیوں منع کیا گیا ہے۔دیکھیے یہ ہدایت ایک ڈسپلن کا حصہ ہے۔ لیکن اس ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے بھی خواتین خود کو روحانی طور پر اللہ سے قریب کرسکتی ہیں۔ سب سے بڑ ی اور بنیادی عبادت اللہ کی یادہے۔ اس پران دنوں میں کس نے پابندی لگارکھی ہے۔ اللہ کو یاد کرتی رہیں آپ کی روحانیت بالکل اسی سطح پر رہے گی۔خلاصہ یہ ہے کہ ہم جس امتحان میں ہیں اس میں ہر طرح کے حالات میں ہم کو اپنے انداز فکر کو درست رکھنا ہے۔ ایسا کریں گے تو ہمیں کوئی چیز خراب نہیں لگے گی۔ انداز فکر منفی کر لیں گے تو کوئی چیز بھی ہمیں ٹھیک نہیں لگے گی۔
آخر میں ایک واقعہ سن لیجیے جس میں اس طرح کے سارے سوالات کا جواب اللہ کے ایک جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ نے دے دیا تھا۔ ان سے ایک دفعہ شیطان نے اسی نوعیت کا ایک سوال کیا تھا۔ یعنی خدا تو جو چاہے کرسکتا ہے آپ خدا سے بات کر کے اس سے اپنی مرضی کا معاملہ کیوں نہیں کراتے۔ آنجناب نے جو جواب دیا اسے یاد کر لیجیے۔ یہ ہر مسئلے کی کنجی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ خدا نے یہ دنیا ہمارے امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے نہیں بنائی کہ ہم خدا کی حکمت اور قدرت کو چیلنج کر کے خداکا امتحان لینا شروع کر دیں۔

(ابو یحییٰ)

عزت و شرف کا معیار اور بزرگوں کے ہاتھ چومنا
سوال:سر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا کوئی صرف بزرگ ہستیوں کے گھر میں پیدا ہو جانے سے لوگوں کے لیے عزت و شرف کا باعث بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ سید گھرانے میں پیدا ہو جائے تو وہ بچہ دوسرے مسلمانوں سے کسی برتر درجے پر فائز ہو گا؟ اسی طرح اگر کوئی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان سے نسبت رکھتا ہو تو کیا صرف نسبت کی بنا پر اسے دوسرے مسلمانوں پر کوئی درجہ و فضیلت حاصل ہو گی؟اگر ہاں، تو یہ برہمنیت سے کیسے مختلف ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کی جاتی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ’’ اے فاطمہ! خود کو جہنم کی آگ سے بچانا، اگر اللہ پاک نے پکڑ لیا تو میں کچھ کام نہ آ سکوں گا‘‘تو اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ اور اسی طرح:’’ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔‘‘کا کیا مطلب ہو گا؟اور اگر نہیں تو پھر قرآن پاک میں سورۃ الاحزاب آیت 32 میں نبی کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے بارے میں جو کہا گیا ہے کہ
’’ لستن کاحد من النسا‘‘
یعنی تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اس کا کیا مطلب ہے۔ براہِ کرم ذرا وضاحت فرما دیجیے۔اور ازراہِ کرم اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ کسی حقیقی فضیلت کی بنا پر جیسے والدین یا عام لوگوں میں مشہور متقی لوگ مثلاً عرف عام میں پیر صاحبان وغیرہ کے ہاتھوں یا پاؤں کو عقیدت سے چومنا کیسا ہے۔

جواب:ہمارے دین میں کسی شخص کو اللہ کے نزدیک کیا مقام حاصل ہے اس کا فیصلہ قرآن کریم اپنے نزول کے وقت ہی کر چکا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو‘‘ (الحجرات 13:49)
اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو قرآن مجید میں بیان ہونے والی بنی اسرائیل کی داستان پڑھیے۔ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد آنے والے متعدد جلیل القدر انبیا کی اولاد تھے۔ مگر کیا اس سے کوئی فرق پڑا۔ ہرگز نہیں اللہ نے ان سے ان کے اعمال کے مطابق معاملہ کیا اور جب ان کے اعمال بگڑے تو ان پر لعنت کر دی گئی۔خود حضور کو دیکھ لیجیے۔ ابو لہب کا رشتہ حضور سے سگے چچا کا تھا، مگر وہ بھی اس کے کام نہ آیا۔ اس کا انجام سورہ لہب میں پڑھ لیں۔قرآن کی طرح حدیث میں بھی کوئی ایسی بات ہرگز نہیں بیان ہوئی ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ کسی خاندان سے نسبت انسان کو دوسروں پر شرف اور برتری دے دیتی ہے۔ کچھ احادیث آپ ہی نے نقل کر دی ہیں، ان کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق ایک روایت میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر، اسی طرح کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔
رہی سورہ احزاب کی آیت کی بات تو یہ فضیلت کا نہیں ذمہ داری کا معاملہ تھا۔ یعنی حضور کی ازواج کا معاملہ اور ان کی ذات کی حساسیت عام خواتین کی طرح نہ تھی۔ بلکہ ان کے حوالے سے کوئی الزام لگایا جاتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا تو اس سے خود حضور کی ذات اور شخصیت کا متاثر ہونا لازمی امر تھا۔ اس لیے ان کو کچھ خصوصی احکام دیے گئے تاکہ منافقین کو کسی طرح کی فتنہ انگیزی کا ذریعہ نہ مل سکے۔ آپ کا نقل کردہ جملہ اسی پس منظر کا ہے۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہ کسی خاندانی فضیلت کا بیان نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب کی بنا پر عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، اسی طرح ان کی ازواج بحیثیت اہل خانہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان پر لگی ہوئی کسی بھی تہمت سے آپ کا متاثر ہونا لازمی ہے۔
باقی ہاتھ پاؤں چومنے کا جو معاملہ ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ اظہار عقیدت کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان محبت میں اپنے فطری جذبات کے اظہار کے لیے ماں یا باپ کے ہاتھ چوم لیتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر مذہبی لوگوں سے اس طرح کی عقیدت اکثرخرابی کا سبب بنتی ہے۔ اس سے بچنا بہتر ہے۔

(ابو یحییٰ)

اندیشہ کی بنا پر قتل ناحق ؟
سوال:میں نے سورہ کہف پر آپ کا آرٹیکل پڑھا۔ بہت اچھا اور متاثر کن تھا۔ لیکن میرا ایک سوال ہے جو میں کافی دیر سے پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن کبھی موقع نہ مل سکا اس لیے آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ سورہ کہف میں بیان کردہ واقعہ کے مطابق جب حضرت خضر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان باتوں کی وضاحت کر رہے تھے تو کشتی کو عیب زدہ کرنے اور گرتی ہوئی دیوار کو (بلا معاوضہ) سیدھا کر دینے کی بنیاد حقائق پر مبنی تھی۔ لیکن جب انہوں نے ایک چھوٹے بچے کو جان سے مار ڈالا تو یہ انہوں نے ’’ محض خوف‘‘ کے تحت کیا نہ کہ کسی حقیقی واقعہ کے تحت۔ جب ہم کسی چیز سے ڈرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ہوجائے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ وقوع پذیر ہی نہ ہو۔ خدا کا کوئی باغی بھی کسی بھی وقت توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ سکتا ہے اور ایک اچھا انسان اور خدا کا فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے۔ یقینی طور پر اس مخصوص واقعہ میں ہم جانتے ہیں کہ حضرت خضر کو یہ حکم خدا کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ لیکن جب بھی میں ان آیات پر پہنچتی ہوں تو یہ سوال میرے ذہن میں پھر پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے وجدان پر کس حد تک اعتبار کر سکتے ہیں؟ اور مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حضرت خضر کے اس عمل کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی حقیقت کارفرما تھی جو کہ ان آیات میں کہیں مخفی ہے اور میری ابھی اس تک رسائی نہیں ہوئی۔

جواب:دیکھیے اس معاملہ میں ہمیں دو چیزیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
۱۔ خضر ایک فرشتہ تھے اور انہوں نے جو بھی کیا اللہ تعالیٰ سے حکم ملنے کے بعد ہی کیا۔ لہٰذا ہم اپنے میں سے کسی کا بھی ان کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ یہاں استعمال ہونے والے الفاظ مثلاً ’’خشینا‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ ان کا مطلب ’’ممکن ہے ‘‘یا ’’شاید‘‘ کے نہیں ہے بلکہ یہ ’’یقینی امور‘‘ پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ ’’عسٰی‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی ہے کہ ’’شائد‘‘ لیکن جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال فرماتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناًایسا کریں گے۔اصل میں یہ بادشاہوں کے کلام کرنے کا شاہانہ انداز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے عظیم ہستی ہیں تو وہ ایسے اندازمیں کلام فرماتے ہیں۔
اس بات کو یاد رکھیے کہ یہاں پر خضر اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
ہمیں کس کی پیروی کرنا چاہیے؟
سوال:سرمیں آپ کی کتاب ’’تیسری روشنی‘‘ پڑھ رہی تھی کہ کیسے آپ نے تمام مکاتب فکر کا مطالعہ کیا اور آپ ماشاء4 اللہ سب کا ہی احترام کرتے ہیں۔میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ ہمیں دوسروں کے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں کہ دلوں کے حال صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں پھر ہمیں کس کی اتباع کرنی چاہیے؟ اور ہمیں کیسے پتہ چلے کہ کون اس راستے کے زیادہ قریب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔
جواب ۔ہمیں صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی چاہیے۔ آپ کی ہستی ہی اب رہتی دنیا تک دین کا تنہا مآخذ ہے۔ علماء اور دیگر تمام لوگ دین کے حوالے سے اپنے فہم کو بیان کریں گے۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس کی دلیل مضبوط ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں علماء4 کے پیش کردہ دلائل کو دیکھنا ہے اور ان کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ دلائل قرآن اور سنت کے مطابق ہیں تو ہم انہیں قبول کر لیں گے وگرنہ ہم انہیں رد کر دیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ نجات کے لیے جو امور ضروری ہیں وہ ہمارے دین میں انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں ان پر عمل کرنے کے لیے کسی عالم کی ضرورت ہے اور نہ خود کو کسی فرقے سے جوڑنے کی حاجت ہے۔ مزید یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نجات کے لیے جو امور دینی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں ان میں علماء کا کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔

 

(ابو یحییٰ)

جواب:
آپ کا فکشن اور نان فکشن ناول نگاری کی اجازت کے حوالے سے جو سوال ہے تو اس میں اگر کوئی اخلاقی سبق موجود ہو تو ایسی کہانیاں لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر مصنف ہمیں واضح طو ر پر بتا بھی دے کہ کہانی فکشن پر مبنی ہے تواس کے سچ یا جھوٹ ہونے میں کوئی شبہ بھی باقی نہیں رہتا۔اسلام میں ایک بنیادی قانون ہے کہ دنیاوی معاملات میں ہر چیز کی اجازت ہے جب تک کہ یہ حرام ثابت نہ ہو جائے۔ اور قرآن و سنت میں ہمارے علم کی حد تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے اس طرح کی چیزوں کو حرام قرار دیا جا سکے۔دوسرے سوال میں آپ نے پوچھا کہ ناعمہ کو خواب کے ذریعے سے ہدایت ملی لیکن یہ ہر کسی کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ حقیقی زندگی میں ہدایت کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر اوراپنی کتابیں بھیجی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی اور قرآن کے ذریعے سے ہم سے مخاطب ہوئے۔ یہ کیا کم عزت و شرف کی بات ہے کہ ہمارے پاس قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا کلام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر ہدایت دی ہے اور جو اس ہدایت کی پیروی کریں ان کے لیے جنت کی گارنٹی بھی ساتھ ہی دی ہے۔ قرآن ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت ہی عظیم نعمت ہے، یہ دونوں جہانوں میں ہماری کامیابی کا فارمولا ہے مگر افسوس کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔اگر آپ کو قرآن کی ہدایت کے بارے میں مزید پڑھنا ہے تو میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ کا مطالعہ کیجیے جس میں انہوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مومن کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کامیاب ہو سکے۔ 

(ابو یحییٰ)

جواب:اللہ تعالیٰ اصلاً ایک رحمان و رحیم ہستی ہیں۔ ان کا یہی تعارف قرآن مجید کراتا ہے۔ یہی تعارف سورہ فاتحہ میں ہے جو ہر نماز کا لازمی جز ہے۔ یہی ہر سورت کے آغاز پر اللہ کا تعارف لکھا ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے۔ باقی رہا وہ سوال جو آپ نے اٹھایا تو اللہ کا یہ منفی تصور کہ وہ صرف لوگوں کو جہنم میں بھیجے گا اس وجہ سے عام ہو گیا ہے کہ لوگ قرآن مجید کو درست پیرائے میں نہیں پڑھتے۔ جہنم کفر اور سرکشی کی سزا ہے۔ قرآن مجید میں جو لوگ زیر بحث ہیں وہ عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ میں سے وہ کفار اور سرکش لوگ ہیں جنھوں نے حق کو جھٹلا دیا تھا۔ جس کے بعد ان پر سزا لازم ہوگئی تھی۔ جہنم کا جو ذکر قرآن مجید میں ہے وہ انھی لوگوں کے حوالے سے ہے۔ باقی لوگوں کا فیصلہ اللہ قیامت کے دن کریں گے۔ اگر کوئی شخص آج بھی سرکش، متکبر اور بڑے جرائم کا مرتکب ہے تو وہ یہ سزا پائے گا لیکن عام لوگ بالعموم ایسے نہیں ہوتے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید اس طرح کی سزا کا تصور نہیں دیتا۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ بڑ ے کریم و حلیم ہیں۔ خاص کر جو لوگ اپنے گنا ہوں کے احساس میں جیتے ہوں ان کے لیے تو وہ بہت کریم غفور اور ودود ثابت ہوتے ہیں۔ 

(ابو یحییٰ)

جواب:منافقت اس بات کا نام ہے کہ انسان دل سے ایمان کا منکر ہو لیکن اپنے ظاہر سے اس بات کا اظہار کرے کہ گویا وہ ایک مسلمان ہے۔ اگر عقلی طور پر اسلام کو دین حق سمجھتے ہیں اور دل سے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر آپ علانیہ طور پر اس کا اقرار بھی کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی شخص خود کو منافق سمجھے۔ دین کی تعلیم یا اعتقاد پر کسی قسم کا سوال پیدا ہونا یا عملی طور پر کسی کمزوری کا ظہور ہونا منافقت نہیں ہوتا۔منافقت کی بیماری وہاں جنم لیتی ہے جہاں انسان ظاہری طور پر تو اسلام کا اقرار کرنے پر مجبور ہوتا ہے، مگر دل سے وہ حق کا منکر ہوتا ہے۔ اس طرح کا شخص اپنی منافقت کو کوئی بیماری نہیں سمجھتا وہ اسے حالات کا تقاضا سمجھتا ہے۔ چنانچہ آپ کا یہ سوال درست نہیں ہے کہ مجھے منافقت کی بیماری لاحق ہو تو اس کا کیا علاج ہے۔ منافق کو اپنا رویہ کبھی بیماری محسوس نہیں ہوتا۔ہاں بعض روایات میں منافق کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں جیسے بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے وغیرہ۔ یہ اس دورکے منافقین کی عام علامات تھیں۔ مومن صادق میں اس طرح کی چیزوں کا کوئی امکان نہیں۔ اگر ہو تو اسے پوری قوت سے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سچ بولے اور وعدہ پورا کرے۔یہ چیزیں ضعف ایمان کی علامت ہوتی ہیں۔ یہ منافقت میں اس وقت بدلتی ہیں جب آدمی پورے شعور سے اپنے غلط رویے کو درست سمجھے اور پھر اصلاح کی فکر کرنے کے بجائے گناہوں کی تاویل کرنا شروع کر دے۔ یہ منافقت ہے، اس کا علاج سوائے توبہ کے کچھ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر

(ابو یحییٰ)

جواب ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ایک ناول کے قالب میں چیزوں کو بیان کر رہا ہوں۔ ناول میں آپ کو مکالمات لکھنے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر آپ شخصیات کو زیادہ بیان نہیں کرسکتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو بھی میں اگر بیان کرتا تو پھر مکالمات لکھنے پڑتے۔ اس معاملے میں چونکہ ہمارے ہاں لوگ بے حد حساس ہیں تو اس بات کا شدید اندیشہ ہوتا کہ کوئی فتنہ پرور کوئی فتنہ نہ پیدا کر دے اور اصل مقصد فوت ہو جائے۔ اس لیے میں نے اس سے احتراز کیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت یا دیگر انبیا کی شخصیات نمایاں نہیں ہو گی۔ میں نے مرکزی کردار کا احوال لکھا ہے۔ اس لیے اس کو نمایاں کرنا پڑا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو مقام انبیائے کرام کا ہے وہ تو قیامت ہی کے دن پوری طرح نمایاں ہو گا۔ امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
***

 

(ابو یحییٰ)