پیغمبر

بائبل میں صراحت ہے کہ حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت تھی۔ اس میں ہے:
’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا: اے خداوند! میں فصیح نہیں، نہ تو پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا،بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کندہے۔‘‘ (کتاب مقدس، خروج، ۱۰:۴، اردو ترجمہ ،بائبل سوسائٹی آف انڈیا بنگلور،۱۹۷۹ )
اور تالمود میں تفصیل سے وہ واقعہ بیان کیاگیاہے جو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہونے کا سبب بناتھا، اور جس کی طرف اوپر سوال میں اشارہ کیاگیاہے۔
 تفسیر کی کتابوں میں سورہ طہ کی آیت کی تفسیر کے ضمن میں عموماً وہ واقعہ بیان کیاگیاہے کہ بچپن  میں زبان پر آگ کا انگارہ رکھ لینے کی وجہ سے حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسرائیلیات کے زیراثر یہ روایات قبول کرلی گئی ہیں۔موجودہ دور کے بعض اردو مفسرین نے حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت ہونے کا سختی سے انکارکیا ہے۔ ذیل میں ان کے اقتباسات نقل کردینا مناسب معلوم ہوتاہے:
جناب شمس پیرزادہ صاحب نے لکھاہے:
’’زبان کی گرہ سے مراد بولنے میں روانی کی کمی ہے نہ کہ لکنت۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت تھی اور یہ جو قصہ تفسیروں میں بیان ہواہے کہ حضرت موسٰی نے بچپن میں، جب کہ وہ فرعون کے زیرپرورش تھے، منہ میں انگارا ڈال لیاتھا، جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت پیداہوگئی تھی، تویہ اسرائیلیات میں سے ہے اور قابل رد ہے۔ دراصل دعوت کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے خطابت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت موسٰی اپنے اندر طلاقتِ لسانی کی کمی محسوس کررہے تھے اس لیے انھوںنے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ زبان کی اس رکاوٹ کوکہ وہ روانی کے ساتھ بات نہیں کرسکتے، دور کردے۔‘‘ (دعوت القرآن، ادارہ دعوۃ القرآن، ممبئی)
مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:
’’لکنت کی روایت تورات میں ہے۔ وہیں سے ہماری تفسیر کی کتاب میں داخل ہوئی اور پھر اس کو مستند کرنے کے لیے ہمارے مفسرین نے ایک عجیب و غریب واقعہ بھی گھڑلیا۔۔۔ قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے لکنت کا ثبوت ملتا ہو۔ وَاحلْل عْقدَۃً مِّن لِّسَانِی یَفقہْوا قَولِی  کے الفاظ میں بھی جس بات کی درخواست کی ہے وہ لکنت دور کرنے کی نہیں، بلکہ اظہار و بیان کی وہ قابلیت و صلاحیت بخشے جانے کی درخواست ہے جو فریضہ نبوت و رسالت کی ادائی کے لیے ضروری تھی۔۔۔ الغرض ہمارے نزدیک یہ لکنت کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حضرات انبیاء کو اللّٰہ تعالیٰ جس طرح اخلاقی عیوب سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح خِلقی نقائص سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی بات یہ ہے کہ قرآن میںاس روایت کی تائید کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، تاج کمپنی، دہلی:۵۔۳۹،۴۰)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت اور اس کے سبب کے طورپر جو اقعہ بیان کیاجاتاہے، دونوں کا رد کیاہے۔ ان کے نزدیک یہ باتیں بائبل اور تالمود میں بیان کی گئی ہیں۔ وہیں سے منتقل ہوکر تفسیر کی کتابو ںمیںرواج پاگئی ہیں، لیکن عقل انھیں ماننے سے انکارکرتی ہے۔ انھوں نے لکھاہے:
’’قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی (جس کا انھیں اس وقت تک اتفاق نہیں ہواتھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہوجائے گی۔ اس لیے انھوںنے دعا فرمائی کہ ’یا اللّٰہ! میری زبان کی گرہ کھول دے، تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھاسکوں۔‘ یہی چیز تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیاکہ ’یہ شخص تواپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کرسکتا‘ لَا یکادَیْبِینْ (الزخرف:۵۲) اور یہی کم زوری تھی جس کو محسوس کرکے حضرت موسٰی نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون کو مددگار کے طورپر مانگا۔ سورہ قصص میں ان کایہ قول نقل کیاگیا ہے: ’’میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے۔ اس کو میرے ساتھ مددگار کے طورپر بھیج۔‘‘ آگے چل کر معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسٰی کی یہ کم زوری دور ہوگئی تھی اور وہ خوب زوردار تقریر کرنے لگے تھے۔ چنانچہ قرآن میںاور بائبل میں ان کی بعد کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمالِ فصاحت وطلاقتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔‘‘

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب:(1) انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی عصمت پر اجماع امت ہے۔ تمام انبیا 4 کفر و شرک، کبائر و صغائر سے پاک ہیں۔
(2) جی ہاں صحابہ کرام معیار حق ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اقوال و افعال حق و باطل کی کسوٹی ہیں، ان حضرات نے جو فرمایا یا جو دینی کام کیا وہ ہمارے لیے مشعل راہ، حجت اور ذریعہ فلاح ہیں۔ 
(3) انبیا علیہم السلام کی عصمت اور صحابہ کرام کا معیارِ حق ہونا اہل سنت والجماعت کے اجماعی مسائل میں سے ہے، ان میں سے کسی ایک چیز کا منکر اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:اللہ تعالیٰ نے نبوت کا ادارہ ایک خاص مقصد کے لیے بنایا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک بے کم و کاست پہنچ جائے۔ یہ پیغام عام طور پر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں ہوتا اور وہ اسے سننا ہی نہیں چاہتے۔ اب اللہ تعالیٰ کو اس کار عظیم کے لیے انسانوں میں سے ہی افراد کا انتخاب کرنا تھا۔ دوسری طرف عام انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے جو دنیا بنائی ہے اس میں ان طبقات کو (جن کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے) ہمیشہ کمزور سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں یہ ضروری تھا کہ نبی اس شخص کو بنایا جائے جس کے مقام اور حیثیت کی بنا پر لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ تو ہو جائیں۔ اگر یہ منصب کسی کمزور طبقے کے فرد کو دیا جاتا تو کوئی اس کی بات ہی نہ سنتا۔ جس کے نتیجے میں وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہی نہ ہو پاتا جس کے لیے نبوت کا ادارہ بنایا گیا ہے۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ فوجیوں کو جنگوں میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے جسمانی طور پر بہترین فٹنس کے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اب ایک شخص یہ اعتراض کرے کہ فوج میں معذوروں کو نہ لینا عدل کے خلاف یا معذوری کے خلاف امتیازی سلوک ہے تو یہ اعتراض درست نہیں ہوگا۔ فوج کا میرٹ اور عدل ہی یہ ہے کہ وہاں جسمانی طور پر فٹ لوگ لیے جائیں۔
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج میں رائج انھی امتیازات کے خاتمے کے لیے انبیاء کو بھیجا ہے۔ ان کی تعلیم ہی یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ کل قیامت کی اصل زندگی میں یہ لوگ ہی ہیں جو سب سے زیادہ مقام پائیں گے۔ ہاں آج کی امتحان کی دنیا میں کوئی چھوٹا ہے اور کوئی بڑا، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی مرد ہے اور کوئی عورت۔ لیکن یہ سب امتحان کے لیے ہے نہ کہ خدا کا ابدی فیصلہ۔ اس کا ابدی فیصلہ کل قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور وہاں وہ عزت پائے گا جو تقوی والا ہوگا۔امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
عورتوں کو ماہواری کی تکلیف کیوں
آپ کے طویل ای میل میں مرکزی سوال ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہر ماہ ما ہواری کے ایام اور زچگی کی تکلیف میں کیوں ڈالا۔ پھر یہ کہ اس تکلیف میں جسمانی طور پر ڈالنے کے ساتھ نماز روزہ نہ کرنے کا حکم دے کر اسے ایک روحانی اذیت میں بھی ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا۔ جبکہ وہ اس کے بغیر بھی پورا نظام بنا سکتے تھے۔
اس بات کے جواب میں پہلی اور اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کو دی گئی کوئی سزا نہیں ہے۔جس طرح کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہورہا ہے۔ نہ ہی یہ بات ہے کہ اللہ نے صرف عورتوں پر مشقت ڈالی ہے اور مرد کوئی ان کے لاڈلے ہیں ان کو ہر طرح کی مشقت سے بری رکھا ہے۔دیکھیے یہ نسوانی تکالیف اس مجموعی خدائی ا سکیم کا حصہ ہیں جس کے تحت امتحان کی اس دنیا میں کوئی نہ کوئی تکلیف ہر کسی کو لاحق ہوتی ہے۔ عورتوں کو اگر ایام و زچگی کی تکلیف لگی ہے تو مردوں کو ہر دور میں اپنے خاندان کی کفالت اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست جسمانی اور ذہنی مشقت جھیلنے کی مشقت لگادی گئی ہے انھی مشقتوں کی وجہ سے مجموعی طور پر ان کی اوسط عمر عورتوں سے ہمیشہ کم رہی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جان جانے ، زخمی ہوجانے ، حادثات کا شکار ہوجانے جیسے اندیشوں سے نہ صرف دوچار رہتے ہیں بلکہ تازیست عورتوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ، زیادہ درد اور زیادہ اسٹریس برداشت کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ جو مرد اس مشقت کو مشقت سمجھتے ہیں ، ان کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے مگر جو مرد اسے خدائی اسکیم کا حصہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔اس لیے اصل مسئلہ انداز فکر کا ہے ، خدائی نظا م میں کسی خامی یا کمزوری کا نہیں۔ اگر حیض و زچگی کے مراحل ایسے ہی ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہوتے تو اس دنیا میں کوئی خاتون زندہ نہ ہوتی اور سب اس تکلیف کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو چکی ہوتیں۔تاہم اس کے باوجود ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے ؟ کیا ساری تکالیف ختم کر دی جائیں ؟ایسا ہوا تو پھرآپ کا امتحان بھی نہیں رہے گا۔ اور امتحان نہیں تو پھر جنت ملنے کا امکان بھی نہیں رہے گا۔
آپ کے سوال سے دوسری بات یہ عیاں ہے کہ آپ انسانی سماج میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیرمساویانہ سلوک پر ناخوش ہیں۔ آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ یہاں بارہا خواتین کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے۔ مگر اس میں اصل قصور انسانوں کا ہے۔ انسان ہر کمزور کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔خود خواتین بھی جب طاقت کے مقام پر آتی ہیں تو دوسرے کمزوروں کے ساتھ اکثر یہی سلوک کرتی ہیں۔ یہی اس دنیا کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دنیا بنا کر ایسے ہی لوگوں کو ڈھونڈرہے ہیں جو اختیار کے باوجود زیادتی نہ کریں اور جن پر زیادتی ہو وہ منفی سوچ کا شکار ہونے کے بجائے صبر سے کام لیں۔ چنانچہ دنیا کی اس خرابی میں بھی یہی حکمت ہے کہ اس خرابی کے بغیر وہ اعلیٰ انسان نہیں مل سکتے جو جنت میں بسائے
جائیں جہاں کوئی حیض ہو گا نہ دیگر تکالیف۔ آپ کے سوال کا یہ پہلو بھی جواب طلب ہے کہ خواتین کو اس میں نماز روزہ سے کیوں منع کیا گیا ہے۔دیکھیے یہ ہدایت ایک ڈسپلن کا حصہ ہے۔ لیکن اس ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے بھی خواتین خود کو روحانی طور پر اللہ سے قریب کرسکتی ہیں۔ سب سے بڑ ی اور بنیادی عبادت اللہ کی یادہے۔ اس پران دنوں میں کس نے پابندی لگارکھی ہے۔ اللہ کو یاد کرتی رہیں آپ کی روحانیت بالکل اسی سطح پر رہے گی۔خلاصہ یہ ہے کہ ہم جس امتحان میں ہیں اس میں ہر طرح کے حالات میں ہم کو اپنے انداز فکر کو درست رکھنا ہے۔ ایسا کریں گے تو ہمیں کوئی چیز خراب نہیں لگے گی۔ انداز فکر منفی کر لیں گے تو کوئی چیز بھی ہمیں ٹھیک نہیں لگے گی۔
آخر میں ایک واقعہ سن لیجیے جس میں اس طرح کے سارے سوالات کا جواب اللہ کے ایک جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ نے دے دیا تھا۔ ان سے ایک دفعہ شیطان نے اسی نوعیت کا ایک سوال کیا تھا۔ یعنی خدا تو جو چاہے کرسکتا ہے آپ خدا سے بات کر کے اس سے اپنی مرضی کا معاملہ کیوں نہیں کراتے۔ آنجناب نے جو جواب دیا اسے یاد کر لیجیے۔ یہ ہر مسئلے کی کنجی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ خدا نے یہ دنیا ہمارے امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے نہیں بنائی کہ ہم خدا کی حکمت اور قدرت کو چیلنج کر کے خداکا امتحان لینا شروع کر دیں۔

(ابو یحییٰ)

جواب ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ایک ناول کے قالب میں چیزوں کو بیان کر رہا ہوں۔ ناول میں آپ کو مکالمات لکھنے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر آپ شخصیات کو زیادہ بیان نہیں کرسکتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو بھی میں اگر بیان کرتا تو پھر مکالمات لکھنے پڑتے۔ اس معاملے میں چونکہ ہمارے ہاں لوگ بے حد حساس ہیں تو اس بات کا شدید اندیشہ ہوتا کہ کوئی فتنہ پرور کوئی فتنہ نہ پیدا کر دے اور اصل مقصد فوت ہو جائے۔ اس لیے میں نے اس سے احتراز کیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت یا دیگر انبیا کی شخصیات نمایاں نہیں ہو گی۔ میں نے مرکزی کردار کا احوال لکھا ہے۔ اس لیے اس کو نمایاں کرنا پڑا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو مقام انبیائے کرام کا ہے وہ تو قیامت ہی کے دن پوری طرح نمایاں ہو گا۔ امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
***

 

(ابو یحییٰ)

جواب:قرآن پاک کو کوئی بھی منسوخ نہیں کر سکتا پیغمبر بھی نہیں کر سکتا ۔ قل ما یکون لی ان ابد لہ من تلقاء نفسی ۔ ’’کہہ دیجئے کہ میں اپنی طرف سے اس میں ایک آیت بھی تبدیل نہیں کر سکتا ‘‘البتہ سنت کے احکام ایک حکمت کی وجہ سے تدریج کے اصول کے اعتبار سے حضورﷺ نے بعض جگہ منسوخ فرمائے ہیں ۔بعض احکام شروع میں دیئے گئے بعد میں انکو منسوخ کر کے دوسرا حکم دیا گیا۔ تدریج قرآن کے احکام میں بھی ملحو ظ رکھی گئی اور سنت میں بھی رکھی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں کسی تبدیلی کا حق ہے وہ تو خود قرآن میں رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کر دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ مجھے اس کتاب کی ایک آیت میں بھی ذرہ برابرتبدیلی کرنے کا اختیار نہیں لیکن سنت کے معاملے میں حضور اکرم ﷺ نے تدریج سے کام لیتے ہوئے بعض احکام میں تقدیم و تأخیر کی ہے اور بعض احکام میں تخصیص و تقیید فرمائی ہے ۔ 
 

()

جواب : قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خاندان کا سربراہ مرد ہے۔ سو اگر خاندان اور گھر کا سربراہ مرد ہے تو پھر قوم کی سربراہی عورت کس طرح کر سکتی ہے؟جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا سربراہی کی صورت میں عورت کو امامت بھی کرنی پڑے گی۔ اگر ایک عورت امام ہے اور مقتدی مرد ہیں تو پھر ارکانِ نماز یعنی رکوع و سجود کے دوران لازماً نمازیوں کو پریشانی ہو گی۔ ایک پیغمبر کو عام لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عورت پیغمبر ہوتی تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا۔ کیونکہ اسلام مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط ہی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت پیغمبر ہو اور وہ حاملہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ کچھ عرصے تک وہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکے گی۔ ایک مرد کے لیے ایک ہی وقت میں بہ طور باپ اور بہ طور پیغمبر اپنی ذمہ داریاں نبھانا آسان تھا جب کہ عورت کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اگر پیغمبر سے آپ کی مراد کوئی مقدس اور متبرک ہستی ہے تو پھر ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بہترین مثال جو میں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں وہ حضرت مریم کی ہے۔اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ کی بھی اللہ نے تعریف کی ہے۔ اسلام میں حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسی برگزیدہ خواتین بھی موجود ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : حضورﷺ کی شادیاں اللہ کی طرف سے ایک خصوصی اجازت تھی۔اگر آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شادیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ شادیاں یا تو معاشرتی اصلاحات کے لیے کی گئی تھیں اور یا سیاسی وجوہات سے۔ اپنی خواہش کی تسکین کے لیے یہ شادیاں ہرگز نہیں کی گئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عمر 25 سال تھی۔ جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کا انتقال ہوا۔اپنی عمر کے 53ویں سال سے 56 سال کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح فرمائے۔ اگر ان شادیوں کی وجوہات جنسی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانی میں زیادہ نکاح فرماتے۔ کیونکہ علم طب تو یہ کہتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جنسی خواہش گھٹتی چلی جاتی ہے۔صرف دو نکاح ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے فرمائے۔ حضرت خدیجہ کے ساتھ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ۔ باقی تمام نکاح حالات کے پیش نظر اور سیاسی معاشرتی اصلاح کے لیے کیے گئے تھے۔ صرف دو امہات المؤمنین کے علاوہ باقی سب کی عمریں 36 اور 50 سال کے درمیان تھیں۔ ہر نکاح کی وجوہات اور اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا معاملہ دیکھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا۔ اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات بہت خراب تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ اس کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کر لیا تو مسلمانوں نے قبیلہ بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو کس طرح قید رکھ سکتے ہیں؟ اس واقعے کے بعد اس قبیلہ کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے ہو گئے۔اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا قبیلہ نجد کے سردار کی بہن تھیں۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے ایک 70 افراد پر مشتمل وفد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کے شدید ترین مخالفین میں شمار ہوتا تھا لیکن اس شادی کے بعد اس قبیلہ نے مدینے کو اپنا مرکز اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لیا۔اْم المؤمنین حضرت اْم حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کے سردار ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس نکاح نے فتح مکہ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔اْم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک اہم یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے نکاح کر لینے کے بعد مسلمانوں کے تعلقات یہودیوں کے ساتھ خوشگوار ہو گئے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور معاشرتی وجوہات کے پیش نظر یہ نکاح فرمائے۔ حضرت زینب کے ساتھ شادی یہ غلط تصور ختم کرنے کے لیے کی گئی کہ متبنٰی اصل بیٹے کی طرح ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )