وہ کئی برسوں سے برطانیہ میں مقیم تھے اور وہاں امام مسجد کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ فجر اور ظہر کے درمیانی وقفے میں وہ کچھ اورمحنت بھی کرتے اور اس کے لیے روزانہ اپنی مسجد کے نزدیکی بس سٹاپ سے سوار ہو کر اپنی ڈیوٹی پر جاتے تھے اور ظہر سے قبل بس ہی کے ذریعے واپس لوٹ آتے تھے ۔ چونکہ وقت ایک ہی تھا اس لیے عام طو رسے جاتے اور آتے ہوئے ایک ہی بس ملتی تھی جس کے ڈرائیور سے بھی ان کی سلا م دعا ہو گئی تھی۔ایک دن وہ مسجدواپسی کے لیے بس میں سوار ہوئے ، ٹکٹ لیا اور ریز گاری واپس لیتے ہوئے سیٹ پر آ بیٹھے۔ سکے جیب میں ڈالتے وقت انہیں اندازہ ہوا کہ ڈرائیو ر نے غلطی سے بیس پینس زیادہ دے دئیے ہیں۔انہیں فورا ً خیا ل ہوا کہ یہ بیس پینس انہیں واپس کرنے چاہییں۔لیکن ساتھ ہی خیا ل ہو اکہ اس میں میری کون سی غلطی ہے ؟ ڈرائیور نے اپنی مرضی سے دیے ہیں۔ اور اگر میں نے یہ بیس پینس نہ بھی واپس کیے تو کمپنی کو کون سا نقصان ہو جائے گا۔ یہ تو روزانہ ہزاروں پونڈ کماتے ہیں، ایک میرے بیس پینس نہ دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ میرے لیے اللہ کا انعام ہے ۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے وہ بیس پینس جیب میں ڈال لیے ۔لیکن دل میں خیر او ر شر کی جنگ جاری رہی ۔ واپس کروں یا نہ کروں۔ اسی کشمکش میں ان کا سٹاپ آ گیا۔ بس سے اترتے اترتے خیر کا پہلو غالب آ گیا اور انہوں نے بس سے نیچے رکھا ایک قدم واپس لیا اور ڈرائیور سے کہا ، جنا ب معاف کیجے گا یہ بیس پینس آپ نے غلطی سے مجھے زیادہ دے دیے تھے ، یہ واپس لے لیجیے ۔ڈرائیور سے ہنس کر کہا ، جناب میں نے یہ جان بوجھ کر زیادہ دیے تھے تا کہ دیکھوں کہ مسلمانوں کی مسجد کے امام کارویہ کیا ہوتا ہے ؟ اس نے مزیدکہا کہ میں نے اسلام کی کتابی تحقیق مکمل کر لی تھی اور آج کل میں مسلمانوں کے رویے کا مطالعہ کر رہاتھا تا کہ اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کافیصلہ کروں۔ امام مسجد کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں گرتے گرتے بچا۔ اور نیچے اتر کر میں ایک کھمبے کاسہارا لے کر کتنی ہی دیر کھڑے کا کھڑا رہ گیا ۔اور کتنے ہی دن میں یہ دعا کرتا رہا کہ یا اللہ مجھے معاف کر دینا، میں اسلام کو بیس پینس میں بیچنے لگاتھا۔یہ واقعہ سن کر میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ امام صاحب کو تو اللہ نے بچا لیا لیکن نہ جانے ہم میں کتنے ایسے ہوں گے جو اپنے اسلام کو بیس بیس پیسے میں بیچ دیتے ہو ں گے یا بیچنے کے لیے تیار رہتے ہوں گے ۔