اس کرہ ارض پر ایسے بھی لوگ بستے ہیں جو خدائے بزرگ و برتر کے وجود سے انکاری ہیں ۔ ان لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے یونہی تھی اور ہمیشہ یونہی چلتی رہے گی یعنی نہ اس کی کوئی شروعات ہے اور نہ کوئی اختتام۔ ایسا عقیدہ رکھنے والے افراد کو عرف عام میں Atheist یا منکر کہا جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ Atheist بہ نسبت کفار کے اسلام سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ یہ کلمہ طیبہ کے پہلے حصے ‘‘لا الہ’’ یعنی ‘‘نہیں ہے کوئی خدا’’ کو تومانتے ہیں ۔ اب اسلام کے ماننے والوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دلائل کے ذریعے انہیں کلمہ طیبہ کا اگلا حصہ ‘‘الا اللہ’’ یعنی ‘‘سوائے اللہ کے’’ ماننے پر مجبور کر دیں اور وہ برملا کہہ اٹھیں ‘‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ یعنی ‘‘نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔’’
الحمدللہ قرآن پاک ہر دور کی جدید ترین کتاب ہے ۔ یہ کتاب دنیا کے تمام انسانوں کے لیے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے جب قرآن پاک ہمارے پیارے نبیﷺ پر نازل ہوا تو وہ دور ادب اور شاعری کا دور تھا۔ اس دور میں بھی اور آج بھی عربی زبان جاننے والے افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن پاک سے بہتر عربی زبان وجود میں نہیں آ سکی۔
وقت کے ساتھ جیسے جیسے ادوار بدلتے گئے اسی طرح انسان کے مزاج میں بھی واضح تبدیلی رونما ہوتی گئی اور انسان نے ادب اور شاعری سے آگے بڑھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھا ۔ تعجب یہ ہے کہ آج کے جدید سائنسی دور میں بھی قرآن اتنی ہی کامیاب اور موثر کتاب ہے جتنی کہ آج سے چودہ سو سال پہلے تھی ۔ آج بھی جدید سائنس کی معلومات رکھنے والے افراد جب اس کتاب کو پڑھتے ہیں تو یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کتاب کا لکھنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ جس نے اس کائنات کو تخلیق کیاہو کیونکہ یہ کتاب چودہ سو سال پہلے نازل ہونے کے باوجود آج کے جدید ادوار اور آنے والے وقت کے بارے میں ذکر کرتی ہے۔
قرآن پاک اور جدید سائنسی علوم کی روشنی میں ہم اللہ سبحانہ و تعالی کے وجود ، اس کے اس کائنات کا خالق و ما لک ہونے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ خیال مضبوطی سے جڑ پکڑے ہوئے ہوتا ہے کہ اگر واقعی اللہ ہے توہمارے سامنے کیوں نہیں آتا ۔ اگر اللہ ہمیں نظر آئے اور ہمیں اپنی عبادت کرنے کا حکم دے تو ہم یقینا سربسجود ہوجائیں گے۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ Seeing is believing یعنی ہم اس چیز کے وجود کو مانتے ہیں جو ہمیں نظر آئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی نظر کائنات کی ہر شے کو نہیں دیکھ سکتی لیکن ان چیزوں کی موجودگی کی علامات اور نشانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں وہ شے یقینا موجود ہے جس کی بدولت کوئی بھی نظام قائم و دائم ہے اور چل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر الیکٹرونک مائیکروسکوپ کی ایجاد سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے 1808 میں J. Dalton نے Theory of Atom پیش کی تھی ۔ یہ نظریہ صرف ان نشانیوں پر مبنی تھا جو J. Dalton کے سامنے واضح ہوئی تھیں کیونکہ اس دور میں کوئی انسان ایٹم کو دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ مختلف عناصر اور ان میں موجود لاتعداد ایٹمز کے بارے میں جاننا ہی دراصل جدید سائنسی علوم کی بنیاد ہے۔
اسی طرح Gregor Mendel جسے ہم Father of Genetics کے نام سے جانتے ہیں 1866 میں کچھ قوانین پیش کرتا ہے جس کے مطابق انسان ، جانور اور پودوں کے اندر موجود تمام خصوصیات کی اگلی نسل میں منتقلی کے ذمہ دار چند factors ہیں جنہیں ہم آج Genes کے نام سے جانتے ہیں ۔ جین ہی وہ اکائی ہے جو انسان، جانور اور پودوں میں وراثت کے انتظام کو سنبھالتی ہے اور انسان سے انسان ، جانور سے جانور اور پودوں سے پودے ہی وجود میں آتے ہیں ۔ مختلف تجربات اور الیکٹرونک مائیکروسکوپ کی ایجاد سے ڈی این اے اور ان میں موجود جینز کا ہونا Mendel کے نظریات کی تصدیق ہوئی۔ جینز اور بیکٹیریا جب ہمیں نظر نہ آتے تھے تو کیا وہ موجود نہ تھے ؟یقینا تھے مگر یہ ہمارے علم اوروسائل کی کمی تھی کہ ہم انہیں دیکھنے سے محروم تھے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز یا ہستی جو موجود ہو وہ ہمیں نظر بھی آئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ابھی ہماری نگاہیں اس قابل نہ ہوں یا ہمارے پاس وہ وسائل موجود نہ ہوں کہ ہم اس ہستی یا شے کو دیکھ کر اسکی موجودگی کی تصدیق کرسکیں۔
اگر اللہ سبحانہ و تعالی چاہتے تو تمام انسان فرشتوں اور دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کو جانتے ، مانتے اور اس وحدہ لا شریک کی عبادت کرتے لیکن انسان کا درجہ دوسری مخلوقات کی نسبت اونچا ہے اور انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اسی لیے انسان کو سب سے مشکل امتحان میں ڈالا ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کی عبادت کرے اور حقیقت میں وہی انسان اشرف المخلوق کہلانے کے لائق ہے جو کائنات میں اپنے خالق کی نشانیوں کو دیکھ کر اپنے پیدا کرنے والے پر ایمان لے آئے اور صرف اسی کو عبادت کے لائق سمجھے ۔ یہ دنیا دراصل آخرت کے لیے ایک امتحان ہے اور جو بندہ اپنے تقوی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر اس امتحان میں کامیابی حاصل کرے گا وہی اللہ سبحانہ و تعالی کے قرب کا حقدار ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ تب وہ اس قابل ہو سکے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدا ر کر سکے۔ انشاءاللہ