کچھ روز قبل بھارتی ڈرامہ نگار ‘‘ایکتا کپور’’ کے حوالے سے ایک ای میل آئی جس کے مطابق ایکتا کپور نے ہر مسلمان کے گھر میں ‘‘مندر کی گھنٹی بجوانے اور پوجا پاٹ کروانے’’ کی قسم کھائی تھی جو اس نے پوری کر لی۔ یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ، حقیقت یہی ہے کہ آج تقریبا ہر دوسرے مسلمان کے گھر میں ‘‘اسٹار پلس’’ چلتا ہے اور کم و بیش ہر ڈرامے میں مندر کا ماحول اور پوجا پاٹ دکھائی جاتی ہے۔ تمام افراد انتہائی انہماک اور ‘‘ادب’’ کے ساتھ ان کی پوجا پاٹ دیکھتے اور کفریہ بھجن سنتے ہیں ۔ یہ سوچے بغیر کہ ان کفریہ کلمات سننے کا ایمان و اخلاق پر کیا اثر ہو گا۔ ان ڈراموں میں معاشرتی برائیوں کو ‘‘خوبصورت دلہن’’ کے روپ میں پیش کرنا بنیادی عنصر ہے جو دیکھنے والے کو ‘‘واہ واہ ’’ کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ گھر کے افراد ان ‘‘دلہنوں’’ کے گرویدہ ہو چکے ہیں۔ قیامت یہ ہے کہ ڈراموں سے منع کرنے پر بات جھگڑے تک جا پہنچتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ایک ‘‘رام چندر’’ اور ‘‘عبدالرحمان’’ کی شادی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ مہندی ، مایوں ، شادی ہو یا ولیمہ ، سٹیج بنے گا تو ڈرامے والا، سنگھار اور ملبوسات بھی ڈرامے والے ، گانا بجانا سب ہندؤانا اور رسموں کی دھوم دھام بھی ڈرامے والی۔ جب سب کچھ ڈرامے کا ہو گا تو ‘‘اسلام اور سنت رسول اکرمﷺ’’ کیا ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد زندگی کی ناچاقیوں کا حل ‘‘اسلام’’ میں ڈھونڈا جاتا ہے ، حل کیسے نکلے گا جب ‘‘اسلام’’ بنیاد ہی نہیں تھا؟ مسلم معاشرے کے بانی رسول اکرمﷺ نے فرمایا تھا: ‘‘جب تم حیا نہ کرو تو جو تمہارا جی چاہے کرو۔’’ آج مسلمان رام چندر کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں: اب ہم حیا نہیں کریں گے بلکہ جو ہمارا دل چاہے گا وہی کریں گے اور ‘‘روزانہ’’ کریں گے۔