واؤ سگنل اور صورِ اسرافیل
ریحان احمد یوسفی
دورِ جدید میں سائنس نے کائنات کی جو وسعتیں دریافت کی ہیں ، وہ انسانی تصور سے زیادہ وسیع ہیں۔ اس بنا پر سائنسدانوں اور دیگر سوچنے والے لوگوں کو یقین ہے کہ زمین کے علاوہ بھی اس کائنات میں کہیں نہ کہیں زندگی ضرور پائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دھرتی پر زندگی ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ یہ ارتقا کسی نہ کسی شکل میں کائنات میں موجود کھرب ہا کھرب ستاروں اور ان کے طفیلی سیاروں میں بھی جاری ہے۔ لہٰذا کہیں نہ کہیں زندگی اتنی ترقی یافتہ ضرور ہو چکی ہو گی کہ ہم ان سے رابطہ کرسکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے دو قسم کے اقدامات کیے۔ ایک یہ کہ زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں متعدد خلائی جہاز بھیجے گئے۔ ان میں سن 1977 میں بھیجے جانے والے دو خلائی جہاز وائجر 1 اور وائجر 2 نمایاں ہیں۔ ان دونوں میں اہلِ زمین سے متعلق بہت سی معلومات، تصویروں اور آوازوں کی شکل میں مہیا کر دی گئی تھیں۔ اس معلومات کو Voyager Golden Record کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی خلائی مخلوق کو یہ جہاز مل جائیں تو وہ اہل زمین کے بارے میں جان سکیں۔دوسرا کام یہ کیا گیا کہ بیرونی خلا سے آنے والے کسی متوقع ریڈیو سگنل کو ریکارڈ کرنے کا بڑ ے پیمانے پر اہتمام کیا گیا۔ اس تمام اہتمام کے باوجود ابھی تک سائنسدانوں کو زمین کے علاوہ زندگی کے آثار کی تلاش میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس سلسلے کی واحد پیش رفت یہ تھی کہ 15 اگست 1977 میں سائنسدان بیرونی خلا سے آنے والا ایک ریڈیو سگنل موصول کرنے میں کامیاب ہوگئے جسے Wow! signal کا نام دیا گیا۔ اس سگنل نے اْس زمانے میں سائنسدانوں اور میڈیا میں زبردست ہلچل پیدا کر دی تھی تاہم اس سلسلے میں مزید کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور یہی خیال کیا گیا کہ یہ ریڈیو سگنل کسی خلائی مخلوق کی موجودگی کی علامت نہیں بلکہ کوئی زمینی سگنل ہی کسی اجرامِ فلکی سے منعکس ہوکر لوٹ آیا ہے۔
زمین سے باہر زندگی کی تلاش دراصل انسان کے اس احساس کا نتیجہ ہے کہ وہ اس وسیع و عریض ڈھنڈار اور ویران کائنات میں زمین پر زندگی کی استثنائی موجودگی کی کوئی توجیہ نہیں کرپاتا۔ جدید دور کا باشعور انسان خالقِ کائنات کی حیثیت سے خدا کا انکار کر چکا ہے۔ اس کے بعد اس دھرتی پر زندگی کی جو رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ اسے بخت و اتفاق کی کارستانی سمجھ کر ارتقا کے بظاہر سائنسی لیکن در حقیقت ایک تصوراتی نظریے کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ تاہم زمین پر زندگی اپنے ظہور اور بقا کے لیے جتنے عوامل کی محتاج ہے ، ارتقا کا نظریہ کسی طور ان کی توجیہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ درحقیقت ارتقا کے ذریعے سے کائنات میں اپنے وجود کی توجیہ کرنا خود فریبی کی سب سے زیادہ نمایاں مثال ہے لیکن آج کا باشعور انسان خود کو مسلسل یہ فریب دیے جا رہا ہے۔ یہ ایسا ہی فریب ہے جیسا زمانہ قدیم کے انسان نے غیر اللہ کو خدا کا شریک سمجھ کر کھایا تھا۔ ہزاروں برس تک انسان سورج، چاند، ستاروں ، جن و ملک، انبیا و اولیا اور بادشاہوں کو خدا کا شریک سمجھ کر پوجتا رہا اور انہیں اپنی محبت، عبادت اور دعا و زاری کا مرکز بنائے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمانہ قدیم میں مسلسل انبیا و رسل کو بھیجا اور اپنی کتابوں کو نازل کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور نہ کسی کے ہاتھ میں کوئی نفع و ضر ر ہے۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی دعوتی جدوجہد کے نتیجے میں شرک علمی طور پر شکست کھا گیا، مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کی غفلت کی بنا پر آج ایک طرف شرک دنیابھر اور خود مسلمانوں میں پھیل رہا ہے اور دوسری طرف اعلیٰ شعور رکھنے والے انسان خدا کو ماننے کے بجائے خلا میں زندگی کی تلاش میں اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔آج کا جدید انسان کئی عشروں سے زمین سے باہر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے۔ مگر کوئی اسے یہ بتانے والا نہیں کہ سب کو زندگی دینے والا الحی و القیوم خداوند صدیوں سے اس زمین کے حکمران انسانوں میں بندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے۔ آج کا جدید انسان آسمان سے آنے والے کسی ریڈیائی پیغام کا انتظار کر رہا ہے ، مگر کوئی اسے یہ بتانے والا نہیں کہ چودہ سو برس قبل آسمان نے ہزاروں آیات پر مشتمل اپنا مفصل پیغام انسانوں تک پہنچادیا ہے۔ آج کا جدید انسان کائنات کی وسعت دیکھ کر حیرت زدہ اور اس کی مقصدیت سمجھنے سے قاصر ہے ، مگر کوئی اسے یہ بتانے والا نہیں کہ یہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے کہ غیب میں رہ کر بندگی کرنے والوں کو خدا عنقریب یہ کائنات اور اس کی بادشاہی انعام کے طور پر عطا کر دے گا۔ آج کا جدید انسان خدا کا منکر ہو چکا ہے اور زبانِ شعر سے خدا کو انسان کی تخلیق قرار دیتا ہے :
خدا کو اہلِ جہاں جب بنا چکے تونیاز
پکار اٹھے خدا نے ہمیں بنایا ہے
مگر کوئی نہیں جو خدا کے حضور اس گستاخی پر تڑپ اٹھے۔ کوئی نہیں جو خدا کی عظمت، اس کی قدرت، اس کی صناعی اور اس کی رحمت دنیا تک پہنچانا اپنی زندگی کا مقصد بنالے۔ کوئی نہیں جو توحید و آخرت اور ایمان و اخلاق کے لائے ہوئے انبیاے کرام کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کر لے۔ آج اگر ہیں تو وہ مسلمان ہیں جنھیں خود نہیں معلوم کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے۔ آج اگر ہیں تو وہ مسلمان ہیں ، نبی کریم کے اخلاقِ عالیہ سے جن کے کردار کو کوئی مناسبت نہیں۔ آج اگر ہیں تو وہ مسلمان ہیں جن کے نزدیک غیر مسلموں سے اپنی زمینیں چھڑ انا اور ان کو سیاسی شکست دینا زندگی کا سب سے بڑ ا مقصد ہے۔ آج اگر ہیں تو فرقہ واریت، اکابر پرستی اور قبر پرستی کے شکار مسلمان ہیں جو بظاہر اللہ اور رسول کا نام لیتے ہیں مگر ان کے نزدیک اپنا فرقہ، اپنے اکابرین اور اپنے بزرگ ہی معیارِ حق ہیں۔ آج اگر ہیں تو دنیا پرستی، منافقت اور ہوسِ دنیا کے شکار مسلمان ہیں جو کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں ، کرتے وہ ہیں جس کا حکم نہیں ، اْس کام کا کریڈٹ لیتے ہیں جو کیا ہی نہیں اور پھر اپنی پاکیزگیء نفس بگھار کر خود کو خیر الامم اور امامتِ عالم کے مناصب کا حقدار سمجھتے ہیں۔مگر اب سب کچھ بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں برس سے جاری آزمائش کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انسانیت کے ہر شخص کو یہ بتانے کا وقت آ گیا ہے کہ مہلتِ عمل ختم اور جزا سزا شروع ہورہی ہے۔ شیطان اور اس کے حواریوں کو نیست و نابود کرنے کا وقت آ رہا ہے۔ خدا کا یہ پیغام انسانیت تک پہنچانا، یہی خدا کی جنگ ہے۔ اگر مسلمان اپنے فرقوں کی خدمت کرنے ، اپنے اکابرین کی عظمت بیان کرنے اور اپنی سیاسی اور قومی جنگیں خدا کے نام پر لڑ نے میں مصروف ہیں تو انھیں اپنے یہ کام مبارک ہوں۔ خدا اپنی جنگ خود لڑ ے گا۔ اپنے نام نہاد نام لیواؤں کے بغیر لڑ ے گا۔ اس کے فرشتے نصرتِ الٰہی کے تاج لے کر زمین پر اتریں گے اور ہر اس شخص کے سر پر یہ تاج رکھ دیں گے ، توحید جس کی زندگی کا مشن ہو گا۔ انذارِ قیامت جس کی زندگی کا مقصد ہو گا۔ ایمان و اخلاق جس کی دعوت ہوں گے۔ فرقہ واریت اور اکابر پرستی سے جس کا دامن پاک ہو گا۔ منافقت اور دو عملی کے نقاب سے جس کی زندگی محفوظ ہو گی۔ رسول کریم کی سیرت و اخلاق جس کی زندگی ہوں گے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس دھرتی کے ہر خشک و تر، ہر مرد و زن اور ہر گورے کالے اور زرد و سرخ انسان تک خدا کا پیغام پہنچائیں گے۔ جس روز یہ کام پورا ہو گیا اْس روز انسانیت کے پاس کوئی واؤ سگنل نہیں آئے گا۔ اس روز اسرافیل کے صور کا سگنل آئے گا۔ زندگی کے آثار ڈھونڈنے والے اپنی آنکھوں سے الحی و القیوم خداوند کو دیکھ لیں گے۔ یہی دن فیصلے کا دن ہو گا۔ یہی دن قیامت کا دن ہو گا۔