من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوا؟
چودھری آر کے عادل صاحب (رام کرشن لاکڑا)
سوال : آپ اپنا پریچے (تعارف ) کرائیں ؟
جواب : میرا پرا نام رام کرشن لاکڑاہے ، میں دہلی نجف گڑھ کے علاقے کی ہندو جاٹ فیملی سے تعلق رکھتا ہوں، میرے باباجی ہمارے گاؤں کے پردھان اور زمینداروں میں سے ہیں ۔ہمارا گاؤں ایک زمانہ پہلے روہتک ضلع ہریانہ میں تھا اب دہلی میں ہے ۔ میرے پتاجی کا انتقال میرے بچپن میں ہوگیا تھا، میں آج کل دہلی میں پراپرٹی ڈیلرہوں۔ یوں تو میں اس سنسار میں ۲۷؍ستمبر ۱۹۵۹ ء کو آگیا تھا، مگر میرا دوسرا جنم۲۰۰۴ کو ہوا۔
سوال : کیا مطلب؟
جواب : میں اپنے پڑوس کی مسجد کے مولانا صاحب سے بھی کہہ رہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ پہلے جنم کے ٹھیک ۴۵ سال بعد میں نیا جنم لیا اور دوبارہ جنم کے عقیدے سے توبہ کی، میں نے ۲۷؍ستمبر پیر کے دن ساڑھے سات بجے دن چھپنے کے بعد مولانا صاحب کے ہاتھ پر پھلت میں ان کے گھر کے اوپر والے کمرہ میں کلمہ پڑھ کر اپنی نئی اسلامی زندگی شروع کی، اس طرح میری سچی عمر آج ۱۵ دن ہوئی ہے ۔(یہ ۲۰۰۴کی بات ہے)
سوال : ماشاء اللہ بہت خوب، اپنے اسلا م قبول کرنے کے بارے میں بتایئے، آپ کو اسلام قبول کرنے کا خیال کس طرح آیا ؟
جواب : آپ کو اس کے لئے ذرا لمبی بات سننی پڑے گی، میں نے ۱۹۷۶ ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور آگے پڑھنے سے منع کردیا دو سال تک ادھر ادھر کے کام کرتا رہا۔ میرے پھوپھافوج میں بڑے کرنل ہیں، وہ گھر آئے انھوں نے مجھے دھمکایا کہ اگر تو پڑھنے نہیں جاتا تو تجھے فوج میں بھرتی کردیں گے اور تجھے لام پر جانا پڑے گا۔ میں نے داخلہ لے لیا اور انٹر کرلیا مگر پھر پڑھنے کا دل نہ چاہا، میری ماں نے با با سے کہہ کر میری شادی کرادی اور ماں کی خوشی کے لئے میں نے پرائیویٹ بی اے بھی کر لیا شادی کے دوسال بعد میرے پھو پھا نے ایک ضروری کام کے بہانے دھوکہ سے بریلی بلایا اور مجھے فوجی بیرک میں لے جاکر میرے بال کٹوائے۔ وہ فوج میں کرنل تھے سارے کاغذات اور میڈیکل کراکے مجھے بھرتی کر لیا اور مجھ سے کہا کہ تیری بھرتی ہوگئی ہے اب اگر تو بھا گے گا تو فوجی تجھے پکڑ کر لائیں گے اور بھگوڑا قراردیکر گولی ماردیں گے یا جیل میں ڈال دیں گے۔ مجھے ڈر سے ٹریننگ میں جانا پڑا، میرا دل نہیں لگتا تھا اور گھر یاد آتا تھا اور گھر سے زیادہ گھر والی، بیچاری بڑی محبت کرنے والی شریف عورت ہے ۔ میں نے ٹریننگ میں ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس فوج سے جان چھوٹنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ اگر افسر،اَن فٹ (Unfit) کردے تو کام آسان ہے، میں نے سوچا یہ بہت آسان ہے۔ میں نے پاگل پن کا بہانہ کیا، بہکی بہکی باتیں کرتا، کبھی ہنستا تو ہنستا رہتا کبھی چیختا تو چیختا رہتا ، مجھ اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور میڈیکل چیک اپ ہوا، ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ بہانا ہے۔ مجھے افسر نے بہت گالیاں دیں اور سخت سزا کی دھمکی دی ۔ ناچار پھر ٹریننگ شروع ہوگئی۔ ایک روز پریڈ میں صبح کے وقت جیسے ہی افسر آئے میں نے رائفل کھڑی کی اور تمباکو کی پُڑیا ہتھیلی پر ڈال کر اس میں چونا ملانا شروع کیا جیسے ہی افسر سامنے آیا، میں دوسرے ہاتھ سے سلوٹ ماری اور جے ہند بولا: میرے ہاتھ میں تمباکو دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے میں نے ہاتھ آگے کر کے کہا : سر!یہ تمباکو ہے، لو آپ بھی کھالو وہ دھمکاکر بولے نالائق تیرا بیلٹ نمبر کیا ہے، میں نے نمبر بتا دیا دوپہر کے بعد انھوں نے مجھے دفتر میں بلایا اور مجھ سے کہا جب جنگ میں دشمن سامنے ہوتو تو تمباکو کھائے گایا گولی چلائے گا۔ بہت غصہ ہوئے میری فائل نکالی اور اس پر لال قلم سے ان فٹ (Unfit )لکھ دیا ، میں نے جے ہند کہہ کر خوشی سے سلام کیا اور رات کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر دلی آگیا ۔ مرے پھوپھا کو معلوم ہوا تو انھوں نے گھر فون کردیا کہ بھگوڑا، غدّار فوج سے جان بچاکر بھاگ آیا ہے میری بیوی مجھ سے بات نہیں کرتی تھی کہ تو تو غدّار بھگوڑا ہے میں نے سمجھایا کہ بھاگیہ وان اگر وہ جنگ میں بھیج دیتے تو تو ودھوا ہوجاتی ، اب موج سے ساتھ رہیں گے ۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں آیااور وہ راضی ہوگئی۔ میں نے ماں کو بھی بہت سمجھایا کچھ روز یار دوستوں میں آوارہ پھر کر اپنے با با کے ڈر سے پراپر ٹی ڈیلنگ کا کا روبار شروع کردیا ۔ دوستی کچھ غلط لوگوں سے ہوگئی، جھگڑے کی زمین خریدی مارپیٹ کر دھمکا کر قبضہ کیا اور بیچ دی، نہ جانے کتنے لوگوں کو ستایا کتنوں کا مال مارا، ماردھاڑ اور پراپر ٹی کے ۱۹ مقدمے میرے ذمہ لگ گئے میں جیل چلاگیا کسی طرح ضمانت ہوئی میں پہلے جیل سے بہت ڈرتا تھا، ڈھائی مہینہ کی جیل سے اور بھی دہشت بیٹھ گئی ۔
دو باتیں مجھ میں پہلے سے ہی مسلمانوں جیسی تھیں، جب سے ہوش سنبھالا کسی مورتی کسی دیوی کی پوجا نہیں کی اور دوسری یہ کہ نجف گڑھ سے آگے ایک جگہ سور کے گوشت کی دوکانیں تھیں، مگر جوانی کے دنوں میں مرغا وغیرہ کھانے کے باوجود اول تو اس راستے سے گزرنا مشکل تھا، اگر جلدی میں گزرجاتا تو سانس روک کر نیچی نگاہ کرکے گزرتا، سور کے گوشت کو دیکھ کر مجھ الٹی سے آتی تھی۔ جیل سے ضمانت پرواپس آیا تو مری ماں نے جو بہت دھارمک ہیں ہر شکروار کو برت رکھتی ہیں مجھ سے کہا تو ناستک ہے، دیوتاؤں کو مانتا نہیں بلکہ ان کا اَنادر( بے ادبی )کرتاہے اس لئے تیرے ذمہ اتنی آفت ہے۔ مجھ کو ایک ہنومان کی مورتی اور ہنومان چالیسا دیا کہ اس کا جاپ کر، میں اند ر کمرہ میں ماں کی ضد اور کچھ ڈر کی وجہ سے کئی روز ہنومان چالیسا کا جاپ کرتا رہا۔ مقدمہ کی تاریخ آئی، ایک عورت کی گواہی تھی، میں نے صبح تڑکے اٹھ کر ہنوماں چالیسا کا جاپ کیا اور ہنومان کی مورتی کے سامنے بہت پرارتھنا کی حالانکہ دل میں وشواس یہی تھا کہ بے جان کی مورتی کے بس میں کیا رکھا ہے ڈھل مل یقین کے ساتھ بری ہونے کے لالچ میں دیر تک میں نے جاپ کیا اور پرارتھنا کی کہ گواہی ٹوٹ جائے۔ عدالت میں گیا تو اس عورت نے ایسی ڈٹ کر گواہی دی کہ جج سمجھ گیا کہ بات سچ ہے، مجھے غصہ آگیا یہ خیال بھی نہ رہا کہ عدالت ہے۔ میں نے غصہ میں اس عورت سے کہا کہ تجھے باہرنہیں نکلنا ہے کیا؟ جج نے سن لیا اور بہت برہم ہوا اور ضمانت کینسل کرکے جیل بھیجنے کا حکم کردیا ۔ دو مہینہ پھر جیل میں رہا، باباجی نے پھر ہائی کورٹ سے ضمانت کرائی، جیل سے گھر آیا تو پہلے کمرہ بند کرکے ہنومان کی مورتی پر جوتا گیلا کرکے بجایا۔ ہنومان چالیسا کو جلایا اور خوب گالیاں دیں۔ماں نے جوتے کی آواز سنی تو باہر سے بہت چیخیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو ماررہا ہوں مگر جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ باہر ہے تو اس کو جان میں جان آئی۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ روز روز کے مقدموں کی تاریخ سے میں کتنا پریشان تھا۔
ہمارے علاقہ میں ایک ملاجی پھولوں کی ٹھیلی لگاتے تھے، میں نے ان سے بات کی کہ کوئی تعویذ والابتاؤ میں بہت پریشان ہوں۔ انھوں نے کہا کہ کسی تعویذوالے کو میں نہ جانتا ہوں نہ مجھے اعتقاد ہے۔ ہاں تمہیں ایک چیز بتاتا ہوں تم روزانہ سو بارصلی اللہ علیہ و سلم پڑھ لیا کرو، میں نے کہا بہت اچھا، میں پریشان تھا ہی اس لئے میں نے صبح و شام پانچ پانچ سو بار پڑھااصل میں مالک کو مجھ پر دیا آرہی تھی ۔ پہلی ہی تاریخ میں میں بری ہوگیا، ایک سال میں گیارہ مقدمے میرے حق میں فیصل ہوئے ۔میں ملاجی کے پاس آنے جانے لگا اور ان سے کہا کہ اور کچھ بتاؤ تاکہ سارے مقدموں سے میری جان بچے ، انھوں نے خود کچھ بتانے کے بجائے مجھے ہندی زبان میں ایک کتاب ’’ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘دی میں نے اس کو غور سے پڑھا دوزخ کی سزاؤں کو پڑھ کر میرے دل میں ڈربیٹھ گیا رات کو ڈراؤ نے خواب بھی دکھائی دیتے مجھے بار بار خیال آتا کہ میں نے کتنے لوگوں کی زمینیں دبائیں، کتنے لوگوں کو مارا، میرا اب کیا ہوگا؟ مجھے اس کتاب نے بے چین کردیا۔ مقدموں سے زیادہ رات دن موت کا اور دوزخ کا خوف سوار رہتا۔ میں سوچتا اس سنسار کی عدالت کے انیس مقدموں سے زندگی خراب ہے تو اس مالک کے سامنے ان گنت مقدموں سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟ میں نے ملاجی سے مشورہ کیا انھوں نے مسلمان ہوجانے کو کہا: میں نے اسلام کے بارے میں کسی کتاب کے لئے کہا تو انھوں نے ’’اسلام کیا ہے؟‘‘لاکردی میری سمجھ میں اسلام آگیا ، اب میری سمجھ میں آیا کہ میرا فوج میں دل کیوں نہیں لگا، اگر میں فوج میں رہتا تو یہ ظلم، مارپیٹ نہ کرتا اور مرنے کا خیال بھی نہ آتا میرے مالک نے میری ہدایت کے لئے مجھے فوج سے بھگایا اور الٹ پلٹ کام کرائے۔
میں دہلی کی جامع مسجدکے امام تک گیا، پہلے تو ان تک پہنچنا ہی مشکل ہے میں کسی طرح ترکیب سے پہنچ گیا اما م صاحب نے کہا : اپنے یہاں کے ذمہ دار لوگوں کو لے کر آنا جو تمہیں جانتے ہوں میں دو چار روز کی کوشش سے دو مسلمانوں کو لے کر گیا تو وہ کہنے لگے شناختی کا رڈلاؤ۔ میں نے کہا آپ نے اسی وقت کیوں نہیں بتایا، بار بار کیوں پریشان کرتے ہیں، وہ ناراض ہوگئے اور بولے بات کرنے کی تمیز نہیں، میں کہا تمہیں تمیز نہیں مجھے تو ہے اور میں چلاآیا۔
سوال : پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : اس کے بعد ایک صاحب نے فتحپوری مسجد جانے کو کہا میں وہاں پہنچاتو انھوں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد تمہارا نکاح ختم ہوجائے گا، تمہیں اپنی بیوی کو چھوڑنا پڑے گامیں نے کہا وہ ۲۵ سال سے میرے ساتھ رہ رہی ہے ایسی بھلی عورت ہے کہ آج تک مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہوئی میں اس کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں ؟ انھوں نے کہا پھر تمہیں کلمہ نہیں پڑھوایا جاسکتا اور نہ تم مسلمان ہو سکتے ہو ۔ وہاں سے مایوس ہوکر میں نے تلاش جاری رکھی، ایک صاحب نے مجھے ایک مزار پر بھیج دیا ، وہاں ایک میاں جی لمبے لمبے بال ڈھیر ساری مالائیں گلے میں ڈالے، ہرے رنگ کا لمبا کرتا اور بہت اونچی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ میں ایک جاننے والے کو وہاں لے کر گیا تھا ، انھوں نے کہا میں تمہیں کلمہ پڑھواتا ہوں، میرے قریب بیٹھو گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر ادب سے بٹھایا۔ اپنے داہنے ہاتھ میں میرا بایاں انگوٹھا اور بائیں ہاتھ میں دایاں انگوٹھا لے لیا اور بولے مرید ہونے کی نیت کرو اور میرے پیروں پر ادب سے نگاہ رکھو مجھے بچپن کا کھیل نظر آگیا ہم ایک دوسرے کواسی طرح گھمایا کرتے تھے ، مجھے ہنسی آگئی وہ غرائے کہ ہنس رہا ہے میں نے کہا مجھے بچپن کا ایک کھیل یاد آگیا ہے، اگر میں بچوں کی طرح آپ کو سر کے اوپر گھماکر پھینک دوں تو؟ انھوں نے پھر دھمکایا، نہ جانے کیا کیا کہلوایا، قادریہ، غوثیہ، وغیرہ وغیرہ پھر بولے میرے پاؤں کے بیچ سر رکھو۔ میں نے منع کیا تو دھمکاکر بولے مرید ہوکر بات نہیں مانتا، میں نے سر ٹیکا اور جلدی سے اٹھالیا ۔ وہ دوبار ہ بولے ادب سے قدموں میں سر رکھو اور یہ سوچو کہ مجھ میں خدا کا نور ہے جس طرح خدا کو سجدہ کرتے ہیں اس طرح کرو۔ مجھے غصہ آگیا میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ لیا تھا میں نے اس نالائق سے کہا کہ اگر میں تجھے اٹھاکر دے ماروں تو خدا میں ہوں گا۔ اس لئے کہ جو طاقتور ہوتا ہے وہ خدا ہوتا ہے ، میں نے دو چار گالیاں دیں اور چلاآیا۔
مجھے مسلمان ہونے کی بے چینی تھی اور موت کا کھٹکا تھا ، میں نے ایک ملاجی سے ذکر کیا وہ مجھے ایک قاضی جی کے یہاں لے گئے قاضی جی نے کہا مسلمان تو ہم تمہیں کر لیں گے مگر دوہزار روپئے فیس ہوگی، میں نے کہا کہ میں مسلمانوں کا اسلام لینانہیں چاہتامیں توحضرت محمد ﷺ صاحب والا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں اگر حضرت محمدﷺصاحب نے کسی کو مسلمان کرنے کے لئے پیسے لئے ہوں تو آپ بھی لے لیں ، جب ا نھوں نے کبھی ایک پیسہ نہیں لیا تو آپ کیسے پیسے مانگتے ہیں؟ دو ہزار کی بات کوئی بڑی نہیں تھی،مگر مجھے وشواس نہیں ہوا میں وہاں سے بھی واپس آگیا ۔
اگلے روز ایک مسجد کے سامنے سے جارہا تھا تو ذراصاف ستھرے کپڑوں میں ایک مولانا صاحب مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیئے بعد میں ان کا تعارف ہو ا،ان کا نام مولانا عبدالسمیع قاسمی تھا۔ میں نے ان سے کہا مجھے اسلام کے بارے میں کچھ بات معلوم کرنی ہے پہلے وہ ٹھٹکے بعد میں وہ تیار ہوگئے میں نے ان سے کہا کہ اسلام کے بارے میں نے ۵۰ سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں ، جب آپ ﷺآخری حج کو گئے تو ان کے ساتھ سوالاکھ ساتھی تھے، انھوں نے سب کو اکٹھا کرکے ان سے سوال کیا کہ میں نے اسلام تم سب تک پہنچادیا ؟سب نے کہا کہ بالکل پہنچاچکے، حضرت محمدﷺنے کہا کہ اب جو یہاں سے غائب ہیں یہ اسلام تمہیں ان تک پہنچانا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جن مسلمانوں تک اسلام پہنچ چکا ہے وہ دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں ؟ مولانا قاسمی نے کہا کہ ہاں ضرور پہنچانا چاہئیے۔ میں نے کہا کہ مولانا صاحب آپ مجھے ایسے دوچار لوگوں سے ملوائیں جو دین کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کررہے ہیں ، مولانا بولے ایسے لوگ بھی ہیں ، میں نے کہا کہ یہ کام تو سارے مسلمانوں کو کرنا چاہئے مگر مجھے ایک مسلمان بھی نہیں ملا میں خود اسلام لانا چاہتا ہوں، چار بڑے مولویوں نے مجھے دھکے دے دئے، مولانا قاسمی نے کہا کہ آپ کو ایک آدمی کا پتہ بتا تا ہوں ، آپ پھلت چلے جاؤ۔ میں نے ان کا پتہ اور فون نمبر مانگا ۔ انھوں نے کہا فون نمبر میں ابھی معلوم کرتا ہوں، نانگلوئی کے کسی مولانا صاحب کو انھوں نے فون کیا اور مولانا کلیم صاحب کا موبائیل نمبر مل گیا۔ انھوں نے فون ملایا مولانادلیّ سے پھلت جارہے تھے مولانا قاسمی نے کہا کہ ہمارے ایک چودھری صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں ۔ مولانا نے کہا ان کو آج شام تک پھلت بھیج دیں ۔ میں نے کہا فون پر مجھ سے بات کروادو ، انھوں نے فون مجھے دے دیا۔ میں نے بات کی مولانا نے کہا : آپ جب بھی آئیں ہمارے اتتھی بلکہ آدرنیہ اتتھی (معزز مہمان) ہوں گے ، میں سیوا(خدمت)کے لئے ہر سمے حاضر ہوں میں نے کہا بہت بہت دھن واد(شکریہ)۔مجھے بڑا عجیب لگا پہلی بار ایک آدمی سو ڈیڑھ سو کلو میڑدور میرا ایسا سواگت کررہاہے۔
مجھے تو ایک ایک منٹ مشکل ہورہا تھا ، میں اسی روز ۲۷ستمبر کو دن چھپنے تک پھلت پہنچا مولانا صاحب نماز پڑھنے گئے تھے۔ میں بیٹھک میں کرسی پر بیٹھ گیا، مولانا صاحب آئے تو میں نے ملاقات کی مولانا بہت خوشی سے ملے ، ان کے یہاں باہر کے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے جو اندر مکان کے اوپر والے کمرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، تھوڑی دیر میں مولانا نے مجھے بھی وہیں بلوالیا۔ مجھ سے پیارسے سوال کیا میرے لئے سیوا بتائیے میں نے کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا بہت مبارک ہو، جو سانس اندر چلا گیا اس کے باہر آنے کا اطمینان نہیں اور جو باہر نکل گیا اس کے اند رجانے کا بھروسہ نہیں، اصل میں تو ایمان دل کے وشواس (یقین ) کا نام ہے ، آپ نے ارادہ کرلیا، دل سے طے کرلیا کہ مجھے مسلمان بننا ہے تو یہ کافی ہے مگر اس سنسار میں ہم لوگ دل کے حال کو جان نہیں سکتے اس لئے زبان سے بھی کلمہ پڑھنا پڑتا ہے ۔آپ جلدی سے دو لائن جس کو کلمہ کہتے ہیں پڑھ لیجئے ، میں نے کہا مجھے ایک بات پہلے بتایئے کہ مسلمان ہوکر کیا مجھے بیوی کو چھوڑنا پڑے گا، مولانا صاحب !آپ کیسے مسلمان ہوں گے جو آپ اپنے جیون ساتھی کو چھوڑیں گے، آپ چھوڑنے کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سچے دل سے مسلمان ہیں تو آپ کو اپنی بیوی کو سورگ (جنت) تک ساتھ لے جانا پڑے گا بلکہ اس سارے سنسار کو نرک سے بچا کر سورگ لے جانے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ مجھے خوشی ہوئی چلو یہ اچھے آدمی ملے ہیں۔ مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا ، ہندی میں ارتھ بھی کہلوایا اور بتایا کہ تین باتوں کا آپ کو خیال کرنا ہے ، ایک یہ کہ ایمان اس مالک کے لئے قبول کیا ہے ، جو دلوں کا بھیدجانتا ہے۔وسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں بھی ایمان کی ضررت ہے اور وہ آدمی جو ایک مالک کو چھوڑ کر دوسرے کے آگے جھکے کتیّ سے بھی زیادہ گیا گزرا ، کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے مالک کے ایک در پر پڑا رہتا ہے ، وہ آدمی کتیّ سے بھی بدتر ہے جو دردرجھکے ، مگر اصل ایمان کی ضرورت موت کے بعد پڑے گی جہاں ہمیشہ رہنا ہے تو موت تک اس ایمان کوبچاکر لے جانا ہے ۔تیسری سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہ ایمان ہماری آپ کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پاس ہر اس انسان کی امانت ہے جس تک ہم پہنچاسکتے ہیں اب اگر مالک نے ہمیں راستہ دکھا دیاہے تو ہمیں سارے خاندان، دوستوں اور جاننے والوں تک اس سچائی کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے میں نے کہا مولانا صاحب آپ سچ کہتے ہیں میں اصل میں خوف اور لالچ سے مسلمان ہورہا ہوں ۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا، دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی کتابوں میں میں نے جو کچھ پڑھا فلم کی طرح میرے دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے مجھے خیال ہوتا ہے کہ تونے اتنے ظلم کئے ہیں موت کے بعد کیا ہوگا؟ اب میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ اسلام میں مالک نے جن کاموں سے روکا ہے پوری جان لگاکر ان کاموں سے بچنے کی کوشش کروں گا، شاید میرے مالک کے سامنے جانے کا میرا منہ ہوجائے۔ میں نے مولانا صاحب کو بتایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے اسلام کو پڑھ کر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں ، آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر کون مسلمان ہوسکتا ہے ؟ میرے چاروں طرف بہت سے مسلمان رہتے ہیں ، ہمارا ایک کرایہ دار غلام حیدر نام ہے ، نماز بھی نہیں پڑھتا میں نے ان سے ایک بار کہا تم ہر مہینہ میرے ماں باپ کو کرایہ دیتے ہو اگر تم ان سے مسلمان ہونے کو کہو تو کیا خبر وہ مسلمان ہوجائیں اور اگر وہ مسلمان ہوجائیں تو ہمارا پورا خاندان مسلمان ہوجائے گا، وہ بولے تمہارے با با علاقہ کے پردھان ہیں اگر میں نے ان سے کہہ دیا تو ہمیں جینا مشکل کردیں گے ۔میں نے کہا تم خداسے نہیں ڈرتے میرے با با سے ڈرتے ہو ۔ اس لئے یہ کعبہ کا فوٹو ہٹا کر میرے با با کا فوٹو لگاؤ اور روزانہ اس کا نام جاپ کرکے میرے با با کو ڈنڈوت کرنا، میرے با با نے کسی دن دیکھ لیا تو وہ تمہارا کرایہ معاف کردیں گے تمہارے مزے آجائیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم اپنے کو سید بتاتے ہو خدا کے سامنے تمہیں بھی جانا ہوگا، میں مالک کے سامنے ہی لٹھ ماروں گا کہ انھوں نے سید ہوکر ایک دن بھی ہمیں ایمان لانے کو نہیں کہا ۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : میں نے مولانا صاحب سے اپنی روداد سنائی اور چار بڑے مولاناؤں کے پاس سے واپس آنے کی بات سنائی ، مولانا نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا کہ ان کا ایسا کرنا ٹھیک تھا اور مجھے تسلی دی۔
سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب : دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ، بڑی لڑکی کی شادی میں نے کردی ہے ۔ ہمارا سماج اصل میں پٹھانوں سے بہت ملتا جلتا ہے، بہت شرم وحیا ہے، مردوں کا رہنا باہر اور عورتوں کا اندر، میں اپنی ماں کے سامنے اپنی بیوی سے آج تک بات نہیں کرسکتا ماں بیٹھی ہوگی تو میں اس کو ہی کام بتاؤں گا۔ وہ کبھی کہتی بھی ہے کہ یہ تیری پانچ ہاتھ کی بہو ہے تو اس سے کیوں نہیں کہتا، میں کہتا ہوں ماں جب تو مرجائے گی تب اس سے کہوں گا ہمارے یہاں ابھی تک لڑکی کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے ، پورے خاندان میں میں نے بغاوت کر کے بڑی لڑکی کو پڑھایا۔ ہائی اسکول پاس کیا تو اس نے کہا : پتا جی مجھے دو ہزار روپئے چاہئے، میں نے کہا بیٹی !دو ہزار کا کیا کروگی ؟ اس نے کہا ایک ہزار کا موبائل مل رہا ہے، میں نے کہا موبائل کا کیا کروگی ؟اس نے کہا بات کیا کروں گی میں نے پوچھا اور ایک ہزار کا کیا کروگی اس نے کہا جنس لاؤں گی، میں نے اس سے کہا کہ دو ہزار کی جگہ پانچ ہزاردوں گا، مگر ۱۵ دن کے بعد، میں نے لڑکے والوں کو بلوایا جہاں رشتہ طے کررکھاتھا اور کہا آ ٹھ دن میں پھیرے پھروا لو تو لڑکی تمہاری، ورنہ میں کسی دوسری جگہ شادی کردوں گا۔ وہ تیار ہوگئے ، با با سے کہہ کر پنڈت بلوایا اور پھیرے پھروا دئے ، میں نے لڑکی کو ڈھائی ہزار روپئے دیئے اور کہا آدھے تو یہ لو اور آدھے اس دن دوں گا جس روز گود میں بٹھا کر رخصت کرنے کے لئے تجھے گاڑی میں ٹیکوں (بٹھاؤں) گا۔ آج ہائی اسکول کرکے موبائل اور جنس مانگ رہی ہے اگر انٹرکر لیا تو کسی بھنگی کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آئے گی کہ پتا جی یہ تمہارا داماد ہے ، میں نے عہد کر لیا کہ لڑکی کو پانچویں سے آگے ہر گز نہیں پڑھانا ہے، یہ بات میں نے مولانا صاحب سے بھی کہی تھی، انھوں نے کہا یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے ،اب تم مسلمان ہوگئے ہو، آپ کو اسلام کی ہر بات مانناہوگی ۔ اسلام نے علم حاصل کرنے کو فرض کہا ہے اور لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانا ضروری ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسلامی ماحول اور تربیت میں ۔ میں نے وعدہ کر لیا اب میرا پکا ارادہ ہے کہ اپنے ان تینوں بچوں کو اسلامی تعلیم کی جو سب سے بڑی ڈگری ہوگی اس تک پڑھاؤں گا۔ آگے مالک کے ہاتھ میں ہے ، اب میں نے بالکل اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے میں شراب کا بہت عادی تھا ، حالانکہ جب میں ہندو تھا ہمت کر کے دو مہینے تین مہینے تک کئی بار شراب چھوڑی اور دوستوں کو اپنے ہاتھوں سے پلائی مگر خود نہیں پی مگرجب سے میں نے کلمہ پڑھا ہے اب زندگی بھر نہ پینی ہے اور نہ پلانی ہے اور نہ پینے والوں کے پاس بیٹھنا ہے ۔ ۱۵ دن ہوگئے مجھے خیال بھی نہیں آیا اور مالک کا کرم ہے کہ کسی دوست نے بھی میرے سامنے نہیں پی، حالانکہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے کہ میں نے چھوڑدی ہے، یا اسلام قبول کر لیا ہے ۔
سوال : آپ نے یہ باتیں اپنی بیوی سے بتادیں ؟
جواب : میری بیوی میری ماں کی طرح بہت دھارمک اور بہت کٹر ہے جب مولانا صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اس کو اپنے ساتھ جنت میں لے جانا ہے تو میں نے بتایا کہ وہ تو بہت کٹر ہندو ہے، جس روز گوشت کھا کر آتا ہوں گھر میں گھسنا مشکل کردیتی ہے، نہ جانے اس کو کیسے خوشبو آجاتی ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ کٹر ہندو ہی سچی مسلمان ہوتی ہے۔ دھرم پر انسان اپنے مالک کو خوش کرنے کے لئے ہی پابندی کرتاہے ، اگر آپ اس کو سمجھادیں کہ یہ راستہ غلط ہے اور سچا راستہ اسلام ہے تو اسلام پر بھی وہ بہت سختی سے عمل کرے گی۔ میں نے پھلت میں مولانا صاحب کے بھانجے کے موبائل سے اس کو بتا دیا تھا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، تو وہ بہت ناراض ہوئی ۔ میں نے یہ کہہ کر بات بند کردی کہ میں دوسرے کے موبائل سے فون کررہا ہوں ۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : اگلے روز صبح کو میرے مقدمے کی تاریخ تھی، مجھے صبح وکیل سے بھی ملنا تھا، اس لئے رات کو مولانا صاحب نے اپنی گاڑی سے کھتولی پہنچا دیا۔ رات کو بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر گھر پہنچا مہارانی جی غصے میں بھری تھیں، دھکے دینے لگی بار بار گالیاں دیں ۲۵ سا ل کا سارا ادب بھول گئی۔ کہنے لگی کہ تو دھرم بھرشٹ کر کے آیا ہے، تو میر ا کیا لگتا ہے ، بھاگ جا، نہ جانے کیا کیا کہا صبح تک لڑائی ہوتی رہی۔ مولانا نے بیوی کو دعوت دینے کے لئے آخری ہتھیا رکے طور پر ایک پوائنٹ بتا دیا تھا ، صبح ہونے کو ہوئی میں اس ڈر سے کہ دن نکل گیا تو یہ سب کو بتا دے گی اسلئے میں نے آخری تیر کے طور پر اس کا استعمال کیا ۔ میں نے اس سے کہا کہ تو اصلی ہندو ہے یا نقلی، اس نے کہا اصلی ہوں بالکل اصلی ، میں نے کہا کہ اگر اصلی ہندو ہے اور میں اسلام کی چتا میں جل گیا ہوں تو تجھے بھی میرے ساتھ ستی ہوجانا چاہئے۔ اب تو مجھے چھوڑ کر یا دھکے دے کر بازاری بنے گی یا دوسرے کے پاس بیٹھے گی، بھگوان نے تجھے میرے ساتھ باندھا ہے ، تو اگر اصلی ہے تو میرے ساتھ ستی ہو جانا چاہئے ، تیر نشانے پر لگ گیاوہ چپ ہوگئی دیر تک ہچکیوں سے روتی رہی میں اس کے قریب گیا پیار کیا اور دکھ سکھ اور جیون مرن میں ساتھ دینے کے وعدوں کی دہائی دے کر مسلمان ہونے کے لئے کہا وہ تیار ہوگئی، ٹو ٹا پھوٹا کلمہ پڑھوایا اور صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے ایک ساتھ پڑھی۔ بیوی کے مسلمان ہونے کی اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ مجھے خوشی ہوئی، مجھے مولانا صاحب کی ہر بات سچی لگنے لگی، انھوں نے ہی کہا تھا کہ بیوی کو چھوڑنے کی بات کیا مطلب ؟ اس کو جنت تک ساتھ لے جانا ہے ۔
سوال : اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ اسلام کی تعلیم کے لئے آپ نے کیا سوچا؟
جواب : ہمارے علاقہ میں ایک مولانا صاحب مسجد میں امام ہیں میں روزانہ رات کو ان کے پاس جارہا ہوں، مجھے جماعت میں جانا ہے مگر مقدموں کی تاریخوں کی وجہ سے ابھی مجبور ہوں ، میں نے اپنی بڑی لڑکی اور داماد کو بھی ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا‘‘ اور ’’ آپ کی امانت پڑھنے کے لئے دی ہے ۔
سوال : ارمغان کے واسطے سے آپ مسلمانوں سے کچھ کہنا چاہیں گے ؟
جواب : مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ یہ دین جب امانت ہے جیسا کہ مولانا صاحب نے ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ میں لکھا ہے تو پھر اسے سارے سنسار تک پہنچانا چاہئے، آج کے دور میں اسلام پہنچانا بہت آسان ہے، میں لاکڑاجاٹ ہوں، جاٹ قوم کی سائیکالوجی اچھی طرح جانتا ہوں، جاٹ بہت لالچی ہوتا ہے اور لالچی سے زیادہ ڈرپوک ہوتاہے۔خصوصاََ جیل اور سزا سے جتنا جاٹ ڈرتا ہے شاید دوسرا نہیں ڈرتا احمد بھائی میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اگر’’مرنے بعد کیا ہوگا‘‘ اور ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ ہند ی انواد(ترجمہ) کرکے جاٹوں تک پہنچایا جائے اور قرآن مجید میں جنت و دوزخ کا جو ذکر ہے ان کو سنایا جائے تو جاٹ سارے کے سارے ضرور مسلمان ہوجائیں گے ، اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جب دین امانت ہے اور مالک کے سامنے حساب دینا ہے تو اس کا بھی حساب ہوگا کہ اس کو پہنچایا یا نہیں، اس لئے دین کو دوسروں تک پہنچانا نہ صرف یہ کہ دوسروں کے لئے ضروری ہے مرنے کے بعد کے جواب سے بچنے کے لئے خود مسلمانوں کے لئے بھی ضروری ہے۔(مستفاداز ماہ نامہ ارمغان نومبر ۲۰۰۴ ء)