احمد اواہ : السلام علیکم و رحمۃ اللہ بر کاتہ،
عبد اللہ : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ بر کاتہ،
سوال : عبداللہ بھا ئی آپ کے علم میں ہو گا کہ پھلت سے ایک میگز ین ارمغان کے نا م سے نکلتا ہے اس میں کچھ عرصے سے اسلام قبول کرنے والے خوش قسمت لوگوں کے انٹر ویو کا سلسلہ چل رہا ہے، اس کے لئے میں آپ سے کچھ باتیں کر نا چاہتا ہوں ۔
جواب : احمد بھائی ( آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے کہا ) مجھ جیسے ظالم اور کمینے آدمی کی باتیں اس مبارک میگزین میں دے کر کیوں اسے گندہ کر تے ہیں ۔
سوال : نہیں عبداللہ بھائی ! ابی (میرے ابا جان حضرت مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی مدظلہ) کہہ رہے تھے، آپ کی زندگی اللہ کی قدرت کی ایک عجیب نشانی ہے، ان کی خواہش ہے کہ آپ کا انٹرویو ضرور شائع کیا جائے۔
جواب : آپ کے ابی اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمر دے، میں اپنے کو ان کا غلام مانتا ہوں، ان کا حکم ہے تو میں سر جھکا تا ہوں، آپ جو سوال کریں میں جواب دینے کو تیار ہوں۔
سوال : پہلے آپ اپنا تعارف کرایئے؟
جواب : اگر میں یہ کہوں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے آج تک میں دنیا کا سب سے ظالم ترین، بد ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں بلکہ درندہ ہوں، تو یہ میرا با لکل سچا تعارف ہو گا۔
سوال : یہ تو آپ کا جذباتی تعارف ہے آپ اپنے گھر اور خاندان کے بارے میں بتایئے ؟
جواب : میں ضلع مظفر نگر کی بڑھانہ تحصیل کے ایک مسلم راج پوت اکثریت کے ایک گاؤں کے اہیر ( گڈریہ )کے گھر اب سے بیالیس یا تینتالیس سال قبل پیدا ہوا میرا گھرانہ بہت مذہبی ہندو اور جرائم پیشہ تھا والد اور چاچا ایک گرو کے سر کردہ لوگوں میں تھے،لوٹ مار، ظلم خاندانی طور پر گھٹی میں پڑا تھا، ۱۹۸۷ ء میں میرٹھ کے فسادات کے موقع پر اپنے باپ کے ساتھ رشتے داروں کی مدد کے لئے میرٹھ رہا ہم دونوں نے کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا، اس کے بعد مسلم نفرت کے جذبہ سے متاثر ہو کر بجرنگ دل میں شامل ہوا، بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ میں ۱۹۹۰ ء میں شاملی میں کتنے ہی مسلمانوں کو قتل کیا، ۱۹۹۲ ء میں بڑھانہ میں بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا، بڑھانہ میں ایک بہت مشہور نام کا بدمعاش ، مگر سچا مسلمان تھا، جس سے پورے علاقے کے غیر مسلم تھراتے تھے، میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ اس کو گولی ماری، اس مسلم دشمنی میں مجھ درندے نے ایک ایسی ظالمانہ حرکت بھی کی،،،(دیر تک روتے ہوئے ) کہ شاید ایسی بر بریت اور ظالمانہ حرکت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کسی نے نہ دیکھی ہوگی اور نہ سنی ہوگی اور نہ خیال کیا ہوگا۔۔۔۔ ( پھر دیر تک روتے رہے)
سوال : آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں سنائیے ؟
جواب : ہاں میرے بھائی بتا رہا ہوں، مگر کس منہ سے بتا ؤ ں اور کس دل سے بتاؤں میرا پتھر دل بھی اس واقعہ کو سنانے کی ہمت نہیں رکھتا۔
سوال : پھر بھی بتائیے، شاید ایسا واقعہ تو اور زیادہ لوگوں کے لئے عبرت کا ذریعہ ہو،
جواب : ہاں بھئی واقعی میرے قبول اسلام کا واقعہ ہر ما یوس کے لئے امید د دلانے والا ہے کہ وہ کرپا وان اور دیالو ( ارحم الرا حمین ) خدا جب میرے ساتھ ایسا کرم کر سکتا ہے تو کسی کو مایوس ہونے کی کہا ں گنجائش ہے،تو سنو احمد بھائی،میرے ایک بڑا بھائی ہے اتنے ظلم اور جرائم کے باوجود ہم دونوں بھائیوں میں حد درجہ محبت ہے میرے بھائی کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے اور میرے کو کوئی اولاد نہیں ہے، ان کی بڑی لڑکی کا نام ہیر ا تھاوہ عجیب دیوانی لڑکی تھی بہت ہی بھاؤک (جذباتی) جس سے ملتی بس دیوانوں کی طرح اور جس سے نفرت کرتی پا گلوں کی طرح کبھی کبھی ہمیں یہ خیال ہوتا کہ شاید اس پر اوپری اثر ہے،کئی سیانوں وغیرہ کو بھی دکھایا، مگر اس کا حال جوں کا توں رہا اس نے آ ٹھو یں کلاس تک سکول میں پڑھا، بڑی ہوگئی اس کو گھر کے کام کاج میں لگا دیا،مگر اس کو آگے پڑھنے کا بہت شوق تھااور اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہائی سکول کا فارم بھر دیا آٹھ دن تک کھیتوں میں مز دوری کی تاکہ فیس بھرے اور کتا بیں بھی لے، جب کتابیں اس کی خود سمجھ میں نہیں آئی تو وہ برابر میں ایک بامن ( برہمن ) کے گھر اس کی لڑکی سے پڑھنے جا نے لگی، برہمن کا ایک لڑکا بدمعاش اور ڈاکو تھا، نہ جانے کس طرح میری بھتیجی ہیرا کو اس نے بہکایااور اس کو لے کر رات کو فرار ہوگیاوہ اس کو لے کر بڑوت کے پاس ایک جنگل میں جہاں اس کا گروہ رہتا تھاپہنچا،وہ اس کے ساتھ چلی تو گئی مگر وہاں جاکر اسے اپنے ماں باپ کی عزت جانے اور ان کی بدنامی اور اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ چپکے چپکے روتی تھی۔
اس گینگ میں ایک ادریس پور کا مسلمان لڑکا بھی رہتا تھا ایک روز اس نے روتے ہوئے دیکھ لیا اس نے رونے کی وجہ معلوم کی اس نے بتایا کہ میں کم عمری اور کم سمجھی میں اس کے ساتھ آتو گئی، مگر مجھے اپنی عزت خطرے میں لگ رہی ہے اور میرے ماں باپ کی پریشانی مجھے بہت یاد آرہی ہے، اس کو ہیرا پر ترس آگیا اور اس نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان اپنے عہد کے سچے کو کہتے ہیں، میں تجھے اپنی بہن بناتا ہوں، میں تیری عزت کی حفاظت کروں گا اور تجھے اس جنگل سے نکال کر صحیح سلامت تیرے گھر پہنچانے کی کوشش کروں گا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لڑکی تو بہت بہادر اوراپنے ارادے کی پکی معلوم ہوتی ہے ہمیں اپنے گروہ میں ایک دو لڑکیوں کو ضرور شامل کرنا چاہیے اکثر ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے، اب جنگل میں اس کو ساتھ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو لڑکوں کے کپڑے پہناؤ، اس کی بات سب ساتھیوں کی سمجھ میں آگئی، ہیرا کو کپڑے پہناکر لڑکا بنایا گیا اور وہ ساتھ لے کر پھرتے تھے، اس نے دیکھا دس بارہ لوگوں میں اس مسلمان کا حال سب سے الگ تھا، وہ بات کا پکا تھا، اچھی رائے دیتا تھا جب مال بٹتا تھا تو اس میں کچھ غریبوں کا حصّہ رکھتا تھا ہیرا کو الگ کمرے میں سلاتا تھا اور رات کو بار بار اٹھ کر دیکھتا تھا کہ کوئی ساتھی ادھر تو نہیں آیا، جب کچھ روز ہیرا کو ان کے ساتھ ہوگئے اور ان کو اطمینان ہوگیا کہ وہ ان کے گینگ کی ممبر بن گئی ہے تو اس سے چو کسی کم کردی گئی۔
اب اس نے ایک روز ہیرا کو ایک بہانے سے بڑوت بھیجا اور ہیرا سے کہا کہ تو وہاں تانگہ میں بیٹھ کر ہمارے گھر ادریس پورچلی جانااور وہاں جاکر میرے چھوٹے بھائی سے سارا حال سنانا اور کہنا کہ تیرے بھائی نے بلایا ہے اور اس کو بتادینا کہ وہ یہاں آکر یہ کہے کہ وہ لڑکی بڑوت والوں نے شک میں پکڑ کر پولیس والوں کو دے دی ہے ہیرا نے ایساہی کیا،اس کا بھائی جنگل میں گیا اور اپنے بھائی سے جاکر کہا اس لڑکی کو بڑوت والوں نے پکڑکر پولیس کو شک میں دے دیا ہے،اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہیراکو تھانے بھیج دواوروہ جاکر تھانہ میں کہے کہ ایک گروہ مجھے گاؤں سے اٹھالایا کسی طرح میں چھوٹ کر آگئی ہوں مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، ہیرانے ایساہی کیا،بڑوت تھانے والوں نے بڑھانہ تھانہ سے رابطہ کیا، وہاں پر اس لڑکی کے اغوا کر نے کی رپوٹ پہلے ہی لکھی ہوئی تھی لیڈیز پولیس لے کربڑھانہ تھانہ کے لوگ بڑوت آئے اور تھانہ سے اس ہیرا کو لے گئے ہیرا کو لے کر ہمارے گاؤں آئے ہم نے اسے گھر رکھ تو لیا مگر ایسی بد چلن لڑکی کو گھر میں کس طرح رکھیں، ہیرا نے بتایا کہ مجھے تو گروہ اٹھاکر لے گیا، مگر میں نے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے کسی کو یقین نہ آیا، ایک پڑھے لکھے رشتہ دار بھی آگئے انھوں نے کہا کہ ڈاکٹری کرالو، ہم دونوں بھائی ڈاکٹری کے لئے بڑھانہ اسپتال اس کو لے کر گئے اور خیال یہ تھا کہ اگر اس کی عزت سلامت ہے تو واپس لائیں گے، ورنہ مارکر بڑھانہ کی ندی میں ڈال آئیں گے، اللہ کا کرم ہو ا کہ ڈاکٹرنے رپوٹ دی کہ اس کی عزت محفوظ ہے،خوشی خوشی اس کو لے کر گھر آئے مگر وہ اب مسلمانوں کا بہت ذکر کرتی تھی اور بار بار ایک مسلمان لڑکے کی شرافت کی وجہ سے اپنے بچ جانے کا ذکر کرتی تھی، وہ مسلمانوں کے گھر جانے لگی وہاں ایک لڑکی نے اس کو دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی کتاب دے دی،مسلمانوں کی کتاب میں نے گھر میں رکھی دیکھی تو میں نے اس کو بہت مارا اور خبر دار کیا کہ اگر اس طرح کی کتاب میں نے گھر میں دیکھی تو تجھے کاٹ کے ڈال دوں گا، مگر اس کے دل میں اسلام گھر کر گیا تھااور اسلام نے اس کے دل کی اندھیری کوٹھری کو اپنے پرکاش (نور) سے پرکاشت (منور) کردیا تھا،اس نے مدرسہ میں ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ جا کر ایک مولانا صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور چپکے چپکے نماز سیکھنے لگی اور وہ سمے سمے پر( وقتاً فوقتاً ) نماز پڑھنے لگی مسلمان ہونے کے بعد وہ شرک کے اندھیرے گھرانے میں گھٹن محسوس کر نے لگی،وہ بالکل اداس اداس سی ر ہتی،ہر وقت ہنسنے والی لڑکی وہ ایسی ہی ہوگئی جیسے اس کا سب کچھ بدل گیا ہو، نہ جانے کس کس طرح اس نے پروگرام بنا یا اور وہ پھر گھر سے چلی گئی، ایک مولانا صاحب اس کو اپنی بیوی کے ساتھ پھلت چھوڑ آئے، پھلت کچھ روز احمد بھائی آپ کے یہاں رہی، شاید آپ کو یاد ہوگا۔
سوال : ہاں ہاں حرا باجی !ارے وہ حرا باجی کہاں ہے ! ہمارے گھر والے تو ان کی طرف سے بہت فکر مند ہیں،وہ بڑی نیک انسان تھیں حیرت ہے کہ آپ حراباجی کے چچاہیں۔
جواب : ہاں احمد بھائی ! اس کا نام آپ کے ابی نے حرا رکھا تھا اور اس نیک بخت بچی کا ظالم اور قاتل چچا میں ہی ہوں۔۔۔ (روتے ہوئے )
سوال : پہلے تو یہ سنائیے کہ حرا باجی کہاں ہیں ؟
جواب : بتارہا ہوں،میرے بھائی بتا رہا ہوں اپنے ظلم اور درندگی کی داستان، جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ مولانا صاحب نے اس کو احتیاط کے طور پر دہلی اپنی بہن کے یہاں بھیج دیا وہ وہاں رہی،وہاں اس کو بہت ہی مناسب ماحول ملا وہ مولانا صاحب کی بہن کے یہاں رہی،وہ ان کو رانی پھوپی کہتی تھی آپ کی امی نے بھی اس کو بہت پیار دیا اور رانی پھوپی نے اس کی بہت تربیت کی، شاید ایک ڈیڑھ سال وہ دہلی رہی،پھلت اور دہلی کے قیام نے اس کو ایسا مسلمان بنا دیا کہ اب اگر قرآ ن حکیم نازل ہوتا تو احمد بھائی شاید نام لے کر اس ایمان والی شہید بچی کا ضرور ذکر کرتا،اسے اپنے گھر والوں سے بہت محبت تھی خصوصاً اپنی ماں سے بہت محبت تھی، اس کی ماں بہت بیمار رہتی تھیں، ایک رات اس نے خواب میں دیکھاکہ میری ماں مر گئی ہے آنکھ کھلی تو اس کو ماں کی بہت یاد آئی اگر ایمان کے بغیر اس کی ماں مر گئی تو کیا ہوگا یہ سوچ کر وہ رو نے لگی اور اس کی چیخیں لگ گئی، گھر کے سبھی لوگ اٹھ گئے اس کو سمجھایا تسلی دی، وقتی طور پر وہ چپ ہوگئی مگر باربار اس کو خواب کو یاد کر کے رونا آتا تھا اور آپ کے ابی کو ابی جی کہتی تھی، بار بار وہ اپنی ماں کو یاد کرتی اورگھر جانے کی اجازت مانگتی مگر آپ کے ابی اس کو سمجھاتے کہ تمہارے گھر والے تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اور مار دیں گے اور اس سے زیادہ یہ کہ تمہیں پھر ہندو بنا لیں گے، ایمان کے خطرے سے وہ رک جاتی مگر پھر اس کو گھر یاد آتا تو گھر جانے کی ضد کرتی، بہت مجبور ہو کر مولانا نے اس کو اجازت دی مگر سمجھایا کہ تم صرف اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینے کی نیت سے گھر جاؤ اور واقعی اگر تمہیں اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو محبت کا سب سے ضروری حق یہ ہے کہ تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو ،ہیرا نے کہا کہ وہ تو اسلام کے نام سے بھی چِڑتے ہیں وہ ہر گز اسلام نہیں قبول کر سکتے،اس نے گھر میں بتا یا تھا کہ مولانا صاحب نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے سینے کو اسلام کے لئے کھول دینگے تو پھر وہ کفر اور شرک سے بھی اسی طرح چِڑنے لگیں گے جس طرح اسلام سے چڑتے ہیں،مولانا صاحب نے اس سے کہا کہ تم بھی تو اسلام سے اسی طرح چڑتی تھی جس طرح اب شرک سے نفرت کرتی ہو،اللہ سے دعا کرو اور مجھ سے عہد کرو کہ میں گھر اپنی ماں اور گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کی فکر میں جارہی ہوں،اگر تم اس نیت سے جاؤگی تو اول تو اللہ تمہاری حفاظت کریں گے اور اگر تم کو تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف ہوگی جو ہمارے نبی ﷺ کی اصل سنت ہے اور اگر تمہارے گھر والوں نے تمہیں مار بھی دیا توتم شہید ہو گی اور شہادت جنت کا راستہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ تمہاری شہادت خود ان کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو گی، اگر تم گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کے لئے اپنی جان بھی دے دوگی وہ ہدایت پا جائیں گے تو تمہارے لئے سستا سودا ہوگا۔
مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس کو دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے ہدایت کی دعا کرنے اور دعوت کی نیت سے اپنے گھر جانے کا عہد کرنے کو کہا،وہ دہلی سے پھلت اور پھر گھر آگئی،ہم لو گ اس کو دیکھ کرآگ بگولہ ہو گئے، میں نے اس کو جوتوں اور لاتوں سے مارا اس نے یہ تو نہیں بتایا کہ میں کہاں رہی؟ البتہ یہ بتادیاکہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور اب مجھے اسلام سے کوئی ہٹانہیں سکتا، ہم اس پر سختی کرتے تو وہ رو رو کر الٹا ہمیں مسلمان ہونے کو کہتی، اس کی ماں بہت بیمار تھی، دو مہینہ کے بعد وہ مرگئی تو وہ اس کو دفن کے لئے مسلمانوں کو دینے کو کہتی رہی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ پڑھا ہے ،وہ مسلمان مری ہے، اس کو جلانا بڑا ظلم ہے مگر ہم لوگ کس طرح اس کو دفن کرتے، اس کو جلا دیا،روز ہمارے گھر میں ایک فساد ہوتا،کبھی وہ بھایؤں کو مسلمان ہونے کے لئے کہتی کبھی وہ باپ کو، ہم لوگوں نے اس کو میرٹھ اس کی ننہال میں پہنچادیا، اس کے ماموں اس کی مسلمانی سے عاجز آگئے اورانہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو بلایا کہ اس ادھرم (لامذہب) کو ہمارے یہاں سے لے جاؤ،ہم لوگ روز روز کے جھگڑوں سے عاجز آگئے ہیں۔
میں نے بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے مشورہ کیا سب نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ دیا میں اسے گاؤں لے آیا، ایک دن جاکر ندی کے کنارے پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا، میں اور بڑے بھائی دونوں اس کو گاؤں لے جانے کے بہانے لے کر چلے کہ تیری بوا کے یہاں جا رہے ہیں، اس کو شاید سپنے (خواب )میں معلوم ہوگیا تھا وہ نہائی اور نئے کپڑے پہنے اور ہم سے کہا کہ چچا آخری نماز تو پڑھنے دو، جلدی سے نماز پڑھی اور خوشی خوشی دلہن سی بن کر ہمارے ساتھ چل دی،آبادی سے دور راستہ سے الگ جانے کے باوجود اس نے ہم سے بالکل نہیں پوچھا کہ بواکا گھر ادھر کہاں؟ندی کے بالکل پاس جاکر اس نے ہنس کراپنے باپ سے پوچھا آپ مجھے بوا کے گھرلے جارہے ہیں یاپیا کے گھر (دیر تک روتے ہوئے۔۔۔)
ہاں توبھائی میرے تھیلے میں پانچ لیٹر پٹرول تھا،حرا کا حقیقی باپ اور میں ظالم چچا دونوں کے ساتھ وہ سچی مومنہ عاشقہ اور شہیدہ ہم اس کو لے کر گڑھے کے پاس پہنچے جو ایک روز پہلے پروگرام کے تحت کھودا تھا،اس درندہ چچا نے یہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو اس گڑھے میں دھکا دیدیاکہ تو ہمیں نرک کی آگ سے کیا بچائے گی ،لے خود مزا چکھ نرک کا،گڑھے میں دھکا دیکر میں نے اس کے اوپر وہ سارا پٹرول ڈال دیا اور ماچس جلائی،میرے بڑے بھائی بس روتے ہوئے اس کو کھڑے دیکھتے رہے،جلی ہوئی ماچس کی تیلی اس پر لگی کہ آگ اس کے نئے کپڑوں میں بھڑک گئی، وہ گڑھے میں کھڑی ہوئی اور جلتی آگ میں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور چیخی ‘‘میرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہے نا، میرے اللہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں نا، میرے اللہ آپ مجھ سے محبت کر تے ہے نا، اپنی حرا سے بہت پیار کرتے ہیں نا، ہاں میرے اللہ آپ غار ِ حرا سے بھی محبت کرتے ہیں اور گڑھے میں جلتی حرا سے بھی محبت کرتے ہے نا، آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی ضرورت نہیں ’’ اس کے بعد اس نے زور زور سے کہنا شروع کیا : ‘‘ پتاجی اسلام ضرور قبول کر لینا،’ چاچا مسلمان ضرور ہو جا نا، چاچا مسلمان ضرور ہو جا نا ’’ ( ہچکیوں سے روتے ہوئے )
اس پر مجھے غصہ آگیا اور میں بھائی صاحب کا ہا تھ پکڑ کر چلا آیا، بھائی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ ایک بار اور سمجھاکر دیکھ لیتے مگر مجھے ان پر غصہ آیا، بعد میں واپس آتے ہوئے ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے لاالہ الا اللہ کی آواز یں آتی سنیں اور ہم اپنے فریضہ کو ادا کرنا سمجھ کر چلے تو آئے مگر اس شہید محبت کا یہ اخیرجملہ مجھ درندہ اور سفاک کے پتھر دل کو ٹکڑے کر گیا ،میرے بھائی گھر آکر بیمار پڑ گئے ان کے دل میں صدمہ سا بیٹھ گیا اور یہ بیماری ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی،مرنے کے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہم نے زندگی میں جو کیا وہ کیا، مگر اب میری موت حرا کے دھرم پر جائے بغیر نہیں ہوسکتی، تم کسی مولانا صاحب کو بلا لاؤ، میں بھی بھائی صاحب کے حال کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا، ہمارے یہاں مسجد کے امام صاحب مل گئے، ان کو لے کر آیا، انہوں نے ان سے کلمہ پڑھانے کو کہا، کلمہ پڑھا، اپنا اسلامی نام عبدالر حمن رکھا اور مجھ سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کے طریقے پر مٹی دینا، میرے لئے یہ بہت مشکل بات تھی مگر میں نے بھائی کی انتم اِچّھا ( آخری خواہش ) پوری کر نے کے لئے یہ کیا کہ ان کے علاج کے بہانے دہلی لے گیا، وہاں پر اسپتال میں داخل کیا، وہیں ان کی موت ہوئی، وہ بہت اطمینان سے مرے، پھر ہمدرد کے ایک ڈاکٹر سے میں نے یہ حال سنایا تو انہوں نے وہاں سنگم و ہار کے کچھ مسلمانوں کو بلا کر ان کے دفن وغیرہ کا انتظام کیا۔
سوال : عجیب واقعہ ہے ؟ آپ نے اپنے اسلام قبول کر نے کا حال نہیں بتایا ؟
جواب : وہی بتا رہا ہوں، اسلام سے میری دشمنی کچھ تو کم ہوگئی تھی مگر بھائی کے مسلمان ہو کر مرنے کا بھی مجھے دکھ تھا، بھائی صاحب کے مسلمان مرنے سے مجھے یہ یقین آگیا کہ میری بھابھی بھی ضرور مسلمان ہوگئی ہوگی، مجھے ایسا لگا کہ کسی مسلمان نے ہمارے گھر پر جادو کر دیا ہے اور وہ دلوں کو باندھ رہا ہے، ایک ایک کر کے سب اپنے دھرم کو چھوڑ رہے ہیں، تو میں نے بہت سے سیانوں سے بات کی، میں ایک تانترک کی تلاش میں شاملی سے اون جارہا تھا، بس میں سوار ہو ا تو بس کسی مسلمان کی تھی، ڈرایؤر بھی مسلمان تھا، اس نے ٹیپ میں قوالی چلا رکھی تھی،بڑھیا نام کی قوالی تھی ۔نبی ﷺ کے، ایک بڑھیا کی خدمت اور بڑھیا کے ان کو سمجھانے اور پھر بڑھیا کے مسلمان ہو نے کا قصہ تھا، اسپیکر میرے سر پر تھا،بس جھنجھانہ رکی، اس قوالی نے میر ی سوچ کوبدل دیا، مجھے خیال ہوا کہ جس نبی کا یہ قصہ ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، میں اون کے بجائے جھنجھانہ اتر گیا اور خیال ہواکہ مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہئے، اس کے بعد شاملی بس میں بیٹھ گیا، اس میں بھی ٹیپ بج رہا تھا،پاکستان کے مولانا قاری حنیف صاحب کی تقریر تھی مرنے اور مر نے کے بعد کے حالات پر ان کی تقریر تھی، مجھے شاملی اتر نا تھا مگر وہ تقریر پوری نہیں ہوئی تھی، شاملی اڈے پر پہنچ کر ڈرائیور نے ٹیپ بند کر دیا، مجھے تقریر سننے کی بے چینی تھی بس مظفرنگر جانی تھی، میں نے تقریر سننے کے لئے مظفر نگر کا ٹکٹ لیا ، بگھرا پہنچ کر وہ تقریر ختم ہوگئی، اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلہ کو بہت کم کر دیا، میں بڑھانہ روڈ پر اترااور گھر جانے کے لئے بڑھانہ کی بس میں سوار ہوا، میرے قریب ایک مولانا صاحب بیٹھ گئے، ان سے میں نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتا ہوں یا معلو مات کر نا چاہتا ہوں، آپ میری اس سلسلہ میں مدد کریں، انہوں نے کہا آپ پھلت چلے جائیں اور مولانا کلیم صاحب سے ملیں، ان سے مناسب آدمی ہمارے علاقے میں آپ کو نہیں ملے گا، میں نے پھلت کا پتامعلوم کیا اور گھر جانے کے بجائے پھلت پہنچا، مولانا صاحب وہاں نہیں تھے، اگلے روز صبح کو آنے والے تھے،رات کو ایک ماسٹر صاحب نے مجھے مولانا صاحب کی کتاب ‘‘ آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ’’ دی، یہ کتاب اس کی زبان اور دل کو چھونے والی باتوں نے، مجھے شکار کر لیا، مولانا صاحب صبح سویرے کے بجائے اگلے روز شام کر پھلت آئے،میں نے مغرب کے بعد ان سے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور بتایا کہ میں معلومات کرنے آیا تھا، مگر آپ کی امانت نے مجھے شکار کر لیا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے، ۱۳ جنوری ۲۰۰۰ ء کو مجھے کلمہ پڑھایا، میرا نام عبداللہ رکھا، رات کو میں وہیں رکا، میں نے مولانا صاحب سے ایک گھنٹہ کا وقت مانگا اور اپنے ظلم و بر بر یت کے ننگے ناچ کی کہانی سنائی، مولانا صاحب میری بھتیجی حرا کی کہانی سن کر دیر تک روتے رہے اور بتایا کہ حرا ہمارے یہاں ہی رہی اور میری بہن کے پاس دہلی رہی، مولانا صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے، مگر میرے دل کو اس کا اطمینان نہ ہوا اس درجہ سفا کی بر بریت کو کس طرح معاف کیا جاسکتا ہے۔
مولانا صاحب مجھ سے کہتے تھے، اسلام سے سارے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اپنے دل کے اطمینان کے لئے آپ نے اتنے مسلمانوں کو قتل کیا، اب آپ کچھ مسلمانوں کی جان بچانے کی کوشش کریں، قرآن نے کہا ہے کہ نیکیاں گناہوں کو زا ئل کر دیتی ہیں، اِنَّ الْحَسَنَاتَ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتْ میں اپنی دل کی تسلی کے لئے اور اپنے ظلم کی قسمت جگانے کے لئے کوشش کر تا ہوں کہ کسی حادثہ میں کسی بیماری میں، کوئی مسلمان مرنے جا رہا ہو تو میں اس کو بچانے کی کوشش کروں، یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مرنے والے کو میں بچانے والا کون ہوں، مگر کوشش کرنے والا بھی، کر نے والے کی طرح ہوتا ہے، اس لئے کوشش کرتا ہوں۔
گجرات میں دنگے ہوئے، تو میں نے موقع غنیمت جانا، میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے خوب موقع دیا، میں نے وہاں پر ہندو بن کر بہت سے مسلمانوں کو محفوظ جگہ پر پہنچایا، یا پہلے سے خطرے سے ہوشیار کیا، پہلے جا کر ہندوؤں کے مشورہ میں شامل ہوااور دس گیارہ حملوں کی میں نے مسلمانوں کو اطلاع دے کر اپنے گاؤں سے، حملے سے پہلے ہی بھگادیا، ایک کام تو میرے اللہ نے مجھ سے ایسا کرایا جس سے مجھے ضرور بڑی تسلی ہوتی ہے، آپ نے سنا ہوگا کہ بھاؤ نگر میں ایک مدرسہ میں چار سو بچوں کو مدرسہ کے اند ر جلانے کا پروگرام تھا، میں نے وہاں تھانہ انچارج شرما کو اطلاع دی اور ان کو تیار کیا، ہندوہجوم کے آنے کے دس منٹ پہلے پیچھے کی دیوار میں نے اپنے ہاتھ سے توڑی اور اللہ نے چار سو معصوموں کی جان بچانے کا مجھے ذریعہ بنایا، میں تین مہینہ تک گجرات جاکر پڑ گیا پھر بھی میرے ظلم اتنے زیادہ ہیں کہ یہ سب کچھ اس کے برابر نہیں ہو سکتا، بس ایک بار مولانا صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اللہ کی رحمت کے لئے کیا مشکل ہے کہ موت کا وقت اور بہانہ تو اس نے خود طئے کیا ہے، جس اللہ نے آپ کو ہدایت سے نواز دیا وہ اللہ آپ کو معاف کر نے پر کیوں قادر نہیں، اس سے دل مطمئن ہوا، مولانا صاحب نے مجھے اسلام سیکھنے کے لئے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، میں نے دو ماہ کا وقت مانگا، گاؤں سے مکانات اور زمینیں سستے داموں میں فروخت کیں اور دہلی جاکر مکان لیا، بیوی اور دو بھتیجوں اور حراکی بہن کو تیار کیا اور پھلت لے جاکر کلمہ پڑھوایا، اس میں مجھے دو ماہ کے بجائے ایک سال لگا، پھر جماعت میں وقت لگا،میرا دل ہر وقت اس غم میں ڈوبا رہتا ہے کہ اتنے مسلمانوں اور پھول سی بچی کا اس سفا کی سے قتل کر نے والا کس طرح معافی کا مستحق ہے، مولانا صاحب نے مجھے قرآن شریف پڑھنے کو کہا اور خاص طور پر بروج سورت کو بار بار پڑھنے کو کہا، اب وہ مجھے زیادہ یاد ہے اور اس کا ترجمہ بھی، ۱۴۰۰ سو سال پہلے کیسی سچی بات میرے اللہ نے کہی تھی، مجھے ایسا لگتا ہے کہ غیب کے جاننے والے خدانے ہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے،
قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ، اِذْھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْد، وَّھُمْ عَلیٰ مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُھُوْدط وَمَا نَقَمُوْامِنْھُمْ اِلَّا ٓ اَنْ یُّؤْمِنُوْابِاللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَمِیْدِ، اَلَّذِیْ لَہ’ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط َواللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْد (البروج :۴تا۹) ترجمہ : ‘‘خندقوں والے ہلاک کر دیے گئے، یعنی آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا، جب کہ وہ ان کے کناروں پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو سختیاں وہ اہلِ ایمان پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے تھے، ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب اور قابلِ تعریف ہے، وہی جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔’’
احمد بھائی اس سورت کو آپ پڑھیں اور حرا کی تڑپا دینے والی آخری صداؤں پر غور کریں: میرے اللہ آپ مجھے دیکھ رہیں ہے نا ! میرے اللہ آپ مجھ سے محبت کر تے ہیں نا! ہاں! میرے اللہ آپ غار ِ حرا سے بھی محبت کر تے ہیں، اپنی حرا سے بھی پیار کر تے ہیں نا ! آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں۔۔۔پتاجی اسلام ضرور قبول کر لینا، چا چا مسلمان ضرور ہو جا نا، چا چا مسلمان ضرور ہو جانا۔ ( ہچکیوں سے روتے ہوئے)
سوال : اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے اس کا کہنا مان لیا آپ بہت خوش قسمت ہیں اس ظلم کے اندھیرے کو رحمت اور اسلام کے نور کا ذریعہ اللہ نے آپ کے لئے بنادیا۔
جواب : میں نے کہاں اس کا کہنا مانا ؟ ہدایت کا فیصلہ کر نے والے اس سے محبت کر نے دالے اللہ نے اس کا کہنا مانا، مجھ جیسا درندہ کب اس کرم سے قابل تھا ؟
سوال : بہت بہت شکریہ عبداللہ بھائی !
جواب : احمد بھائی آپ دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھ سے کوئی ایسا کام ضرور کرا دے جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے کہ میرے مظالم کی تلافی ہو گئی، واقعی قرآن کے اس فرمان میں مجھ جیسے لا علاج مریض کے لئے بڑا علاج ہے کہ اچھائیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، اس لئے گجرات فسادات میں کچھ معصوم مسلمانوں کی مدد اور جان بچانے کی کوششوں سے میرے دل کو بڑی تسلی ہوتی ہے۔
مستفاد ازماہ نامہ ارمغان، فر وری ۲۰۰۵ء
بشکریہ ( (phulat.blogspot.com