معاشرے میں کچھ لوگ تو بس یہی سوچ کر ہی پرے بیٹھ رہتے ہیں کہ بھلا وہ دین کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ ان کے مطابق یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ ان کی لمبی سی داڑھی ہو، شلوار ٹخنوں سے اوپر، قرآن شریف اگر پورا نہیں تو کچھ تو ضرور حفظ ہو، پانچوں نمازوں کی پابندی ہو اور ماتھے پر ایک محراب بنا ہوا ہو، جیب میں تسبیح اور سر پر ٹوپی ہو وغیرہ وغیرہ تو تب جا کر وہ کوئی نیکی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، آپ پر یہ فریضہ تو ایسی صورت میں بھی عائد ہوتا ہے جب آپ گناہگار ہی کیوں نا ہوں۔ آپ شراب نوشی کرنے والے ہیں تو کیا ہوا ابھی تک ہمارے زمرے میں تو ہیں ناں۔ کسی بہت بڑی برائی میں مبتلا ہیں تو کیا ہوا ،اسلام کے دائرے میں تو ہیں ناں۔ نماز کی ادائیگی میں آپ سے کوتاہی ہو رہی ہے تو کیا ہوا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج تو نہیں ہو چکے ناں۔مثال کے طور پر اگر ایک شخص نشے میں دْھت ، شراب کی بوتل ہاتھ میں تھامے اور بستر پر فحاشی کرتے ہوئے مر گیا تو وہ پھر بھی مسلمان ہی ہے۔ ہم پر واجب ہوگا کہ ہم اْسے غسل دیں، کفن پہنا کر اْسکا جنازہ ادا کریں اور مسلمانوں کے قبرستان میں شرعی طریقے سے دفن کریں۔ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے وہ مسلمان ہی رہے گا، ایسا ہی ہے ناں۔ تو اس بات کو دھیان میں رکھیئے کہ کہیں شیطان آپ کو اس طرح نا ورغلائے کہ آپ تو ایک گناہگار انسان ہیں اور دین کی اشاعت یا دین کی خدمت کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی سلسلے میں آج میرے پسندیدہ شیخ عریفی کا سنایا ہوا واقعہ آپ کی نظر ہے، کہتے ہیں کہ میں ایک بار کسی یورپی ملک سے واپس آ رہا تھا۔ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ٹرانزٹ اْترا، میرے پاس کچھ کیسٹیں تھیں جو میں ہمیشہ لوگوں کو تحفہ دینے کیلئے اپنے ساتھ رکھتا ہوں، میں نے وقت گزاری کیلئے یہ کیسٹیں لوگوں کو دینا شروع کیں۔ میرا طریقہ کار بہت آسان سا تھا۔ شکل و صورت سے عربی لگنے والے آدمی کے پاس سے گزرتا اور اْسے السلام علیکم کہتا۔ اگر وہ جواباً و علیکم السلام کہتا تو میں اْسے ایک کیسٹ تھما دیتا، لوگ میرا شکریہ ادا کرتے اور میں آگے بڑھ جاتا۔اس اثناء میں میرا گزر وہاں کے میکڈونالڈ ریسٹورنٹ کے سامنے سے ہوا جہاں پر ایک عورت عبایہ پہنے کھڑی تھی۔ عورت اپنی وضع قطع سے ریاض یا اْسکے نواح میں رہنے والی لگتی تھی کیونکہ اسکا عبایہ بالکل ویسا تھا جیسے ریاض کی عورتیں پہنتی ہیں۔ بازو کی جگہ ایک تنگ سا سوراخ جہاں سے ضرورتاً ہاتھ نکالا جاتا ہے۔ اس عورت کے پاس ایک ٹرالی پر سامان رکھا ہوا تھا اور ٹرالی پر ایک پانچ یا چھ سال کی بچی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ ریسٹورنٹ میں رش کی وجہ سے اس عورت کی دوسری بیٹی اندر جا کر کچھ خرید رہی تھی اور یہ دونوں باہر انتظار کر رہے تھے۔میں نے وہاں سے گزرتے ہوئے ان کو سلام کیا اور بچی کی طرف ایک کیسٹ بڑھائی اور کہا، بیٹی یہ میری طرف سے تحفہ لے لو۔ بچی نے ہونقوں کی طرح میرے منہ کو دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ بچی کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔اس بار میں نے مسکراتے ہوئے دوبارہ زور سے بچی کو کہا یہ کیسٹ لے لو، یہ تمہارے لیئے تحفہ ہے مگر بچی نے ابھی بھی کچھ نہ سمجھا اور میری طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔ تاہم اس اثناء میں بچی کی ماں نے بچی کو آنکھ سے کیسٹ لے لینے کا اشارہ کیا اور مجھے ٹھیٹھ انگریزی لہجے میں تھینک یو ویری مچ کہا۔ مجھے اْس کے تھینک یو ویری مچ کہنے سے حیرت تو ہوئی مگر میں نے سوچا کہ یہ ہماری بہن اگر لندن میں رہتی ہے تو خیر سے اسکا اتنا حق تو بنتا ہی ہے کہ یہاں کے اہل زبان کی کچھ اقدار کا پاس رکھے اور اْن کی زبان کو انہی کے انداز میں اپنائے۔ کیسٹ دے کر میں آگے بڑھ گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔جہاز میں سوار ہو کرمیں ریاض آ گیا۔ ایئرپورٹ پر میرا دوست سعود مجھے لینے کیلئے انتظار کر رہا تھا جو ایئرلائن کا ملازم بھی ہے۔ سعود مجھ سے پہلے ایک سفید فام مگر سینے تک آئی ہوئی داڑھی والے شخص کے ساتھ کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ مجھے آتا دیکھ کر اْس سے مصافحہ کر کے میرے پاس آگیا، مجھے مل کر میرا حال احوال پوچھ ہی رہا تھا کہ مجھے وہی عورت اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ آتی دکھائی دی جنہیں میں لندن کے ایئرپورٹ پر دیکھ چکا تھا، مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ بھی میرے ساتھ ہی ایک ہی جہاز میں آئے تھے یا انہوں نے بھی ریاض ہی آنا تھا۔ ان لوگوں کو لینے کیلئے وہی سفید فام آگے بڑھا جو کچھ دیر پہلے سعود کے ساتھ کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ میں نے حیرت کے ساتھ پوچھا سعود، یہ کون لوگ ہیں؟ سعود نے کہا یہ آدمی امریکی ہے اور ایک پرائیویٹ ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہے۔ جبکہ یہ عورت انگلینڈ سے ہے اور اس امریکی کی بیوی ہے ، دونوں بچیاں ان کی بیٹیاں ہیں اور یہ سب لوگ نو مسلم ہیں، اس سفید فام نے اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لیا اور سامان لینے کیلئے آگے بڑھ گیا۔ سعود نے مجھ سے سوال کیا کہ عریفی صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کس کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ہیں؟ میں نے کہا یقینی بات ہے کہ یہ لوگ اس مضبوطی سے دین پر قائم، پردے کی پابند بیوی اور شرع کا پابند خاوند، یہ اہم اور پڑھے لکھے لوگ کسی بہت بڑے شان اور توقیر والے عالم دین کے ہاتھوں ہی مسلمان ہوئے ہونگے۔ سعود نے کہا نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ایک سوڈانی میل نرس کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ہے جو کہ ان کے ساتھ ہی ہسپتال میں کام کرتا ہے۔ اس سوڈانی کی نہ داڑھی ہے اور نہ مونچھیں، سگریٹ کے بغیر ایک لمحہ نہ گزار پائے اور اس کے ہونٹ سگریٹ پی پی کر جلے ہوئے ہیں۔ کوئی دیکھے تو کہے کہ اس شخص سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچے گا مگر یہ دین کی اشاعت اور خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار ایک متحرک داعی ہے۔ یہ سب کچھ سن کر میں حسرت سے صرف سبحان اللہ ہی کہہ پایا۔جی، ایک لمحے کو سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ کیفیت آپ کے ساتھ ہو تو شیطان ضرور آپ کو کہے گا کہ میاں تم ٹھہرے ایک نشئی، داڑھی کو تم مونڈتے ہو، شباہت تمہاری اسلامی نہیں ہے، لباس تمہارا شرعی نہیں ہے ، تم کو کیا پڑی ہے اسلام سے، جاؤ پہلے اپنے آپ کو درست کرو اور پھر دوسروں کو درست کرنے کی سوچو۔ اگر آپ شیطان کی اس منطق پر چل پڑے تو پھر کیسے دین کا یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔میں یہاں پریہ وضاحت کر دوں کہ میں برائیوں کی حمایت نہیں کر رہا اور نہ ہی گناہوں سے محبت کو فروغ دے رہا ہوں مگر ان سب سے اہم کام کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنی مقدور بھر کوشش کرتے ہوئے دین کی ترویج میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیئے۔
٭٭٭