سماجیات
عاملوں کے فراڈ
ترتیب و تہذیب ، قاری حنیف ڈار
پیروں کی کرامات اور معجزوں کے پیچھے چھپے بہت سے نفسیاتی حربے، تیکنیک اور سائنٹیفک وجوہات پیش خدمت ہیں۔ انہی کی مدد سے یہ جعلی پیر و عامل لوگوں کے ذہن ماؤف اور دل موہ لیتے ہیں۔ پہلی ملاقات میں جعلی پیر نوواردوں سے اس قسم کے کلمات ادا کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ ’’تم تو ہر ایک کے ساتھ وفا کرتے ہو، دکھ درد بانٹتے ہو مگر تمہارے ساتھ کوئی ایسا نہیں کرتا۔‘‘ یا ’’تم ہر کام اچھے طریقے سے کرتے ہو مگر آخری مرحلے پر آکر بگڑجاتا ہے یا رک جاتا ہے‘‘ یا یہ کہ ’’تم بہت اچھے پلانر ہو، بہت اچھی منصوبہ بندی کرسکتے ہو مگر یہاں تمہاری قدر نہیں۔‘‘
یا ’’تمہارے خاندان میں ایسا بزرگ گزرا ہے جس کی کبھی تہجد کی نماز بھی قضا نہیں ہوئی، اس کے عمل کی تم پر برکت ہے۔‘‘ نفسیاتی طور پر کم فہم، پریشان حال قسم کے لوگ اس قسم کے جملوں سے فوری طور پر متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم اور نظرانداز سمجھ کر اپنے رویوں اور ناکامیوں کی وجوہات پر غور و خوض اور انھیں دور کرنے کی جدوجہد کرنے کے بجائے عملی زندگی کی جدوجہد کو ترک کرکے یا ثانوی حیثیت دے کر ایسے جعلی پیروں کے ہاتھوں کاروبار کی بندش، رشتوں کی بندش، کالے علم کی کاٹ، انعامی بانڈ کے نمبر لگوانے وغیرہ کے چکر میں لگ کر مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے خاندان کو بھی تباہ و برباد کردیتے ہیں۔
جعلی پیر اور عاملین اپنی شعبدے بازیوں کے ذریعے اپنے معتقدین کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اور اچھے برے کی تمیز بالکل سلب کردیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے معتقدین بہیمانہ قسم کے اقدامات اور قتل تک کو کرامات سمجھتے رہتے ہیں۔ جعلی پیر لیموں سے خون برآمد کرکے دِکھاتے ہیں، انڈے سے سوئیاں، بال، تعویز اور خون وغیرہ نکال کر دِکھاتے ہیں، پھولوں کے رنگ بدل دیتے ہیں، بارش میں پتنگ اڑا کر دِکھاتے ہیں۔ برف سے سگریٹ جلا کر دِکھاتے ہیں، پھونک سے کاغذ یا کپڑا جلا کر دِکھا دیتے ہیں۔آگ سے کپڑا نہ جلنے کا معجزہ دِکھاتے ہیں، بارش میں دیا جلا کر دِکھاتے ہیں، مٹکے سے بچھو نکال کر دِکھاتے ہیں۔ مٹی کو مصری بنا کر کھلا دیتے ہیں، جن کو بوتل میں بند کرکے دِکھاتے ہیں، جن سے الائچی اور تعویز وغیرہ منگواتے ہیں۔ کیلے کو اندر سے کاٹ سکتے ہیں۔ ان سب شعبدے بازیوں کے پیچھے کوئی روحانی طاقت نہیں بلکہ صرف تیکنیک اور سائنسی حقیقتیں کارفرما ہوتی ہیں، جنھیں یہ ظالم عامل مسائل زدہ سادہ لوح اور کم فہم افراد کی دولت، عزت، جان اور عقاید کو بگاڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔مثلاً اگر دوات میں املی کا عرق ڈال دیا جائے تو پھر اس دوات سے لکھا نہیں جاسکتا۔ اگر سمندری جھاگ اور گندھک پیس کر روئی کی بتی بنائیں اور تلوں کے تیل میں جلائیں تو یہ چراغ آندھی اور بارش میں بھی جلے گا۔ اگر دارچینی پیس کر آٹے میں ملادیں اور کسی کتے کو کھلادیں تو وہ ناچنا شروع کردے گا۔ اجوائن چبا کر کھالیں تو نیم کے پتے کڑوے نہیں لگیں گے۔ اس قسم کے تماشے عام لوگوں کی توجہ ایسے شعبدے بازوں کی طرف مبذول کراتے ہیں، پھر روحانیت اور عملیات کا لبادہ اوڑھے یہ نوسر اور شعبدے باز افراد اپنے آستانوں اور دفاتر میں شعبدے بازی کے مزید ایڈوانس شوز کرکے اپنے گرویدہ افراد کو ذہنی طور پر بالکل مفلوج و معتوب کردیتے ہیں۔ جن کو بوتل میں بند کرنے کا مظاہرہ کرنے کے لیے خالی بوتل میں مائع امونیا ڈال کر گھماتے ہیں۔کیمیکل کو بوتل سے نکالنے کے بعد بوتل کے ڈھکن پر نمک کے تیزاب کے دو تین قطرے ڈال کر ڈھکن کو اس طرح رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ قطرے نہ گریں، مریض کا جن اتارنے کے موقع پر جعلی پیر اس بوتل پر وہ ڈھکن لگادیتے ہیں۔ اس پر لگائے گئے تیزاب کے قطرے بوتل میں گرتے ہی دھواں بننے کا جو عمل شروع ہوتا ہے، اسے جن ظاہر کرکے داد اور دولت دونوں سمیٹے جاتے ہیں۔جلالی اور بھسم کردینے والے پیر دھوکا دینے کے لیے فاسفورس کی ڈلیوں کو عمل شروع کرنے سے پہلے منہ میں رکھ لیتے ہیں۔ پھر جلالی کیفیت ظاہر کرتے ہوئے فاسفورس کی ڈلی کاغذ یا کپڑے پر گرادیتے ہیں۔ چند لمحوں میں فاسفورس خشک ہوتے ہی کاغذ یا کپڑے میں آگ لگ جاتی ہے اور لوگ پیر کے جلال سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ جن کو انڈے میں بند کرکے بوتل میں قید کرنے کے لیے انڈے کو انگور کے سرکے سے نصف وزن کی ایسیٹک ایسڈ ملا کر محلول تیار کرلیا جاتا ہے، اس محلول میں تین دن انڈے کو رکھا جاتا ہے، جس سے انڈا ربر کی طرح ہوجاتا ہے اور آسانی سے تنگ منہ والی بوتل میں ڈالا جاسکتا ہے۔ جس سے پیر صاحب کی واہ واہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح کسی سائل کو انڈا پڑھ کر دیا جاتا ہے کہ اس کو 5 یا 7 دن زمین میں دبا کر رکھے، پھر واپس لائے۔ جب اس انڈے کو توڑا جاتا ہے تو اس میں سے خون نکلتا ہے جو قدرتی عمل ہے۔بہت سے عاملین دہکتے ہوئے انگارے منہ میں رکھ کر جن بھوت اور سفلی علم کی کاٹ کرنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس عمل کے لیے نوشادر اور عقر قرحا خالص کو پیس کر سفوف بنالیتے ہیں، جس کو عمل کے وقت منہ میں رکھ لیتے ہیں جس سے سفوف کا لعاب بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کو پورے منہ میں گھما کر نکال لیتے ہیں، جس کے بعد انگارہ اثر نہیں کرتا ہے، مینڈک کی چربی، عقر قرحا، پارہ اور گھیکوار کے پیسٹ سے تیار کردہ مرکب ہتھیلیوں پر مل کر آگ کے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا کر بھی اپنی کرامات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کیلے کے اندر باریک سوئی داخل کرکے جو آر پار نہ ہونے پائے دائیں بائیں جانب گھما کر کیلا اندر سے کاٹ دیا جاتا ہے پھر اسے چھیل کر کرامات کا اظہار اور نذرانوں کی بوچھاڑ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی کپڑے کو پھٹکری اور انڈے کی سفیدی کے محلول میں بھگو کر خشک کرکے پھر نمک کے پانی میں ڈبو کر خشک کرلیا جاتا ہے، پھر وہ کپڑا آگ نہیں پکڑتا۔ یہ کرامت بھی بڑی پراثر ہوتی ہے۔سفلی اور کالے علم پر یقین دلانے کے لیے جعلی پیر اور عاملین لیموں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ لیموں سائل کو گھر میں رکھ کر واپس لانے کا کہا جاتا ہے، واپسی پر کاٹا جاتا ہے تو اس میں سے خون نکلتا ہے۔ اس شعبدے کے لیے بلبل کے خون میں چھری تر کرکے خشک کرلی جاتی ہے اور جب اس چھری سے لیموں کاٹا جاتا ہے تو اس کے رس میں خون شامل ہوجاتا ہے۔ بعض عامل گھروں پر عمل کے دوران گھڑا منگوا کر اس میں گدھے کا پیشاب اور بھینس کا گوبر ملادیتے ہیں، جس سے کیمیائی عمل کے ذریعے چند ہی دنوں میں خطرناک بچھو پیدا ہوجاتے ہیں، ان کو مار کر جن بھوتوں کو مار دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ انڈے سے سرنج کے ذریعے تمام مواد کھینچ لینے اور اس میں خون، سوئیاں، بال اور تعویذ وغیرہ داخل کرکے کرامت ظاہر کرنے اور علاج کرنے کا طریقہ بھی بڑا عام اور پرانا ہوچکا ہے۔
اس قسم کی ٹیکنیک اور شعبدے بازی کرکے جعلی پیر و عاملین مسائل اور مصائب زدہ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر ان کی جان مال، عزت و آبرو سے کھیل کر دین و دنیا دونوں برباد کررہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اس قسم کے سائنسی فارمولے، ٹیکنیک اور وجوہات دِکھا کر ایسے جعلی پیروں اور عاملین کے سحر کو پاش پاش کر سکتا ہے۔
***