سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں؟
جواب : میرا نام الحمد للہ محمد خالد ہے، میرا گھریلو نام ونود کمار کھنہ تھا، میری پیدائش ۲؍ اگست ۱۹۵۶ء میں پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں ہوئی، ہمارا آبائی وطن پٹیالہ ہے، میرے والد کا نام جناب ڈاکٹر انل کمار کھنہ ہے، وہ میکانیکل انجینئر ہیں اور وہ پانچ سال پہلے بجلی پانی کے محکمہ ہائیڈل سے ایگزیکیٹیو انجینئر کی پوسٹ سے رٹائرڈ ہوئے ہیں، میں نے بھی الیکٹر کل میں انجینئرنگ کی اور والد صاحب کے محکمہ میں مجھے ملازمت مل گئی، ۱۵ سال برابر میری پوسٹنگ بھی جالندھر میں رہی، تین سال پہلے میرا پرموشن میں ٹرانسفر ہوگیا، آج کل وہیں پر فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، بہت دنو ں سے مولانا صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، مجھے ایک دفتری کام سے دہلی کا سفر تھا، موقع غنیمت سمجھ کر ملنے آیا ہوں، الحمد للہ ملاقات بھی ہوگئی اور ضروری باتوں کے لئے مشورہ بھی ہوگیا۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے ؟
جواب : آج سے ٹھیک تیرہ سال پہلے ۱۹ ؍ اپریل ۱۹۹۲ء کو میں دہلی سے دفتر کے کام سے واپس لوٹ رہا تھا دہلی سے سپر فاسٹ اکسپریس میں سوار ہوا، گاڑی مظفر نگر اسٹیشن پر پہنچی، گاڑی میں لوگ سوار ہوئے، ان سوار ہونے والوں میں ایک ( اگر میں اپنی پیدائش زبان میں یہ کہوں کہ ) دیوتا بھی گاڑی میں سوار ہوئے تو میرا خیال ہے کہ اس زبان میں وہ ہی ٹھیک ہوگا، اسلامی زبان میں رحم و کرم کا فرشتہ، نبی رحمت کا سچا وارث بھی کہہ سکتا ہوں، مجھ سے کچھ فاصلہ پر تیسری سیٹ پر بیٹھ گئے دو منٹ گاڑی رکی اور چل دی۔ ذراسی دیر میں رفتار تیز ہوگئی، وہ دیوتا اور فرشتہ صفت انسان احمد بھائی آپ کے والد، میرے سب سے بڑے محسن مولانا کلیم صاحب تھے۔ میرے برابر میں مظفر نگر کا ایک دیہاتی شاید جاٹ چودھری بیٹھا تھا، گاڑی جب تیز ہوگئی تو اس نے سوال کیا کہ مظفر نگر کتنی دیر میں آجائے گا۔ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ تاؤجی مظفر نگر تو جا چکا، یہ اسٹیشن جس سے ہم سوار ہوئے ہیں، مظفر نگر ہی تھا۔ اس کو مظفر نگر اترنا تھا، وہ چودھری اپنی سیٹ کے نیچے سے سامان کی گٹھری اپنے سر پر رکھ کر دروازہ کی طرف بڑھا اور جلدی میں دروازہ سے چلتی گاڑی سے کودنا چاہتا تھا، مولانا صاحب نے پہلے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر اس کو دونوں ہاتھوں میں تھاما اور کہا تاؤ جی اب آپ نہیں اتر سکتے، آپ دیوبندتک چلیں، گاڑی رکے گی، آپ اتر کر کسی دوسری گاڑی سے مظفر نگر واپس آنا۔ وہ چودھری ضد کرنے لگا، میری لڑکی کے منگنی والے آرہے ہیں، مجھے جلدی جانا ہے۔ مولانا صاحب اس کو کھینچ کر اپنی سیٹ پر لے آئے اور اس کو سمجھایا کہ تاؤ جی جب آپ زندہ بچیں گے، تب تو آپ منگنی کریں گے، چلتی گاڑی سے اتریں گے تو آپ بچیں گے کہاں ؟ وہ ضد کرتا رہا، مگر مولانا صاحب اس کو مضبوط تھامے رہے اور کہا کہ میں دیوبند سے پہلے آپ کو نہیں اترنے دونگا جب چودھری کو یقین ہوگیا کہ یہ ہر گز مجھے چلتی گاڑی سے نہیں اتر نے دیں گے، تو اس نے مجبوراً اپنی گٹھری سیٹ کے نیچے ڈال دی، دیو بند اسٹیشن آیا، گاڑی رکی، مولانا صاحب نے اس کی گٹھری اٹھائی اور اس کو اتارا، گٹھری اس کے سپرد کی، میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ ہمارا گھرانہ بہت مذہبی سمجھا جاتا تھا اور مجھے خود اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ میں بہت سوشل انسان ہوں۔ یہ، منظر دیکھ کر میرے ضمیر کو بہت چوٹ لگی میرے دل میں خیال آیا کہ میرا ہم مذہب ہندوبھائی میرے برابر سے اٹھ کر چلتی گاڑی سے کود کر گویا مرگیا اور ایک غیر مذہب کے بہت مذہبی دکھائی دینے والے مسلمان نے اس تعصب کے زمانہ میں (یہ بابری مسجد رام جنم بھومی کی آگ کا زمانہ تھا) اس کی جان بچائی۔ اس لئے کہ اگر مولانا صاحب اس کو نہ روکتے اور بہت کوشش کرکے زبردستی کھینچ کر نہ لاتے تو چودھری تو مر گیا تھا۔ مجھے اپنے حال پر بڑی شرمندگی ہوئی اور میں اٹھ کر مولانا صاحب کے سامنے والی سیٹ پر جاکر بیٹھا اور مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا آپ نے تو مجھے بہت بڑی سزا دی، مجھے اس قدر تکلیف ہورہی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ ٹرین سے کود کر مر جاؤں۔ مولانا صاحب نے بڑے پیار سے کہا معاف کیجئے میں تو آپ سے بہت دور بیٹھا ہوں، آپ سے میری کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی، پھر بھی اگر کوئی تکلیف ہوئی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ ساتھ میں سفر کرنے والے ہیں اور ایک مسلمان پرسا تھی مسافر کا بڑا حق ہوتا ہے۔
میں نے کہا مولانا صاحب ہندو مسلم نفرت کی اس آگ کے زمانہ میں آپ نے ایک ہندو کو اتنی محنت سے مرنے سے بچالیا اور یہ میرا مذہبی بھائی میرے برابر سے اٹھ کر مرگیا تھا، مجھے یہ ہوش نہ آیاکہ میں اس کو روکتا اور آپ اتنی دور سے جاکر اس کے لئے پریشان ہوئے۔ مجھے یہ خیال ہورہا تھاکہ ایسی بے حسی کی زندگی سے مرجانا بہتر ہے۔ واقعی مولانا صاحب آپ کی تو یہ بڑائی کی بات تھی، مگر مجھے آپ کے اس برتاؤ نے بڑی سزا دی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اپنے کو اس کی کیا سزا دوں؟مولانا صاحب میرے اس احساس سے بہت خوش ہوئے اور پیار سے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور بولے میرے پیارے بھائی مالک کا کرم ہے کہ آپ کو احساس ہوگیا، ورنہ یہ دنیا تو بس اپنے میں کھوئی ہوئی ہے اور میں تو آپ سے بہت گیا گذرا ہوں، بس مالک کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان مذہبی گھر میں پیدا کیا جس کی وجہ سے ہمیں انسانیت کے کچھ اصول آگئے۔ہمارے نبیﷺ نے ہمیں پڑوسیوں، انسانوں اور جانداروں کے حقوق بتائے ۔مولانا صاحب نے دیر تک رسول اللہﷺ کی باتیں، ہمیں بتائیں اور بیچ بیچ میں حضرت محمدﷺ کے سچے وارث کے ایسے کئی اللہ والوں کے بھی قصے سنائے، باتیں محبت کی اور سنانے والا کچھ ایسا کہ لوگ اکٹھا ہو گئے، بار بار دل بھر آرہا تھا کئی لوگ تو رو پڑے۔
میں نے مولانا صاحب سے تعارف چاہا، تو انھوں نے بتایا کہ صوفی سنتوں کی ایک مشہور تاریخی بستی پھلت ہے، جہاں پر دنیا کے مشہور اسلامی اسکالر حضرت شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے، وہ وہیں کے رہنے والے ہیں۔ مولانا صاحب نے اپنا پتہ لکھ کردیا اور میرا پتہ بھی معلوم کیا اور جب یہ معلوم ہوا کہ میں جالندھر میں انجینئر ہوں، تو مولانا صاحب نے اپنے دو لوگوں کے فون نمبر اور پتے دیئے جو جالندھر میں کاروبار کے سلسلہ میں آتے تھے اور مجھے ان سے رابطہ رکھنے کی تاکید کی۔ مولانا صاحب کے دونوں ساتھی اصل میں مولانا صاحب کے مرید تھے، جالندھر جاکر میں ان سے ملامجھے انھوں نے بہت متاثر کیا انھوں نے مجھے مولانا صاحب کی کتاب،‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’ اور اسلام کیا ہے ؟ دی۔ میں نے ٹرین میں اسلام کی ہلکی سی کرن مولانا صاحب کے عمل کی شکل میں دیکھی تھی ’ان دونوں کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے لئے کسی شک کی گنجائش نہیں رہی اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔ شروع میں مجھے لوگوں نے اپنے اسلام کو چھپانے کا مشورہ دیا، ایک سال تک میں نے اعلان نہیں کیا، مگر بعد میں مجھے خیال ہوا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں ایک غلط راہ پر تو ہم کھلے عام چلیں اور اللہ کی زمین پر، اللہ کے آسمان کے نیچے، اللہ کی بندگی چھپ کر کریں، یہ کیسی بزدلی اور کم ظرفی کی بات ہے۔ میں نے کچہری جا کر اپنے قبول اسلام کے قانونی کاغذات بنوائے اور پھر گھر والوں کے سامنے اعلان کردیا، اپنی بیوی سے بھی بتا دیا، گھر کے لوگ بہت برہم ہوئے اور میرے والد کے علاوہ سب لوگ مجھے برا بھلا کہتے رہے۔ گھر سے نکل جا نے کو کہا میرے والد صاحب نے گھر والوں سے کہا اس طرح لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، یہ پڑھا لکھا ہے، ہوشیا ربھی ہے، کوئی پا گل نہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مذہب بدلنے کا فیصلہ بڑا فیصلہ ہے بہت سوچ سمجھ کر کر نا چا ہئے، میں نے ان سے کہا کہ میں نے دو سال خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔
اسلام کو پوری طرح جاننے اور نماز وغیرہ سیکھنے کے لئے مجھے کسی آدمی کی تلاش ہوئی تو میں نے ایک مولانا صاحب سے جو سہار نپور کے رہنے والے تھے اور ایک مسجد میں امام تھے مولانا محمد اشتیاق صاحب ان سے رابطہ کیا، میں نے ان کے پاس رات میں جانا شروع کیا تین چار روز کے بعد انھوں نے ہمیں بتا یا کہ اسلام قبول کر نے کے بعد آپ کی بیوی سے آپ کا رشتہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ ہندو ہیں اب ان کے ساتھ آپ کا رہنا جائز نہیں، اسلام میں نے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ ایک پکے مسلمان کی طرح اسلام کے ہر قانون کو جانوں۔ میں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا اور اپنی بیوی سے اپنی مجبوری بتائی میرے دو چھوٹے بچوں کا مسئلہ تھا جن میں سے ایک ابھی دودھ پیتا تھا،اس مسئلہ کے بعد میرے خاندان میں میرے قبول اسلام کی سخت مخالفت ہوئی اور مجھے سخت مسائل کا سامنا کر نا پڑا ۔مجھے مولانا ا شتیاق صاحب نے بتا یا کہ مولانا کلیم صاحب کو ہم نے جالندھر کی دعوت دی ہے اور انھوں نے اگلے ہفتہ پنجاب کے سفر کا وعدہ کر لیا ہے ان کا اصلی سفر سمر الا ضلع لدھیا نہ کا تھا میں نے اس خیا ل سے کہ جالندھر سفر ہو نہ ہو اور بات کا موقع ملے یا نہ ملے، سمر الا جا کر ملاقات کو اچھا سمجھا جہاں رات کو مولا نا صاحب کو رکنا تھا میں نے چھٹی لی، سمرالا دوپہر کو پہنچ گیا، عصر کے بعد مولا نا صاحب آگئے ملاقات ہوئی میرے قبول اسلام سے بہت خوش ہوئے اور مجھے بتا یا کہ کئی رات وہ میرے لئے ہدایت کی دعا کرتے رہے کہ یا اللہ کیسا اچھا آدمی ہے، کیسا صاحب ضمیر ہے، وہ تو ہدایت کا ضرور مستحق ہے، اللہ کا شکر ہے میرے اللہ نے سن لی، میں نے اپنی بیوی سے علاحدگی وغیرہ کے بعد در پیش مسائل کے سلسلہ میں مشورہ کیا، مولانا صاحب نے مجھے اللہ کے ہر حکم کو ماننے پر رضا مندی پر مبا رکباد دی، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ کو، کسی بھی حکم پر عمل کر نے سے پہلے کسی داعی سے رابطہ کر نا چا ہئے کہ دعوت کا قانون الگ ہوتا ہے، اسلامی شریعت کا اصول یہ ہے کہ دو نفعوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو تو چھوٹے نفع کو چھوڑ کر بڑے نفع کو اختیار کرنا چاہئے اور دو نقصانوں میں سے ایک کو قبول کرنا ضروری ہوتو بڑے نقصان کے مقابلے چھوٹا نقصان قبول کیا جا ئے گا، ہمارا زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ اگر احتیاط کے ساتھ ان حالات میں شوہر کو بیوی کے ساتھ رہنے دیا جائے اور شوہر فکر مند رہے تو بیوی بچے مسلمان ہو ہی جاتے ہیں اور اگر الگ کر دیا جائے تو پھر اس کا امکان بہت کم ہو جا تا ہے۔ اس حال میں اگر چہ نا محرم کے ساتھ رہنا ایک گناہ ہے، مگر کم از کم دو بچوں اور بیوی کے قبول اسلا م کی امید پر اس کو برداشت کیا جائے گا، بس اللہ سے توبہ کرتے رہیں اور تھوڑے فاصلہ پر احتیاط سے رہیں۔ یعنی ازدواجی تعلق سمجھ کر ساتھ نہ رہیں، ایک داعی اور مدعو سمجھ کر ساتھ رہیں۔ مولانا صاحب نے فون نمبر بھی دیا اور مجھے تاکید کی کہ ہر مسئلہ میں مجھ سے مشورہ کریں، یہ ملاقات میرے لئے بڑی راحت کا ذریعہ بنی، میں اپنے گھر چلا گیا اور میں نے ٹرین والے واقعہ کے ساتھ مولانا صاحب کا تعارف کرا رکھا تھا، میں نے سمرالہ لوٹ کر بیوی کو بتا یا کہ مولانا صاحب نے مجھے بہت برا بھلا کہا کہ ایسی وفادار اور محبت کرنے والی بیوی کو مسلمان ہوکر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں، اب تو اور بھی ان کا حق بڑھ گیا ہے، میں نے اپنی بیوی کو یہ بھی بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے یہ بات بتا ئی ہے کہ سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ مولانا صاحب نے مجھے اردو اور قرآن شریف پڑھنے کا مشورہ دیا میں نے روزانہ اس کے لئے ایک گھنٹہ دینا شروع کیا اور آدھا گھنٹہ بیوی پر دعوت کے لئے بلا نا غہ لگا یا، جس میں اس سے محبت کی با تیں کرتا اور دو و چار باتیں اسلام کی حقانیت اور ہندو مذہب کی خلاف ِعقل باتو ں کی کرتا، چار سال کی مسلسل لگن کے بعد میری بیوی اسلام قبول کر نے کے لئے راضی ہوگئی اور میں نے قرآن شریف اور اردو اس طرح پڑھ لیا کہ میں اردو اچھی طرح لکھنے لگا۔ جنوری ۱۹۹۹ء میں میں نے دو روز کا اپنی بیوی کے ساتھ پھلت کا سفر کیا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے بتا یا کہ آپ کے ذمہ حج فرض ہے، اب الحمد للہ ہمارے یہاں چار بچے تھے اور ایک کی ولادت قریب تھی وقت ایسا تھا کہ حج کے موقع پر میری بیوی کا سفر مشکل تھا اس لئے ہم نے اگلے سال حج کا پختہ ارادہ کیا اور الحمد للہ ۲۰۰۰ ء میں پانچوں بچوں کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی، حج کے اس سفر میں دس دس روز میرا مدینہ منورہ کا قیام عجیب رہا اصل میں ۱۹۹۶ء میں میں نے مولانا صاحب کی کتاب ارمغان دعوت پڑھی اس کو پڑھ کر میرے دل میں یہ بات بالکل بیٹھ گئی کہ پوری انسانیت تک نبی کے درد کے ساتھ اسلام کی دعوت کو مقصد بنائے بغیر مسلمانی جھوٹی ہے بس مجھے کچھ کر نے کی سوجھی اور میں نے جا لندھر میں چمڑا رنگنے والی ایک آبادی کو نشانہ بنایا۔ میں نے اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو جوڑا گھر والوں پر محنت کے ساتھ میں نے ان پس ماندہ لوگوں پر کام شروع کیا، الحمد للہ چند سا لوں کی کوشش اللہ نے قبول کی اور اس برادری کے پنجاب میں تقریباً ۲۰۰ لوگوں نے کفر و شرک سے توبہ کی۔ جا لندھر میں ایک مسجد اور مدرسہ بنوایا، اس کے علاوہ تین گردواروں کے گرنتھی بھی مسلمان ہوئے، یہ میری مدینہ حاضری عجیب جذبہ سے ہوئی تھی، دل چاہتا تھا کہ قدموں سے نہیں بلکہ پیارے نبیﷺ کے شہر میں پلکوں سے چلوں، روضہ اطہر پر پہنچ کر میں بے خود ہوگیا، ایک عجیب مد ہوشی کی کیفیت تھی، میں نے محسوس کیا کہ پیارے نبیﷺ نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا ہے، میں نے اپنی شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیا کہ پیارے نبیﷺ آپ نے تو اس دعوت کے لئے کیسے کیسے قربانیاں دی ہیں، مگر ہم تو بس نام کے مسلمان ہیں، پیارے نبی ارمغان دعوت سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ کے سے درد کے بغیر آپ کا کہلانے کا حق نہیں ہے، کیا میرا یہ خیال صحیح ہے؟ مجھے ایسا لگا جیسے آپﷺ نے میرے خیال کی تائید کی ہو اور فرمایا کہ بلاشبہ ہمارے اس کام کے بغیر ہمارا کہلانے کا حق نہیں ہے اور تم سے ہمیں جو پیار ہے وہ اس لئے کہ تم نے سماج کے کمزور سیکڑوں لوگوں کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کی۔
سوال : یہ باتیں آپ سے بیداری میں ہوئیں؟
جواب : مجھے تو پتہ نہیں کہ مجھے نیند تھی یا خیال تھا یا مد ہوشی، مگر اس میں اتنا مزہ تھا کہ آج تک اس کا مزہ محسوس ہوتا ہے، بلکہ جب بھی مجھے ذرا غفلت ہوتی ہے، میں اس کا تصور کرلیتا ہوں، میرا جذبہ بالکل تازہ ہو جاتاہے، خود دس روز تک مدینہ منورہ کے قیام کے دوران مجھ پر اس واقعہ کا نشہ سا طاری رہا اور الحمدللہ دس روز میں اکیس بار خواب میں حضور اکرم ﷺ کی اس گندے کو زیارت ہوئی، الحمدللہ میں نے وہیں پر ڈاڑھی رکھ لی اور تقوی کی زندگی گذارنے کاعزم کرلیا، ملازمت کے دوران اس سلسلہ کی جو بے احتیاطی ہوئی تھی، ان کی مدینہ منورہ میں ایک فہرست بنائی اور حج سے واپسی کے بعد اہل حق کاحق ادا کرنا شروع کیا، کافی حد تک میرے اللہ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔
سوال : آپ کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟
جواب : احمد بھائی ! میرے تین بیٹے عبداللہ، عبدالرحمن اور عبدالرحیم ہیں اور دو بچیاں فاطمہ اور عائشہ ہیں، میری اہلیہ کا نام بھی میں نے آمنہ رکھا، میں نے ایک مولانا صاحب کو صرف اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے گھر پر رکھا ہوا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے میں فیملی پلاننگ کا قائل تھا اس لئے گیارہ سال تک ہمارے ایک بچہ اور بچی چھ سال کے فاصلہ سے پیدا ہوئے تھے، مگر میں نے اسلام قبول کیا تو مجھے خیال ہوا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کا معاملہ اچھا نہیں، جب میں نے اسلام قبول کیا ہے، تو اب عقل میں آئے یا نہ آئے مجھے اسلام کو ماننا ہے اور اللہ تعالی نے مجھے چھ بچے عطافرمائے، مجھے خوشی ہوتی ہے، مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اسلام کے سلسلہ میں میری کیفیت بدل گئی اب مجھے اسلام کا ہر حکم سو فیصد عقل کے مطابق بالکل برحق لگتا ہے، چنانچہ اب میں فیملی پلاننگ کی حمایت کے خلاف کسی بڑے سے بڑے اسکالر سے مناظرہ کرسکتا ہوں، میرے پیارے نبیﷺ حکم دیں کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو اور ہم مسلمان ہو کر ان احمق انگریزوں کے چکر میں فیملی پلاننگ کی حماقت کو ترقی سمجھیں، کیسی بے وقوفی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر میرے اللہ مجھے بیس بچے دیں گے اور میں نے ان کی تعلیم و تربیت کا اسلامی حق ادا کیا تو سب سورج چاندبنیں گے، انشاء اللہ ثم انشاء اللہ، الحمد للہ میرے بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور دینی تعلیم کی حالت سے بھی میں مطمئن ہوں۔
سوال : آپ نے اپنے والدین پر کام نہیں کیا؟
جواب : میرے اللہ کا مجھ پر کرم ہے کہ میرے والد رٹائرڈ ہو کر پٹیالہ اپنے گھر چلے گئے، میں نے حج کے دوران ملتزم پر اور عرفات میں اپنے والد اور والدہ اور اپنی چھوٹی بہن کے لئے خوب ہدایت کی دعا کی اور حج سے واپسی پر سیدھا پٹیالہ گیا اور ایسا لگتا تھا کہ والد صاحب خود ہی تیار تھے، وہ اصل میں پاکستان کے ایک صوفی با با بولے شاہ چشتی کے مرید بابا سانولی شاہ سے بہت متاثر تھے، با با سانولی شاہ گرداس پور کے رہنے والے تھے، ۱۲۵ سال کی عمر ہوئی اور بڑے مجاہدے کئے توحید کے قائل تھے، بڑے ذکر وغیرہ کرتے تھے، ان کا پنجابی میں تصوف پر بڑا کلام چھپا بھی ہے شاید وہ کہیں ان سے بیعت بھی ہوگئے تھے، حج سے واپسی پر انھوں نے مجھ سے زمزم مانگا اور کھڑے ہوکر عقیدت سے پیا، مدینہ کی کھجوریں بہت آنکھوں کو لگا کر کھائیں اور بار بار کہتے رہے کہ مدینہ اور مدینہ والے کی باتیں بتاؤ ؟میں نے جب ان سے اپنے مدینہ کے کچھ واقعات سنائے تو وہ سن کر رونے لگے اور بولے بیٹا تو نے بڑی قسمت پائی ہے، مجھے مدینہ سے ان کی ایسی عقیدت کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان سے مدینہ والے کا پیغام بتا کر اسلام قبول کر نے کو کہا تو انھوں نے بتایا کہ میں تو تیرے آنے کا انتظار کر رہا تھا، مجھے میرے با با سانولی شاہ کی خواب میں زیارت ہوئی تو انھوں نے بتا یا کہ دین تو سچا اسلام ہی ہے، پھر اس کو مانتے کیوں نہیں ؟اس دن سے میں بے چین ہوں میں نے ان سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہا، الحمد للہ انھوں نے کلمہ پڑھا میں نے ان کا نام محمد عمر رکھا، اس کے بعد میں نے محبت سے اپنی والدہ کی خوشامد کی تین روز کی کوشش سے وہ بھی مسلمان ہوگئیں، اس کے بعد سارے گھر میں میری بہن بچی تھی۔ شادی کے ایک سال کے بعد وہ بیوہ ہوگئی تھی ہم سب کے اسلام کے بعد اس کے مسلمان ہونے کی زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی، وہ خود بہت بھلی انسان ہے بلکہ ہم سبھی سے اچھی ہے۔
سوال : ماشاءاللہ خالد صاحب آپ کے ساتھ اللہ کی خاص رحمت ہے، ورنہ گھر والوں کے سلسلہ میں بڑے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
جواب : الحمداللہ میرے لئے میرے اللہ نے سب کچھ بلا مشقت مقدر کر رکھا ہے، واقعی میں اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔
سوال : بتائیے آپ تو دن رات دعوت کی دھن میں لگے رہتے ہیں، دعوتی زندگی کے کچھ خاص تجربات، کچھ خاص مشکلات یا نکات سنائیے ؟
جواب : احمد بھائی اصل میں میری زندگی کے اجالے کی شروعات آپ کے والد صاحب کی محبت کی کرنوں سے ہوئی ہے، میری نگاہ میں کوئی آئیڈیل اور نبی کا سچا متبع مسلمان اگر کوئی ہے جو میں نے دیکھا ہے، تو وہ مولانا کلیم صاحب ہیں، میں کہا بھی کرتا ہوں :
دیر و حرم میں روشنی شمس و قمر سے ہوتو کیا
مجھ کو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں
مولانا صاحب کی ایک تقریر میں نے لدھیانہ میں سنی، انھوں نے کہا کہ اسلام ایک نور ہے اور مسلمان اس نور سے منور ایک یونٹ ( اکائی ) ہے نور اور روشنی کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ہوگی تو منور کرے گی، یعنی مسلمان ہوگا تو داعی ہوگا اور داعی اس طرح کا کہ اس کی پہچان داعی ہو میں تو الحمد للہ اپنا کام اور اصل مشغلہ دعوت کو سمجھتا ہوں اور مجھ سے کوئی مشغلہ پوچھتا ہے تو میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ میں ہائیڈل میں انجینئیرہوں بلکہ دعوت بتا تا ہوں اور یہ بتا نا بھی میں نے مولانا صاحب سے سیکھا ہے اور الحمدللہ مجھے بتانے اور کہنے کا بہت فائدہ ہوا، پہلے میں نے کہنا شروع کیا تھا، الحمد للہ کہتے کہتے میرے شعور میں یہ بات بیٹھ گئی، میں، الحمد للہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ کم ازکم دعوت پر خرچ کرتا ہوں۔ میرے بچے میری بیوی برابر کے شریک ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے منصب اور مشغلے کا شعور ہوجائے تو پوری دنیا اسلام کی پیاسی ہے اور دعوت اسلام کے لئے ماحول بالکل سازگار ہے، اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اس کے لئے تیار نہیں، مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار کرنا اور ان کو اس سلسلہ میں ذ مہ دار ی کا احساس دلانا بڑا مشکل ہے، ایک داعی کو سب سے بڑی مشکل مسلمانوں کے ذمہ داری کا نہ سمجھنے اور دعوتی شعور نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے۔ اصل میں انسان ایک سماجی حیوان ہے اسے زندگی کے ہر مرحلہ میں ایک سماج کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا سماج جو اسے اسلام پر باقی رکھنے میں معاون ہو۔میں آپ کو ایک درد ناک واقعہ بتاتاہوں، جالندھر میں جو چمڑا رنگنے والے لوگ مسلمان ہوتے ہیں ان میں سے ایک ذمہ دار اور حددرجہ فکر مند ساتھی ہیں جو پہلوان کے نام سے مشہور ہیں، ان لوگوں میں کام کرنے میں ہمارے سب سے فعال ساتھی ہیں ابتدا سے بہت پکے، حج بھی کرلیاہے، اس علاقہ میں چھ مسجدیں واگذار کرانے میں ان کا بنیادی حصہ ہے ۔مدرسہ کے قیام میں مرکزی کردارادا کررہے ہیں۔ اپنے چاروں بچوں کو انھوں نے حافظ بنایا، بڑی بچی ہے اس کو بھی حفظ کرایا، چار بار قرآن شریف تراویح میں اس نے سنایا۔ جب اس کی شادی کا مرحلہ آیا تو کوئی آدمی اس سے شادی کو تیارنہ ہوا، چار سال تک کو شش کرتے رہے، بہت معمولی درجہ کے لڑکوں سے شادی کی کوشش کی، مگر چما رکہہ کر لوگ ہٹ گئے وہ بہت جذباتی آدمی ہیں بہت مجبور ہوکر انھوں نے اپنی حافظ لڑکی کی شادی اپنی برادری کے غیر مسلم سے کردی۔ جس کے گھر میں خنزیر پلتے ہیں اور اس کا گوشت پکتا ہے، اب پہلوان کا حال یہ ہوگیا کہ مسلمان کا نام آتا تھا تو گالیاں بکتا تھا۔ میں نے اس کو سمجھایا بھی تھا کہ بغیر شادی کے رہ جانا اس سے بہتر ہے کہ غیر مسلم کے یہاں جائے اور حرام کاری کی مجرم ہو۔ اصل میں ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کے کارخانے میں ان کا ایک مزدور ملازم مسلمان تھا، جو بالکل ان پڑھ اور موٹی عقل کا تھا، انھوں نے اس سے شادی کی پیشکش کی، اس نے صاف انکار کردیا کہ چماروں میں میں تو ہرگز بھی نہیں کرسکتا۔بس اس غصہ میں کہ ہمارا ملازم بھی اس لڑکی سے شادی کو منع کردے انھوں نے غیر مسلم سے اس کی شادی ہندو انہ طریقہ پر کر دی۔ خود میرے لئے یہ بہت تکلیف کی بات تھی، وہ لڑکی ساری ساری رات روتی تھی، کئی بار اس نے زہر بھی کھایا، مگر زندگی تھی نہیں مری، اللہ کا کرنا کہ آپ کے والد صاحب کا یہاں کا سفر ہوا، میں نے پورا واقعہ سنا یا۔ انھوں نے جالندھر جاکر پہلوان سے ملاقات کی اور ان کو سمجھایا کہ آخرت اور اللہ کی رضا کے لئے مسلمان ہوئے ہوتو ان مسلمانوں سے کیا امید لگا تے ہو، پھر انھوں نے اپنے دو ساتھیوں کو لڑکی کے شوہر پر لگا یا، الحمد للہ وہ مسلمان ہوکر اپنا گھر چھوڑ کر آگیا، ان کا نکاح کرایا، مولانا صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ بچوں کی شادی کرانے کی ذمہ داری ہماری ہے، اب اللہ کا شکر ہے مسئلہ حل ہوگیا۔ سچی بات یہ ہے احمد بھائی، اس لڑکی کے شوہر کے مسلمان ہونے کی خوشی مجھے اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تھا اس وقت مجھے دعوتی شعور نہیں تھا اور اس بات کا مجھ پر دن رات غم سوار تھا، میں راتو ں کو اس سلسلہ میں مولانا صاحب کے لئے دعائیں کرتا ہوں،اس لئے میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار ہونا بہت ضروری ہے، اگر مسلمانوں کو ذمہ داری کا ا حسا س ہوجائے تو پھر دعوت کا کام بالکل آسان ہے اور ماحول بہت ساز گار ہے، ادھر تو پیاس ہے بے چینی ہے، بس ہم میں ان کو کچھ دینے اور سیراب کرنے کا شعور ہی نہ ہوتو پھر کیا کیا جائے ؟اس لئے مولانا صاحب ہر وقت اس غم میں گھلتے رہتے ہیں اور دن رات یہی بات کہتے ہیں کہ بس مسلمانوں، سارے انسانوں بلکہ کائنات کے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو دعوتی ذمہ داری کا احساس ہوجائے، اس سلسلہ میں بڑا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال : بہت بہت شکریہ خالد صاحب، ارمغان کے لئے میں نے بہت سے لوگوں سے باتیں کیں بہت سے انٹرویو لئے مگر مجھے بڑا احساس ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت کا کام آپ کو جس طرح سمجھایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں سمجھا یا، آپ کے ساتھ رہ کر اس سلسلہ میں استفادہ کرنا چاہئے اللہ نے موقع دیا تو آپ کے ساتھ رہوں گا۔
جواب : احمد بھائی آپ شرمندہ کرتے ہیں، میں تو خود بہت کڑھتا ہوں کہ نبی کا امتی ہونے کا ہم حق ادا نہیں کررہے ہیں، یہ جو کچھ زبانی باتیں ہیں وہ صرف آپ کے والد صاحب کے درد کا ایک فیض ہے، یہ بات ضرور ہے کہ مولانا صاحب میرے اورہمارے ساتھیوں کے واسطہ سے قبول اسلام کرنے والے سینکڑوں لوگوں کے اسلام کو اس بات کے ثبوت میں بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے لئے حالات کس قدر سازگار ہیں، مولانا صاحب کہا کرتے ہیں کہ دعوت کا شور مچانے والا ایک شخص ایک طرح سے بے شعوری میں انسانی ہمدردی میں چلتی گاڑی سے کود پڑنے والے ایک چودھری کا ہاتھ پکڑ کر سیٹ پر بٹھا لیتا ہے تو یہ چھوٹاساہمدردی کا عمل سیکڑوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے اس سے زیادہ دعوت کے لئے ساز گار حالات ہونے کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے ۔
سوال : واقعی بڑی سچی بات ہے، بہت بہت شکریہ ! آپ نے بڑے کام کی بات بتائی اور ان سے قارئین ارمغان کو انشاءاللہ بڑا فائدہ ہوگا، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
جواب : شکریہ ! آپ کا کہ آپ نے مجھے اس کارخیر میں شریک کیا، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
فی امان اللہ۔
مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، مئی ۲۰۰۵ء