ا حمد اواہ : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ’
ڈاکٹر حذیفہ : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ’
سوال : اللہ کا شکر ہے آپ آگئے، ابی سے بہت مرتبہ آپ کا ذکر سنا، ابی اکثر لوگوں کے سامنے آپ کا ذکر کرتے ہیں، اپنے خونی رشتہ کے بھائیوں کی خیر خواہی اور ان کو ہمیشہ کی ہلاکت اور عذاب سے بچانے کے لئے اسلام کی دعوت دینا نہ صرف یہ کہ اسلامی فریضہ ہے بلکہ یہ ایک خیر خواہی ہونے کی وجہ، ہمارے ملک کے قانون کے لحاظ سے بھی ہمارا قانونی حق ہے، اس سلسلہ میں آپ کے قبول اسلام کا تذکرہ مثال کے طور پر کیا کرتے ہیں، مجھے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا، اللہ نے ملاقات کرادی،
جواب : میں دہلی ایک سرکاری کام سے آیا تھا، مولانا صاحب کا فون تو ملتا نہیں، خیال ہوا کہ فون کر کے دیکھ لوں، اگر پھلت ہوئے تو ملاقات کرکے جاؤں گا، بہت دنوں سے ملاقات نہ ہو پانے کی وجہ سے بہت بے چین ساتھا، فون ملایا تو معلوم ہوا مولانا صاحب دہلی میں ہی ہیں، میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ دہلی میں ملاقات ہوگئی میرے اللہ کا کرم ہے رمضان سے پہلے ملاقات ہوگئی ہے، بیقراری بھی بہت ہورہی تھی اور ذراایمان کی بیٹری بھی چارج سی ہوگئی، بہت دن ملاقات کو ہو جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے، جیسے اندر کی بیٹری ڈاؤن ہوگئی ہو، الحمد للہ ملاقات ہوگئی اور ایک پروگرام میں بھی مولانا صاحب کے ساتھ شرکت ہوگئی، بیان سے بھی تسلی سی ہوگئی۔
سوال : حذیفہ صاحب میں آپ سے ایک مطلب کے لئے ملنا چاہتا تھا، ہمارے یہاں پھلت سے ایک ماہنامہ میگزین ارمغان کے نام سے نکلتا ہے، شاید آپ کے علم میں ہو، اس کے لئے ایک انٹرویو آپ سے لینا چاہتا ہوں تاکہ دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے رہنمائی بھی ہوخصوصاً آپ کے انٹرویوسے خوف کم ہو اور حوصلہ بڑھے۔
جواب : ہاں احمد بھیاّ!میں ‘ ارمغان ’ کو خوب جانتا ہوں میں نے مولانا صاحب سے کئی مرتبہ درخواست کی ہے کہ اس کا ہندی ایڈیشن ضرورنکالیں، میں نے مولانا صاحب سے کہا تھا کہ ہندی کے کم سے کم پانچ سوسالانہ ممبر میں بنواؤں گا انشاء اللہ،مجھے معلوم ہوا ہے کہ ستمبر سے ہندی ایڈیشن نکل رہا ہے، مگر نہ جانے کیا وجہ ہوئی ستمبر، میں بھی وہ نہیں آ سکا،
سوال : وہ انشاء اللہ جلدی آرھاہے، آپ فکر نہ کریں، ابی اور مولانا وصی صاحب اس کے لئے بہت فکر مند ہیں اور لوگوں کا تقاضا بھی بہت ہے۔
جواب : خدا کرے یہ خبر جلدی سچ ہو، احمد بھائی حکم کریں مجھ سے کیا معلوم کرناچاہتے ہیں ؟
سوال : آپ اپنا تعارف کرایئے؟
جواب : مشرقی یوپی میں بستی ضلع کے گاؤں کے زمیندار کے یہاں میری پیدائش ۱۳؍اگست ۱۹۵۷ء میں ہوئی، ۱۹۷۷ء میں انٹر پاس کیا، میرے چچا یوپی پولیس میں ڈی ایس پی تھے، ان کی خواہش پر پولیس میں بھرتی ہو گئی، دوران ملازمت ۱۹۸۲ء میں میں نے بی کام کیا اور ۱۹۸۴ء میں ایم اے کیا، یوپی کے ۵۵ تھانوں میں انسپکٹر تھانا انچارج رہا، ۱۹۹۰ء میں پرموشن ہوا، سی او ہو گیا ۱۹۹۷ء ایک ٹریننگ کے لئے فلوراکیڈمی جانا ہوا تو اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب اے. اے صدیقی صاحب نے جو ہمارے چچا کے دوست بھی تھے، مجھے کر منالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے چھٹی لے کر ۲۰۰۰ءمیں پی ایچ ڈی کیا۱۹۹۷ءمیں میری پر فارمینس (ملازمت میں بہترکاکردگی ) کی بنیاد پر خصوصی پر موشن ڈی ایس پی کے عہدہ پر ہوگیا اور میری پوسٹنگ مظفر نگر میں خفیہ پولیس کے محکمہ میں ہوگئی،میرے ایک چھوٹے بھائی ہیں جو انجنیئر ہیں ایک بہن ہے جس کی شادی ایک لکچررسے ہوئی،خاندان میں الحمد للہ تعلیم کا رواج رہا ہے،آج کل میں مشرقی یوپی میں ایک ضلع ہیڈکوارٹر میں محکمہ خفیہ پولیس کا ذمہ دار ہوں۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایئے ؟
جواب : ہمارا خاندان اپنی مسلم دشمنی میں مشہوررہاہے، اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ ہمارے خاندان کی ایک شاخ تقریباََ سوسال پہلے مسلمان ہوکر فتح پرہنسوہ اور پر تاب گڑھ میں جاکر آباد ہوگئی تھی، جو بہت پکے مسلمان ہیں، ادھر ہماری بستی میں تیس سال پہلے بستی کے زمین داروں کی چھو ا چھوت سے تنگ آکر آٹھ دلت خاندانوں نے اسلام قبول کیا تھا، ان دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے خاندان میں مسلم دشمنی کے جذبات اور بھی زیادہ ہوگئے تھے، بابری مسجد کی شہادت کے زمانے میں اس میں اور بھی زیادتی ہوگئی،ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے بجرنگ دل کی ایک برانچ گاؤں میں قائم کرلی تھی جس میں سب سے زیادہ خاندان کے لڑکے ممبر تھے، میں نے یہ باتیں اس لئے بتائیں کہ کسی آدمی کے اسلام قبول کرنے کے لئے مخالف ترین ماحول میرے لئے تھا، مگر اللہ کو جس کا نام ہادی اور رحیم ہے اپنی شان کا کرشمہ دکھا نا تھا، اس نے ایک عجیب راہ سے مجھے راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ غازی آباد ضلع کے پلکھوہ کے ایک خاندن کے نو لوگوں نے مولانا کے پاس آکر پھلت میں اسلام قبول کیا، دو ماں باپ اور چار لڑکیاں اور تین لڑکے، لڑکا شادی شدہ تھا، مولانا صاحب سے ان لوگوں نے کلمہ پڑھوانے کے لئے کہا اور بتا یا کہ ہم آٹھ لوگ تو ابھی کلمہ پڑھ رہے ہیں یہ بڑا لڑکا شادی شدہ ہے اس کی بیوی ابھی تیار نہیں ہے، جب اس کی بیوی تیار ہوجائے گی یہ اس کے ساتھ کلمہ پڑھے گا، مولانا صاحب نے کہا موت زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں، یہ بھی ساتھ ہی کلمہ پڑھ لے، ابھی اپنی بیوی کو نہ بتائے اور اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ پھر دوبارہ کلمہ پڑھ لے مولانا صاحب نے ان سب کو کلمہ پڑھوایا اور ان کی فرمائش پر ان سب کے نام بھی اسلامی رکھ دیئے، ان لوگوں کے کہنے پر ایک پیڈ پر ان کے قبول اسلام اور ان کے نئے ناموں کا سرٹیفکٹ بنا کر دے دیا،ان لوگوں کو بتا بھی دیا کہ قانونی کارروائی ضروری ہے اس کے لئے بیان حلفی تیار کرا کے ڈی ایم کو رجسٹر ڈ ڈاک سے بھیجنا اور کسی اخبار میں اعلان نکالنا کافی ہوگا، یہ لوگ خوشی خوشی وہاں سے گئے اور قانونی کارروائی پکی کرالی، بچوں کو مدرسہ میں داخل کردیا،بڑی لڑکیاں اور ماں عورتوں کے اجتماع میں جانے لگیں۔
مسلمان عورتوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے خوشی میں مٹھائی تقسیم کردی، لڑکے کی بہو کو معلوم ہوگیا، اس نے اپنے مائکہ والوں کو خبر کردی ایک سے ایک کو خبر ہوتی گئی اور ماحول گرم ہو گیا علاقہ کی ہندو تنظیمیں جوش میں آگئیں، ٹی وی چینل کے لوگ آگئے،دیکھتے دیکھتے خبر پھیل گئی دینک جاگرن اور امر اجالا دونوں ہندی اخباروں میں چار کالموں کی بڑی بڑی خبریں چھپیں، جن کا ہیڈنگ تھا ‘‘لالچ دے کر دھرمانترن پر پوری ہندو برادری میں روش، دھر مانتر ن پھلت مدرسہ میں ہوا ’’اس خبر سے پورے علاقے میں گرمی پیدا ہوگئی میری پوسٹنگ مظفر نگر میں تھی، علاوہ اپنی دفتری ذمہ داری کے مجھے خود اس خبر پر غصہ آیا اور ہم اپنے دو انسپکٹروں کو لے کر پھلت پہنچے، وہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ مولانا صاحب ہی صحیح بات بتا سکتے ہیں اور ہمیں اطمینان دلایا کہ ہمارے یہا ں کو ئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا،مولانا صاحب سے آپ ملیں وہ آپ کو بالکل حق بات بتادیں گے میں نے اپنا فون نمبر وہاں دیا کہ مولانا صاحب سے معلوم کر کے مجھے بتائیں کہ وہ پھلت کب آرہے ہیں ؟
تیسرے روز مولانا صاحب کا پھلت کا پرو گرام تھا، ۶؍ نومبر ۲۰۰۲ء کی صبح ۱۱؍بجے ہم پھلت پہنچے،مولانا صاحب سے ملے، مولانا صاحب بہت خوشی سے ہم سے ملے ہمارے لئے چائے ناشتہ منگایا، بولے بہت خوشی ہوئی آپ آئے، اصل میں مولوی ملاؤں اور مدرسوں کے سلسلہ میں بہت غلط پرو پیگنڈہ کیا جاتا ہے، میں تو اپنے ساتھیوں اور مدرسے والوں سے بار باریہ کہتا ہوں کہ پولیس والوں ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں اور سی آئی ڈی، سی بی آئی کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدرسوں میں بلانا بلکہ چند دن مدرسوں میں مہمان رکھنا چاہئے، تاکہ وہ اندر کے حال سے واقف ہوجائیں اور مدرسوں کی قدر پہچانیں، مجھے معلوم ہواکہ آپ ایک دن پہلے بھی آئے تھے، مجھے ایک سفر پر ادھر ہی سے جانا تھا مگر خیال ہوا کہ آپ کو انتظار کرنا ہوگا، اس لئے میں صرف آپ کے لئے آج آگیا ہوں مولانا صاحب نے ہنس کر کہا، فرمائیے میرے لائق کیا سیوا ہے ؟احمد بھائی! مولانا صاحب نے ملاقات کے شروع میں ہی کچھ ایسے اعتماد اور محبت کا اظہار کیا کہ میری سوچ کا رخ بدل گیا، میرا اندر کا غصہ آدھا بھی نہ رہا، میں نے اخبار نکالے اور معلوم کیا کہ آپ نے یہ خبر پڑھی ہے ؟ مولانا صاحب نے بتایا کہ رات مجھے یہ اخبار دکھا یا گیا تھا میں نے امراجالا میں یہ خبر پڑھی ہے، میں نے کہا پھر آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ مولانا صاحب نے بتا یا کہ میں ایک سفر پر جارہا تھا، گاڑی میں سوار ہو رہا تھا کہ ایک جیپ گاڑی آئی مجھے سفر کی جلدی تھی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لوگ حضرت جی سے ملنے آئے ہو ں گے ان کو ادھر قاری حفظ الر حمن صاحب کا پتہ بتا دو مگر ایک صاحب جانتے تھے، کہا ہمیں کسی دوسری جگہ نہیں جانا ہے ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں یہ ہمارے بھائی اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور ایک مہینہ سے پریشان ہیں، میں گاڑی سے اترا ان کو کلمہ پڑھوایا، ان کے زیادہ کہنے پر ان کے اسلامی نام بھی بتائے اور ان کو ایک سرٹیفکٹ بھی قبول اسلام کا دیا اور ان کو بتادیا کہ قانونی کارروائی پکی جب ہوگی جب آپ بیان حلفی تیار کر کے ڈی یم کو اطلاع کریں گے اور ایک اخبار میں اعلان کردیں گے اور اچھا ہے کہ ضلعی گزٹ میں دیدیں، ان لوگوں نے وعدہ کیا کل ہی جاکر ہم سب کارروائی پوری کریں گے اور مجھے علم ہوا کہ انھوں نے یہ سب کام پورے کرالئے ہیں مولانا صاحب نے کہا کہ ہمارا ملک سیکولر ملک ہے اورملک کے قانون نے اپنے مذہب کو ماننے اور مذہب کی دعوت دینے کا بنیادی حق ہمیں دیا ہے، کسی کو ایمان کی دعوت دینا، کوئی مسلمان ہونا چاہے اس کو کلمہ پڑھوانا ہمارا بنیادی قانونی حق ہے،جس چیز کا قانون ہمیں حق دیتا ہے، اس کے سلسلہ میں ہم لوگ کسی سے نہیں ڈرتے اور غیر قانونی کام ہم لوگ جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتے، بھول میں ہوجائے تو اس کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جہاں تک لالچ دے کر یا ڈرا کر مذہب بدلوانے کی بات ہے، یہ بالکل غیر قانونی ہے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ غیر قانونی کام ممکن بھی نہیں ہے، مذہب بدلنا یا کسی کا مسلمان ہونا اس کے دل کے وشواس کا بدلنا ہے، جو لالچ اور ڈر سے ہو ہی نہیں سکتا، آپ کو خوش کرنے کے لئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں ہندو ہوتا ہوں یا مسلمان ہوتا ہوں مگر اتنا بڑا فیصلہ اپنی زندگی کو آدمی اندر سے راضی ہوئے بغیر نہیں کرسکتا۔
دوسری اس سے بھی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان اس کو کہتے ہیں جو ہر سچی بات کو مانے، سارے سچوں سے سچا ہے ہمارا ما لک ا ور اس کے بھیجے ہوئے رسول حضرت محمدﷺ جن کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ و ہ صرف مسلمانوں کے رسول اور ان کے لئے مالک کے سندیش واہک تھے، حالانکہ قرآن میں اور آپ کی حدیثوں میں صرف یہ بات ملتی ہے کہ ہم سب کے مالک کی طرف سے بھیجے ہوئے سارے انسانوں کی طرف انتم (آخری ) اور سچے سند یشٹا ( رسول ) تھے، وہ ایسے سچے تھے کہ ان کے دین کے اور ان کی جان کے آخری دشمن بھی کبھی ان کو جھوٹا نہ کہہ سکے، بلکہ دشمنوں نے آپ کا لقب الصادق الامین اور سچا اور ایمان دار کا دیا،ہمارا وشواس یہ ہے کہ دن ہورہا ہے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں یہ آنکھیں دھوکہ دے سکتی ہیں، یہ بات جھوٹ ہو سکتی ہے کہ دن ہورہاہے، مگر ہمارے رسولﷺ نے جو ہمیں خبر دی ہے اس میں ذرہ برابر غلطی، دھوکہ یا جھوٹ نہیں ہوسکتا، ہمارے رسولﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ سارے دنیا کے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اس لئے سارے جگت کے انسان آپس میں خونی رشتہ کے بھائی ہیں، شاید آپ کے یہاں بھی یہی مانا جاتا ہے میں نے کہا یہ بات تو ہمارے یہاں بھی مانی جاتی ہے، مولانا نے کہا یہ تو بالکل سچی بات ہے ہم اور آپ خونی رشتہ کے بھائی ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ میرے چچا ہو، یا میں آپ کا چاچا ہوں، مگر آپ کے اور ہمارے بیچ خونی رشتہ ہے، اس خونی رشتہ کے علاوہ آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی انسان، انسان وہ ہے جس میں انسیت ہو یعنی محبت ہو، ایک دوسرے کی بھلائی کا جذبہ ہو، اس رشتہ سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو دھرم ہی اکیلا مکتی کا راستہ اور موکش کا طریقہ ہے، تو آپ کو مجھے اس رشتہ کا لحاظ کرتے ہوئے، ہندو بنانے کی جی جان سے کوشش کرنی چاہئے اور اگر آپ انسان ہیں اور آپ کے سینہ میں پتھر نہیں ہے دل ہے، تو اس وقت تک آپ کو چین نہیں آنا چاہئے، جب تک میں غلط راستہ چھوڑ کرمکتی کے راستہ پر نہ آجاؤں، مولانا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بات ہے یا نہیں؟میں نے کہا بالکل سچ بات ہے، مولاناصاحب نے کہا آپ کو سب سے پہلے آکر مجھے ہندو بننے کے لئے کہنا چاہئے تھا، دوسری بات یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں، نکلتے سورج کی روشنی سے زیادہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اسلام ہی واحد، سب سے پہلا اور سب سے آخری، فائنل مذہب اور مکتی اور موکش یعنی نجات کا واحد راستہ ہے، اگر آپ مسلمان ہوئے بغیر دنیا سے چلے گئے تو آپ کو ہمیشہ کی نرک میں جلنا پڑے گا اور زندگی کا ایک سانس کے لئے بھی اطمینان نہیں، جو سانس اندر چلا گیا کیا خبر کہ باہر آنے تک آپ زندہ رہیں گے یا نہیں اور جو سانس باہر نکل گیا کیا خبر کہ اندر آنے تک زندگی وفا کرے گی ؟ اس حال میں اگر میں انسان ہوں اور میں آپ کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی سمجھتا ہوں تو جب تک آپ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہو ں گے مجھے چین نہیں آئے گا یہ بات میں کوئی ناٹک کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، تھوڑی دیر کی اس ملاقات کے بعد اس خونی رشتہ کی وجہ سے اگر مجھے رات سوتے سوتے بھی آپ کی موت اور نرک میں جلنے کا خیال آئے گا تو میں بے چین ہوکر بلکنے لگوں گا، اس لئے سر آپ پلکھوہ والوں کی فکر چھوڑ دیجئے، جس مالک نے پیدا کیا ہے جیون دیا ہے اس کے سامنے منہ دکھانا ہے، میرے درد کا علاج تو جب ہوگا جب آپ تینوں مسلمان ہوجائیں گے، اس لئے آپ سے رکویسٹ (درخواست) ہے کہ آپ میرے حال پر ترس کھائیں، آپ تینوں کلمہ پڑھیں،احمد بھائی میں عجیب حیرت میں تھا، مولانا صاحب کی محبت جیسے جادو ہو، میں ایسے خاندان کا ممبر ہوں، جس کی گھٹی میں مسلمانوں، مسلم بادشاہوں اور اسلام کی دشمنی پلائی گئی ہے اور اس خبر کے سلسلہ میں حد درجہ برہم ہو کر میں گویا مخالف ان کوائری کے لئے فیصلہ کرکے پھلت گیا تھا اور مولانا صاحب مجھے نہ اسلام کے مطالعہ کو کہتے ہیں، نہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کہتے ہیں، بس سیدھے سیدھے مسلمان ہونے کو کہہ رہے ہیں اور میری انتر آتما، میرا ضمیر گویا مولانا صاحب کی محبت کے شکنجہ میں جیسے بالکل بے بس ہو، میں نے کہا بات تو آپ کی بالکل سادی اور سچی ہے اور ہمیں سوچنا ہی پڑے گا، مگر یہ فیصلہ اتنی جلدی کرنے کا تو نہیں ۔ مولانا صاحب نے کہا سچی بات یہ ہے کہ آپ اور ہم سب مالک کے سامنے ایک بڑے دن حساب کے لئے اکٹھا ہوں گے تو اس وقت اس سچائی کو آپ ضرورپائیں گے کہ یہ فیصلہ بہت جلدی میں کرنے کا ہے اور اس میں دیر کی گنجائش نہیں اور آدمی اس میں جتنی دیر کرے گا پچھتائے گا، پتہ نہیں پھر زندگی فیصلہ لینے کی مہلت دے یا نہ دے اور موت کے بعد پھرا فسوس اور پچھتا وے کے علاوہ آدمی کچھ نہیں کرسکتا بالکل یہ بات سچ ہے کہ ایمان قبول کرنے اور مسلمان ہونے سے زیادہ جلد بازی میں کرنے کا کوئی اور فیصلہ ہونہیں سکتا ہاں اگر آپ ہندو دھرم کو مکتی کا راستہ سمجھتے ہیں تو پھر مجھے ہندو بنانے میں اتنی ہی جلدی کرنی چاہئے جس طرح میں مسلمان بننے کے لئے جلدی کرنے کو کہہ رہا ہوں، مجھے خیال ہوا کہ جس وشواس (مضبوط اعتمادویقین ) کے ساتھ مولاناصاحب مسلمان ہونے کو کہہ رہے ہیں اس میں اس اعتقاد کے ساتھ میں ہندو بننے کو نہیں کہہ سکتا، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے پورے دھرم کو کہی سنائی رسموں پر آدھارت کہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے، جب ہمارا ہندو دھرم پر وشواس کا یہ حال ہے تو یہ کسی کو کس بل بوتے ہندو بننے کو کہہ سکتے ہیں ؟ میرے اندر سے جیسے کو ئی کہہ رہا تھا، رام کمار اسلام میں ضرور سچائی ہے جو مولانا صاحب کے اندر یہ وشواس ہے، مولانا صاحب کبھی کبھی بہت خوشامد، کبھی ذرا زورسے بارہا ہم لوگوں سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کے لئے کہتے رہے، جب مولانا صاحب خوشامد کر تے تو مجھے ایسا لگتا جیسے کسی زہر کھانے کا ارادہ کرنیوالے یا آگ میں کودنے والے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کوئی ہمدرد، کوئی ماں، خوشامد کرتی ہے۔
مولانا صاحب ہمیں بار بار کلمہ پڑھنے پر زور دیتے رہے میں نے وعدہ کیا ہم لوگ ضرور غور کریں گے، ہمیں پڑھ نے کے لئے بھی دیجئے، مولانا نے اپنی کتاب ـ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’دی اور ہمیں سوسوبار روزانہ یاہادی، یا رحیم اس وشواس کے ساتھ پڑھنے کو کہا کہ وہ مالک راستہ دکھانے والا، سب سے زیادہ دیا کرنے والا ہے، آنکھیں بند کرکے اس مالک کو جب آپ ان ناموں سے یاد کریں گے تو آپ کے لئے اسلام کے راستے ضرور کھول دیں گے، اصل میں دلوں کو پھیرنے کا فیصلہ اسی اکیلے کا کام ہے، میں نے مولانا صاحب سے کہا اچھا ہے، ماحول گرم ہورہا ہے آپ اخبارات میں اس خبر کاکھنڈن نکلوادیں، مولانا صاحب نے کہا میں نے ان کو دینی اور ان کا قانونی حق سمجھ کر کلمہ پڑھوایا ہے، جھوٹ کھنڈن کرانا کس طرح ہوسکتا ہے ؟ میری رائے یہ ہے کہ آپ کو بھی کسی جھوٹ بات کو چھپانا نہیں چاہئے، میں نے کہا اچھا ہم خود کر دیں گے ہم لوگ واپس ہوگئے تو میرے دونوں انسپکٹرس مجھ سے بولے، سر دیکھا کتنے سچے اور سجن آدمی ہیں، ہم لوگوں کا تو دل کا بو جھ ہلکا ہوگیا مو لا نا صا حب تو ایسے آدمی ہیں کہ کبھی کبھی شا نتی کے لئے ان کی سنگتی میں آکر بیٹھا جا ئے کوئی لا گ نہیں لپیٹ نہیں، صاف صاف باتیں۔
سوال : آپ نے کلمہ نہیں پڑھا ؟
جواب : میں نے گھر جاکر آپ کی اما نت آپ کی سیوا میں پڑھی محبت ہمدردی اور سچائی اس کے لٖفظ لفظ سے پھوٹ رہی تھی، مجھے اس کتاب کو پڑھ کر لگا کہ ایک بار پھر میری ملاقات مولانا صاحب سے ہوگئی ہے،اس کے بعد بار بار میرے اندر مولانا صاحب سے ملاقات کی ہوک سے اٹھتی رہی، اسلام کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا، میں مظفر نگر میں ایک دکان سے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لے کر آیا، میں نے فون پر مولانا صاحب سے اس کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا، مولانا صاحب نے کہا، دیکھئے قرآن مجید کو آپ ضرور پڑھیں مگر صرف اور صرف یہ سمجھ کر پڑھیئے کہ میرے مالک کا بھیجا ہوا یہ کلام ہے یہ سوچ کر اور پڑھیں کہ یہ مگر صرف اور صرف میرے لئے بھیجا ہے، اس لئے مالک کا کلام سمجھ کر اچھا ہے آپ اشنان کر کے پڑھیں، پاک کلام کا پاک نور، پاک اور صاف ستھری حالت میں پڑھنا چاہئے، دو ہفتوں میں میں نے پورا قرآن مجید پڑھ لیا اب میرے لئے مسلمان ہونے کے لئے اندر کے دروازے کھل گئے تھے، میں نے پھلت جاکر مولانا صاحب کے سامنے کلمہ پڑھا مولانا صاحب نے میرا نام ‘‘ رام کمار ’’ بدل کر میری خواہش پر محمد حذیفہ رکھا اور بتایا کہ ہمارے نبیﷺ اپنے ایک صحابی کو راز داری اور جا سوسی کے لئے بھیجا کرتے تھے، مجھے اس لحاظ سے یہ نام بہت اچھا لگا۔
سوال : اس کے بعد اسلام کے مطالعہ کے لئے آپ نے کیا کیا َ؟
جواب : مولانا صاحب کے مشورہ سے ہی چھٹی لے کر ایک چلہ جماعت میں لگایا، مگر مولانا صاحب نے مجھے سختی سے منع کردیا تھا کہ آپ کسی سے جماعت میں اپنا پرانا تعارف نہ کرائیں، نہ اپنے آپ کو نو مسلم کہیں، اس لئے کہ آپ سچی بات یہ ہے کہ پیدائشی مسلمان ہیں، ہمارے نبی نے سچی خبر دی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا اسلامی نظریہ پر پیداہوتا ہے اس لئے ہر مذہب کے بچے کو دفنا یا ہی جا تا ہے، آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں اور ہم سب کے باپ حضرت آدم اس کا ئنات کے سب سے پہلے مسلمان تھے اس لئے آپ پشتینی مسلمان ہیں، جماعت میں میرا وقت اچھا گذرا، لوگ مجھے انگریزی پڑھا لکھا، دینی تعلیم سے بالکل کورا مسلمان سمجھ کر مجھے نماز وغیرہ یا دکرانے کی کوشش کرتے رہے، گجرات کے ایک نوجوان عالم ہماری جماعت کے امیر تھے، میں نے چالیس دن میں پوری نماز اور بہت سی دعائیں یاد کرلیں، جماعت سے واپس آیا تو میرا ٹرانسفر الہ آباد ہوگیا، اپنی الہ آباد پوسٹنگ کے دوران میں نے اپنی بیوی کو بہت کچھ بتادیا، وہ بہت فر ما نبردار بھولی بھالی عورت ہیں، انھوں نے میرے فیصلہ کی ذرا بھی مخالفت نہیں کی، بلکہ میرے ساتھ ہر حال میں رہنے کا وعدہ کیا میں نے اس کو بھی کتابیں پڑھوائیں، ہماری شادی کو دس سال ہوگئے، تھے مگر کوئی اولاد نہیں تھی میں نے اس کو لالچ دیا، اسلام قبول کرنے سے ہمارا مالک ہم سے خوش ہوجائے گا اور ہمیں اولاد بھی دے گا، اولاد نہ ہو نے کے غم میں وہ بہت گھلتی رہتی تھی وہ اس بات سے بہت خوش ہوگئی، ایک مدرسہ میں لے جاکر اس کو کلمہ پڑ ھو وایا، میں نے اپنے اللہ سے بہت دعاکی میرے رب میں نے آپ کے بھروسے اس سے وعدہ کرلیا ہے، آپ میرے بھروسے کی لاج رکھئے اور اس کو چاہے ایک ہی ہو، اولاد دیجئے خداکا کرنا ایسا ہوا کہ اللہ نے گیارہ سال کے بعد ہمیں ایک بیٹا دیا اور تین سال کے بعد ایک بیٹی بھی ہوگئی ہے۔
سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی ملازمت میں کوئی مشکل نہیں آئی ؟
جواب : میں نے الہ آباد پوسٹنگ کے دوران اپنے قبول اسلام کا اعلان کردیا اور قانونی کارروائی ہائی کورٹ کے ایک وکیل کے ذریعہ کرائی، جس کے لئے مجھے اپنے محکمہ سے اجازت لینی ضروری تھی میں نے اس کی درخواست کی، ایک دویدی جی ہمارے بوس تھے، انھوں نے مجھے بہت سختی سے روکا اور دھمکی دی کہ اگر آپ نے یہ فیصلہ کیا تو میں آپ کو معطل کردوں گا، میں نے ان سے صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ فیصلہ تو میں کرچکا ہوں اب واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کو جو کچھ کرنا ہو کر دیجئے انھوں نے مجھے سسپینڈ (معطل) کر دیا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور تین چلے کے لئے جماعت میں چلا گیا، بنگلور اور میسور میں میرا وقت گزرا اور الحمد للہ بہت اچھا گذرا، مجھے اس وقت تین بار حضورﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی جس کی مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کرسکتا، واپس آیا تو اللہ نے میرے تمام افسروں کو نرم کردیا، لکھنؤمیں ایک مسلمان افسر جو بہت بڑی پوسٹ پر ہیں، میں نے ان سے جاکر اپنا پورا حال سنایا وہ پھلت جاچکے تھے اور مولانا صاحب کو جانتے تھے، انھوں نے میری مدد کی اور مجھے ملازمت پربحال کردیا گیا۔
سوال : آپ کے دونوں انسپکٹر ساتھیوں کا کیا ہوا؟ جو ابی سے آپ کے ساتھ ملنے گئے تھے؟
جواب : ان میں سے ایک نے اسلام قبو ل کرلیا ہے ان کے گھر والوں کی طرف سے ان پر بہت مشکلیں آئیں، ان کی بیوی ان کو چھوڑ کر چلی گئی مگر وہ جمے رہے اور اللہ نے ان کے حالات کو حل کیا دوسرے بھی اندر سے تیار ہیں مگر وہ بھی اپنے ساتھی کی مشکلات دیکھ کر ڈرے ہوئے ہیں۔
سوال : آپ نے اپنے خاندان والوں پر کام نہیں کیا؟
جواب : الحمد للہ کام جاری ہے، اس کام کی بڑی تفصیلات ہیں، میری ٹرین کا وقت ہورہاہے، پھر کسی ملاقات میں آپ تفصیلات سنئے تو آپ کو بہت مزا آئے گا۔
سوال : ایک منٹ میں ارمغان کے پاٹھکوں (قارئین )کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گے؟
جواب : اسلام سے بڑی کوئی سچائی نہیں اور جب یہ ایسی سچائی ہے تو اس کے ماننے والوں کو نہ اس پر عمل کرنے میں ڈرنا چاہئے نہ اس کو دوسروں تک پہنچانے سے رکنا چاہئے، تھوڑی بہت مخالفتیں آئیں گی، ہمارے مولاناصاحب کہتے ہیں کہ اسلام ایک روشنی ہے اور سارے باطل مذاہب اندھیرے، اندھیرے کبھی اجالے پر حاوی نہیں ہو سکتے، اجالا ہی غالب ہوا کرتا ہے، کبھی کبھی جب روشنی کی کمی ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ اندھیرے چھا گئے اور غالب آگئے مگر ذرا اجالا کیجئے اندھیرے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں، بس میرا یہ ماننا ہے اور یہی میرا پیغام ہے کہ فتح ہمیشہ روشنی والوں کی ہوتی ہے اس لئے کسی طرح کے ڈر کے بغیر اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور بغیر لالچ کے سچی ہمدردی کا حق ادا کرنے کی نیت سے دعوت دی جائے تو مجھ جیسے اسلام اور مسلم دشمنی میں پلے، مخالفانہ ان کوائری کا فیصلہ کرنے والوں کو جب ہدایت ہوسکتی ہے، تو بھولے بھالے سادہ دماغ لوگوں پر اثرنہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
سوال : شکریہ ! جزاک اللہ
جواب : اچھا اجازت دیجئے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کاتہ’
سوال : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، بہت بہت شکریہ، انشاءاللہ جب کبھی آپ آئیں گے تو دوسری قسط ضرور سنائیے گا۔
جواب : انشاءاللہ ضرور
مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، اکتو بر ۲۰۰۶ء