سود کی کمائی کا انجام
(رشیدہ خانم’ لاہور)
جب میرے تایا فوت ہوئے تو ان کے ہاتھ میں 10روپے کانوٹ تھا۔ میرے تایا کی حالت بچوں جیسی ہوگئی تھی روزانہ بہو سے کبھی 5 روپے اور کبھی 10 کا نوٹ مانگتے تھے اور وہ دیتی تھیں۔ تمام لوگوں نے ان کی اس حالت کو بڑھاپا اور معصومیت قرار دیا مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخری وقت بھی وہ بس 10 روپے دیدو’ 10 روپے دیدو-85 کہہ رہے تھے ۔جب دم نکلا تو نہلاتے وقت بھی مٹھی میں دس روپے تھے۔میں نے اپنی و الدہ سے پوچھا تو وہ بتانے لگیں کہ یہ ریلوے ورک شاپ میں مستری تھے گھر والوں کو تنگ کرکے کچھ روپے جمع کرلیے تھے اور ریلوے مزدوروں کو سود پر دینے لگے۔ میری والدہ کہتی ہیں یہ باتیں خود انہوں نے اپنے منہ سے بتائیں تھیں اور اس وقت ان کی زبان میں بہت فخر تھا۔اس کے اس کاروبار سے کیا ہوا؟ وہ یہ ہواکہ گھر بنایا دیکھنے والے کہتے تھے کہ گھر نہیں شیش محل ہے’ مگر شفٹ ہونے سے پہلے بیگم (یعنی میری تائی) کا انتقال ہوگیا’ شفٹ نہ ہوسکے۔ ایک لڑکی پاگل ہوگئی وہ بھی تایا جی نے گلاس پھینک کرمارا دماغ میں لگا گلاس بھی پیتل کا تھا’ خدا جانے مارنے کا کیا پریشر تھا وہ دماغی طور پر پاگل ہوگئی۔ ایک لڑکی بے اولاد رہی۔ ایک لڑکی شادی نہ کرسکی یا نہ ہوسکی کیونکہ وہ پاگل بہن کو سنبھال رہی تھی۔ بڑا لڑکا جو پانچ بچوں کا باپ تھا’ شرابی بن گیا اور جگر کے کینسر سے مرگیا۔تایا کا خاتمہ ایمان کی بجائے 10 روپے پر ہوا’دس روپے ہاتھ میں پکڑے تب دم نکلا۔
(عمر فاروق’ لاہور)
بڑا بول بولنے کا انجام
راولپنڈی میں ایک امیر خاندان تھا۔ ان کا بیکری کا کاروبار تھا۔ اس نے بڑا بول بولا اس نے اپنے ایک دوست سے جو دودھ دہی کا کام کرتا تھا۔ اس سے کہا تمہارے پاس کتنی دولت ہے’ اس نے کہا یہ جو دودھ کا کڑایا ہے اس کے نیچے نوٹوں کو جلا کر دودھ کا کھویا بناسکتا ہوں۔ تو اس امیر آدمی نے کہا صرف ایک ہی کڑایا میرے پاس تو اتنی دولت ہے سات آٹھ دودھ کے کڑاہوں کو نوٹ جلا کر کھویا بنا سکتا ہوں تو پھر بھی میری دولت ختم نہیں ہوگی۔ بعد میں وہی خاندان ایک ایک پیسے کا محتاج ہوا۔
ماں کی بد دعا
ہمارے محلے میں ایک نیک خاتون رہتی تھیں جس کا بیٹا قتل کے مقدمہ میں جیل میں چلا گیا وہ اپنی ماں کو بہت تنگ کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں نے بتایا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اس کی ٹانگ میں گولی لگ جائے۔ پانچ چھ ماہ چارپائی پر رہے گا تاکہ لوگوں کی شکایات نہ آئیں۔ اسی دن کسی کی شادی پر رات کو فائرنگ کرتے ہوئے اپنی ہی گولی اپنی ٹانگ میں لگ گئی جس کی وجہ سے چھ ماہ چارپائی پر پڑا رہا۔
باپ کی بد دعا
ایک آدمی کا بیٹا ہمیشہ گھر دیر سے آتا تھا اور بہت تنگ کرتا تھا ایک دن اس کے باپ نے اسے بددعا دی کہ اللہ کرے تو اندھا ہوجائے اور وہ صبح اندھا ہوگیا۔
مسور کی دال
ایک آدمی کی بہت بڑی فیکٹری تھی’ اوپر گھر تھا نیچے فیکٹری تھی اور اپنے دفترمیں بیٹھا تھا اس کا کوئی دوست ملنے کیلئے آیا اس نے اوپر پیغام بھیجا نیچے جلدی کھانا بھیجیں میرا فلاں دوست آیا ہے گھر والوں نے نیچے کھانا بھیجا ۔ سالن میں مسور کی دال تھی اس کو شرمندگی محسوس ہوئی’ اس نے دال والا برتن اٹھا کر پھینکا کہ ہمارے لیے دال ہی رہ گئی ہے۔ اتنے میں گیٹ میں دستک ہوئی ،دروازہ کھولا تو پولیس کھڑی تھی جو اس کو گرفتار کرکے نامعلوم تھانے میں لے گئی دو دن تک اس سے کچھ نہیں پوچھا’ بھوکا بیٹھا رہا تیسرے دن جو کھانا آیا تو اس میں مسور کی دال تھی اس نے روٹی ایک طرف رکھی اور دال کو منہ لگالیا اتنے میں انسپکٹر معذرت کرتا ہوا آیا کہ ہم نے تو آپ کے ساتھ جو فیکٹری ہے اس کے مالک کو گرفتار کرنا تھا ملازم غلطی سے آپ کو لے آئے۔
بڑا بول
ملتان میں ایک بہت بڑا بوسکی کا تاجر تھا پاکستان میں ان دنوں بوسکی بلیک میں فروخت ہوتی تھی’ یہ ہر وقت لوگوں کو کہتا تھا کہ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ ساری زندگی بھی گھر بیٹھ کر کھاؤں تو ختم نہ ہو ۔ اس گھر پر پولیس کا چھاپہ پڑا تو اس نے پورے گھر کی تلاشی لی مگر بوسکی کا ایک تھان بھی نہ ملا۔ جب واپس جانے لگے تو تاجر نے انسپکٹر سے کہا چائے پی کر جانا انسپکٹر صوفہ پر بیٹھنے کی بجائے بیڈ پر بیٹھا اوراپنے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف لمبے کیے تو جیسے ہی ہاتھ پیچھے لمبے کیے تو اس کے ہاتھ سلپ ہوگئے ۔اس نے بیڈ کی شیٹ اٹھائیں تو بوسکی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ پولیس نے تاجر کو گرفتار کرلیا اور اس کا سارا کاروبار تباہ ہوگیا اور وہ فاقوں کی حالت میں مرا۔
شراب پینے کا انجام
ہمارے ایک عزیز تھے۔ اس کا صرافہ بازارمیں سونے کا کاروبار تھا اور بہت بڑی دکان تھی’ کام بہت اچھا تھا مگر وہ خود بہت بڑے شرابی تھے اور اس نے دو شادیاں کیں’ دوسری بیوی سے بچہ ہوا تو انہوں نے بچے کو خوشی میں شراب کی گْڑتی دی اس کے بعد وہ بچہ بڑا ہوا اور بچے کو تھوڑی تھوڑی شراب دیتا رہا ۔ وہ شراب کی محفل لگاتا’ شراب پیتے پیتے نشہ کی حالت میں باتھ روم میں گیا اورو ہیں گر کر مرگیا۔ بچہ بڑا ہوکر باپ کی طرح شراب پیتا رہا اور ماں کو گالیاں نکالتا رہا اور مارتا رہا اور پیسے مانگتا کہ میں نے شراب پینی ہے’ سارا کاروبار باپ کے مرنے کے بعد ختم ہوگیا تھا ماں اکثر یہ بددعا دیتی تھی کہ تم ایک دن گندی نالی کا پانی پیتے پیتے مروپھر ایک دن آیا کہ گندی نالی میں نشہ کی حالت میں مرا ہوا نظرآیا اس وقت اس کی عمر تقریباً پچیس سال ہوگی۔
بیٹی نے پہچاننے سے انکار کردیا
میوہسپتال میں ایک نرس نوکری کرتی تھی جو کے کسی گاؤں میں رہنے و الی تھی’ جب کہ وہ اپنے آپ کو بہت ماڈرن اور بڑے گھر کا بتاتی تھی۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جارہی تھی تو اس کو پیغام ملا کہ ایک بوڑھا بابا جو کہ اپنے آپ کو اس کا والد بتارہا ہے ملنا چاہتا ہے ۔ اس نے جب دیکھا بڑے میاں میلے کپڑوں میں ہیں تو اس نے اس کو اپنا والد ماننے سے انکار کردیا۔ اس کا والد بہت منت کرتا رہا کہ تم میری بیٹی ہو میرے ساتھ چلو مگر وہ انکار کرتی رہی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے تو اس کی سہیلیوں نے کہا کہ وہ تمہارے سب گھر والوں کے نام لے رہا ہے اور تم کہتی ہو کہ میں جانتی نہیں اس نے کہا ہوسکتا ہے میرے باپ کا دوست ہو۔ بابا جی نے جب یہ سنا تو روتے ہوئے گھر چلے گئے مگر تھوڑے ہی عرصے بعدوہ نرس کسی الزام میں نوکری سے نکال دی گئی۔
(بشکریہ ماہنامہ عبقری لاہور اگست ۲۰۱۲)