قسط - ۴
(یتیم شہزادہ کی عید)
ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان، مغلیہ خاندان پر کیا بیتی اس کا آنکھوں دیکھا حال اور انگریزوں کی بربریت کی مستند تاریخ
۱۳۳۲ھ کی عیدالفطر کا ذکر ہے، دہلی میں ۲۹ کا چاند نظر نہ آیا۔ درزی خوش تھے کہ ان کو ایک دن کام کرنے کو مل گیا۔ جوتے والوں کو بھی خوشی تھی کہ ایک روز کی بکری بڑھ گئی مگر مسلمانوں کے ایک غریب محلہ میں تیموریہ خاندان کا ایک گھرانہ اس دن بہت غمگین تھا۔ یہ لوگ عصر سے پہلے اپنے گھر کے وارث میرزا دلدار شاہ کو دفن کر کے آئے تھے۔دلدار شاہ دس دن سے بیمار تھے۔ ان کو پانچ روپیہ ماہوار پنشن ملتی تھی۔ گھر میں ان کی بیوی اور یہ خودکناری بنتے تھے۔ جس میں ان کو اتنی معقول آمدنی تھی کہ خوب آرام سے بسر اوقات کرتے تھے۔ ان کے چار بچے تھے۔ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ دو لڑکیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ ایک ڈیڑھ سال کی گود میں تھی اور ایک لڑکا دس برس کا تھا۔ دلدار شاہ اس لڑکے کو بہت چاہتے تھے ۔ بیگم نے بہت چاہا کہ لڑکا مکتب میں جائے مگر دلدار شاہ کو بچہ اس قدر لاڈلا تھا کہ انھوں نے ایک دن اس کو مکتب نہ بھیجا۔لڑکا سارا دن گلیو ں میں آوارہ پھرتا تھا۔ زبان پر گالیاں اس قدر چڑھ گئی تھیں کہ بات بات میں مغلظات بکتا تھا اور باوا جان اس کی بھولی بھالی باتوں سے خوش ہوتے تھے۔ میرزادلدار شاہ بہادرشاہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مرتے وقت ان کی عمر ۶۵ برس کی ہوگی کیوں کہ جب یہ لڑکا ان کے ہاں پیدا ہوا تو ان کی عمر ۵۵ برس کی تھی۔ بڑھاپے کی اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے۔ خاص کر بیٹا، میرزا دلدار شاہ جتنی محبت کرتے تھوڑی تھی۔ایک دن اُن کے دوست نے کہا: صاحب ِ عالم! بچہ کے لکھنے پڑھنے کی یہی عمر ہے، اب نہ پڑھے گا تو کب پڑھے گا۔ لاڈپیار بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے۔ آپ اس کے حق میں کانٹے بوتے ہیں۔ خدا آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک دن سب کو مرنا ہے۔ خدانخواستہ آپ کی آنکھیں بند ہوگئیں تو اس معصوم کا کہیں ٹھکانہ نہیں رہے گا۔ لکھ پڑھ لے گا تو دو روٹیاں کما کھائے گا۔ اس زمانہ میں شریفوں کی گزران بہت دشوار ہوگئی ہے۔ کچھ آئندہ کا بھی خیال رکھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ اس کو غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے اور بزرگوں کی ناک کٹے۔میرزا دلدار شاہ اس ہمدردی سے بگڑ گئے اور بولے: آپ میرے مرنے کی بدشگونی کرتے ہیں۔ ابھی میری کون سی ایسی عمر ہوگئی ہے۔ لوگ تو سو برس تک زندہ رہتے ہیں۔ رہا بچہ کا پڑھانا، سو میرے نزدیک تو اس کی کوئی ضرورت نہیں، بڑے بڑے بی اے پاس مارے مارے پھرتے ہیں اور دو کوڑی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میرا بچہ پہلے ہی دھان پان ہے، آئے دن کا مریض ہے۔ میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ ظالم اُستادوں کے حوالے کر کے اس کی نازک ہڈیوں کو قمچیوں کا نشانہ بناؤں۔ جب تک میرے دَم میں دَم ہے عیش کراؤں گا۔ میں نہ رہوں گا تو خدا رازق ہے وہ چیونٹی تک کو کھانا دیتا ہے۔ پتھر کے کیڑے کو رزق پہنچاتا ہے، آدمی کے بچہ کو کہیں بھوکا مارے گا۔ میاں ہم نے زمانہ کا بڑا گرم و سرد رنگ دیکھا ہے۔ ہمارے ماں باپ نے بھی ہم کو نہ پڑھایا تو کیا ہم بھوکے مرتے ہیں۔
نصیحت کرنے والے بے چارے یہ جواب سن کر چپ ہوگئے اور دل ہی دل میں پچھتائے کہ ناحق ان سے دردمندی کی بات کہی لیکن انھیں خیال آیا کہ حق بات کہنے سے چپکا رہنا گناہ ہے: الساکت عن الحق شیطان اخرس ‘‘سچی بات کہنے سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے’’۔ اس لیے انھوں نے پھر کہا کہ جناب آپ ناراض نہ ہوں، میں خدانخواستہ آپ کا مرنا نہیں چاہتا۔ میں نے تو دُور اندیشی کی بات کہی تھی، آپ کو ناگوار گزری تو معاف فرمایئے مگر یہ خیال فرما لیجیے کہ آپ کے بچپن میں اور حالت تھی اور آج کل اور زمانہ ہے۔اس وقت قلعہ آباد تھا جہاں پناہ ظلِ سبحانی بہادر شاہ حضرت کا سایہ سر پر تھا۔ ہر بات سے بے فکری تھی لیکن آج تو کچھ بھی نہیں۔ نہ بادشاہی ہے نہ امیری ہے۔ ہرمسلمان کے گھر میں گدائی اور فقیری ہے۔ اب تو جو ہنرمندی سیکھے گا اور اپنی روٹی اپنے بازو سے کمائے گا وہی لالوں کا لال بنے گا، ورنہ ذلت و خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔دلدار شاہ نے کہا: ہاں یہ سچ ہے میں اس کو سمجھتا ہوں مگر آخر ہماری بھی تو اتنی عمر اسی بربادی کے زمانہ میں بسر ہوگئی۔ سرکار نے پانچ روپیہ کی جو پنشن مقرر کی ہے تم جانتے ہو کہ اس میں ہمارے کے وقت نکلتے ہیں۔ آٹھ آنے تو بچہ کا خرچ ہے، ہم دونوں میاں بیوی روپیہ ڈیڑھ کی روز کناری بنتے ہیں اور مزے سے گزر اوقات کرتے ہیں۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک تیسرے صاحب تشریف لائے اور انھوں نے کہا: آسٹریا کے بادشاہ کا ولی عہد مارا گیا۔ جب بادشاہ کو اس کی خبر پہنچی تو بے قرار ہوگیا اور ہائے کا نعرہ مار کر کہا: ظالموں نے سب کچھ لوٹ لیا اور میرے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔میرزا دلدار شاہ یہ سن کر ہنسنے لگے اور بولے: ‘‘بھئی واہ اچھی بہادری ہے۔ بیٹے کے ناگہانی مرنے سے ایسے گھبرا گئے۔ میاں جب بہادر شاہ حضرت کے صاحبز ادے میرزا مغل وغیرہ گولی سے مارے گئے اور ان کے سر کاٹ کر سامنے لائے تو بادشاہ نے خوان میں کٹے ہوئے سر دیکھ کر نہایت بے پروائی سے فرمایا: الحمدللہ! سرخرو ہوکر سامنے آئے۔ مرد لوگ اسی دن کے لیے بچے پالتے ہیں۔جو صاحب خبر لائے تھے وہ بولے: کیوں جناب غدر میں آپ کی کیاعمر ہوگی؟ میرزا دلدار شاہ نے کہا: کوئی چودہ پندرہ برس کی، مجھے سب واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ باواجان ہم کو لے کر غازی آباد جارہے تھے کہ ہینڈن ندی پر ہم کو فوج نے پکڑ لیا اور والدہ اور میری چھوٹی بہن چیخیں مار کر رونے لگیں۔ والد نے ان کو منع کیا اور آنکھیں بچا کر ایک سپاہی کی تلوار اُٹھا لی۔ تلوار ہاتھ میں لینی تھی کہ سپاہی چاروں طرف سے اُن پر ٹوٹ پڑے۔ اُنھوں نے دوچار کوزخمی کیا مگر سنگینوں اور تلواروں کے اتنے واراُن پر ہوئے کہ بے چارے قیمہ قیمہ ہوکر گر پڑے اور شہیدہوگئے۔اُن کی شہادت کے بعد سپاہیوں نے میری بہن اورماں کے کانوں کو نوچ لیا اور جو کچھ ان کے پاس تھا، چھین کر چلتے ہوئے۔ مجھ کو انھوں نے قید کر کے ساتھ لیا۔ جس وقت میں والدہ سے جدا ہوا ہوں، ان کی آہ و زاری سے آسمان ہلا جاتا تھا۔ وہ کلیجہ کو تھامے ہوئے چیختی تھیں اور کہتی تھیں:‘‘ارے میرے لال کو چھوڑ دو، تم نے میرے سرتاج کو خاک میں سُلا دیا۔ اس یتیم پر تو رحم کرو۔ میں رنڈیا کس کے سہارے رنڈا پا کاٹوں گی۔ اللہ میرا کلیجہ پھٹا جاتا ہے۔ میرا دلدار کہاں جاتا ہے۔ کوئی اکبر و شاہجہاں کو قبر سے بلائے، ان کے گھرانے کی دُکھیا کی بپتا سنائے۔ دیکھو میرے دل کے ٹکڑے کو مٹھی میں مسلے دیتے ہیں۔ ارے کوئی آؤ میری گودیوں کا پالا مجھ کو دلواؤ’’۔چھوٹی بہن آکا بھائی آکا بھائی کہتی ہوئی میری طرف دوڑی مگر سپاہی گھوڑوں پر سوار ہوکر چل دیئے اور مجھ کو باگ ڈور سے باندھ لیا۔ گھوڑے دوڑتے تھے تو میں بھی ڈرتا تھا۔ پاؤں لہولہان ہوگئے تھے۔ دل دھڑکتا تھا، دم اُکھڑا جاتا تھا۔پوچھا: میرزا یہ بات رہ گئی کہ پھر تمھاری والدہ اور بہن کا کیا حال ہوا؟میرزا نے کہا: آج تک اُن کا پتہ نہیں لگا۔ خبر نہیں اُن پر کیا گزری اور وہ کہاں گئیں۔ مجھ کو سپاہی اپنے ہمراہ دہلی لائے اور یہاں سے اندور لے گئے۔ مجھ سے گھوڑے ملواتے تھے اور گھوڑوں کی لید صاف کراتے تھے۔چند روز بعد مجھ کو چھوڑ دیا گیا اور میں نے اندور میں ایک ٹھاکر کے ہاں دربانی کی نوکری کرلی۔ کئی برس اس میں گزارے۔ پھر دہلی میں آیا اور سرکار میں درخواست دی۔ اس کی مہربانی سے میری بھی اوروں کی طرح پانچ روپیہ ماہوار پنشن مقرر ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے شادی کی، یہ بچے پیدا ہوئے۔اس واقعہ کے بعد میرزا دلدار شاہ بیمار ہوئے اور دس دن بیمار رہ کر آخرت کو سُدھارے۔ اُن کے مرنے کا غم سب سے زیادہ اُن کی بیوی اور لڑکے کو تھا۔ لڑکا دس برس کا تھا اور اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ابا جان مرگئے ہیں مگر وہ بار بار اماں سے کہتا تھا کہ اباجان کو بلادو۔الغرض اس رونے دھونے میں یہ سب لوگ سو گئے۔ سحر کو بیگم صاحبہ بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ گھر میں جھاڑو پھری ہوئی ہے۔ کپڑا لتا برتن بھانڈا سب چور لے گئے۔ بے چاری بیوہ نے سرپیٹ لیا۔ ہے ہے اب میں کیا کروں گی۔ میرے پاس تو ایک تنکا بھی نہ رہا۔ گھر کے مالک کے اُٹھتے ہی چوری بھی ہوئی۔آس پاس کے محلہ داراُن کے رونے کی آواز سن کر جمع ہوگئے اور سب نے بہت افسوس کیا۔ پڑوس میں ایک گوٹے والے رہتے تھے۔ انھوں نے سحری کے لیے دودھ اور نان پاؤ بھیجا اور بے چاری نے ٹھنڈا سانس بھر کر اس کو لے لیا۔یہ پہلا دن تھا کہ بیوہ شہزادی نے خیرات کی سحری کھائی، جس کا اس کو سب سے زیادہ صدمہ تھا۔ دن ہوا چاروں طرف عید کے سامان نظر آتے تھے۔ چاند رات کی چہل پہل ہرگھر میں تھی مگر نہ تھی تو اس گھر میں جہاں دودھ پیتی بچی کو گود میں لیے بیوہ شہزادی یتیم شہزادہ کو سمجھا رہی تھی کیوں کہ وہ نئی جوتی اور نئے کپڑے مانگتا تھا۔ماں نے کہا: ‘‘بیٹا تمھارے ابا جان پردیس گئے ہیں وہ آجائیں تو کپڑے منگا دیں گے۔ دیکھو تمھارے دولہا بھائی بھی بنارس گئے ہوئے ہیں، وہ ہوتے تو ان سے ہی منگا دیتے، اب کس کو بازار بھیجوں؟’’لڑکے نے کہا: میں خود لے آؤں گا مجھ کو دام دو۔ دام کا نام سُن کر دُکھیاری بیوہ کے آنسو آگئے۔ اس نے کہا: تمھیں خبر نہیں رات کو گھر میں چوری ہوگئی، ہمارے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ ضدی شہزادہ نے مچل کر کہا: نہیں، میں تو ابھی لوں گا۔ یہ کہہ کر دوچار گالیاں ماں کو دیں۔ مصیبت زدہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر آسمان کو دیکھا اور بولی: اچھا ٹھہرو، میں منگاتی ہوں۔ یہ کہہ کر پڑوس کے گھر سے لگی ہوئی کھڑکی میں جاکر کھڑی ہوئی اور گوٹے والے کی بیوی سے کہا: بوا عدت کے دن ہیں ، اندر تو نہیں آسکتی ذرا میری بات سن جاؤ۔ وہ بے چاری فوراً اس کے پاس آئی تو اسے سارا ماجرا سنایا اور کہا: خدا واسطہ کا کام ہے، اپنے بچے کی اُترن، کوئی جوتی یا کپڑوں کا جوڑا ہو تو ایک دن کے لیے مانگے دے دو، کل شام کو واپس دے دوں گی۔شہزادی اُترن کہتے وقت بے اختیار ہچکی لے کر رونے لگی۔ پڑوسن کو بڑا ترس آیا۔ اس نے کہا: بوا رونے اور جی بھاری کرنے کی کچھ بات نہیں، ننھے کی کئی جوتیاں اور کئی جوڑے فالتو رکھے ہیں، ایک تم لے لو۔ اس میں اُترن کا خیال نہ کرو، اس نے تو ایک دن یونہی ذرا پاؤں میں ڈالی تھی میں نے سنگوا کر رکھ دی۔یہ کہہ کر پڑوسن نے جوتی اور کپڑے شہزادی کو دیئے۔ شہزادی یہ چیزیں لے کر بچے کے پاس آئی اور اس کو یہ سب دکھائیں۔ بچہ خوش ہوگیا۔دوسرے دن عیدگاہ جانے کے لیے شہزادی نے اپنے بچہ کو بھی گوٹہ والے پڑوسی کے ساتھ کر دیا۔ عیدگاہ پہنچ کر یتیم شہزادے نے گوٹے والے کے لڑکے سے کہا: ابے تیری ٹوپی سے ہماری ٹوپی اچھی ہے۔ گوٹہ والے کے لڑکے نے جواب دیا: چل بے اُترن کھترن پر اِتراتا ہے۔ ابے یہ بھی میری ٹوپی ہے، اماں نے خیر خیرات دے دی ہے۔ یہ سننا تھا کہ شہزادہ نے ایک زور کا تھپڑ گوٹہ والے کے بچہ کو مارا اور کہا: ہم کو خیرات خورہ کہتا ہے ۔ گوٹہ والے نے جو اپنے بچے کو پٹتا دیکھا تو اس کو بھی غصہ آگیا اور اس نے دو تین طمانچے شہزادے کے مارے۔ یہ لڑکا روتا دھوتا بھاگا۔ گوٹہ والے نے خیال کیا کہ اس کی ماں کیا کہے گی کہ ساتھ لے گئے تھے کہاں چھوڑ آئے۔ اس لیے وہ اس کو پکڑنے کو دوڑا مگر لڑکا نظروں سے غائب ہوگیا۔ ناچار گوٹہ والا مجبور ہوکر اپنے گھر چلا گیا۔اب شہزادہ کی یہ کیفیت ہوئی کہ عام خلقت کے ساتھ عیدگاہ سے گھر کی طرف آرہا تھا کہ راستہ میں ایک گاڑی کی جھپٹ میں آکر گرپڑا اور زخمی ہوگیا۔ پولیس شفاخانہ لے گئی۔یہاں گھر میں اس کی ماں کا عجب حال تھا۔ غش پہ غش آتے تھے۔ دو وقت سے بھوکی تھی۔ اس پر عید
اور یہ مصیبت کہ لڑکا گم ہوگیا اور عالم یہ کہ کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ جو لڑکے کو تلاش کرنے جائے۔ آخر وہی بے چارہ گوٹہ والا پھر گیا اور پولیس میں اطلاع لکھوائی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ شفاخانہ میں ہے۔ شفاخانہ جاکر خبر لایا اور شہزادی کو ساری کیفیت سنائی۔ اس وقت عجیب عالم تھا۔عید کی شام تھی گھر گھر خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ مبارک بادوں کے چرچے تھے۔ تحفے تحائف اور عیدیاں تقسیم ہو رہی تھیں۔ ہرمسلمان نے اپنی حیثیت سے زیادہ گھر کو آراستہ کیا تھا اور اپنے بال بچوں کو خوش و خرم لیے بیٹھا تھا۔ مگر بے چاری بیوہ شہزادی دوقت کے فاقہ سے رنجور، بچہ کے غم میں اشکبار، اندھیرے اُجاڑ گھر میں بیٹھی، آسمان کو دیکھتی تھی اور کہتی تھی: خدایا ! میری عید کہاں ہے؟ اور بے اختیار ہچکیاں لے کر روتی تھیں۔ ادھر شفاخانہ میں یتیم شہزادہ ماں کی جدائی میں پھڑکتا تھا۔
٭٭٭