ایک سیاح کسی زمانے میں تاریک براعظم افریقہ کی سیاحت کیلئے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے جو عجائبات دیکھے ان میں ایک چھوٹا سا حبشی لڑکا بھی تھا جو مسٹر مورتیمر کی خدمت گزاری کیا کرتا تھا۔ یہ لڑکا افریقہ کے ‘‘بونا قبائل’’ سے تعلق رکھتا تھا۔ مسٹر مورتیمر نے مجھے اس لڑکے کی ایک حیرت انگیز صلاحیت کا ذکر سنایا کہ اگرچہ اس لڑکے نے گھڑی کبھی نہیں دیکھی اور نہ اس کے پاس وقت معلوم کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہی موجود تھا۔ مگر وہ اپنا کام مقررہ وقت پر سرانجام دیتا اور جو وقت اس کے آنے کا ہوتا’ ہمیشہ اسی وقت پر آتا اور کبھی ایک آدھ منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ جب اس سے پوچھا جاتا کہ بتاو اب کیا بجا ہوگا؟ تو وہ فوراً وقت بتا دیتا اور یہ جواب اس سیاح کی گھڑی کے مطابق بالکل درست تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لڑکا کسی پراسرار حس کا مالک ہے جو اسے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کے ہر ثانیے سے آگاہ رکھتی ہے۔ سیاح نے بار ہا اس لڑکے سے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کی کہ اسے وقت کا اتنا صحیح اندازہ کیسے ہوجاتا ہے تو وہ ہنس کر کہتا ‘‘جناب! مجھے خود معلوم نہیں’’۔سرولیم تھامس نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے بکریوں کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ ان کے مکان کے قریب ہی ایک باڑہ تھا جس میں پچاس ساٹھ بکریاں بند کی جاتی تھیں۔ دوپہر کو ایک مقررہ وقت پر گڈریا ان بکریوں کیلئے گھاس اور پتے لے کر آتا۔ چند دن بعد سرولیم تھامس نے محسوس کیا کہ بکریوں کو کھانے کے وقت کا پورا پورا اندازہ ہوجاتا ہے۔ جونہی گھڑی کی سوئیاں بارہ بج کر دس منٹ بجاتیں’ سب کی سب بکریاں اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوجاتیں اور احاطے کے دروازے کی جانب منہ پھیرلیتیں۔ گڈریے کے آنے کا راستہ یہی تھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ گڈریا وقت سے چند منٹ پہلے آجاتا تو بکریاں حسب معمول اپنی اپنی جگہ پر بیٹھی رہتیں لیکن وقت ہوجانے پر ان کی بے چینی کی انتہا نہ رہتی۔اسی طرح کیلیفورنیا کے ایک کسان فریڈورکر کا بیان بھی سننے کے لائق ہے۔ وہ لکھتا ہے: میرے پاس گھڑی نہ تھی’ خچروں کے آرام کرنے اور خوراک کھانے کا وقت ٹھیک بارہ بجے مقرر تھا۔ سورج جب سر پر آجاتا تو میں اپنا کام روک کر ان کو دانہ گھاس کھلاتا۔ چند روز بعد ایسا اتفاق ہوا کہ دوپہر کے وقت میرا ایک دوست مجھ سے ملنے آیا اس کے پاس گھڑی تھی۔ ابھی ہم باتیں کرہی رہے تھے کہ بیک وقت سب خچروں نے ہنہنانا شروع کردیا۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ وقت کیا ہوا ہے’ تو اس نے گھڑی دیکھ کر بتایا کہ پورے بارہ بجے ہیں۔اس کے بعد تو ان خچروں نے اپنا معمول بنالیا کہ بارہ بجتے ہی کام چھوڑ دیتے اور زور زور سے ہنہنانے لگتے۔ جب میں کوشش کرتا کہ وہ کام کریں تو وہ ناراض ہوکر ہل الٹ دیتے اور اس وقت تک ضد پر اڑے رہتے جب تک ان کے آگے دانہ گھاس نہ ڈال دیا جاتا مجھے یہ معلوم کرکے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ٹھیک بارہ بجے یہ حرکت کرتے تھے۔ اس سے دومنٹ پہلے تک وہ خوب کام کرتے تھے۔