وہ خوبی جو امت کے دور زوال میں یعنی آج بھی پوری طرح موجو د ہے ، وہ ہے محبت رسولﷺ۔ یہ محبت اس امت کا سرمایہ حیات ہے اور شاید امت میں زندگی کی جو رمق باقی ہے وہ بھی اسی کے دم سے ہے ۔صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک اس امت کے ہر چھوٹے بڑے نے اگر کبھی کسی چیز پر مصالحت نہیں کی تو وہ صرف اور صرف محبت رسول ہے اور اس کی وجہ محض نسلی یا تاریخی تسلسل نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی مضبوط پشت پناہی ہے ۔ اللہ جل شانہ نے رسول اکرم کی محبت کو اپنی محبت سے جوڑ دیا ہے چنانچہ فرمایا :قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم‘‘کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ’’۔ مسلمانوں کے لیے اپنے نبی بلکہ سب انبیا کی محبت محض عقیدت نہیں بلکہ ایمان کامسئلہ ہے اور یہی محبت ایمان کی سچائی کیلئے دلیل ہے ۔ ارشاد نبوی کا مفہوم ہے کہ ‘‘کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کی جان اور ماں باپ و اولاد سے اور سارے لوگوں سے اسکو زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں’’ ( بخاری) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ : ‘‘اے اللہ کے پیغمبر ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آنحضرتﷺ نے فرمایا نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، جب تک میں تجھے تمہاری ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ بنوں، تم کامل مرتبہ ایمان تک نہیں پہنچ سکتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : ابھی تو اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہو چکے تو آنحضرت نے فرمایا ابھی کامل مرتبہ ایمان تک تم پہنچ چکے ہو اے عمر ’’ (بخاری)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس محبت کی اولین اور آئیڈیل مثال ہیں اور امت اس بارے میں انہی سے رہنمائی لیتی رہی ہے اور لیتی رہے گی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! اللہ کی قسم ، آپ مجھے اپنی جان سے اور اپنے گھر والوں سے اور اپنی اولاد سے زیادہ محبوب ہیں ، اور میں گھر میں ہوتاہوں ،اچانک آپ کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں ہوپاتا جب تک حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں، اور جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آپ بھی وفات پائیں گے اور میں بھی ، لیکن آپ تو نبیوں کے ساتھ جنت کے بلند درجہ میں داخل ہوجائیں گے ، اور میں کم درجے میں، تو ڈر ہے کہ آپ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ اس استفسار پر نبی اکرم خاموش رہے یہاں تک کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس آیت کیساتھ اترے،‘‘ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین و حسن اولئک رفیقا’’ ‘‘اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردارہو تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ۔وہ انبیا اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں ’’۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ لوگوں کی رسول اللہ سے کتنی محبت تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ‘‘اللہ کی قسم ! وہ توہمیں اپنے مالوں سے اوراپنی اولاد سے اور اپنے ماں باپ سے اور پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے’’( الشفا )حضرت زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہ کو جب قریش نے قیدی کیا تو ابو سفیان نے ان سے کہا کہ : اے زید ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ : کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تم اپنے گھر میں رہو اور تمہارے بدلے محمد (نعوذ باللہ ) قتل کیے جاویں۔ زیدؓ نے فرمایا کہ ‘‘ اللہ کی قسم ! مجھے تو یہ بھی پسند نھیں کہ محمدﷺ کو ایک کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں رہوں ۔’’ ابو سفیان نے کہا کہ اللہ کی قسم ، میں نے اصحاب محمد سے زیادہ کسی قوم کو اپنے ساتھی سے اتنی محبت کرنے والے نھیں دیکھا ۔( الطبقات الکبری لابن سعد)واقعہ ہجرت کے ضمن میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنی معیت کی خبر دی تو وہ خوشی سے رو پڑے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : واللہ ! مجھے اس سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ خوشی سے بھی کوئی رو سکتا ہے مگر جب اپنے والد کو دیکھا تو معلوم ہوا۔ (بخاری)
مسلمان اس بات سے پوری طرح آگا ہ ہیں کہ رسول اکرم کی محبت ہی ان کے لیے آخرت کا زاد راہ ہے ۔اسی کی بدولت وہ نعمتوں والی جنت میں پہنچیں گے اور یہی وہ چیز ہے جو ان کو حضور کی صحبت اور پڑوس نصیب کر ے گی اس لیے وہ اس سے کیسے دستبردار ہو سکتے ہیں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے پیغمبر ! قیامت کی گھڑی کب آئیگی ؟ تو آنحضرت نے فرمایا کہ تم نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : تیار ی تو کوئی خا ص نہیں بس اللہ کی اور اس کے رسول کی محبت ہے ، تو آنحضرت نے فرمایا کہ تم قیامت میں انھیں کے ساتھ ہوگے جن سے تمہیں محبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ہم صحابہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نھیں ہوئے جتنا کہ نبیﷺ کی اس بات پر خوش ہوئے ۔حضرت انس نے فرمایا کہ : میں تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ، اور ابوبکر اور عمر سے ، اور مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ملوں گا اگرچہ ان کی طرح عمل میں نے نھیں کیے۔ ( مسلم )
اسی طرح یہ امت بھی باوجود اپنی تمام کوتاہیوں اور کم عملی کے اسی امید پہ محبت رسول سے جڑی بیٹھی ہے کہ شاید وہ بھی جنت میں چلی جائے اور یہ کوئی راز نہیں مغرب اس سے پوری طرح آگا ہ ہے اسی لیے صدیوں سے وہ اس بات کے لیے کوشا ں ہے کہ ‘‘روح محمد ’’ کو اس فاقہ کش کے بدن سے نکال دیا جائے ۔اس کوشش میں مغرب کو اگرچہ بعض دانشوروں کی صورت میں بعض انفرادی کامیا بیاں تو ملی ہیں مگر تاریخ کے کسی بھی دور میں اسے کوئی اجتماعی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔اب پچھلے کچھ عرصہ سے طاقت کے نشے میں مخمور مغرب کے بعض شر پسند عناصر توہین وتذلیل کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے تو اہل ہے نہیں اس لیے دیوار سے سر ٹکراکر خود ہی زخمی ہو کے بیٹھ رہیں گے ۔اس لیے ان سطور کے قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ اپنے دوست احباب ، اہل و عیال اور ملنے جلنے والوں تک اس پیغام کو پہنچائیں کہ مغرب کے خلاف احتجاج کی بہترین صورت محبت رسولﷺ سے عملی وابستگی ہے تا کہ مغرب کے یہ بدباطن اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں۔ اوردوسر ی طرف ہمیں پرامن احتجاج کے ذریعے مغرب کے متوازن ذہن اور زندہ ضمیر پہ متواتر دستک دیتے رہنا چاہیے کہ آزادی اظہا ر کے نام پر گالی دینا اور کسی کے ماں باپ کو برا بھلا کہنا انصاف کے کسی بھی پیمانے کی روسے جائز نہیں۔اور تیسرے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ سمجھانا چاہیے کہ بھلا احتجاج کے نام پر اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچانے سے مغرب کا کیا نقصان ہے ؟ وہ تو خوش ہو گا کہ چلو مزید قرض دے کر مزید جال میں پھنسانے کا ایک اور موقع ہاتھ آیا۔یا در کھیے کہ انسانی قدروں کے نام پر مغرب میں بات آج بھی سنی جاتی ہے اس لیے ہمیں ان کو ان کی اپنی اصلطلاحات یعنی امن ، انصاف اور انسانیت کے نام پر پیغام پہچانا چاہیے ۔مقدس ہستیوں کی تذلیل توان کی اپنی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے تو فلمیں اور کارٹون ان کے لیے کون سی نئی بات ہے ۔حفظ مراتب تو ہماری تہذیب کا خاصہ ہے ۔حفظ مراتب بکھرنے سے پوری طرح اسلامی تہذیب بکھر کے رہ جاتی ہے اس لیے ہمیں بہر حال اس کا دفاع کرنا ہے مگر حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ ۔بہترین جرنیل وہی ہوتا ہے جو کم سے کم نقصان سے زیادہ سے زیادہ فتح حاصل کرے نہ کہ وہ جو ساری فوج گنوابیٹھے اور تھوڑی فتح پہ نعرے لگاتا پھرے ۔