بیگمات کے آنسو

مصنف : خواجہ حسن نظامی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : ستمبر 2012

قسط - ۳

(بنت یہادر شاہ)

ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان، مغلیہ خاندان پر کیا بیتی اس کا آنکھوں دیکھا حال اور انگریزوں کی بربریت کی مستند تاریخ

            یہ ایک بے چاری درویشنی کی سچی بپتا ہے جو زمانہ کی گردش سے ان پرگزری۔ ان کا نام کلثوم زمانی بیگم تھا۔ یہ دہلی کے آخری مغل بادشاہ ابوظفر بہادر شاہ کی لاڈلی بیٹی تھیں، چند سال ہوئے ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بارہا شہزادی صاحبہ سے خود ان کی زبانی ان کے حالات سنے ہیں کیوں کہ ان کو ہمارے حضور خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کی خانقاہ سے خاص عقیدت تھی۔ اس لیے اکثر حاضر ہوتی تھیں اور مجھ کو ان کی دردناک باتیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ نیچے جس قدرواقعات لکھے گئے ہیں وہ یا تو خود ان کے بیان کردہ ہیں یا ان کی صاحبزادی زینت زمانی بیگم کے، جو اب تک زندہ ہیں اور پنڈت کے کوچہ میں رہتی ہیں اور وہ حالات یہ ہیں:

‘‘جس وقت میرے بابا کی بادشاہت ختم ہوئی اور تاج و تخت لٹنے کا وقت قریب آیا تو دلّی کے لال قلعہ میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ در ودیوار پر حسرت برستی تھی، اُجلے اُجلے سنگِ مرمر کے مکان کالے سیاہ نظر آتے تھے۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ زینت میری گود میں ڈیڑھ برس کا بچہ تھی اور دودھ کے لیے بلکتی تھی۔ فکر اور پریشان کے مارے نہ میرے دودھ رہا تھا، نہ کسی انا کے۔ہم سب اسی یاس و ہراس کے عالم میں بیٹھے تھے کہ حضرت ظلِ سبحانی کا خاص خواجہ سرا ہم کو بلانے آیا۔ آدھی رات کا وقت، سناٹے کا عالم، گولوں کی گرج سے دل سہمے جاتے تھے لیکن حکم سلطانی ملتے ہی حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔ حضور مصلے پر تشریف رکھتے تھے، تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جب میں سامنے پہنچی، جھک کر تین مجرے بجالائی۔ حضور نے نہایت شفقت سے قریب بلایا اور فرمانے لگے: کلثوم لو اب تم کو خدا کو سونپا۔ قسمت میں ہے تو پھر دیکھ لیں گے۔ تم اپنے خاوند کو لے کر فوراً کہیں چلی جاؤ، میں بھی جاتا ہوں۔ جی تو نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم بچوں کو آنکھ سے اوجھل ہونے دوں۔ پر کیا کروں ساتھ رکھنے میں تمھاری بربادی کا اندیشہ ہے۔ الگ رہو گی تو شاید خدا کوئی بہتری کا سامان پیدا کردے۔اتنا فرما کر حضور نے دستِ مبارک دعا کے لیے بلند کیے جو رعشہ کے سبب کانپ رہے تھے، دیر تک آواز سے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے رہے:

‘‘خداوندا! یہ بے وارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں ۔ یہ محلوں کے رہنے والے جنگل ویرانوں میں جاتے ہیں۔ دنیا میں ان کا کوئی یارومددگار نہیں رہا۔ تیمور کے نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو۔ پروردگار! یہی نہیں بلکہ ہندستان کے سب ہندو مسلمان میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت چھائی ہے۔ میرے اعمال کی شامت سے ان کو رُسوا نہ کر اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے’’۔

اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھا، زینت کو پیار کیا اور میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواہرات عنایت کر کے نورمحل صاحبہ کو ہمراہ کر دیا جو حضور کی بیگم تھیں۔پچھلی رات کو ہمارا قافلہ قلعہ سے نکلا، جس سے دو مرد اور تین عورتیں تھیں۔ مردوں میں ایک میرے خاوند مرزا ضیاء الدین اور دوسرے مرزا عمر سلطان کی سمدھن تھیں جس وقت ہم لوگ رتھ میں سوار ہونے لگے صبح صادق کا وقت تھا۔ تارے سب چھپ گئے تھے مگر فجر کا تارا جھلملا رہا تھا۔ ہم نے اپنے بھرے پرے گھر پر اور سلطانی محلوں پر آخری نظر ڈالی تو دل بھر آیا اور آنسو اُمنڈنے لگے۔ نواب نورمحل کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں اور صبح کے ستارے کا جھلملانا نورمحل کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔

آخر لال قلعہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر کورالی گاؤں میں پہنچے اور وہاں اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ باجرے کی روٹی اور چھاچھ کھانے کو میسر آئی۔ اس وقت بھوک میں یہ چیزیں بریانی متنجن سے زیادہ مزیدار معلوم ہوئیں۔ ایک دن رات تو امن سے بسر ہوا مگر دوسرے دن گردونواح کے جاٹ گوجرجمع ہوکر کورالی کو لوٹنے چڑھ آئے۔ سینکڑوں عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو چڑیوں کی طرح ہم لوگوں کو چمٹ گئیں۔ تمام زیور اور کپڑے ان لوگوں نے اُتار لیے۔ جس وقت یہ سڑی بسی عورتیں اپنے موٹے موٹے میلے ہاتھوں سے ہمارے گلے کو نوچتی تھیں تو ان کے لہنگوں کی ایسی بو آتی تھی کہ دم گھٹنے لگتا تھا۔اس لوٹ کے بعد ہمارے پاس اتنا بھی باقی نہیں رہا جو ایک وقت کی روٹی کو کافی ہوسکا تھا۔ حیران تھے کہ دیکھیے اب اور کیا پیش آئے گا۔ زینت پیاس کے مارے رو رہی تھی۔ سامنے سے ایک زمیندار نکلا۔ میں نے بے اختیار ہوکر آواز دی بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لادے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا: آج سے تو میری بہن اور میں تیرا بھائی۔ یہ زمیندار کورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا۔ اس کا نام بستی تھا اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کر کے ہم کو سوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔ ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میرفیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں جن سے ہمارے خاندان کے خاص مراسم ہیں، وہاں لے چل ۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا مگر میرفیض علی نے ایسی بے مروتی کا برتاؤ کیا جس کی کوئی حد نہیں۔ صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کہ میں تم لوگوں کو ٹھہرا کر اپنے گھربار تباہ کرنا نہیں چاہتا۔وہ وقت بڑا مایوسی کا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہوگی، اس پر بے سروسامانی کا یہ عالم کہ ہرشخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی۔ جو لوگ ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہروقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو کچھ حکم دیں فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بے زار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ اس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نباہا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔ لاچار اجاڑہ سے روانہ ہوکر حیدرآباد کا رُخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پہنچے جہاں کومل کے نواب کی فوج پڑی ہوئی تھی۔ انھوں نے جو سنا کہ ہم شاہی خاندان کے آدمی ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کرکے ندی سے پار اُتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اُترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آگئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہوکر لڑیں مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جایئے ہم جیسا موقع ہوگا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔ ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا یا ناگہانی طور پر گولی لگی۔ جو کچھ بھی ہوا ایک گولی کھیت میں آئی جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور تمام کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل بھاگے۔ پر ہائے! کیسی مصیبت تھی ہم کو بھاگنا بھی نہ آتا تھا۔گھاس میں اُلجھ اُلجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں۔ برہنہ سر حواس باختہ ہزار دِقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نواب نورمحل کے پاؤں خونم خون ہوگئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔ زینت پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔نواب نورمحل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہوگئیں۔ میں زینت کو چھاتی سے لگائے اپنے خاوندکا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں، کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔ قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہوگئی۔ لیکن فقیروں کو چین و اطمینان ہوتا ہے، یہاں وہ بھی نصیب نہیں۔

فوج لڑتی ہوئی دُور نکل گئی تھی۔ بستی ندی سے پانی لایا ہم نے پیا اور نواب نورمحل کے چہرے پر چھڑکا۔ نورمحل رونے لگیں اور بولیں ابھی خواب میں تمھارے بابا حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ:‘‘آج ہم غریبوں کے لیے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نورمحل گھبرانا نہیں ہمت سے کام لینا۔ تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں۔ ذرا میری کلثوم کو دکھا دو جیل خانے جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا’’۔بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہوگا، کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے اس کا جواب دیا کہ خواب و خیال ہے۔ بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے۔ تم گھبراؤ نہیں وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ حافظ سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں گے۔ خود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نورمحل تم نے تو طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے، میں کہتی ہوں کہ بنئے بقالوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دُور نہیں ہے۔ مگر میرے شوہر مرزا ضیاء الدین نے تسکین دلاسے کی باتیں کرکے سب کو مطمئن کردیا۔ اتنے میں بستی ناؤ میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دُور جاکر شام ہوگئی اور ہماری گاڑی ایک گاؤں میں جاکر ٹھہری جس میں مسلمان راجپوتوں کی آبادی تھی۔ گاؤں کے نمبردار نے ایک چھپر ہمارے واسطے خالی کرا دیا جس میں سوکھی گھاس اور پھوس کا بچھونا تھا۔ وہ لوگ اسی گھاس پر جس کو پیال یا پرال کہتے تھے، سوتے ہیں۔ ہم کو بھی بڑی خاطرداری سے (جو ان کے خیال میں بڑی خاطر تھی) یہ نرم بچھونا دیا گیا۔میرا تو اس کوڑھے سے جی اُلجھنے لگا۔ پر کیا کرتے اس وقت سوائے اس کے کیا ہوسکتا تھا۔ ناچار اسی میں پڑرہے۔ دن بھر کی تکلیف اور تکان کے بعد اطمینان اور بے فکری میسر آئی تھی۔ نیند آگئی۔ آدھی رات کو ایکا ایکی ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔ گھاس کے تنکے سوئیوں کی طرح بدن میں چبھ رہے تھے اور پسو جگہ جگہ کاٹ رہے تھے۔ اس وقت کی بے کلی بھی خدا کی پناہ، پسوؤں نے تمام بدن میں آگ لگا دی تھی۔ مخملی تکیوں، ریشمی نرم نرم بچھونوں کی عادت تھی اس لیے تکلیف ہوئی ورنہ ہم ہی جیسے وہ گاؤں کے آدمی بھی تھے۔ جو بے غل و غش اسی گھاس پر پڑے سوتے تھے۔ اندھیری رات میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آرہی تھیں اور میرا دل سہما جاتا تھا۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بال بچے یوں خاک پر بسیرے لیتے پھریں گے۔ قصہ مختصر اسی طرح منزل بہ منزل تقدیر کی گردشوں کا تماشا دیکھتے ہوئے حیدرآباد پہنچے اور سیتارام پیٹھ میں ایک مکان کرایہ کو لے کر ٹھہرے۔ جبل پور میں میرے شوہر نے ایک جڑاؤ انگوٹھی جو لوٹ کھسوٹ سے بچ گئی تھی۔ فروخت کی۔ اسی میں راستہ کا خرچ چلا اور چند روز یہاں بھی بسر ہوئے۔ آخر تابہ کے، جو کچھ تھا ختم ہوگیا۔ اب فکر ہوئی کہ پیٹ بھرنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔ میرے شوہر اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے۔ انھوں نے درود شریف خط ریحان میں لکھا اور چار مینار پر ہدیہ کرنے لے گئے۔ اس کے بعد یہ قاعدہ ہوا کہ جو کچھ لکھتے کمتی بڑھتی فوراً بک جاتا۔ اس طرح ہماری گزر اوقات عمدگی سے ہونے لگی۔ لیکن موسیٰ ندی کے چڑھاؤ سے ڈر کر شہر میں داروغہ احمد کے مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ شخص حضور نظام کا خاص ملازم تھا، اس کے بہت سے مکان کرایہ پر چلتے تھے۔چند روز بعد خبر اُڑی کہ نواب لشکر جنگ جس نے شہزادوں کو اپنے پاس پناہ دی تھی۔ انگریزوں کے عتاب میں آگیا ہے اور اب کوئی شخص دہلی کے شہزادوں کو پناہ نہیں دے گا بلکہ جس کسی شہزادے کی خبر ملے گی اس کو گرفتار کرانے کی کوشش کرے گا۔ ہم سب اس خبر سے گھبرا گئے اور میں نے اپنے شوہر کو باہر نکلنے سے روک دیا کہ کہیں کوئی دشمن پکڑوا نہ دے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے فاقوں کی نوبت آگئی تو ناچار ایک نواب کے لڑکے کو قرآن پڑھانے کی نوکری میرے شوہر نے بارہ روپیہ ماہوار پر کرلی۔ چپ چاپ اس کے گھر چلے جاتے اور پڑھا کر آجاتے ۔ مگر وہ نواب اس قدر بدمزاج تھا کہ ہمیشہ معمولی نوکروں کی طرح میرے شوہر کے ساتھ برتاؤ کرتا تھا جس کی برداشت وہ نہ کرسکتے تھے اور گھر میں آکر رو رو کر دعا مانگتے کہ الٰہی اس ذات کی نوکری سے تو موت لاکھ درجہ بڑھ کر ہے۔ تو نے اتنا محتاج بنا دیا۔ کل تو اس نواب جیسے سینکڑوں ہمارے غلام تھا اور آج ہم اس کے غلام ہیں۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو ہماری خبر دی۔ میاں کی حیدرآباد میں بڑی عزت تھی کیونکہ میاں حضرت کلے میاں صاحب چشتی نظامی فخری کے صاحبزادے تھے جن کو بادشاہ دہلی اور نظام اپنا پیر تصور کرتے تھے۔ میاں رات کے وقت میانہ میں سوار ہوکر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم کو دیکھ کر بہت روئے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ قلعہ میں تشریف لاتے تھے تو مسند زرنگارپر بٹھائے جاتے تھے۔ بادشاہ بیگم اپنے ہاتھ سے لونڈیوں کی طرح مگس رانی کرتی تھی۔ آج وہ گھر آئے تو ثابوت بوری بھی نہ تھا جس پر وہ آرام سے بیٹھ جاتے۔ پچھلا زمانہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ خدا کی شان کیا تھا اورکیا ہوگیا۔ میاں بہت دیر تک حالات دریافت فرماتے رہے۔ اس کے بعد تشریف لے گئے۔ صبح کو پیام آیا کہ ہم نے خرچ کا انتظام کروا دیا ہے۔ اب تم حج کا ارادہ کرلو۔ یہ سن کر جی باغ باغ ہوگیا اور مکہ مکرمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ القصہ حیدرآباد سے روانہ ہوکر بمبئی آئے اور یہاں اپنے سچے رفیق بستی کو خرچ دے کر اس کے گھر رخصت کر دیا۔ جہاز میں سوار ہوئے۔ جو مسافر یہ سنتا تھا کہ یہ شاہِ ہند کے گھرانے کے ہیں تو ہمارے دیکھنے کا شوق ظاہر کرتا تھا۔ اس وقت ہم سب درویشانہ رنگین لباس میں تھے۔ ایک ہندو نے جس کی شاید عدن میں دکان تھی اور جو ہمارے حال سے بے خبر تھا، پوچھا کہ تم لوگ کس پنتھ کے فقیر ہو۔ اس کے سوال نے زخمی دل کو چھیڑ دیا، میں بولی: ‘‘ہم مظلوم شاہ گرو کے چیلے ہیں۔ وہی ہمارا باپ تھا وہی ہمارا گرو۔ پاپی لوگوں نے اس کا گھربار چھین لیا اور ہم کو اس سے جدا کر کے جنگلوں میں نکال دیا ۔ اب وہ ہماری صورت کو ترستا ہے اور ہم اس کے درشنوں بغیر بے چین ہیں’’۔

اس سے زیادہ اور کیا اپنی فقیری کی حالت بیان کریں۔ جب اس نے ہماری اصلی کیفیت لوگوں سے سنی تو بے چارہ رونے لگا اور بولا: بہادرشاہ ہم سب کا باپ اور گرو تھا۔ کیا کریں رام جی کی یہی مرضی تھی کہ وہ بے گناہ برباد ہوگیا۔مکہ پہنچے تو اللہ میاں نے ٹھہرنے کا ایک عجیب ٹھکانہ پیدا کر دیا۔ عبدالقادر نامی میرا ایک غلام تھا جس کو میں نے آزاد کرکے مکہ بھیج دیا تھا۔ یہاں آکر اس نے بڑی دولت کمائی اور زمزم کا داروغہ ہوگیا۔ اس کو جو ہمارے آنے کی خبر ملی، دوڑا ہوا آیا اور قدموں پر گر کر خوب رویا۔ اس کا مکان بہت اچھا اور آرام کا تھا۔ ہم سب وہیں ٹھہرے۔چند روز کے بعد سلطان روم کے نائب کو جو مکہ میں رہتا ہے، ہماری خبر ہوئی تو وہ بھی ہم سے ملنے آیا۔ کسی نے اس سے کہا تھا کہ شاہِ دہلی کی لڑکی آئی ہے جو بے حجابانہ باتیں کرتی ہے۔ نائب سلطان نے عبدالقادر کے ذریعے سے ملاقات کا پیام دیا جو میں نے منظور کیا۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر پر آیا اور نہایت ادب قاعدہ سے بات چیت کی۔ آخر میں اس نے خواہش کی کہ میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب بہت بے پروائی سے دیا کہ اب ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگئے ہیں۔ اب ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پروا نہیں ہے۔ نائب نے ایک معقول رقم ہمارے اخراجات کے لیے مقرر کردی اور ہم نو برس وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف، ایک سال نجف اشرف و کربلائے معلی میں بسر ہوا۔ اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہوکر دہلی آگئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کر دس روپیہ ماہوار پنشن مقرر کردی۔ اس پنشن کی رقم کا سن کر اوّل تو مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپیہ معاوضہ دیتے ہیں مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔

٭٭٭