تاریخ قسط - ۲
دہلوی تاج دار کے ایک کنبہ کی داستان
ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان، مغلیہ خاندان پر کیا بیتی اس کا آنکھوں دیکھا حال اور انگریزوں کی بربریت کی مستند تاریخ
جب دہلی زندہ تھی اور ہندوستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔ انھی دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابوظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہوکر الٰہ آباد چلے گئے تھے)۔ اپنے مردانہ مکان میں بیٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں زنانہ خانہ سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیا کہ حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں : مرزا سلیم فوراً محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے۔ ایک بے تکلف ندیم نے عرض کیا: خیر باشد مزاج عالی مکدر پاتا ہوں۔ مرزا نے مسکرا کر جواب دیا: نہیں کچھ نہیں، بعض اوقات اماں حضرت خواہ مخواہ ناراض ہوجاتی ہیں۔ کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خاں گویا گا رہا تھا اور میرا دل بہلا رہا تھا۔ اس وقت اماں حضرت قرآن شریف پڑھا کرتی ہیں، ان کو یہ شوروغل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان رمضان گانے بجانے کی محفلیں بند کردی جائیں۔ بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔ ادب کے لحاظ سے قبول تو کرلیا مگر اس کی پابندی سے جی اُلجھتاہے۔ حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیوں کر بسر ہوں گے۔مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا: حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے۔ شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد میں تشریف لے چلا کیجیے۔ عجب بہار ہوتی ہے۔ رنگ برنگ کے آدمی، طرح طرح کے جمگھٹے دیکھنے میں آئیں گے۔ خدا کے دن ہیں خدا والوں کی بہار دیکھیے۔مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے جاکر جامع مسجد پہنچے۔ وہاں جاکر عجب عالم دیکھا۔ جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں۔ کہیں قرآن شریف کے دَور ہو رہے ہیں۔ رات کے قرآن سنانے والے حفاظ ایک دوسرے کو قرآن سنا رہے ہیں۔ کہیں مسائل دین پر گفتگو ہو رہی ہے۔ دوعالم کسی فقیہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی گرد میں بیٹھے مزے سے سن رہے ہیں۔ کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے۔ کہیں کوئی صاحب ِ وظائف میں مشغول ہیں۔ الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔ مرزا کو یہ نظارہ بہت پند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا۔ اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا۔ سینکڑوں خوان افطاری کے آنے لگے اور لوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جائے۔ اس کے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے اس لیے ان خوانوں کی گنتی سینکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ چونکہ ہر امیر کوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے، اس لیے ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرایش ہوجاتی تھی۔مرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان شوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد میں آنے لگے۔ گھروں میں وہ دیکھتے کہ سینکڑوں فقراء کو سحری اور اوّل شب کا کھانا روزانہ شہر کی خانقاہوں اور مسجدوں میں بھجوایا جاتا تھا اور باوجود رات دن کے لہوولعب کے یہ دن ان کے گھر میں بڑی برکت اور چہل پہل کے معلوم ہوتے تھے۔
مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ زور نوعمری کے سبب اکثر اپنے ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت آیا کہ دہلی زیروزبر ہوگئی۔ قلعہ برباد کردیا گیا۔ امیروں کو پھانسیاں مل گئیں۔ ان کے گھر اُکھڑ گئے ۔ ان کی بیگمات ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان و شوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہیں۔ سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے دانے دلے جارہے ہیں۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہاں کی خوب صورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد واگزار ہوگئی اورسرکار نے اس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا۔ دیکھا کہ چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں۔ دوچار قرآن شریف کا دورہ کر رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کھجوریں اور دال سیو یاں بانٹ دیئے، کسی نے ترکاری کے قتلے تقسیم کردیئے۔ نہ وہ اگلا سا سماں نہ وہ اگلی سی چہل پہل، نہ وہ پہلی سی شان و شوکت، یہ معلوم ہوتا تھا کہ بیچارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں۔ غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہوسکتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلمانوں کے افلاس کا یہی عالم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نوبت آئے۔
مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا۔ ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا فسانہ سننا چاہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس کے بیان کرنے میں عذر و مجبوری ظاہر کرنے لگے۔ لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی دردناک کہانی اس طرح سنائی:
جب انگریزی توپوں نے، کرچوں اور سنگینوں نے، چکمانہ توڑ جوڑنے، ہمارے ہاتھ سے تلوار چھین لی۔ تاج سر سے اُتار لیا۔ تخت پر قبضہ کر لیا۔ شہر میں آتش ناک گولیوں کا مینہ برس چکا۔ سات پردوں میں رہنے والیاں بے چادر ہوکر بازار میں اپنے وارثوں کی تڑپتی لاشوں کو دیکھنے نکل آئیں۔ چھوٹے بن باپ کے بچے ابا ابا پکارتے ہوئے بے یارومددگار پھرنے لگے۔ حضور ظلِ سبحانی، جن پر ہم سب کا سہارا تھا، قلعہ چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی اپنی بوڑھی والدہ، کمسن بہن اور حاملہ بیوی کو ساتھ لے کر اور اُجڑے قافلہ کا سالار بن کے گھر سے کوچ کیا۔ہم لوگ دو رتھوں میں سوار تھے ۔ سیدھے غازی آباد کا رُخ کیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہر رستہ انگریزی لشکر کی جولان گاہ بنا ہوا ہے اس لیے شاہدرہ سے واپس ہوکر قطب صاحب چلے اور وہاں پہنچ کر رات کو آرام کیا۔ اس کے بعد صبح آگے روانہ ہوئے۔ چھترپور کے قریب گوجروں نے حملہ کیا اور سب سامان لوٹ لیا مگر اتنی مہربانی کی کہ ہم کو زندہ چھوڑ دیا۔ وہ لق ود ق جنگل، تین عورتوں کا ساتھ اور عورتیں بھی کیسی ایک بڑھاپے سے لاچار، دو قدم چلنا دشوار، دوسری حاملہ اور بیمار، تیسری دس برس کی معصوم لڑکی زار و نزار۔ عورتیں روتی تھیں اور بین کرکر کے روتی تھیں۔ میرا کلیجہ ان کے بین سے پھٹا جاتا تھا۔ والدہ کہتی تھیں: الٰہی! ہم کہاں جائیں، کس کا سہارا ڈھونڈیں، ہمارا تاج و تخت لُٹ گیا، تو ٹوٹا بوریا اور امن کی جگہ تو دے، اس بیمار پیٹ والی کو کہاں لے کر بیٹھوں، اس معصوم بچی کو کس کے حوالے کروں، جنگل کے درخت بھی ہمارے دشمن ہیں، کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ بہن کی یہ کیفیت تھی کہ وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی اور ہم سب کا منہ تکتی تھی۔ مجھ کو اس کی معصومانہ بے کسی پر بڑا ترس آتا تھا۔ آخر مجبوراً میں نے عورتوں کو دلاسا دیا اور آگے چلنے کی ہمت بندھائی۔ گاؤں سامنے نظر آتا تھا۔ غریب عورتوں نے چلنا شروع کیا۔ والدہ صاحبہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی تھیں اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتی تھیں اور جب وہ یہ کہتیں: ‘‘تقدیر ان کو ٹھوکریں کھلواتی ہے جو تاج وروں کے ٹھوکریں مارتے تھے۔ قسمت نے ان کو بے بس کردیا جو بے کسوں کے کام آتے تھے۔ ہم چنگیر کی نسل ہیں جس کی تلوار سے زمین کانپتی تھی۔ ہم تیمور کی اولاد ہیں جو ملکوں کا اور شہریاروں کا شاہ تھا۔ ہم شاہجہاں کے گھر والے ہیں جس نے ایک قبر پر جواہر نگار بہار دکھا دی اور دنیا میں بے نظیر مسجد دہلی کے اندر بنا دی۔ ہم ہندستان کے شہنشاہ کے کنبے میں ہیں۔ہم عزت والے تھے ، زمین میں ہمیں کیوں ٹھکانا نہیں ملتا، وہ کیوں سرکشی کرتی ہے۔ آج ہم پر مصیبت ہے، آج ہم پر آسمان روتا ہے’’۔تو بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ القصہ بہ ہزار وقت و دشواری گرتے پڑتے گاؤں میں پہنچے۔ یہ گاؤں میواتیوں کا تھا۔ انھوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرایا۔کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا۔ لیکن کب تک یہ بار اُٹھا سکتے تھے، اُکتا گئے اور ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ میاں جی چوپاڑ میں ایک برات آنے والی ہے تو دوسرے چھپر میں چلا جا اور رات دن ٹھالی (بیکار) بیٹھے کیا کر ے ہے، کچھ کام کیوں نہیں کرتا۔ میں نے کہا: بھائی جہاں تم کہو گے وہیں جاپڑیں گے، ہمیں چوپاڑمیں رہنے کی ہوس نہیں، جب فلک نے عالی شان محل چھین لیے تو اس کچے مکان پر ہم کیا ضد کریں گے اور رہی کام کرنے کی بات سو میرا جی تو خود گھبراتا ہے، خالی بیٹھے ہوئے طبیعت اُکتائی جاتی ہے، مجھ کو کوئی کام بتاؤ۔ ہوسکے گا تو آنکھوں سے کروں گا۔ ان کا چودھری بولا: ‘‘ہم نے کے بیرا (ہمیں کیا خبر) کہ تو کے کام (کیا کام) کر سکے ہے۔ میں نے جواب دیا: میں سپاہی زادہ تیغ تفنگ چلانا میرا ہنر ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں جانتا۔ گنوار ہنس کر کہنے لگے: نہ بابا! یہاں تو ہل چلانا ہوگا، گھاس کھودنی پڑے گی، ہم نے تلوار کے ہنر کیا کرنے ہیں۔ گنواروں کے اس جواب سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور جواب دیا کہ بھائیو! مجھ کو تو ہل چلانا اور گھاس کھودنی نہیں آتی۔ مجھ کو روتا دیکھ کر گنواروں کو رحم آگیا اور بولے: اچھا تو ہمارے کھیت کی رکھوالی کیا کرو اور تیری عورتیں ہمارے گاؤں کے کپڑے سی دیا کریں۔ فصل پر تجھ کو اناج دے دیا کریں گے جو تجھ کو برس کو کافی ہوگا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ میں سارا دن کھیت پر جانور اُڑایا کرتا تھا اور گھر میں عورتیں کپڑے سیتی تھیں۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بھادوں کا مہینہ آیا اور گاؤں میں سب کو بخار آنے لگا۔ میری اہلیہ اور بہن کو بھی بخار نے آن دبایا۔ وہ گاؤں وہاں دوا اور حکیم کا کیا ذکر۔ خود لوٹ پیٹ کر اچھے ہوجاتے ہیں۔ مگر ہم کو دواؤں کی عادت تھی، سخت تکلیف اُٹھانی پڑی۔ اسی حالت میں ایک دن اس زور کی بارش ہوئی کہ جنگل کا نالہ چڑھ آیا اور گاؤں میں کمرکمر پانی ہوگیا۔ گاؤں والے تو اس کے عادی تھے لیکن ہماری حالت اس طوفان کے سبب مرنے سے بدتر ہوگئی۔ چونکہ پانی ایک دفعہ ہی رات کے وقت گھس آیا تھا اس لیے ہماری عورتوں کی چارپائیاں بالکل غرق آب ہوگئیں۔ آخر بڑی مشکل سے چھپر کی بلیوں میں دوچارپائیاں اُڑا کر عورتوں کو ان پر بٹھایا۔ پانی گھنٹہ بھر میں اُتر گیا مگر غضب یہ ہوا کہ کھانے کا اناج اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑے تر کر گیا۔ پچھلی رات میری بیوی کے درد زہ شروع ہوا اور ساتھ ہی جاڑے سے بخار بھی آیا۔ اس وقت کی پریشانی بس بیان کرنے کے قابل نہیں۔ اندھیراگھٹ، مینہ کی جھڑی، کپڑے سب گیلے، آگ کا سامان ناممکن۔ حیران تھے الٰہی کیا انتظام کیا جائے۔ دردبڑھنا شروع ہوا اور مریضہ کی حالت نہایت ابتر ہوگئی۔ یہاں تک کہ تڑپنے لگی اور تڑپتے تڑپتے جان دے دی۔ بچہ پیٹ ہی میں رہا۔چونکہ وہ ساری عمر ناز و نعمت میں پلی تھیں، غدر کی مصیبتیں ہی ان کی ہلاکت کے لیے کافی تھیں۔ خیر اس وقت تو جان بچ گئی مگر یہ بعد کا جھٹکا ایسا بڑا لگا کہ جان لے کر گیا۔ صبح ہوگئی، گاؤں والوں کی خبر ہوئی تو انھوں نے کفن وغیرہ منگوا دیا اور دوپہر تک یہ محتاج شہزادی گورغریباں میں ہمیشہ کے لیے جاسوئی۔اب ہم کو کھانے کی فکر ہوئی کیوں کہ اناج سب بھیگ کر سڑ گیا تھا۔ گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح اسی مصیبت میں گرفتار تھے۔
تاہم بے چارے گاؤں کے چودھری کو خود ہی خیال آیا اور اس نے قطب صاحب سے ایک روپیہ کا آٹا منگوا دیا۔ وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آیا۔ والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا، وہ ہروقت گزشتہ زمانہ کو یاد کیا کرتی تھیں، رمضان کا چاند دیکھ کر انھوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو اگلا وقت یاد آگیا ہے۔ تسلی کی باتیں کرنے لگا جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔چار پانچ دن تو آرام سے گزر گئے مگر جب آٹا ختم ہوچکا تو بڑی مشکل درپیش ہوئی۔ سوال کرتے ہوئے شرم آتی تھی اور پاس ایک کوڑی نہ تھی۔ شام کو پانی سے روزہ کھولا، بھوک کے مارے کلیجہ منہ کو آتا تھا۔والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ اس قسم کی تکلیف کے وقت بیان کر کے رویا کرتی تھیں مگر آج بڑے اطمینان سے خاموش تھیں۔ ان کی خاموشی و اطمینان سے میرے دل کو بھی سہارا ہوا اور چھوٹی بہن کو جس کے چہرے پر بھوک کے مارے ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، دلاسا دینے لگا۔ وہ معصوم بھی میرے سمجھانے سے نڈھال ہوکر چارپائی پر جاپڑی اور تھوڑی دیر میں سو گئی۔ بھوک میں نیند کہاں آتی ہے، بس ایک غوطہ سا تھا۔اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آگیا۔ والدہ صاحبہ اُٹھیں اور تہجد نماز کے بعد جن دردناک الفاظ میں انھوں نے دعا مانگی ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ انھوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: ‘‘ہم نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا یہ مل رہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سینکڑوں محتاجوں کوکھانا ملتا تھا اور آج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزہ پر روزہ رکھتے ہیں۔ خداوند! اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی جس کے منہ میں کل سے ایک کھیل اُڑ کر نہیں گئی’’۔دوسرا دن بھی یوں ہی گزر گیا اور فاقہ میں روزہ پر روزہ رکھا۔ شام کے قریب چودھری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا: آج ہمارے نیاز تھی، یہ اس کا کھانا ہے اور پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں۔ ہرسال بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری دیا کرتے ہیں مگر اب کے نقد دے دیا ہے۔یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئی گویا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا۔ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردش فلاکت نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا لیکن عورت ذات جوں کی توں اپنی قدیمی غیرت داری پر قائم ہے۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ والدہ کا رنگ متغیر ہوگیا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انھوں نے تیور بدل کر کہا: تف ہے تیری غیرت پر، خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ارے اس سے مر جانا بہتر تھا۔ اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہیں مٹی۔ میدان میں نکل کر مر جانا یا مار ڈالنا اور تلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے۔ صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں۔ والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ چاہا کہ اُٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا: خدا ہی کو یہ منظور ہے تو ہم کیا کریں سب کچھ سہنا ہوگا۔ یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھا لیا پانچ روپیہ کا آٹا منگوا لیا جس سے رمضان خیروخوبی سے بسر ہوگیا۔اس کے بعد چھ مہینے گاؤں میں اور رہے، پھر دہلی چلے آئے۔ یہاں آکر والدہ کا انتقال ہوگیا اور بہن کی شادی کردی ۔ انگریزی سرکار نے میری بھی پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کردی ہے ، جس پر آج کل زندگی کا انحصار ہے۔
٭٭٭