اس شخص کا نام حیزان الفہیدی الحربی ہے۔ یہ بریدہ سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں (اسیاح) کا رہنے والا ہے۔ قصیم کی شرعی عدالت میں فیصلہ جیسے ہی اس کے خلاف ہوا تو اس نے خود تو رو رو کر اپنی داڑھی کو آنسوؤں سے تر بتر کیا ہی، مگر دیکھنے والوں کو بھی رلا دیا۔یہ شخص کس بات پر رویا ،اس واقعہ کی تلخیص آپ کے لیے حاضر ہے۔حیزان اپنی ماں کی بڑا بیٹا ہے، اکیلا ہونے کی وجہ سے سارا وقت اپنی ماں کی خدمت اور نگہداشت پر صرف کرتا تھا۔ حیزان کی ماں ایک بوڑھی اور لاچار عورت ہے جس کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی ہے۔سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ ایک دن دوسرے شہر سے حیزان کے چھوٹے بھائی نے آکر مطالبہ کر ڈالا کہ وہ ماں کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے خاندان کے ساتھ رہ سکے۔ حیزان نے انکا ر کرد یا۔دونوں بھائیوں کے درمیان تو تکار زیادہ بڑھی تو انہوں نے معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا، مگر معاملہ عدالت میں جا کر بھی جوں کا توں ہی رہا، دونوں بھائی اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں تھے اور عدالت پیشیوں پر پیشیاں دیتی رہی تاکہ وہ دونوں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ مگر یہ سب کچھ بے سود رہا۔مقدمے کی طوالت سے تنگ آ کر قاضی نے آئندہ پیشی پر دونوں کو اپنی ماں کو ساتھ لے کر آنے کیلئے کہا تاکہ وہ اْن کی ماں سے ہی رائے لے سکے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرے گی؟اگلی پیشی پر یہ دونوں بھائی اپنی ماں کو ساتھ لے کر آئے، اْنکی ماں کیا تھی محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ۔ قاضی نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ اْس کے دونوں بیٹوں کے درمیان اْسکی خدمت اور نگہداشت کیلئے تنازع چل رہا ہے؟ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اْسے اپنے پاس رکھیں! ایسی صورتحال میں وہ کس کے پاس جا کر رہنا زیادہ پسند کرے گی؟بڑھیا نے کہا، ہاں میں جانتی ہوں مگر میرے لیئے کسی ایک کے ساتھ جا کر رہنے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر حیزان میری ایک آنکھ کی مانند ہے تو اسکا چھوٹا بھائی میری دوسری آنکھ ہے۔قاضی صاحب نے معاملے کو ختم کرنے کی خاطر حیزان کے چھوٹے بھائی کی مادی اور مالی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ اْس کے حق میں کر دیا۔جی ہاں، تو یہ وجہ تھی حیزان کے اس طرح ڈھاڑیں مار مار کر رونے کی۔ کتنے قیمتی تھے حیزان کے یہ آنسو! حسرت کے آنسو ، کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرنے پر قادر کیوں نہیں مانا گیا؟ اتنا عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی ماں کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے یہ جدوجہد؟ شاید بات حیزان کی نہیں، بات تو اْن والدین کی ہے جنہوں نے حیزان جیسے لوگوں کی تربیت کی اور اْنہیں برالوالدین کی اہمیت اور عظمت کا درس دیا۔
(مرسلہ ، محمد سلیم، بحوالہ سعود ی اخبار، الریاض)