قرآنی آیات:
۱۔ (لوگو،) یہ سب چیزیں جب پھلیں تو ان کے پھل (شوق سے) کھاؤ اور ان کے کاٹنے (اور توڑنے) کے دن اللہ کا حق ادا کرو اور اسراف مت کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔) (الانعام ۱۴۱:۶)
۲۔ اے بنی آدم، ہر نماز کے وقت (لباس سے) اپنے تئیں آراستہ کر لیا کرو، اور کھاؤ پیو اور بیجا خرچ نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف ۱۳:۷)
۳۔ اور رشتہ داروں کو (بھی) ان کا حق ادا کرو اور مسکین و مسافر کو (بھی ان کا حق دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل ۷۱: ۶۲-۷۲)
۴۔ اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ اس (افراط و تفریط) کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔ (الفرقان ۷۶:۵۲)
احادیث:
۱۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا آدمی کے لئے ایک بستر ہونا چاہئے اور ایک ہی بستر اس کی بیوی کے لئے ہونا چاہیے تیسرا بستر مہمان کے لئے ہونا چاہئے اور چوتھا تو شیطان کے لئے ہے۔ ( صحیح مسلم جلد 3،حدیث نمبر 955)
۲۔ حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کھاؤ پیوصدقہ کرو اور پہنو بشرطیکہ اس میں اسراف یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔ (بخاری کتاب اللباس)
۳۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے واسطے کچھ بھی (مال وغیرہ) موجود نہیں ہے اور ایک یتیم بچے کا میں ولی بھی ہوں۔ آپ نے فرمایا تم اپنے یتیم کے مال میں سے کچھ کھا لیا کرو لیکن تم فضول خرچی نہ کرنا اور تم حد سے زیادہ نہ کھانا اور نہ تم دولت اکٹھا کرنا۔ ( سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1608،حسن حدیث)
۴۔ مغیرہ بن شعبہ نے کہاکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں۔ ایک بے فائدہ گفتگو دوسرے مال ضائع کرنا اور تیسرے بہت مانگنا۔ ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1389 )
۵۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدمی کو گناہ گار بنا دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کر دے۔ ( سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1679)
۶۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔ ( صحیح مسلم جلد 2 ، حدیث نمبر 1987)
اسراف کا مفہوم
اسراف کا مفہوم حد سے تجاوز کرنا، ایک مخصوص اور متعین سرحد کو پار کرنے کے ہیں۔اسراف کی تعریف یہ ہے کہ" صرف یا خرچ کرنے کے موقع پر ضرورت سے زیادہ صرف یا خرچ کرنا "۔
چنانچہ اصطلاحی معنوں میں اسراف سے مراد کسی دینی اور دنیوی قابل ذکر فائدہ کے بغیر مال کو یا کسی دوسری چیز کو تباہ وبرباد کرنا ،کسی بھی چیز کا متعین ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا یا اس کے متعین استعمال کے علاوہ اسے ضائع کرنا شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنی آمدنی کا خطیر حصہ نمود و نمائش میں ضائع کرکے اسراف کا مرتکب ہوتا ہے۔اسی طرح ایک شخص کو سفر کرنے کے لئے ایک کارکی ضرورت ہے لیکن اس نے بلا ضرورت تین کاریں رکھ چھوڑی ہے تو وہ بھی اسراف کا مرتکب ہورہا ہے۔
اسراف کی صورتیں
اسراف کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ایک شکل تو مال و دولت میں اسراف اور دوسری شکل دیگر معاملات میں اسراف کی ہے۔
الف۔ مال و دولت خرچ کرنے میں اسراف:
اسراف کی سب سے نمایاں صورت یہی ہے کہ مال و دولت کو حد سے زیادہ خرچ کیا جائَے۔اس کی درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔
۱۔ کھانے پینے میں اسراف
اسکی پہلی شکل تو یہ ہے کہ حد سے زیادہ کھانا کھا لیا جائے، جو پسند آئے وہ چیزوقت بے وقت ہڑپ کرلی جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو ضائع کیا جائے جیسے ضرورت سے زیادہ پلیٹ بھرلینا اور پھر کھانا بچا کر چھوڑ دیناوغیرہ۔تیسری صورت یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر انتہائی مہنگے کھانے یا مشروبات کواستعمال کرنا۔
۲۔ ملبوسات میں اسراف
لباس کا بنیادی مقصد تن کو ڈھانپ کر پردہ پوشی کرنا اور موسمی اثرات سے خود کو بچانا ہے۔ جبکہ اس کا ثانوی مقصد آرائش و زیبائش ہے۔ چنانچہ ملبوسات کو زندگی کا محور بنانے سے بھی اسراف کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے معاشرے میں خواتین بالخصوص اس اسراف کی زیادہ مرتکب ہوتی ہیں۔ چنانچہ ضرورت نہ ہونے کے باوجودبرانڈڈ کپڑے پہننا، غیر ضروری طور پر ڈھیروں ملبوسات خرید لینا یا لباس کو ایک مرتبہ ہی استعمال کردینے کے بعد پھینک دینا وغیرہ اس کی چند صورتیں ہیں۔
۳۔ آرائش و زیبائش میں اسراف
اس میں جسم اور چہرے کی آرائش بھی شامل ہے اور مکان، دوکان، سواری یا ملبوسات کی زیبائش بھی۔ ایک حد سے زیادہ آرائش بھی اسراف کا ایک سبب ہے۔ بیوٹی پارلر میں حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنا، جیولری میں پیسے لٹانا،فیشن کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرنا وغیرہ اس قبیل کے معمولات ہیں۔
۴۔ رہائش میں اسراف
رہائش یا انوسٹمنٹ کے مقصد کے علاوہ لیا ہوا مکان بھی اسراف کے زمرے میں آسکتا ہے۔ مکان کے رقبے کا ضرورت سے زیادہ ہونا یا اس پر رنگ و روغن اور دیگر امور میں ایک حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اسراف کا سبب بن سکتا ہے۔البتہ بہتر کوالٹی اور اچھے معیار زندگی کے لئے کیا گیا خرچہ اسراف نہیں۔
۵۔ سواری میں اسراف
اس میں بلا ضرورت ایک سے زائد گاڑی رکھنا، گاڑی کی آرائش پر بے تحاشہ خرچ کرنا ، بلا ضرورت نئے ماڈلوں کی کار کو خریدنا وغیرہ اسراف میں شامل ہیں۔
۶۔ اشیاء کی خریداری میں اسراف
ان کے علاوہ بے شمار اشیا و خدمات ایسی ہوسکتی ہیں جن کے استعمال میں اسراف کا خدشہ موجود ہے۔ ان میں مہنگے موبائل فون، گھڑیاں، جوتے، پرفیوم وغیرہ شامل ہیں۔
ب۔ دیگر معاملات میں اسراف:
اسراف کی بنیادی شکل تو یہی ہے کہ مال و دولت کو ایک خاص حد سے زیادہ خرچ کیا جائے۔ لیکن اسراف کا اطلاق کسی بھی استعمال ہونے والی اشیا ء ، خدمات یا وسائل پر ہوسکتا ہے۔ ان میں سے چند اہم صورتیں درج ذیل ہیں۔
۱۔ وقت کے استعمال میں اسراف
وقت بعض مواقع پر دولت سے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وقت برباد کرنا، ہر وقت ٹی وی دیکھتے رہنا، سوتے رہنا، کھیل کود میں قیمتی وقت لگانا وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔چنانچہ وقت کو بلا کسی مقصد کے ضائع کرنا اسراف ہے۔
۲۔ پانی اور دیگر قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف
یہ ایسا پہلو ہے جسے لوگ بالعمو م معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔بدن یا اشیاء کی صفائی کے دوران پانی کو بہتا چھوڑ دینا، بلا ضرورت لائٹیں جلا کر رکھنا، گیس کے استعمال میں بے احتیاطی اختیار کرنا وغیرہ اس قبیل کے امور ہیں۔
اسراف کے لوازمات
چونکہ مال میں اسراف اور دیگر معاملات میں اسراف کی شرائط الگ الگ ہیں چنانچہ ہم انہیں جدا کرکے ہی بیان کرتے ہیں۔
الف۔ مال میں اسراف کی شرائط:
اسراف کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد خرچ کرنا اسراف ہے۔ضرورت کے تعین کے لئے یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ ضرورت جائز ہے؟ کیا ضرورت اس معاشرے کے معیار زندگی کے مطابق ہے ؟ کیا ضرورت خرچ کرنے والے کی حیثیت کے مطابق ہے ؟کیا ضرورت اس شخص کے ذوق جمال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے؟ وغیرہ وغیرہ
چنانچہ اسراف ایک اضافی اصطلاح ہے اور اسے سمجھنے کے لئے اس کے لوازمات کو جاننا ضروری ہے۔ کسی خرچ کے اسراف ہونے یا نہ ہونے کا تعلق درج ذیل چار پہلووں سے ہوتا ہے ۔
۱۔ ضرورت کی نوعیت اور حد
پہلی شرط یہ ہے کہ جس چیز کو فاعل ضرورت سمجھ رہا ہے کیا وہ واقعی ضرورت ہے یا اس کے تعین میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔مثال کے طور پر کسی بھی امیر یا غریب شخص کا دکھاوے کے لئے کسی تقریب میں لاکھوں روپے کی آتش بازی کا مظاہر ہ کرنا اسراف ہے کیونکہ یہ عمل کسی طور بھی ضرورت کے زمرے میں نہیں آتا۔ دوسری جانب اپنی بیٹی کو اعلیٰ درجے کا جہیز دینا بلاشبہ آج کل کے ماحول میں ایک ضرورت ہے جو کہ اس معاشرے کے طرز زندگی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔لہٰذا جہیز پر ایک حد تک رقم خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ماننا ہوگا کہ جہیز کی رسم ایک غلط ضرورت کے طور پر سوسائٹی میں رائج ہے اور اس کی مذمت اور سد باب کی ضرورت ہے۔ چنانچہ کسی جائزضرورت پر ایک جائز حد میں خرچ کرنا اسراف کے زمرے میں نہیں آتا۔
۲۔ معاشر ے کا عرف
اس سے مراد کسی مخصوص شہر ، گاؤں ، علاقے یا ملک کا معیار زندگی ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شہر، ملک یا علاقے کے عام رواج کے مطابق خرچ کررہا ہے تو وہ خواہ دوسرے علاقے والوں کے لئے مہنگا ہو، اسراف میں نہیں آے گا۔مثال کے طور پر پاکستان میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کا نئی ٹویوٹاکیمری یا ہنڈا اکارڈکار رکھنا اسراف ہوگا کیونکہ یہ پاکستان میں یہ بہت مہنگی اور تعیش کے زمرے کی جنس ہے۔دوسری جانب سعودی عرب میں یہ کاریں عام کار وں میں شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہاں اس کا استعمال اسراف نہیں ہوگا۔
۳۔ مالی حیثیت اور حلقہ احباب
اسراف کے تعین کے لئے ایک اور عنصر یہ دیکھنا ہے کہ خرچ کرنے والے شخص کی مالی حیثیت کیا ہے یا اس کا حلقہ احبا ب کس درجے کا ہے؟۔ اگر اس شخص کا تعلق مڈل کلاس سے ہے تو شادی کے موقع پر دو سے زائد کھانو ں کا اہتمام کرنا اسراف کے زمرے میں آئے گا کیونکہ ایک مڈل کلاس گھرانے میں آج کل یہی ایک معیار ہے۔ البتہ ایک امیر شخص کے لئے ایک سے زائد کھانوں کا اہتمام کرنا اسراف نہیں کیونکہ اس کی مالی حیثیت اور حلقہ احباب میں اس چیز کی گنجائش موجود ہے۔ اسی طرح ایک مڈل یا لوئر مڈل کلاس شخص کے لئے برانڈڈ کپڑے پہننا اسراف میں شمار ہوگا جبکہ ایک امیر شخص کے لئے اسراف نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس کے حلقے کا تقاضا ہے۔
۴۔ ذوق جمال
ایک اور پہلو فاعل کا ذوق جمال دیکھنا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو اچھی خوشبو لگانے کا شوق ہے چنانچہ وہ اگر کوئی مناسب حد تک مہنگاپرفیوم استعمال کرے گا تو اسراف میں نہیں آئے گا۔لیکن ذوق جمال کو ایک حد ہی گوارا کیا جاسکتا ہے اور اس حد کے بعد یہ بھی اسراف میں شمار ہوگا۔ نیز اگر ایک شخص کا ذوق اسے دنیا میں اچھی اور مہنگی چیز کی جانب راغب کرتا ہے تو آخرت کے معاملے میں بھی اس کا ذوق کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ وہ آخرت کے لئے اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرے تاکہ جنت میں اپنے ذوق کی تسکین کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پاسکے۔
ب۔ مال کے علاوہ دیگر معاملات میں اسراف کی شرائط
مال میں اسراف کے علاوہ کئی ایسے معاملات ہیں جن میں اسراف ممکن ہے مثلاً پانی ،بجلی یا گیس کے استعما ل میں اسراف یا وقت کی بربادی میں حد سے گذرنا وغیرہ۔ چونکہ انکی نوعیت مال سے جدا ہے اس لئے ان میں اسراف کی شرائط مختلف ہیں۔
۱۔ ان معاملات میں پہلی شرط یہ ہے کہ یہ چیزیں ان مقاصد کو ہی پورا کرنے میں استعمال ہوں جن کی بنا پر انہیں پیدا کیا گیا یا بنایا گیاہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مکان کی اوپری منز ل پر کوئی موجود نہیں تو لائٹ جلا کر رکھنا اسراف میں آئے گا کیونکہ لائٹیں یونہی جلا کر رکھنا بجلی کا غلط استعمال ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیا ء کھانے کی بجائے بچا دینا اور کچرے کی طرح پھینک دینا بھی اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔
۲۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ان اشیا ء و خدمات کو ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا ئے۔ مثلاً کھانا بے تحاشا کھالینا، غسل کے وقت بدن پر پانی بہاتے ہی چلے جانا،منہ دھوتے وقت پوری بالٹی صرف کردینا، بے مقصد ٹی وی دیکھ کر وقت کو برباد کرتے رہنا وغیرہ اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔
اسراف کے نقصانات
۱۔ اللہ کی ناراضی
اسراف کا پہلا نقصان یہ ہے کہ یہ اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔ قرآن کی واضح آیات اس پر موجود ہیں۔
۲۔ افلاس کا خدشہ
اگر مال خرچ کرنے کے معاملے میں احتیاط نہ کی جائے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ مالدار آدمی بھی قلاش ہوجائے۔
۳۔ مستحقین کا استحصال
ہر اسراف درحقیقت کسی مستحق شخص یا اشخاص کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔اگر حد سے زیادہ صرف کو قابو کیا جائے تو اس رقم کو کسی مستحق کی مدد کے لئے استعما ل کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ وسائل کا ضیاع
پانی، معدنیات، گیس، تیل اور دیگر قدرتی وسائل محدود ہوتے ہیں۔ انکا بے جا استعمال ان کے تیزی سے خاتمے کی طرف لے جاتا اور آنے والی نسلوں کو ان سے محروم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
۵۔ معاشرے میں دوڑ کا سبب
اسراف کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی میدان میں خرچ زیادہ کردیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے اس مد میں اتنا ہی خرچ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی مڈل کلاس کا فرد شادی کی تقریب میں دس لاکھ روپے خرچ کرتا ہے تو اس کلاس کے دوسرے افراد کے لئے بھی یہ کرنا ایک طرح کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس طرح ایک فرد کا اسراف دوسرے کے لئے مشکل کا سبب بنتا چلا جاتا ہے۔
۶۔ رزق حرام کمانے کی ترغیب
اس دکھاوے اور ناک اونچی رکھنے کے عمل کے دوران عام طور پر لوگ جائز اور ناجائز کی بحث بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔چنانچہ لوگ اسٹیٹس برقرار رکھنے کے چکر میں حرام کمانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اسراف کے اسباب
۱۔ لاپرواہی
اسراف کی اولین وجہ تو کسی بھی چیز کے استعمال میں لاپروائی کا ہونا ہے۔یہ لاپروائی درحقیقت ناشکری کی ایک قسم ہے۔
۲۔ اسٹیٹس کا احساس اور دکھاوا
بعض اوقات انسان کو اپنے رتبے اور انا کا احساس ہوتا ہے چنانچہ وہ خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے سبب بے جا خرچ کرتا ہے۔
۳۔ احساس کمتری
کچھ لوگوں کو اپنی کمتری کا احساس ہوتا ہے چنانچہ وہ اس احساس کو ختم کرنے کے لئے بھی اسراف کی جانب مائل ہوتے ہیں۔
۴۔ تکبر
خود کو دوسروں سے مختلف اور بڑا سمجھنے کا زعم بھی اسراف کا ایک سبب بن جاتا ہے۔
اسراف کا تدارک
ہدایات
۱۔ کسی بھی خرچ کے موقع پر سب سے پہلے یہ متعین کریں کہ ایک جائز حد کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو موبائل خریدنا ہے تو یہ متعین کرلیں کہ فنکشن، کوالٹی اور کمپنی کے حساب سے کس طرح کا موبائل فون آپ کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔پھر اس سے مہنگے سیٹ کی خریداری پر پابندی لگادیں۔ اگر اس تعین میں مشکل درپیش ہو تو کسی بھی اہل علم سے اسے دریافت کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ حد متعین کرنے کے بعد اس حد کے اندر رہنے کی کوشش کریں خواہ کتنی ہی مخالفت کا سامنا کیوں نہ ہو۔
۳۔ مال کے علاوہ دیگر معاملات میں اسراف سے بچنے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ کسی شے کا وہی استعمال کیا جائے جس کے لئے وہ بنی ہے۔ مثال کے طور پر غذا کھانے کے لئے بنی ہے۔ چنانچہ غذا کو بچا دینا اور پھر اسے ڈسٹ بن کی نذر رکر دینا اسراف ہے۔ اگر خوراک بچ ہی جائے تو اسے پرندوں ، چیونٹیوں وغیرہ کو کھلا دینا چاہیے۔
۴۔ انفاق یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنیکی عادت کا پیدا کرنا بھی اسراف کو روکنے کا ایک سبب ہے۔ اس کے ذریعے ضرورت سے زائد رقم کو بے جا صرف کرنے کی بجائے درست مصرف میں لگایا جاسکتا ہے۔