مسلکی اختلافات اور مسلمان
موجودہ دور میں مسلمانوں کی ذلت و پستی کے لیے جن اسباب کا رونا رویاجاتا ہے ان میں سے ایک سبب مسلکی اختلافات کی موجودگی بھی ہے۔ آئیے غور کریں کہ کیا فی الواقع مسالک کے اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو ذلت و پستی دیکھنی پڑرہی ہے یا کچھ دوسرے اسباب ہیں؟
مسلک کیا ہے؟
مسلک سے مشہور مرادفقہا اربعہ کے مسالک ہیں۔ امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کی وہ آراء جو قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم اور احکام خداوندی کی تشریح میں منقول ہیں، انھی کو مسلک سے تعبیر کیاجاتاہے۔ چوں کہ ان کی آراء میں باہم اختلاف ہے اور ان کے متبعین میں بھی اختلاف رونما ہوتاہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ واحد کئی گروہوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ، اس وجہ سے یہ سمجھاجاتاہے، کہ اگر ان کے درمیان اختلافات نہ ہوتے تو امت متحد ہوتی اور اس کی قوت بنی رہتی۔ بنیادی طورپر یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ محض فقہی اختلاف رائے کی وجہ سے کسی کو خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ذلت وپستی لاحق نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو خود یہ ائمہ مجتہدین ذلت وپستی کے گڑھے میں پڑے ہوتے۔ جب کہ ہم ان کی خدمات کااعتراف کرتے ہیں اور ان کو درجہ اجتہاد پر فائز مانتے ہیں اور ان کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ انھوں نے دین کے احکام کی تعبیر وتفہیم میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
مسالک کی خصوصیات
مسالک اربعہ میں سے ہر مسلک کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں، جن کی وجہ سے ان کی ترویج واشاعت ہوئی اور ائمہ مجتہدین کے زمانے سے لے کر آج تک وہ مروج و معمول بہ ہیں اور ان کے متبعین تمام بلاد اسلامیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس طویل عرصے میں ان کے ماننے والوں کو بعض ممالک میں سیاسی اقتدار بھی حاصل ہوا۔
ائمہ کرام کی دینی خدمات
ائمہ عظام اور فقہاء کرام کی بہت سی خدمات ہیں مگر ان میں یہ خدمت سب سے نمایاں ہے کہ ان کی بدولت اظہار رائے کی آزادی کی روایت برقرار ہے اور اس خدمت میں سارے فقہاء مشترک ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؐ صحابہ کرام سے مشورے کرتے اور مختلف مسائل میں لوگوں کی آرا حاصل کرتے تھے اور صحابہؓ کرام پوری آزادی کے ساتھ بغیر کسی تردد و تحفظ کے اپنے مشورے اور آراء پیش کردیتے تھے۔ یہ چیز خلفاء راشدین تک باقی رہی۔ مگر ان کے بعد جب خلافت سے ملوکیت شروع ہوئی تو دوسری خرابیوں کے ساتھ ایک خرابی یہ بھی رونماہوئی کہ لوگ اظہار رائے میں آزاد نہ رہ سکے اور ان کی زبانوں پر تالے لگائے گئے۔ اظہاررائے کی آزادی کی برقراری سے متعلق حضرت حسینؓ کی شہادت نمایاں مثال ہے۔ مگر جب نواسہ رسول نے اس کی بھاری قیمت چکائی اور وہ شہید کردیئے گئے تو اب دوسروں کے اندر وہ عزیمت کہاں ہوسکتی تھی۔ دھیرے دھیرے لوگوں نے بادشاہان وقت سے مداہنت کا رویہ اختیارکرلیا اور اختلاف رائے کی روایت ختم ہوگئی۔ حتیٰ کہ لوگوں نے بالکلیہ زبان بندی کو اپناشعار بنالیا۔مگر فقہاء کرام اور ائمہ عظام نے کم ازکم فقہی دائرے میں اظہار رائے کی آزادی کی روایت کو برقرار رکھااور اس کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں اور سخت تکلیفیں جھیلیں۔ چنانچہ ائمہ کرام کی سوانح اور ان کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ کم و بیش تمام ائمہ کوآزمائشوں سے گزرناپڑا۔ ذیل میں اختصار کی غرض سے صرف دو اماموں امام مالک اور امام احمد بن حنبل کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
امام مالک کو ایک مسئلے میں سخت آزمائشوں میں مبتلاکیاگیا وہ مسئلہ تھا ‘‘طلاق مکروہ کے وقوع کا’’۔ یعنی اگر کسی شخص کو مجبور کرکے اس کی بیوی کو طلاق دلائی جائے تو وہ واقع ہوگی یا نہیں؟ اس کاجواب ہے کہ واقع نہیں ہوگی۔ کیوں کہ مجبور کرکے طلاق دلائی گئی ہے، جس طرح مجبور کرکے کسی سے کلمہ کفر کہلوانے سے وہ شخص کافر نہیں ہوجاتا، اسی طرح اس کابھی معاملہ ہے۔ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ مگر اس کی تہہ میں سیاست تھی۔ امام مالک سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھاگیاتو انھوں نے فتویٰ دیاکہ طلاق مکروہ واقع نہیں ہوتی۔ اس واقعہ کاپس منظر یہ ہے کہ حاکم وقت ابوجعفر منصور اپنے سابق بادشاہوں کی طرح اقتدار پرفائز ہوئے اور انھوں نے لوگوں سے بیعت لی مگر کچھ علماء اور دانش ور لوگوں نے بیعت نہیں کی۔ انھوں نے لوگوں کو بیعت کے لیے مجبور کرنے کے لیے ایک دینی حربہ استعمال کیا۔ وہ حربہ یہ تھا کہ بادشاہ وقت کی طرف سے فتویٰ صادر کیاگیاکہ جو بیعت نہیں کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔ جن لوگوں نے بیعت نہیں کی تھی، ان کو مجبورکیاجاتاتھاکہ وہ اپنی بیوی سے جدائی اختیارکرلیں۔جو ایسا نہیں کرتاتھا، اس پر زنا کا الزام لگایاجاتا تھااور سزا دی جاتی تھی۔ اس صورت حال سے مجبور ہوکر بہت سے لوگوں نے بیعت کرلی۔ لیکن امام موصوف نے فتویٰ دیاکہ اس طریقے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یہ بادشاہ وقت کے خلاف فتویٰ تھا۔ بنابریں ان کو گرفتارکیاگیا، کوڑے لگائے گئے اور ان سے کہاگیاکہ وہ اپنے فتوے کو واپس لے لیں۔ انھوں نے صبرو عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ جوں جوں ان پر کوڑے برسائے جاتے تو وہ اس بات کواور زور دے کر بیان کرتے تھے۔ بیان کیاجاتا ہے کہ ان کو سزا دینے کے لیے انوکھا طریقہ اختیارکیاگیا۔ ان کے سر کے بال منڈوا دیے گیے، گدھے پر الٹا بٹھایاگیا اور ان کے چہرے پر سیاہی پوت دی گئی اور اس حال میں ان کو سربازار گھمایاجاتاتھا،کوڑے لگائے جاتے تھے اور کہاجاتا کہ وہ اپنے فتوے کے برخلاف بات کہیں مگر وہ کہتے تھے‘‘جو مجھ کو جانتاہے وہ وہ جانتاہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے میں مالک بن انس ہوں۔ شریعت کامسئلہ ہے کہ طلاق مکروہ واقع نہیں ہوتی۔ امام مالک کی فقہی دائرے میں اظہار رائے کی آزادی کی برقراری کے سلسلے میں ایک زبردست قربانی ہے، جو تاریخ میں زریں الفاظ سے مرقوم ہے۔
دوسری مثال امام احمد بن حنبل کی ہے ، ان کو بھی خلق قرآن کے مسئلے میں سخت آزمائشوں میں مبتلاکیاگیا۔ یہ ایک کلامی بحث ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیرمخلوق؟ اگر قرآن مجید کو مخلوق ثابت کیاجائے تو اس کا لازمی نتیجہ نکلے گا کہ مخلوق فانی ہوتی ہے لہٰذا قرآن بھی فانی ہے۔ معتزلہ نے یہ مسئلہ اٹھایاتھا اور اس کامقصد قرآن مجید کی تعلیمات کو وقتی قرار دیناتھا۔ مگر اس مسئلے سے بادشاہ ِ وقت مامون، پھر المعتصم باللہ اور ان کے بعد واثق باللہ متاثر ہوگئے اور انھوں نے علماء کو مجبور کرنا شروع کیاکہ وہ بھی اس کے قائل ہوجائیں کہ قرآن مجید مخلوق ہے۔ یہ وقت کابہت بڑا فتنہ تھا اور بہت سے علماء کرام اس کے شکار ہوئے۔ کچھ علماء نے صبرو عزیمت کامظاہر ہ کیا مگر اکثر علماء حکمرانوں کی سختیوں کو نہ جھیل سکے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوگئے۔ جن علماء نے صبرو عزیمت کامظاہرہ کیا ان کے سرخیل امام احمد بن حنبل تھے۔ انھوں اس مسئلے کو دلائل کے ساتھ ثابت کیاکہ قرآن غیرمخلوق اور اللہ کا کلام ہے، جس طرح اللہ کی دیگر صفات اس کی ذات کی طرح باقی رہنے والی ہیں، اسی طرح صفت ‘کلام’ بھی باقی رہے گی۔ قرآن مجید کبھی فنا نہیں ہوگا۔ اس مسئلے میں بادشاہ وقت نے ان کو سزائیں دیں اور جیل میں ان کو ڈرایا، کوڑے لگائے اور ان کو مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنا موقف بدل لیں مگر انھوں نے صبرو عزیمت کامظاہرہ کیا اور مسئلے کو اس طریقے سے بیان کیا، جو صحیح تھا۔ خود ان کی زبانی یہ بات تاریخ میں منقول ہے کہ مجھ کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ اگر اتنے کوڑے کسی مضبوط ہاتھی کو مارے جاتے تو وہ بھی درد سے چیخ اٹھتا۔ مگر انھوں نے اس کے باوجود کلمہ حق کہا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ وقت کا یہ عظیم فتنہ ختم ہوگیا اور امت مسلمہ کو اس سے نجات ملی۔
فقہاء کرام کی فقہی امور میں اظہار رائے کی آزادی کی برقراری کے سلسلے میں ان کی عظیم قربانیوں کی صرف دو مثالیں تھیں۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ائمہ عظام کی زندگی میں بھی پیش آئے ہیں۔
مسالک میں اختلاف کے اثرات کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ائمہ مجتہدین کاجو زمانہ ہے، وہ مسلمانوں کا دور عروج بھی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ ان مسالک کی وجہ سے مسلمانوں کو پستی آئی تو تاریخی طورپر اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اس وقت جب ائمہ اجتہاد فرمارہے تھے اور امت کو الگ الگ مسائل بتارہے تھے اس وقت مسلمانوں کو عروج حاصل نہ ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل مسلمانوں کے عروج و زوال کا تعلق فقہی مسالک سے ہے ہی نہیں۔ بلکہ اس کا تعلق ان کے سیاسی ، سماجی اور نفسیاتی رویے سے ہے۔ ان باتوں سے ثابت ہوتاہے کہ امت مسلمہ کی پستی یا زوال کے اسباب دوسرے ہیں، جن کو انتہائی دیانت داری سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کو دور کرنے کی تدابیر سوچنی چاہیے۔
امت میں اختلافات و تنازعات کے اہم اسباب
جہاں تک امت میں لامتناہی اختلافات و تنازعات کاسوال ہے تو راقم السطور کی نظر میں اس کے اسباب مسلکی سے زیادہ حْبِّ جاہ اقتدار تحاسد، تباغض اور دوسرے مادی مفادات ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلک باہمی اختلافات اور تنازعوں کا سبب ہوتا تو ایک ہی مسلک کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات و تنازعات پیدا نہ ہوتے اور کم از کم ہم مسلک والے متحد ہوتے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کی نمایاں مثال دارالعلوم دیوبند اور مظاہرعلوم سہارن پور کی تقسیم ہے۔ یہ ادارے ایک ہی مسلک کے ماننے والے چلاتے تھے، مگر ان میں آپسی اختلافات ہوئے اور وہ تقسیم ہوگئے۔ ایسی مثالیں دوسرے مسالک کے ماننے والوں کے یہاں بھی مل جائیں گی۔ ان باتوں سے واضح ہوتاہے کہ اختلافات کاسبب مسلک نہیں، بلکہ مادی مفادات ، اقتدار اور باہمی تحاسد و تباغض ہے اور ان اسباب کے پیداہونے کے بھی اسباب ہوتے ہیں جو زمینی ہوتے ہیں، جب تک ان کو روکنے اور پیدا شدہ اسباب کو دور کرنے سے متعلق مسلمانوں میں بیداری پیدانہیں کی جائے گی، امت کی پستی وذلت دور نہیں ہوسکتی۔
اختلافات امت کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امت میں صرف مسلکی اختلافات نہیں پائے جاتے، بلکہ ذات برادری اور جغرافیہ و زبان کے اختلافات بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں اور انتشار ملت میں وہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں یا کم از کم اتحاد ملت کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ بنابریں صرف مسلکی اختلافات کو امت کی ذلت و پستی کا سبب قرار دینا ایک نامناسب بات ہے۔
مسلکی اختلافات کی خرابیاں
اب تک کی تفصیل سے یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہوگاکہ مسلکی اختلافات کے حوالے سے امت کی موجودہ حالت قابلِ اطمینان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں کئی باتیں تشویش کی ہیں اور وہ ملت کے افتراق و انتشار میں اضافے کاباعث بن رہی ہیں۔ مگر فی نفسہٰ مسلک کی حیثیت کو سمجھنا ضروری تھا۔ اس لیے فقہاے کرام اور ائمہ مجتہدین نے قرآن و سنت پر غور خوض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مطلوب و منشا کو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس پر وہ اجر کے مستحق ہیں۔ مگر کسی امام کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ حق اسی کے مسلک میں محصور ہے اور دوسرے ائمہ کا قول غلط ہے۔ لہٰذا میرے ہی مسلک کی ہر حال میں اتباع کو لازم سمجھو اور دوسرے مسلک کی مخالفت کرو۔ اس سلسلے میں ائمہ کرام کی وضاحتیں موجود ہیں کہ انھوں نے امت کو آگاہ کردیاہے، کہ جہاں حق ملے، اسے قبول کرلو۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک امام کی تقلید کو ہرحال میں واجب قرار دے لیا اور دوسرے مسلک کے قول کی مخالفت کو ضروری سمجھا۔ اس کی وجہ سے مسلکی عصبیت پیداہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی گئی۔ مسلمانوں میں مسلکی عصبیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس سے کئی اسلامی تعلیمات مجروح ہونے لگی ہیں۔ قرآن میں سارے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیاگیا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خیرخواہی، ہمدردی اور غم گساری ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے باہم دیگر حقوق ہیں، مگر مسلکی عصبیت نے لوگوں کو بتایاکہ یہ ساری تعلیمات اپنے ہم مسلک والوں کے تعلق سے ہیں اور دوسرے مسلک والوں سے ویسا ہی معاملہ کرنابجا ہے جیساغیرمسلموں اور ذمیوں کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ حالاں کہ اسلام نے غیرمسلموں اور ذمیوں کے بھی حقوق بتائے ہیں مگر مسلکی عصبیت اس سے بھی آگے بڑھ گئی اور اب دوسرے مسلک والے اس کے بھی مستحق نہ رہے کہ ان سے ذمیوں جیسے سلوک کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ سرپھٹول ہے اور اس کی وجہ سے لوگ مسلک کو انتشار ملت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
دوسری تشویش کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی احکام سے دوری، خدافرموشی اور آخرت کی تیاری سے غفلت عام طورپر پائی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر نمازوں سے غفلت، زکوٰۃ کی عدم ادائی اور دیگر احکام کی پامالی سارے مسالک کے ماننے والوں کے یہاں یکساں ہے۔ ہر مسلک کے پیروکار ان میں مبتلا ہیں۔ مگرمصلحین ملت کی سادہ لوحی یہ ہے کہ وہ امت کی ان خرابیوں کی اصلاح بھی مسلک کے راستے سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نتائج صفر ہیں۔ ترک صلاۃ ،نماز نہ پڑھنے کی اصلاح رفع الیدین اور آمین بالجہر کی تبلیغ سے نہیں ہوسکتی، زکوٰۃ کی ادائی سے غفلت کی اصلاح گشتوں اور دوروں سے ممکن نہیں ہے۔ ملت میں جہیز اور وراثت میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینے کامرض عام ہوتاجارہا ہے۔ اس کی اصلاح اپنے اپنے اماموں کاڈنکابجانے سے نہیں ہوگی، مسلمانوں میں عام اخلاقی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ خاص طور سے نوجوان نسل کی اخلاقیات مغرب زدہ اور اباحیت پسند ہورہی ہیں مگر ان کی اصلاح فقہی جزئیات پر منعقدہونے والے سمیناروں سے محال ہے۔
مسلمانوں کے لیے قابل توجہ امور
مسلمانوں کا اصل مسئلہ زبوں حالی اور پستی ہے۔ اس کے مختلف اسباب میں اختلاف وانتشار بھی ایک سبب ہے۔ مسلمانوں کے اندر جب تک اس کا شعور پیدانہیں ہوگا، اس کاازالہ نہیں ہوسکتا۔ یہ شعور ذلت وپستی کے بارے میں بھی ہوناچاہیے اور اختلاف وانتشار کے بارے میں بھی اور انفرادی بھی ہونا چاہیے اور اجتماعی بھی۔ کئی بار انفرادی طورپر علما اور و دانش وروں کی طرف سے اس کاحوالہ دیاجاتاہے مگر اکثریت امت لاشعوری اور غفلت میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت میں بیداری کہاں سے پیداہوگی۔ اس سے آگے کا سوال ہے کہ آخر یہ شعور کیسے پیداہوگا اور کیسے بیداری آئے؟ اس سلسلے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروپ یا ان کے ہر مسلک کے لوگ اجتماعی مشکل میں جس طرح دیگر معاملات میں طے کرنے کے لیے خصوصی مہمات چلاتے ہیں اور لوگوں کو ان سے واقف کراتے ہیں، ایسی مہمات اس مسئلے پر بھی چلائیں اور دوسری ضمنی اور جزوی چیزوں کو نظراندازکرکے اس کو ایک ملی و قومی مسئلہ بنائیں کہ مسلمان اپنے دین اور اس کے مطالبات کے تعلق سے بیدارہوجائیں اور مسالک کوان کی جگہ پر رکھیں اور اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پروجائیں یہ وقت کی آواز ہے اور اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
اسلام میں اجتماعیت کاواضح تصور موجود ہے اور اس پر کافی زور دیاگیا ہے۔ حتیٰ کہ سفر کی حالت میں بھی اجتماعیت کے اصولوں کو باقی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر تین لوگ سفر کررہے ہوں تو ان میں سے ایک امیر سفر بن جائے اور باقی دو اس کے مامور ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ آج امت میں اجتماعیت مفقود ہے۔ امارت کاادارہ ختم ہوچکاہے۔ پورا پورا شہر بے امیر کے ہے، حالاں کہ ہر محلے اور ہر آبادی کاایک امیر ہوناچاہیے تھا جو مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کرتا ، مگر فی الوقت مسلمانوں کی نفسیات یہ بن گئی ہے کہ وہ دوسرے کی قیادت و سیادت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
آج دنیا میں جو قومیں ترقی کررہی ہیں وہ علوم و فنون سے مالامال ہیں۔ حصول علم کے لیے جدوجہد بہت ضروری ہے۔ قرآن وحدیث میں حصول علم کی کافی تاکید کی گئی ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے یہاں تعلیم کی شرح کافی نیچے جارہی ہے۔ اسباب جو بھی ہوں مگر تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ان کو بڑے پیمانے پر تعلیم کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ وسائل و ذرائع کی قلت کے باوجود اگر عزم ہوتو کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔
تعلیم سے مراد صرف دنیوی وعصری تعلیم نہیں ہے۔ بل کہ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔ دیکھاجاتا ہے کہ متعدد مسلمان بچے عصری تعلیم میں آگے نکل گئے مگر دین کے تعلق سے پھسڈی رہے۔ دنیوی تعلیم اشیاء کی معرفت کانام ہے اور دینی تعلیم سے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو اپنے خالق ومالک اور خدا کی پہچان نہ ہوتو ساری ترقیاں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ معرفت رب سے بے گانہ ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ ممالک نفسیاتی اور معاشرتی طورپر سخت اضطراب کاشکار ہیں اور وہاں جرائم اور خودکشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔
مسلمانوں کے لیے ذلت و پستی سے نکلنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک نفسیاتی اور ذہنی ترقی بھی ہے۔ عزم و حوصلہ ترقی کی بنیادی کلید ہے۔ اسی طرح سخاوت و فیاضی اعلیٰ اخلاقی صفات ہیں۔ بزدلی اور کم حوصلگی سے تنزّل آتا ہے اور خودغرضی اور مفاد پرستی سے نفس کی وفات ظاہر ہوتی ہے۔ فی الوقت مسلمان انھی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قوت برداشت کی کمی بھی ہے۔ اس کا مظاہرہ مختلف سطحوں پر ہوتا ہے۔ انفرادی، گھریلو، خاندانی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں مسلمان قوتِ برداشت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑوں اور تنازعوں کاانبار ہے۔ ان چیزوں سے سب سے پہلے ذہنی سکون غارت ہوتا ہے پھر مال ووقت کاضیاع ہوتا ہے۔ اگر مقدمے بازی کی نوبت آجائے تو پھر جو حالت ہوتی ہے وہ قابل افسوس ہی کہی جاسکتی ہے۔ مگر مسلمان ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایسی باتوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں جو ان کی ترقی کی رفتار کو دھیمی کردے۔
٭٭٭