قدرتی ڈھال
جاوید چودھری
تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے اصلاح و ددعوت
بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی‘ اچانک بجلی چمکی‘ بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی۔ بس آگے بڑھتی رہی‘ آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی‘ بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی۔ بس آگے بڑھتی رہی‘ بجلی ایک بار پھر آ ئی‘ وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی۔ ڈرائیور سمجھ دار تھا‘ اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا ’’بھائیو‘ بس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے‘ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے‘‘ بس میں سراسیمگی پھیل گئی اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے‘ ڈرائیور نے مشورہ دیا‘سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے‘ ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی اور باقی لوگ بچ جائیں گے‘ یہ تجویز قابل عمل تھی‘ تمام مسافروں نے اتفاق کیا‘ ڈرائیور سب سے پہلے اترا اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی‘ وہ بس میں واپس چلا گیا۔ دوسرا مسافر اترا اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا‘ بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی۔ تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا یوں مسافر آتے رہے‘ درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے اور واپس جاتے رہے یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا۔ یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا‘ کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا‘ مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔لوگوں کا کہنا تھا ’’ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں‘ تم فوراً بس سے اتر جاؤ‘‘ وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی‘ وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے‘ مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا‘ پھر اسے پیار سے سمجھایا اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔وہ کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا‘ کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا لیکن لوگ باز نہ آئے‘ انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا۔ ڈرائیور نے بس چلا دی‘ بس جوں ہی ’’گناہ گار‘‘ سے چند میٹر آگے گئی‘ دھاڑ کی آواز آئی‘ بجلی بس پر گری اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے۔ وہ گناہگار مسافر دو گھنٹوں سے مسافروں کی جان بچا رہا تھا۔
مجھے کسی صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ ترکی کے راستے یونان جانا چاہتے تھے‘ ایجنٹ انھیں ترکی لے گیا۔ یہ ازمیر شہر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ برفباری کا انتظار کرنے لگے۔ سردیاں یورپ میں داخلے کا بہترین وقت ہوتا تھا‘ برف کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار مورچوں میں دبک جاتے تھے‘ بارڈر پرگشت رک جاتا تھا‘ ایجنٹ لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے تھے اور انھیں یونان کے کسی ساحل پر اتار دیتے تھے۔ یہ ایجنٹوں کی عام پریکٹس تھی۔
اس صاحب نے بتایا ’’ہم ترکی میں ایجنٹ کے ڈیرے پر پڑے تھے‘ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک گندہ سا لڑکا تھا‘ وہ نہاتا بھی نہیں تھا اور دانت بھی صاف نہیں کرتا تھا ‘ اس سے خوفناک بو آتی تھی۔ تمام لوگ اس سے پرہیز کرتے تھے‘ ہم لوگ دسمبر میں کشتی میں سوار ہوئے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس لڑکے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا‘ ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رونا شروع ہو گیا‘ ایجنٹ کے پاس وقت کم تھا چنانچہ اس نے اسے ٹھڈا مار کر کشتی میں پھینک دیا۔ کشتی جب یونان کی حدود میں داخل ہوئی تو کوسٹ گارڈ ایکٹو تھے۔یونان کو شاید ہماری کشتی کی مخبری ہو گئی تھی‘ ایجنٹ نے مختلف راستوں سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ہر راستے پر کوسٹ گارڈ تھے‘ اس دوران اس لڑکے کی طبیعت خراب ہو گئی‘ وہ الٹیاں کرنے لگاہم نے ایجنٹ سے احتجاج شروع کر دیا‘ ایجنٹ ٹینشن میں تھا‘ اسے غصہ آ گیا‘ اس نے دو لڑکوں کی مدد لی اور اسے اٹھا کر یخ پانی میں پھینک دیا۔ وہ بے چارہ ڈبکیاں کھانے لگا‘ ہم آگے نکل گئے‘ ہم ابھی آدھ کلو میٹر آگے گئے تھے کہ ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی‘ ایجنٹ نے کشتی موڑنے کی کوشش کی۔کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور وہ پانی میں الٹ گئی‘ ہم سب پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے‘ میں نے خود کو سردی‘ پانی اور خوف کے حوالے کر دیا‘ میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھا۔ مجھے عملے نے بتایا کہ کشتی میں سوار تمام لوگ مر چکے ہیں‘ صرف دو لوگ بچے ہیں‘ میں نے دوسرے شخص کے بارے میں پوچھا‘ ڈاکٹر نے میرے بیڈ کا پردہ ہٹا دیا‘ دوسرے بیڈ پر وہی لڑکا لیٹا تھا جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے سمندر میں پھینکا تھا۔ سمندر کی لہریں اسے دھکیل کر ساحل تک لے آئی تھیں۔
مجھے کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا جب کہ باقی لوگ گولیوں کا نشانہ بن گئے یا پھر سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے تھے ۔میں پندرہ دن اسپتال رہا۔ میں اس دوران یہ سوچتا رہا ’’میں کیوں بچ گیا‘‘ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا تھا۔ میں جب اسپتال سے ڈسچارج ہو رہا تھا‘مجھے اس وقت یاد آیا میں نے اس لڑکے کو لائف جیکٹ پہنائی تھی‘ ایجنٹ جب اسے پانی میں پھینکنے کے لیے آ رہا تھا تو میں نے فوراً باکس سے جیکٹ نکال کر اسے پہنا دی تھی۔ یہ وہ نیکی تھی جس نے مجھے بچا لیا۔ مجھے جوں ہی یہ نیکی یاد آئی ،مجھے چھ ماہ کا وہ سارا زمانہ یاد آ گیا‘ جو ہم نے اس لڑکے کے ساتھ گزارہ تھا۔ ہم نہ صرف ترکی میں اس کی وجہ سے بچتے رہے تھے بلکہ وہ جب تک ہماری کشتی میں موجود رہا ہم کوسٹ گارڈز سے بھی محفوظ رہے‘ یخ پانی سے بھی اور موت سے بھی ۔ہم نے جوں ہی اسے کشتی سے دھکا دیا موت نے ہم پر اٹیک کر دیا میں نے پولیس سے درخواست کی ’’میں اپنے ساتھی سے ملنا چاہتا ہوں‘‘ پولیس اہلکاروں نے بتایا ’’وہ پولیس وین میں تمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘ میں گاڑی میں سوار ہوا اور جاتے ہی اسے گلے سے لگا لیا۔
مجھے اس وقت اس کے جسم سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں آ رہی تھی‘ مجھے معلوم ہوا میرے ساتھیوں کو اس کے جسم سے اپنی موت کی بو آتی تھی۔ یہ ان لوگوں کی موت تھی جو انھیں اس سے الگ کرنا چاہتی تھی اور وہ جوں ہی الگ ہوئے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔
میرے ایک بزرگ دوست جوانی میں ارب پتی تھے لیکن ان کی زندگی کا آخری حصہ عسرت میں گزرا۔ مجھے انھوں نے ایک دن اپنی کہانی سنائی۔ انھوں نے بتایا ’’میرے والد مل میں کام کرتے تھے‘ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا‘ ان کا ایک کزن معذور تھا‘ کزن کے والدین فوت ہو گئے‘ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں رہا‘ میرے والد کو ترس آ گیا‘ وہ اسے اپنے گھر لے آئے۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے‘ گھر میں غربت تھی اور اوپر سے ایک معذور چچا سر پر آ گرا۔ والدہ کو وہ اچھے نہیں لگتے تھے‘ وہ سارا دن انھیں کوستی رہتی تھیں۔ہم بھی والدہ کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے تھے لیکن میرے والد کو ان سے محبت تھی۔ وہ انھیں ہاتھ سے کھانا بھی کھلاتے تھے‘ ان کا بول براز بھی صاف کرتے تھے اور انھیں کپڑے بھی پہناتے تھے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا‘ ہمارے حالات بدل گئے‘ ہمارے والد نے چھوٹی سی بھٹی لگائی‘ یہ بھٹی کارخانہ بنی اور وہ کارخانہ کارخانوں میں تبدیل ہو گیا‘ ہم ارب پتی ہو گئے۔ 1980ء کی دہائی میں ہمارے والد فوت ہو گئے‘ وہ چچا ترکے میں مجھے مل گئے‘ میں نے انھیں چند ماہ اپنے گھر رکھا لیکن میں جلدہی تنگ آ گیا۔میں نے انھیں پاگل خانے میں داخل کرا دیا۔ وہ پاگل خانے میں رہ کر انتقال کر گئے بس ان کے انتقال کی دیر تھی ہمارا پورا خاندان عرش سے فرش پر آ گیا‘ ہماری فیکٹریاں‘ ہمارے گھراور ہماری گاڑیاں ہر چیز نیلام ہو گئی۔ ہم روٹی کے نوالوں کو ترسنے لگے‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوا ہمارے معذور چچا ہمارے رزق کی ضمانت تھے۔ ہم ان کی وجہ سے محلوں میں زندگی گزار رہے تھے‘ وہ گئے تو ہماری ضمانت بھی ختم ہو گئی‘ ہمارے محل ہم سے رخصت ہو گئے‘ ہم سڑک پر آ گئے۔
یہ تینوں واقعات آپ کے لیے ہیں‘ہم نہیں جانتے ہم کن لوگوں کی وجہ سے زندہ ہیں‘ ہم کن کی وجہ سے کامیاب ہیں اور ہم کن کی بدولت محلوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے ہم کس کو بس سے اتاریں گے‘ ہم کس کو کشتی سے باہر پھینکیں گے اور ہم کس کے کھانے کی پلیٹ اٹھائیں گے اور وہ شخص ہمارا رزق‘ ہماری کامیابی اور ہماری زندگی ساتھ لے جائے گا۔ ہم ہرگزہرگز نہیں جانتے لہٰذا ہم جب تک اس شخص کو نہیں پہچان لیتے ہمیں اس وقت تک کسی کو بس‘ کشتی اور گھر سے نکالنے کا رسک نہیں لینا چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ سب اس شخص کا ہو
اور اگر وہ چلا گیا تو سب کچھ چلا جائے‘ ہم ہم نہ رہیں‘ مٹی کا ڈھیر بن جائیں۔**