چھوٹی مدد، بڑا اجر

مصنف : اعجاز احمد (ڈنگہ)

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جولائی 2012

ایک غریب پرور شخص کا ماجرا، ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر اللہ نے اسے منہ مانگے انعام سے نوازا

                 قیامِ پاکستان کے بعد ہندستانی فوجوں نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا تو کئی کشمیری خاندان ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ نعیم مرزا کا خاندان ہمارے شہر میں آبسا۔ یہ خاندان ۳، افراد، نعیم، اس کے ابو اور امی پرمشتمل تھا۔ نعیم شیرخوار بچہ تھا، والد تپ دق کے مریض تھے۔بمشکل تمام انھیں تھوڑی سی زرعی زمین الاٹ ہوئی تو سر چھپانے کو ایک ٹوٹا پھوٹا مکان مل گیا۔ نعیم کے والد بیماری اور کمزوری کی وجہ سے زمین خود کاشت نہیں کر سکتے تھے لہٰذا بٹائی پر دے دی۔ تھوڑی سی آمدن سے گھراور بیماری کا خرچہ اْٹھاتے۔نعیم نے غربت میں آنکھ کھولی اور بے چارگی کے عالم میں پڑھائی جاری رکھی۔ سرکاری اسکول میں اس کی فیس معاف ہوگئی۔بہرحال اس نے گرتے پڑتے میٹرک کرلیا۔میری ادویات کی دْکان تھی۔نعیم کے والدین اکثر دکان سے ادویات خریدنے آتے لہٰذا میری اْن سے واقفیت ہوگئی۔جب نعیم کے ابو کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی اور وہ نہ آ پاتے تو میں شام کو ان کے گھر جا کر ٹیکا لگا آتا۔ اْن کی سفید پوشی دیکھ کر مجھے اْن سے ہمدردی ہوگئی۔ فارغ وقت میں نعیم کبھی کبھی میری دکان پر آجاتا۔ وہ ایک شریف اور ذہین بچہ تھا۔ میں اس کے ابو کی طبیعت اور پڑھائی کے بارے میں پوچھتا اور اس کی ہمت بڑھاتا۔نعیم نے اوّل درجے میں میٹرک کرلیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ میں نے اسے مبارک باد دی۔ چند دن تو وہ خوش رہا پھر اسے ایک پریشانی نے آ گھیرا۔ وہ پڑھائی کے لیے کالج میں داخل ہونا چاہتا تھا مگر اْس کے پاس فیس کی رقم نہیں تھی۔اس نے مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ وہ نہ گھبرائے،جوکچھ مجھ سے ہوسکا،کروں گا۔ میں نے دوستوں سے قرض لے کر ادویات کی فروخت کا کام شروع کیا تھا۔ ابھی میری آمدن اتنی نہیں تھی کہ نعیم کی مدد کر سکتا۔ لیکن مجھے اس پر ترس آتا تھا اور میرے دل سے آواز اٹھتی کہ جیسے بھی ہو ،مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔میں اپنے شہر میں ایک مشہور اخبار کا اعزازی نامہ نگار تھا کیونکہ ادب اور صحافت سے دلچسپی تھی۔ میں اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ صحافت کا چسکا بھی پوراکرتا۔ ان دنوں صحافی محنتی اور دیانتدار ہوتے تھے اور معاشرے میں ان کی عزت ہوتی۔میں نے اپنی طرف سے ایک خط کالج کے پرنسپل کے نام لکھا جس میں نعیم کی غربت، والد کی بیماری کی تفصیل لکھی اور مدد کی درخواست کی۔ خط کام کر گیا۔ نعیم کے حالات اورعلمی شوق دیکھ کر پرنسپل بھی مہربان ہوگئے۔ فوری طور پر کالج اور ہوسٹل کی فیس معاف کر دی اورکھانا بھی مفت فراہم کرنے کاانتظام کروایا۔پھر میں نے بھی آمدورفت اور دیگر اخراجات کے لیے اسے ۵۰ روپے ماہانہ دینے کی ہامی بھر لی۔ سستا زمانہ تھا، اتنی رقم نعیم کے دیگر اخراجات کے لیے کافی تھی پھر زیادہ دینے کی مجھ میں سکت بھی نہ تھی۔نعیم نے محنت سے پڑھائی کی اوراعلیٰ نمبروں سے پاس ہوگیا۔ اْن دنوں حکومتِ آزاد کشمیر کے پاس ہنرمند افراد کی خاصی کمی تھی۔ نعیم نے نوکری کی درخواست دی جو فوری منظور ہوگئی اور وہ میرپور میں بحیثیت اوورسیر ملازم ہوگیا۔ وہ جب بھی آتا تو مجھے ضرور ملتا۔ اس نے مجھے رقم لوٹانے کی کوشش کی لیکن میں نے سختی سے منع کردیا۔نعیم کو میرپور میں سرکاری رہائش مل گئی تو وہ والدین کو بھی ساتھ لے گیا۔ ابتداً وہ کبھی کبھار اپنے رشتے داروں کو ملنے آتا لیکن پھر طویل مدت کے لیے غائب ہوگیا۔ کافی مدت بعد،اْس دن وہ اپنی ذاتی گاڑی پر آیا۔ اس نے بتایا کہ اب وہ ایس ڈی او بن گیا ہے۔ اس کی شادی ہوگئی ہے اور ۳ بچے ہیں۔ ابو فوت ہوچکے ہیں، امی آپ کے لیے دعائیں کرتی ہیں۔ اس کی ترقی اور خوشحالی دیکھ کر مجھے بڑی خوشی اور تسکین کا احساس ہوا۔

٭٭٭

                قاری لیاقت میرا ہمسایہ تھا۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی۔ مسجد میں قرآن پڑھتا تو ہر کوئی مسحور ہوجاتا۔ اس خوبی کی بنا پر اسے لیاقت کے بجائے قاری لیاقت پکارا جانے لگا حالانکہ اس نے قرآن حفظ کیا تھا نہ قرأت سیکھی تھی۔ والد چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ کثیر الاولاد تھے۔ بہت تھوڑی فروخت ہوتی، بمشکل گزر بسر ہو رہی تھی۔ لیاقت نویں جماعت کا طالب علم تھا۔اسے اخبار، رسالے پڑھنے کا شوق تھا۔ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میری دکان پر آ جاتا کیونکہ میرے پاس اخبارات رسالے وغیرہ آتے تھے۔اپنے مطالعے کی پیاس بجھاتا اور تھوڑا بہت میرا کام بھی کر دیتا۔ ایک دن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا ‘‘ ابا کہتے ہیں سکول چھوڑ دو، دکان پر بیٹھو۔ وہ میری پڑھائی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔’’میرا خیال تھا کہ پڑھائی کے اخراجات زیادہ سے زیادہ ۲۰ روپے ماہوار ہوں گے۔ لیکن اس کا والد اتنا تہی دست تھا کہ اتنی رقم کابھی بندوبست نہیں کرسکا۔ میں نے اْسے تسلی دی اور اْس کے والد سے بات کی تو اْن کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کہنے لگے ‘‘اعجاز صاحب کس کا جی نہیں چاہتا کہ اس کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں؟ لیکن میں مجبور ہوں۔ لیاقت کو دکان پر ساتھ بٹھاؤں گا، دونوں باپ بیٹا مل کر کام کریں تو گھر کے اخراجات پورے ہوں گے۔’’میں نے اسے پیشکش کی کہ پڑھائی کا خرچ میں برداشت کروں گا۔یہ سْن کر لیاقت کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا۔اس نے بھرپور محنت کی اور میٹرک میں اول درجہ حاصل کیا۔مجھ سمیت سب لوگ بہت خوش ہوئے۔اب لیاقت نے خواہش ظاہر کی کہ وہ کالج میں پڑھنا چاہتا ہے۔میں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر منظور کو لیاقت کے متعلق بتایا۔انہوں نے بھی لیاقت کی پڑھائی کے اخراجات ادا کرنے کی ہامی بھر لی۔یوں قاری لیاقت گریجوایشن کرنے میں کامیاب رہا۔ پھر وہ باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگا۔ اس نے جدید طریقے سے دکان چلائی، تووہ پہلے سے زیادہ چل نکلی۔قاری کے خاندان میں ایک امیر آدمی کی یتیم بھتیجی کنواری تھی۔ وہ اچھے رشتے کی تلاش میں تھا۔ اس خاندان میں کوئی پڑھالکھانہ تھا۔ قاری کی گریجوایشن بہت بڑا اعزاز تھا۔ آخر کارامیر آدمی نے لیاقت کے والد سے بھتیجی کے رشتے کی بات کی۔اْنہوں نے اپنی غربت اور لیاقت کی بیروزگاری کے باعث اِنکارکرناچاہا مگر وہ شخص نہ مانا۔اس نے شادی کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ لیاقت کے لیے ملازمت کابندوبست کرنے کی پیشکش بھی کردی، چنانچہ شادی ہوگئی۔اْس امیر آدمی نے اپنے اثرورسوخ سے لیاقت کو جلد کویت میں ملازمت دِلوا دی۔لیاقت نے خوب محنت کی، روپے کمائے، بچائے اور اپنے ابو کو بھیجے۔ اس کے والد نے دْکان وسیع کرلی اور مکان بنا لیا۔ پھرلیاقت نے یکے بعد دیگرے اپنے چھوٹے بھائی اور بھانجے کو بھی کویت ملازمت دلا دی۔ دونوں بھائیوں نے خوب کمائی کی اور یوں یہ خاندان خوشحال ہوگیا۔میں بہت خوش ہوں کہ میری معمولی سی مدد نے نہ صرف قاری لیاقت بلکہ سارے خاندان کو غربت سے نکال کرترقی کی طرف مائل کردیا۔

٭٭٭

                ایک دن استاد مختار کے حمام پر ڈاکٹر خالد ہادی سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب بھی میری طرح استاد مختار کے مستقل گاہک اور ہفتے میں ایک بار وہاں کا چکر ضرور لگاتے ہیں۔ انہوں نے میری بیٹی کی پڑھائی کے بارے استفسارکیاجس نے ایف ایس سی کا امتحان دے رکھا تھا۔ میں نے اْنہیں بتایا ‘‘ بچی میرٹ پر تو آگئی ہے لیکن اسے لاہور یا راولپنڈی داخلہ ملنا مشکل ہے، شاید فیصل آباد داخلہ مل جائے۔ میں نے سوچا ہے کہ اگر راولپنڈی داخلہ نہیں ملتا تو سیلف فنانس سکیم کے تحت اسے لاہور یا پنڈی میں داخلہ دِلوا دْوں۔’’ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ مکان بنانے کے لیے ایک قطعہ زمین خرید رکھا ہے، وہ فروخت کرکے فیس اداکردوں گا۔ انھوں نے مجھے منع کردیا اورکہا کہ بچی کو اوپن میرٹ پر داخلہ دلواؤ اورپلاٹ کی فروخت سے جورقم ملے،اس سے کسی مستحق طالب علم کی مدد کرو۔ انہوں نے مزید کہا کہ تونسہ کے ایک غریب ریڑھی والے کے بیٹے کو بہاولپور میڈیکل کالج میں داخلہ ملا ہے۔ لیکن اس کے والدین بہت غریب ہیں اور بیٹے کی پڑھائی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ دوستوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ میں نے فوراً ایک ہزار روپے ماہانہ دینے کی ہامی بھر لی۔میری بیٹی کو اوپن میرٹ پر راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ اپنے وعدے کے مطابق غریب طالب علم کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ دے رہا ہوں۔ جب یہ بچہ ڈاکٹربن جائے گاتو میری ذمے داری پوری ہو جائے گی۔

٭٭٭

                خالہ زہرہ ایک غریب بیوہ عورت ہے۔ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے گھر کا خرچ چلاتی ہے۔ اس کی بیٹی بڑی محنتی،نیک اور ایف اے میں پڑھتی ہے۔ جب خالہ زہرہ بیمار یا مصروف ہو تو ان کی جگہ گھروں میں کام کرتی ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت و مشقت کی عادی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن خالہ کے پاس وسائل نہیں۔ایک دن خالہ نے مجھ سے ذکر کیا۔میں نے خالہ سے کہا ‘‘ میں بچی کی پڑھائی کے اخراجات کے لیے ۵۰ روپے ماہانہ اوربی اے کے داخلے کے لیے ۲ہزار روپے دوں گا۔’’ یہ سن کرخالہ خوش ہوگئی۔ اس کی بیٹی شکریہ ادا کرنے آئی۔ میں نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور اْسے مشورہ دیا کہ وہ بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ کرے اور پھر ٹھاٹھ سے استانی لگ جائے۔ میرا مشورہ اسے پسند آگیا۔ وہ پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگی ہے۔ اْستانی بننا اس کا ہدف ہے۔ اِن شاء اللہ وہ یہ ہدف ضرور حاصل کر لے گی۔

٭٭٭

                میرے ۵ بچے ڈاکٹر ہیں۔ میرا داماد اور میری ۲ بہوئیں بھی ڈاکٹر ہیں۔ میں خود ایک معمولی دواساز ہوں اور ۸ ڈاکٹروں کے گھرانے کا سربراہ ہوں۔ میں اپنے رب کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھ پر بہت زیادہ احسانات کیے۔ میرے عزیز، دوست، ملنے والے مجھے اکثر کہتے ہیں کہ اللہ نے مجھے بہت زیادہ انعامات سے نوازا ہے۔ نیک اور ذہین اولاد دی۔ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا اور کہتا ہوں کہ بے شک اللہ نے مجھے سب کچھ دیا۔لیکن میرا اپنا خیال کچھ اور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اولاد اور وافر رِزق حلال اللہ کا انعام ہے۔بلند سماجی حیثیت بھی لیکن سب سے بڑا انعام وہ شعور ہے جو اللہ نے مجھے بخشا۔اس کے زیراثر میں نے غریب طالب علموں کی مدد کی اورضرورت مندوں کاسہارا بن گیا۔جس کے صدقے میں اللہ میرا سہارا بن گیا۔

٭٭٭

                کوئی خاص سہولیات حاصل نہیں ہوتیں۔ اکثریتی مزدور لیبر کیمپوں میں مقیم ہیں جہاں ان کو رات کے وقت ائر کنڈیشن کی سہولت تو میسر ہے لیکن دس سے پندرہ افراد ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ کئی مزدور ورکشاپس کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمروں میں مقیم ہیں جہاں انہیں مشترکہ بیت الخلا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

                بہرحال یہاں آنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اچھی طرح چھان بین کر کے آئے تا کہ یہاں اس کا استحصال نہ ہوویسے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے مگر جب تک حکومت یہ کام نہیں کرتی لوگوں کو خود اس کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ اکثر ریکروٹنگ ایجنٹ دھوکا کرنے سے نہیں کتراتے ۔

٭٭٭