متحدہ عرب امارت کے شہر دبئی سے جب کوئی پاکستانی مزدور ملک واپس آتا ہے تو وہ سفید کپڑے پہن کر اور پرفیوم لگا کر باہر نکلتا ہے ۔ سب اس کے ظاہری حلیے کو دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ خلیجی ممالک میں لوگ زیادہ پیسے کما رہے ہیں اور خوشحال بھی ہیں لیکن شاید انہیں حقیقت معلوم نہیں کہ وہاں مزدور شدید گرمی میں تھوڑے سے پیسوں کی خاطر جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارت میں کام کرنے والے اکثریتی پاکستانیوں کا تعلق مزدور طبقے سے ہے۔ یہ مزدور سخت گرمی میں دن کے وقت ورکشاپس، دوکانوں، زیر تعمیر عمارات اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دن کے وقت وہاں اتنی سخت گرمی پڑتی ہے کہ باہر کام کرنے والے مزدوروں کے پسینے سے شرابور کپڑوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ ابھی ابھی کسی چشمے میں کپڑوں سمیت نہا کر نکلے ہوں۔ سخت محنت مزدوری کی وجہ سے ان محنت کشوں کے چہرے بھی پہچاننے کے قابل نہیں ہوتے۔شارجہ میں گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کرنے والے ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان محمد راشد نے بتایا کہ انہیں پہلی مرتبہ جب دبئی کا ویزا ملا تو وہ بہت زیادہ خوش تھے کہ بڑی بڑی عمارتیں اور عیش و عشرت کی زندگی ہوگی لیکن یہاں آکر وہ پھنس گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘اکثر لوگ دبئی آکر دھوکہ کھا جاتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں بڑی آرام اور عیش کی زندگی ہوگی لیکن جب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو تب جاکرانہیں حقیقت معلوم ہوتی ہے لیکن اس وقت تک وہ دھوکہ کھا چکے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اب ویزے کے پیسے بھی واپس کرنے ہوتے ہیں اور بیوی بچوں کے لیے کچھ کمانا بھی ہوتا ہے۔’
ان کے مطابق یہاں مزدوروں کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی کٹھن ہے۔ ‘ان کو کام بھی زیادہ اور سخت کرنا پڑتا ہے لیکن پیسے اتنے نہیں ملتے جتنا ان سے کام لیا جاتا ہے، بس اسی امید پر زندگی گزار رہے ہیں کہ کسی اچھی جگہ نوکری لگ جائے ورنہ موجودہ نوکری سے تو کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔’ انہوں نے کہا کہ ‘یہاں اپنوں کی بہت یاد آتی ہے۔’قلعہ عبد اللہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور محمد یعقوب نے بتایا کہ دبئی آنے سے قبل انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اتنی مشکل زندگی ہوگی ورنہ وہ اس ملک کا نام ہی نہیں لیتے۔محمد یعقوب سے جب پوچھاگیا کہ پردیس میں آکر ان کو بیوی بچے یاد آتے ہیں تو یہ بات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور درد بھرے لہجے میں کہا کہ‘رات کو جب میں چاند دیکھتا ہوں تو خوب روتا ہوں اور یہی کہتا ہوں اس وقت پاکستان میں میرے بیوی بچوں اور ماں کو بھی یہ چاند نظر آرہا ہوگا۔’ محمد راشد نے بتایاکہ پاکستان میں ان کا اپنا آٹو رکشہ تھا جس سے ان کا گزر بسر ہوتا تھا لیکن اب تو وہ بھی نہ رہا کیونکہ یہاں آتے ہوئے انہوں نے ویزہ خریدنے کے لیے رکشہ بیچ دیا تھا۔
پاکستان سے آنے والے اکثر مزدور باقاعدہ معاہدہ یا کسی ایگریمنٹ کے تحت نہیں آتے جسکی وجہ سے وہ اکثر اوقات دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف کمپنیاں ان مزدوروں کو سات سو سے ہزار درہم ماہانہ (بیس سے پچیس ہزار روپے) ماہوار تنخواہ پر بھرتی کرلیتے ہیں لیکن چونکہ کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوتا اسی وجہ سے متحدہ عرب امارت پہنچ کر ان کو وہ تنخواہ نہیں ملتی جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے جبکہ کام بھی ان سے زیادہ لیا جاتا ہے۔عجمان میں ایک پاکستانی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ذوالفقار خان نے بتایا کہ انڈیا سے جب کوئی مزدور خلیجی ممالک میں آتا ہے تو وہ ایک باقاعدہ لیبر کنٹریکٹ کے تحت آتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی کمپنی دھوکہ نہیں کرسکتی لیکن پاکستانیوں کا کوئی کنٹریکٹ لیٹر نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ امارت میں زیادہ تر پاکستانی مزدور کم اجرت پر کام کرتے ہیں جس سے ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور ان میں کچھ لوگ جرائم کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ان کے بقول حکومت پاکستان کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور یہاں کام کرنے والے بے چارے مزدوروں پر رحم کرنا چاہیے جو انتہائی مشکل حالات میں پردیس میں کام کر رہے ہیں۔یہ مزدور جب سارا دن سخت گرمی میں تھک کر اپنے اپنے ‘ڈیروں’ پر آرام کے لیے پہنچتے ہیں تو وہاں بھی ان کو رہائش کی کوئی خاص سہولیات حاصل نہیں ہوتیں۔ اکثریتی مزدور لیبر کیمپوں میں مقیم ہیں جہاں ان کو رات کے وقت ائر کنڈیشن کی سہولت تو میسر ہے لیکن دس سے پندرہ افراد ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ کئی مزدور ورکشاپس کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمروں میں مقیم ہیں جہاں انہیں مشترکہ بیت الخلا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
بہرحال یہاں آنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اچھی طرح چھان بین کر کے آئے تا کہ یہاں اس کا استحصال نہ ہوویسے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے مگر جب تک حکومت یہ کام نہیں کرتی لوگوں کو خود اس کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ اکثر ریکروٹنگ ایجنٹ دھوکا کرنے سے نہیں کتراتے ۔