میرا پرانا نام سروج شالنی ہے۔ میں ۲۴ ستمبر ۱۹۷۸ء کو لکھنؤ کے پاس موہن لالج گنج میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی۔ میرے والد ڈاکٹر کے اے شرما پروفیسر تھے اور کارڈیالوجی میں ڈی ایم کیا تھا۔ اس کے بعد کافی زمانے تک وہ پنت ہاسپٹل میں رہے۔ دس سال سے لکھنؤ میں گھر کے قریب کوشش کر کے ٹرانسفر کرا لیا۔ میری ماتا (والدہ) گھریلو خاتون ہیں۔ میرے والد مزاج کے لحاظ سے بالکل ہندوستانی ہیں۔ وہ صرف مشرقی تہذیب سے اتفاق رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے گھر والوں پر دباؤ بنا کر بہت سی ڈاکٹروں کو چھوڑ کر میری والدہ کو پسند کیا اور شادی کی۔ میرے دو بھائی ہیں، ایک بنارس ہندوستانی یونیورسٹی میں ریڈر ہیں اور دوسرے بی ایچ ایل میں انجینئر ہیں۔ دونوں مجھ سے بڑے ہیں۔ میں نے انٹر سائنس بایولوجی میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور پھر PMT مقابلے میں پاس کیا۔ لکھنؤ میڈیکل کالج سے ایم. بی. بی. ایس کیا اور مولانا آزاد میڈیکل دہلی سے ایم ڈی کیا۔
اپنے والد کی خواہش پر کارڈیالوجی (امراض قلب) کو منتخب کیا۔ اب میں AIMS میں D.M بھی کر رہی ہوں۔ اور آج کل AIMS میں ہی ڈپارٹمنٹ آف کارڈیالوجی میں ملازمت بھی کرتی ہوں۔ میں نے ۲۰ مئی ۲۰۰۴ء کو برہسپتوار (جمعرات) صبح گیارہ بجے گرین پارک کی مسجد میں مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
میں جون ۲۰۰۳ء میں ICCU بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تھی۔ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب ہریانہ کے ایک بچے کو دیکھنے آئے۔بچے کے پاس صرف ایک Attendent (تیمار دار) کے رہنے یا کھڑے ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔ بچے کے والد باہر چلے گئے۔ مولوی صاحب نے بچے پر پڑھ کر پھونکا۔ پورے وارڈ میں آٹھ بیڈ تھے۔ صرف ایک مریض مسلمان تھا۔ بچے کو پھونکت دیکھ کر برابر والے مریض کی ماں نے بھی مولوی صاحب سے اپنے بچے کو پھونکنے کے لیے کہا۔ بچے کی ماں ہریانہ والے بچے کے پاس کھڑی ہو گئی۔ مولوی صاحب نے دوسرے بچے پر بھی دم کیا۔ اس کودیکھ کر برابر والی ماں نے بھی اپنے بچے کو پھونکنے کے لیے کہا۔ ایک بعد ایک تما م بچوں کے پاس مولوی صاحب آ کر کھڑے ہوئے اور پھونکتے رہے۔ ڈاکٹر تیاگی، جو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، ان کے راؤنڈ کا ٹائم تھا۔ میں سامنے سے دیکھ کر وارڈ میں آئی اور مولوی صاحب سے پوچھا: آپ کا مریض کون سا ہے؟ آپ کبھی اس مریض کے پاس، کبھی اس مریض کے پاس آ رہے ہیں اور پھونک رہے ہیں۔ یہ ICCU ہے۔ یہاں پر انفیکشن (Infection ) کا خطرہ رہتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا: یہ سارے مریض میرے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لیے یہاں پر ایڈمٹ ہر مریض سے میرا خونی رشتہ ہے۔ جس مالک نے آپ کو اور ہمیں پیدا کیا ہے، اس کو یہ تیرا میرا بالکل پسند نہیں اور جو چیز ہم پڑھ کر پھونک رہے ہیں، وہ اسی مالک کا کلام ہے، جس نے اپنے کلام میں یہ بات کہی ہے۔ اپنے سچے سندیش واہک (رسول) ابراہیم کی زبان سے یہ بات کہلوائی اور ابراہیم وہ ہیں، جن کا نام پر بھارت کے لوگ اپنے برہمن کو (براہیمی) کہلاتے ہیں کہ ‘‘جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مالک شفا دیتا ہے، یعنی ٹھیک کر دیتا ہے۔’’ (الشعراء ۲۶: ۸۰) آپ روز دیکھتی ہوں گی کہ آپ اپنی سوچ سے اچھی اچھی دوا مریض کو دیتی ہیں اور مریض ٹھیک ہونے کے باوجود مر جاتا ہے اور علاج میں غلطی ہوتی ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ایسی بات میں نے پہلی بار سنی تھی۔ پچھلے ہفتے ہمارے وارڈ کے چھ بچے ایکسپائر ہو گئے (مر گئے) تھے۔ ان میں سے چار بچے تو بہت سندر (خوبصورت) تھے او ردو ہفتے تک وارڈ میں رہنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے بہت تعلق ہو گیا تھا۔ ان کی موت سے دل پر بہت صدمہ تھا۔ مولوی صاحب کی محبت بھری باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کی کچھ اور باتیں سننی چاہییں۔ میں نے مولوی صاحب سے اپنے کیبن میں آنے کو کہا۔ مولوی صاحب نے میری درخواست قبول کی۔ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا: آپ میری چھوٹی بہن یا میری اولاد کی طرح ہیں اور محبت سے مجھے بلا کر لائی ہیں تومیری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے وارڈ میں آنے والے مریض کو اپنا بچہ، اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درد او رتکلیف کو اسی طرح لیں۔ مالک نے آپ کو کیسا اچھا موقع دیا کہ آپ کو پریشان حال لوگوں کے درد میں شریک کیا۔ آپ کو خوب اندازہ ہو گا کہ جس ماں کا بچہ ہو اور وہ اتنا بیمار ہو کہ ICCU میں ایڈمٹ ہو اور سرکاری اسپتال میں ایسے مریض بھی آتے ہیں، جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ ان کے ساتھ ذرا سی ہمدردی آپ کریں تو ان کے روئیں روئیں ، بلکہ انتر آتما (روح) سے آپ کے لیے دعائیں نکلیں گی۔ آخر میں مولوی صاحب نے بڑے درد سے میرا نام پوچھا اور بولے : ڈاکٹر شالنی! آپ میری خونی رشتے کی بہن ہیں، اس لیے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں، بلکہ وصیت کرتا ہوں اور وصیت اس کو کہتے ہیں جو کوئی مرنے والا اپنے بچے سے مرنے کے وقت اپنی آخری بات کے طور پر کہتا ہے کہ آپ وارڈ میں آنے والوں کا علاج سب سے بڑی پوجا سمجھ کر کریں۔آپ کوسینکڑوں سال کی تپسیا او رکٹھن پوجا (مشکل عبادت) میں مالک کے یہاں وہ جگہ نہیں ملے گی، جو کسی پریشان حال مریض اور اس کے مصیبت زدہ ماتا پتا (والدین) کو تسلی دینے میں ملے گی۔
میں نے مولوی صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں کوشش کروں گی۔ مولوی صاحب چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے راؤنڈ کے بعد میں نے پانی پت ہریانہ کے اس بچے کے باپ سے معلوم کیا کہ یہ مولوی صاحب کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ ہمارے حضرت جی ہیں۔ یہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر ہزاروں ہندو مسلمان ہو گئے ۔ کافی دنوں تک مجھے مولوی صاحب کی باتوں کا دل پر اثر رہا۔ خاص طور پر یہ بات کہ یہ سارے مریض میرے ہیں۔ جس مالک نے ہمیں پیدا کیا، اس کو یہ تیرا میرا پسند نہیں۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مولوی صاحب کے پھونکنے سے مریضوں کی حالت میں عجیب فرق آیا ہے اور سارے مریض ٹھیک ہو کر وارڈ سے گئے، لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد ذہن سے بات نکلتی گئی۔ مولانا آزاد میڈیکل کالج، دہلی میں میری ایک روم پارٹنر ڈاکٹر رینا سہگل تھی۔ وہ گائنی میں ایم ایس کر رہی تھی اور بعد میں وہ صفدر جنگ اسپتال میں گائنی ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئی۔ ہم لوگوں میں خاصی دوستی ہے۔ ایک دن اس نے مجھے کھانے پر بلایا۔ کھانے کے بعد باتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے یہاں مسلمان کام کرنے والی آتی تھی۔ وہی کھانا وغیرہ بناتی تھی۔ میں نے اس سے کہا: تم نے مسلمان کھانا بنانے والی کیوں رکھ رکھی ہے؟ تمھیں کوئی ہندو نہیں ملی! وہ کہنے لگی: یہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔ بہت ایمان دار ہے۔ کئی بار میرا پرس گر گیا، جوں کا توں مجھے لا کر دیا۔ باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ ڈاکٹر رینا کہنے لگیں: جیسے جیسے ہمارے دیش (ملک) بلکہ پورے سنسار (دنیا) میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں باتیں آ رہی ہیں، لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ مائیکل جیکسن کے بارے میں تمھیں معلوم ہو گا، وہ بھی مسلمان ہو گیا ۔ ہمارے ہاسپٹل میں کارڈیالوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹر بلبیر نام کے ہیں، وہ بھی دو ایک سال پہلے مسلمان ہو گئے اور وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ اسپتال کے سارے لوگ مسلمان ہو جائیں۔ ایک مریض کے سلسلے میں ان کو چیک اپ کے لیے بلایا، بس مجھ سے کہنے لگے: اگر مرنے کے بعد نرک (جہنم) سے بچنا ہے تو مسلمان ہو جاؤ۔ مجھے یہ سن کر اپنے وارڈ میں آئے مولوی صاحب یاد آ گئے اور ان کی ساری باتیں تازہ ہو گئیں۔ میں نے ڈاکٹر رینا سے کہا: آپ مجھے ڈاکٹر بلبیر سے ضرور ملائیں۔ اس نے اگلے روز فون کرنے کو کہا او ربتایا کہ اتوار کو ڈاکٹر بلبیر کو میں نے کمرے میں بلایا ہے، آپ دس بجے میرے کمرے میں آ جائیں۔
اتوار کے روز میں ڈاکٹر سہگل کے کمرے میں گئی۔ ڈاکٹر بلبیر بھی آ گئے۔ سانولے رنگ کے بہت ہی سجن (شریف) نوجوان، جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہوں۔ میں نے ان سے معلوم کیا : آپ نے کتنے دن پہلے اسلام قبول کیا؟ انھوں نے بتایا : آٹھ نو سال پہلے۔ میں نے وجہ معلوم کی تو انھوں نے کہا: صرف اور صرف اسلام ہی سچا اور سب سے پہلا اور سب سے انتم دھرم (آخری دین) ہے اور اسلام کے بغیر مرنے کے بعد کی زندگی میں توموکش (معافی) ہے نہ مکتی (نجات) او رہمیشہ ہمیشہ کی نرک (جہنم) ہے اور اسلام قبول کرنا آپ کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا میرے لیے۔ میں نے معلوم کیا: آپ نے نام بھی بدل لیا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ ہاں میرا اسلامی نام ولی اللہ ہے، جس کا ارتھ (معنی) ہے اللہ کا یعنی ایشور کا دوست۔ میں نے ان سے کہا کہ ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ایک مولوی صاحب آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کچھ باتیں کی تھیں۔ وہ آج تک میرے دل کو لگی ہوئی ہیں۔ وہ وارڈ کے ہر مریض کو پھونک رہے تھے۔ میرے معلوم کرنے پر کہ آپ کا مریض کون سا ہے؟ انھوں نے کہا کہ سارے مریض میرے ہیں، ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد، خونی رشتے کے بھائی ہیں۔ یہ ‘تیرا میرا’ پیدا کرنے والے مالک کو پسند نہیں۔ ڈاکٹر بلبیر کہنے لگے : مولوی صاحب نے یہ باتیں بالکل سچی کہی تھیں۔ یہ باتیں تو اسلام کے اور ہم سب کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے بھاشن (خطبے) میں کہی تھیں۔ میں نے کہا وہ بھاشن (خطبہ) چھپا ہوا ملتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر بول پوری طرح سورکشت (محفوظ) ہے اور چھپا ہوا ملتا ہے۔ میں کسی سے لے کر ڈاکٹر رینا کے ہاتھ آپ کو بھجوا دوں گا۔
دو چار روز کے بعد ڈاکٹر رینا سہگل نے مجھے وہ پمفلٹ جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری حج کا خطبہ انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ تھا، لا کر دیا۔ اس کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی، خاص طور پر عورتوں کے بارے میں بار بار ان کی پرچار (تذکرہ) میرے دل کو اور لگ گئی۔ مجھے مولوی صاحب کی یاد آئی اور خیال ہوا: کیا اچھا ہوتا کہ میں مولوی صاحب کا پتا لے لیتی۔ میں نے ہاسپٹل میں پرانے مریضوں کی فائلیں تلاش کیں کہ پانی پت کے مریض کا پتا مل جائے تو میں خود مریض کے گھر جا کر مولوی صاحب کا پتا معلوم کروں، مگر مجھے پتا نہیں مل سکا۔ مجھے اسلام کو پڑھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہو گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے ملنے کے لیے وقت طے کیا۔ صفدر جنگ ہاسپٹل جا کر ان کے وارڈ میں ان سے ملی اوران سے اسلام کوجاننے کے لیے لٹریچر دینے کو کہا۔ دوسرے روز وہ میرے ہاسپٹل آئے اور مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ‘‘آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں’’ ہندی میں دی اور انھوں نے کہا کہ اسلام کی ضرورت اور اس کے بارے میں جاننے کے لیے یہ چھوٹی سی کتاب سو کتابوں کی ایک کتاب ہے۔ بس یہ کتاب آپ کو یہ سوچ کر پڑھنی ہے کہ ایک سچا ہمدرد صرف مجھ سے یہ بات کہہ رہا ہے۔ آپ کتاب پڑھیں گی تو آپ کو خود ایسا ہی لگے گا۔ میں نے اس کتاب کے لیکھک (مصنف) کے ہاتھ ہی پر اسلام قبول کیا۔ کتاب کے دو شبد (لفظ) کتاب کی جان ہیں۔ ان کو پڑھ کر آپ کتاب اور کتاب لکھنے والے کو جان جائیں گی۔ ڈاکٹر بلبیر نے مجھے بتایا کہ وہ دہلی کے پاس یوپی کے ایک شہر کے راج پوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب دے کر اور کچھ دیر چائے وغیرہ پی کر وہ چلے گئے۔ میں نے وارڈ میں بیٹھ کر وہ کتاب بس ایک بار میں پڑھ ڈالی۔ کتاب پڑھ کر مجھے مولوی صاحب کی بہت یاد آئی۔ کتاب نے میرے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ میں نے کتاب کو پڑھ کر ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کتاب کے لیکھک (مصنف) کی اور کوئی کتاب مجھے دیجیے گا اور اگر ان سے مجھے آپ ملا سکیں تو آپ کا مجھ پر بڑا آبھار (احسان) ہو گا۔
چار روز بعد ۱۸ مئی کی تاریخ تھی۔ ڈاکٹر بلبیر کا میرے پاس فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ اگر آپ چھٹی لے سکتی ہوں تو ‘‘آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں’’ کے لیکھک (مصنف) مولوی کلیم صدیقی صاحب سے گرین پارک کی مسجد میں ملاقات ہو جائے گی۔ میں فوراً تیار ہو گئی۔ ہم آٹو سے گرین پارک کی مسجد پہنچے۔ مولوی صاحب گیارہ بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان کو آگے سفر کرنا تھا۔ مولوی صاحب کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بھول نہیں سکتی۔ جب میں نے دیکھا کہ ‘‘آپ کی امانت’’ کے لیکھک (مصنف) مولوی محمد کلیم وہی مولوی صاحب ہیں، جو ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ہریانہ کے بچے کو دیکھنے آئے تھے او رجن کو میں اس قدر تلاش کر رہی تھی۔ محبت اور عقیدت سے میں مولوی صاحب کے قدموں میں گر گئی۔ مولوی صاحب نے بہت سختی سے منع کیا او رمجھ سے کہا: ‘‘اب کیا دیر ہے، ‘‘آپ کی امانت’’ پڑھنے کے بعد بھی آپ کو کوئی شک رہ گیا ہے؟’’ میں حالانکہ مولوی صاحب سے ملنے آئی تھی، مگر میں اپنے آپ کو روک نہیں سکی اور میں نے مولوی صاحب سے کہا: میں مسلمان ہونے آئی ہوں۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے فوراً کلمہ پڑھایا اور میرا اسلام نام سروج شالنی کی جگہ صفیہ شالنی (ایس شالنی) رکھا۔ مولوی صاحب نے مجھے کتابیں لکھ کر دیں اور نماز یاد کرنے اور پڑھنے کی تاکید کی۔
مولوی صاحب نے مجھے اسلام کا اعلان کرنے سے سختی کے ساتھ منع کر دیا، مگر پھر بھی میں نے اپنے خاص خاص لوگوں سے ذکر کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے بہت جوش سا بھی آتا ہے کہ اسلام جب حق ہے تو اسے چھپانا اور گھٹ گھٹ کر جینا کیسا؟مگر مجھے خیال آ جاتا ہے کہ جب ایسے آدمی کو جس کی وجہ سے بالکل تصور کے خلاف اسلام کی روشنی ایک گندی کوملی، رہبر مان لیا تو اب اس کہنا ماننا ہی اچھا ہے۔
میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں اپنی دوست ڈاکٹر رینا سہگل کو نہ صرف بتایا، بلکہ میں او رڈاکٹر ولی اللہ دونوں اس پر لگے رہے اور الحمد للہ ا س نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے، مگر وہ شادی شدہ ہے۔ ان کے شوہر ڈاکٹر بی کے سہگل اپنا کلینک کرتے ہیں۔ بڑے سخت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں او رادھر چند سالوں سے وہ رادھا سوامی ست سنگ سے جڑ گئے ہیں، اس لیے ان کی وجہ سے وہ دبی ہوئی ہیں۔
اصل میں ڈاکٹر ولی اللہ خود دل کے بیمار ہو گئے۔ ان کو دل کی ایک ایسی بیماری ہو گئی، جس سے رفتہ رفتہ دل کمزور ہو جاتا ہے اور پھر اس میں پیس میکر لگانا پڑتا ہے۔ وہ اپنے علاج کے سلسلے میں مجھ سے زیادہ رابطے میں رہے۔ میں نے ان کے علاج میں بہت دلچسپی لی۔ ان کی شادی ایک سرکاری ملازمت لگی لڑکی سے ہوئی۔ انھوں نے اس کو شادی سے پہلے بتا دیا تھا اور شرط بھی طے کر لی تھی کہ پہلے مسلمان ہو کر نکاح کرنا ہو گا، پھر خاندانی رواج کے مطابق شادی ہو گی۔ انھوں نے اسے کلمہ پڑھوا کر نکاح بھی کیا، مگر بعدمیں وہ اسلام کی طرف زیادہ دلچسپی نہ رکھ سکیں، ان کی ملازمت بھی اس میں حائل رہی۔ اسلام سے ان کی بیوی کی دلچسپی نہ ہونا ان کو گھن کی طرح کھاتا رہا اور وہ دل کے بیمار ہو گئے۔ ایلوپیتھک علاج کار گر نہ ہوا تو مولوی صاحب نے ان کو یونانی دوا اور کچھ خمیرے وغیرہ بتائے۔ اللہ کا کرم کہ وہ دو ماہ میں تقریباً بالکل ٹھیک ہو گئے۔ مولوی صاحب نے ان کومشورہ دیا کہ وہ عرب ملک چلے جائیں اور اپنی بیوی کو وہیں بلا لیں، ان کوماحول مل جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے ان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور اب گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی وہیں بلا لیا ۔
ان کے جانے سے ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا، مگر میں اکیلی رہ گئی۔ ڈاکٹر رینا جس کا نام فاطمہ رکھا گیا تھا، ان کے شوہر پر ڈاکٹر ولی اللہ کام کر رہے تھے، اب اس میں کمی آئی ہے، میں ذرا کھل کر ان سے بات نہیں کر سکتی۔
میں نے اپنے والد کو صاف صاف بتا دیا ہے۔ انھوں نے خوش دلی سے تو قبول نہیں کیا، مگر اب رفتہ رفتہ ان کی ناگواری کم ہوتی جا رہی ہے۔ میرے والد میری شادی کے سلسلے میں چھ سات سال سے فکر مند ہیں۔ بہت اچھے اچھے رشتے خود ان کے شاگردوں کے آئے، مگر شاید میرے اللہ کو کچھ اور منظور تھا، اس لیے میں اپنے آپ کو تیار نہ کر سکی اور DM کرنے کا بہانہ کر کے منع کر دیا۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی بار اپنے اسلام کے اعلان کی اجازت مانگی ، مگر انھوں نے ابھی خاموشی سے گھر والوں پر کام کرنے کو کہا۔ جب میں نے اپنی نماز، روزے کی تکلیف کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے ڈاکٹر ولی اللہ کے جانے کے بعد مجھے بھی کسی عرب ملک میں ملازمت کے بہانے جانے کو کہا اور ڈاکٹر ولی اللہ صاحب سے بھی انھوں نے فون پر کسی جگہ کے لیے بات کی۔ الحمد للہ، جدہ میں کنگ عبد العزیز اسپتال میں میرا تقرر ہو گیا ہے۔ اور مجھے دو سال کے لیے چھٹی مل گئی ہے، تین ماہ سے تیاری کے سلسلے میں چھٹی پر ہوں۔
بی جی آئی چندی گڑھ کے ایک سرجن ڈاکٹر اسعد فریدی، جو اپنے ہسپتال کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر تھے، ان سے رشتے کے سلسلے میں مولوی صاحب نے ایک بار مجھ سے معلوم کیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کوشش کروں۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، مگر ایک طرف تو آپ اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتے، دوسری طرف نکاح کے لیے مجھ سے معلوم کر رہے ہیں! یہ فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے! انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ راضی ہوں تو میں یہ مسئلہ حل کر تا ہوں۔ میں نے منظوری دے دی۔ انھوں نے ڈاکٹر اسعد اور ان کے والد والدہ سے مجھے ملایا۔ دونوں طرف لوگ بہت مطمئن او رخوش ہوئے۔ انھوں نے چند لوگوں کو بلا کر میرا نکاح کر دیا۔ اللہ کا کرنا ڈاکٹر اسعد کی پوسٹنگ بھی جدہ کنگ عبد العزیز اسپتال میں ہو گئی۔ انھوں نے بھی اپلائی کر رکھا تھا۔ وہ جدہ ۶ ستمبر کو چلے بھی گئے۔ میرا ویزہ وغیرہ آنے والا ہے۔ اللہ کرے کہ جلدی آ جائے۔ میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سال ہی حج کرا دیں۔
میرے اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی ہر بات مجھے اندر سے پسند ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلام میرے اندر کا فطری مذہب ہے۔ جب میں نے سنا کہ میرے شوہر ڈاکٹر اسعد پی جی آئی کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر ہیں، تو میرا دل چاہا کہ میں اسلام کا اعلان کر کے برقع اوڑھ لوں او رآل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں اکیلی برقع والی ڈاکٹر بنوں، مگر مولوی صاحب نے میرے اس جذبے کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ابھی دو چار سال کے لیے سعودی عرب جانے کو کہا۔ میرا خیال ہے اور مجھے اس خیال سے بھی مزہ آتا ہے کہ پورے اسپتال میں اکیلی برقع والی نو مسلم ڈاکٹر کی موجودگی یقینا پورے اسپتال کے لوگوں کو اسلام کو جاننے کی طرف ضرور راغب کرے گی۔
میرا نکاح تو اچانک ہی ہو گیا، مگر مولوی صاحب نے میرے والد والدہ کو جب لڑکا دکھایا اور ایک پیسہ یا انگوٹھی جہیز کے بغیر یہ شادی ہو گئی اور سماج کے جھگڑے سے بچنے کے لیے یہ کریں گے کہ پہلے ڈاکٹر اسعد سعودی عرب جائیں گے اور بعد ڈاکٹر شالنی جائیں گی۔ کسی کو پتا بھی نہ چلے گا اور بعد میں یہ خیال ہو گا کہ سعودی عرب جا کر یہ شادی ہوئی ہو گی، اس طرح برادری اور عزیزوں کو زیادہ برا نہیں لگے گا۔ وہ راضی ہو گئے خصوصاً ڈاکٹر اسعد کودیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بار بار مجھ سے میرے والد کہتے کہ شالنی! تیری قسمت ہے، چاند سا دولہا تجھے مل گیا! واقعی وہ مجھ سے بہت خوبصورت ہیں۔ وہ ڈاکٹر اسعد دو دہلی ایئر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور بہت پیار بھی کیا۔
بلاشبہ میرے اللہ کا بہت کرم ہے۔ میں جب بھی خیال کرتی ہوں، اپنے اللہ کے حضور سجدے میں دیر تک پڑ جاتی ہوں۔ واقعی میں اس لائق کہاں تھی۔ کفر و شرک کے اندھیرے میں مجھے اسلام نصیب ہوا۔ یہ اس گندی پر میرے مالک کا کرم ہے۔
میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی یافتہ دنیا کو صرف اور صرف اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کے بغیر یہ دنیا بالکل کنگال ہے۔ یہ میں کوئی شاعری نہیں کر رہی ہوں، بلکہ اس ترقی یافتہ دنیا کو بہت قریب سے دیکھ کر یہ بات کہہ رہی ہوں۔ اس کنگال دنیا کو صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ ورنہ یہ دنیا دیوالیہ ہو چکی ہے۔ اس کے دیوالیہ پن اور اندھیرے کا علاج صرف اور صرف اسلام ہے۔ یہ دولت صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے، پھر اس کنگال دنیا سے ہم مرعوب کیوں ہیں؟ مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے، جب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اس دیوالیہ اور اندھیری دنیا میں اپنے دیوالیہ پن کا علاج اور سب سے بڑی دولت رکھنے کے باوجود ہم احساس کمتری میں مبتلا کیوں ہیں؟ ہمیں اس پر شاکر ہونا چاہیے، بلکہ فخر ہونا چاہیے اور اس دیوالیہ دنیا پر ترس کھانا چاہیے۔ ہمیں اس معنی میں اپنے کو سخی اور دنیا کو حقیر سمجھنا چاہیے۔
٭٭٭