برسوں سے میاں سیف الحق کا معمول تھا کہ ‘‘الصلوٰۃ خیر من النوم’’ کی آواز پر جاگتے اور نیلا رومال کندھے پر رکھ کر مسجد کی راہ لیتے اور ابھی صبح کی کلی پوری طرح چٹک نہ پاتی کہ صندل کی تسبیح پر استغفار کا ورد کرتے ہوئے گھر واپس آتے۔ تازہ اخبار کی آمد تک قرآن شریف کے چند رکوع، دعائے گنج العرش اور قصیدہ بردہ پڑھ لیتے۔ اخبار والا اخبار کو گول کر کے اسے کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے اندر پھینک دیتا اور کہتا:‘‘السلام علیکم میاں جی’’۔ سینے کو چھو کے میاں سیف الحق ‘‘آگئے میاں؟’’ پہلے کہتے اور ‘‘وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ’’ بعد میں۔ پھر وہ اخبار اُٹھا لیتے اور دن شروع ہوجاتا۔
میاں سیف الحق جب نوکری سے الگ ہوئے تھے تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ تینوں بیٹے بڑے بڑے دفتروں میں بڑے بڑے کلرک تھے۔ چوتھا تار کے محکمے میں کلرکی کا اُمیدوار تھا جب فسادات ہوئے تو وہ بازار سے گزرتے ہوئے مار ڈالا گیا۔ تینوں بیٹیاں لاہور کے مختلف محلوں میں اپنے اپنے گھر اور گودیں آباد کیے بیٹھی تھیں۔ میاں سیف الحق کی زندگی بالکل ہموار لُک پھری چمکتی ہوئی سڑک تھی جو حدِ نظر تک خط مستقیم میں جاتی تھی اور اس کے دونوں طرف قدآور درخت سایہ کیے کھڑے تھے۔ وہ اس سڑک پر کچھ ایسی بے تکلفی اور روانی سے چل رہے تھے جیسے انسان کھانا کھاتے وقت چاہے بات جلیانوالہ باغ کی کر رہا ہومگر نوالہ سیدھا منہ کو جائے البتہ کبھی کبھی اس سڑک پر ایک فصیل سی اُبھر آتی اور وہ ٹھٹک کر خلا میں گھورتے رہ جاتے جہاں انھیں اپنے حامد کی کٹی پھٹی لاش سڑک کے عین وسط میں پڑی ہوئی دکھائی دے جاتی اور وہ سوچتے ۔ ‘‘تو کیا میرا بیٹا قیامت تک اسی طرح پڑا رہے گا؟’’ یہ خیال آتے ہی وہ استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب کا ورد کرنے لگتے۔ صندل کی تسبیح کے منکے ان کی پوروں سے رگڑ کر بھینی بھینی خوشبو چھوڑتے۔ فصیل گر جاتی اور میاں سیف الحق آگے بڑھ جاتے۔
آج بھی وہ صبح کی نماز کے بعد گھر واپس جا رہے تھے اور اپنی خوشبودار تسبیح پر استغفار پڑھ رہے تھے۔ صبح ابھی پوری طرح نہیں چمکی تھی۔ فضا نیلی ہو رہی تھی۔ اِکا دکا پرندے یوں اُڑے جا رہے تھے جیسے نیند سے بوجھل ہو رہے ہوں اور ابھی گر پڑیں گے۔ شریف چرسی کی سگرٹ پان کی دکان سے وہ ہمیشہ کترا کر نکلتے تھے۔ ایک بار صبح صبح، نورپیر کی گھڑیوں میں، چرس کے دھوئیں کے ایک بھبھکے نے انھیں کچھ ایسا چکرادیا تھا کہ دن بھر حلق تک جیسے چرس سے ٹھنسے پھرتے رہے۔ آج بھی وہ دکان سے بچ کر نکلے گئے مگر چند قدم آگے جاکر رُک گئے۔ پلٹ کر دیکھا اور سوچ کر جیب ٹٹولنے لگے۔
سڑک پر ایک شخص سر سے پیر تک ایک چادر اوڑھے سیدھا سیدھا لیٹا ہوا تھا اور دوسرا اس کے پاس بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ میاں سیف الحق کی زندگی میں یہ پہلا اتفاق تھا کہ سورج اُبھرنے سے پہلے ہی انھیں پٹڑی پر بھکاری بیٹھا نظر آیا ہو۔ وہ دن میں چند آنے کی خیرات ضرور تقسیم کرتے تھے لیکن ان کی ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ سورج نکلنے سے پہلے بھی انھیں کوئی بھکاری ملتا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب خدا اور انسان کے درمیان فرشتوں کی فوجیں حائل نہیں ہوتی تھیں۔
انھوں نے جیب سے ایک چونی نکالی اور دُور ہی سے بھکاری کی طرف پھینک دی۔ انھوں نے کتے کے سامنے ہڈی پھینکنے کے انداز میں خیرات آج تک نہیں دی تھی لیکن شریف چرسی کی دکان قریب تھی اور اگرچہ وہ بند تھی مگر میاں سیف الحق کو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا کواڑوں کی جھریوں میں سے چرس کا دھواں باہر اُمڈا پڑ رہا ہے۔
میاں سیف الحق کی چونی لیٹے ہوئے شخص کے پیٹ پر گری اور بیٹھا ہوا شخص کچھ یوں تڑپ کر اُٹھ کھڑا ہوا جیسے اب تک سو رہا تھا۔ میاں جی بھکاری کی اس بدحواسی کو سولہ پیسوں کی خطیر رقم کے جلال و جبروت پر محمول کر کے خود آسودگی سے مسکرائے اور تسبیح کے منکے گراتے اور خوشبو اُڑاتے ہوئے اپنی راہ جانے لگے۔
اچانک انھیں اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز آئی۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ بھکاری ان کے بالکل پاس آگیا اور پھر اس نے میاں سیف الحق کی چونی میاں سیف الحق کے تسبیح والے ہاتھ میں دے دی۔میاں جی نے دیکھا کہ بھکاری کا چہرہ بالکل کیچڑ ہو رہا تھا۔ مٹیالے رنگ پر پھیلے ہوئے آنسو کیچڑ ہی کی تو کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ وہ کچھ ایسا مسلا اور نچڑا ہوا لگ رہا تھا جیسے رس نکالنے والے شکنجے میں سے کچلا ہوا گنا لٹک رہا ہو۔ میاں جی کو اس پر ترس آگیا اور وہ اپنی جیب کو ٹٹولتے ہوئے بولے: ‘‘چونی کم تھی کیا؟’’بھکاری کی لپٹی ہوئی اور بندھی ہوئی آواز میں کچھ ایسی کیفیت تھی جیسے اس نے اپنے سر پر گرتی ہوئی چھت کو دونوں ہاتھوں سے بمشکل روک رکھا ہے۔ وہ بولا: ‘‘میں بھکاری تو نہیں ہوں جی۔ پر چونی بہت کم تھی۔ مجھے تو پندرہ بیس روپے اور چند آدمی بھی چاہئیں’’۔میاں سیف الحق کا ہاتھ جیب سے نکل رہا تھا مگر اچانک یوں رُک گیا جیسے سن ہوکر رہ گیا ہے۔ بھکاری نے بہت سی ہوا کو پانی کے ایک بڑے سے گھونٹے کی طرح نگل کر بولنے کی کوشش کی اور آنسو اس کے چہرے پر پھیلتے چلے گئے۔ ‘‘اگر کفن ایک آنے میں مل جاتا تو میں آپ کو تین آنے واپس کردیتا، پر آج تو جی کپڑا بڑا مہنگا ہو رہا ہے۔ میں ایک چونی لے کر کیا کروں گا’’۔
میاں جی اسی طرح سن کھڑے رہے۔
‘‘یہ میری بیوی کی میت ہے’’۔ وہ بولا۔ ‘‘وہ مرگئی ہے’’۔‘‘انا للہ وانا الیہ راجعون’’۔ میاں سیف الحق نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا اور پھر اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں کس کر دبا لیا۔ ان کے نتھنے زور زور سے پھڑکے اور آن کی ان میں ان کی ڈاڑھی کے بالوں نے ان کے بہت سے آنسو پرو لیے اور وہ کچھ یوں فق سے ہوگئے جیسے انھیں بھی رس نکالنے والے شکنجے میں سے گزرنا پڑتا ہے۔
اخبار بیچنے والوں کا ایک انبوہ سڑک پر سے چیختا چلّاتا ہوا گزر گیا۔ شریف چرسی کی دکان کے بند دروازے میں سے شریف کی بجتی ہوئی کھانسی کی آواز کے ساتھ چرس کی بو سے لدا ہوا دھواں بھی آج سچ مچ باہر آنے لگا۔ بازاری کتوں کا ایک غول کدکڑے لگاتا ایک گلی سے نکل کر دوسری گلی میں گھس گیا۔ درختوں پر چڑیوں کے انبوہ اُتر آئے اور صبح کی کلی کا سینہ چاک ہونے لگا۔
میاں سیف الحق لاش سے کچھ فاصلے پر جاکر رُک گئے۔ ان کا نچلا ہونٹ اسی طرح دانتوں میں دبا ہوا تھا۔ ان کے چہرے پر غیرقدرتی سی سرخی آگئی تھی اور ڈاڑھی کے بالوں میں اٹکے ہوئے آنسو نئے آنسوؤں کے لیے جگہ خالی کرتے ہوئے ان کے سینے پر ٹپک رہے تھے۔ ‘‘تو کیا اپنی بیوی کی لاش کو دفنانے کے لیے تمھارے پاس کفن بھی نہیں؟’’ وہ ایک عجیب اجنبی سی آواز میں بولے: ‘‘تو کیا میرے مولا کی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے’’۔ ذرا سا رُک کر بے حد گھٹی اور پسی ہوئی آواز میں بولے: ‘‘تو کیا میرے حامد کی لاش بھی___’’ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے اور انھیں یہ تک خیال نہ آیا کہ انھوں نے شریف چرسی کی دکان کے تختے کا سہارا لے لیا ہے اور ہوا میں چرس کی بو بس رہی ہے۔
اچانک انھوں نے کندھے پر سے رومال اُٹھا کر اپنے چہرے کو یوں ماتھے سے گردن تک پونچھ ڈالا جیسے وضو کرکے اُٹھے ہیں۔ پھر وہ لاش کے پاس آگئے اور گلا صاف کر کے بولے: ‘‘تمھارا یہاں کوئی بھی نہیں؟’’
‘‘جی نہیں’’۔ وہ بولا۔ وہ لاش کے پاس اسی طرح بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے جیسے آنسو رُک گئے تو وہ مر جائے گا۔‘‘تو پھر یہاں آئے کیوں؟’’ میاں جی نے پوچھا۔
وہ کچھ یوں بولنے لگا جیسے سر پر سے ایک بہت بھاری گٹھڑی اُتار رہا ہے اور جیسے میاں سیف الحق اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ‘‘جب کلی کوتکلیف شروع ہوئی ہے___’’ وہ رُک گیا۔ ایک لمحے کے بعد بولا۔ ‘‘میری بیوی کا نام کلی ہے’’۔ وہ پھر رُک گیا اور اس کی آنکھوں سے بہت سے آنسو اکٹھے بہہ گئے۔ ‘‘کلی تھا’’۔ اس نے اپنی تصحیح کی۔ ‘‘اس وقت اس نے کہا تھا: دیکھ غفورے، میر ی آنکھوں کے سامنے یہ جو تر مرے سے ناچ رہے ہیں تو ماں کہتی تھی یہ حضرت عزرائیل کے آنے کی نشانی ہے’’۔
‘‘پھر سنیں گے’’۔ میاں سیف الحق ایک بار پھر رومال سے چہرہ پونچھتے ہوئے ایک بیل گاڑی کی طرف بڑھے۔ ‘‘ارے ریڑھے والے بھائی’’۔ انھوں نے پکارا۔ ‘‘سنو تو،ذرا سا کام کر دو گے؟’’ریڑھے والے نے بیل روک لیے۔ میاں سیف الحق نے اسے بتایا کہ یہیں ایک فرلانگ کے فاصلے پر ‘‘ایک بی بی کی لاش لے جانی ہے’’۔ریڑھے والے جیسے حواس باختہ ہوکر ریڑھے سے کود پڑا۔‘‘کیا لو گے؟’’ میاں سیف الحق نے پوچھا۔ریڑھے والے نے حیرت اور ملامت کے ملے جلے جذبات سے میاں سیف الحق کی طرف دیکھا۔ ‘‘جنازہ اُٹھانے کے بھی کسی نے کبھی دام لیے ہیں بھولے بادشاہ’’۔ وہ بولا۔ ‘‘پر بی بی سڑک پر کیسے مرگئی’’۔
‘‘میرے مولا کی دنیا میں ایسا بھی ہوجاتا ہے’’۔ میاں سیف الحق بولے: ‘‘خدا تمھارا بھلا کرے۔ ریڑھا ادھر لے آؤ’’۔
میاں سیف الحق واپس لاش کی طرف گئے تو غفورا حیرت اور ادب کے جذبات سے اُٹھ کھڑا ہوا اور میاں جی جیسے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بولے: ‘‘لاش میرے گھر جائے گی’’۔‘‘آپ!’’ غفورا ہکلا کر رہ گیا۔
‘‘یہ میری بیٹی ہے’’۔ وہ بولے۔ ‘‘اس کا کفن دفن میرے ذمہ ہے میرے حامد کے جنازے کو بھی تو کسی نے اپنے ذمہ لیا ہوگا’’۔ ‘‘جی!’’ غفورا حیران رہ گیا۔
مگر جب تک ریڑھا آگیا تھا۔ لاش کو اُٹھانے سے پہلے میاں سیف الحق نے غفورے سے پوچھا: ‘‘اجازت ہے؟’’اور غفورا زور زور سے روتا ہوا میاں جی کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ سڑک پر جاتے ہوئے اِکا دکا لوگ ٹھٹک گئے اور ان کی طرف آنے لگے۔ شریف چرسی کی دکان کا دروازہ چیختا چلّاتا ہوا کھلا اور وہ اندر سے بولا: ‘‘کیا ہوگیا بھئی لوگو؟’’
بلند آواز سے ‘‘اشھد ان لا الٰہ الا اللہ پڑھتے ہوئے میاں سیف الحق اور غفور نے لاش اُٹھائی تو چوڑیاں بج اُٹھیں اور غفورا یوں ٹوٹ کر رو دیا کہ اگر میاں سیف الحق لاش کو سنبھال نہ لیتے تو وہ سڑک پر گر پڑتی۔ حواس باختہ لوگ مدد دینے کے لیے بڑھے مگر میاں جی نے سب کو روک دیا۔ ‘‘بی بی ہے’’۔ وہ بولے۔ ‘‘بی بی ہے!’’ کسی نے حیرت سے کہا: ‘‘اور بی بی سڑک پر مرگئی!’’‘‘پولیس کو بلانا چاہیے’’۔دوسرا بولا۔‘‘تم اس کے چچا لگتے ہو؟’’ پہلے نے پوچھا۔
اور پھر میاں سیف الحق کی آواز آئی۔ ‘‘لے چل بھئی، سیدھا لے چل، کلمۂ شہادت پڑھتا جا’’۔ اور وہ خود زور زور سے کلمۂ شہادت پڑھنے لگے۔
ریڑھے نے ذرا سی حرکت کی تو اچانک غفورے نے چیخ کر ریڑھے والے کو روکا۔
‘‘روکنا بھائی، ٹھہرنا ذرا! کلی کا سر ہل رہا ہے’’۔ میاں سیف الحق نے کندھے کا رومال کلی کے سر کے ایک طرف رکھا۔ غفورے نے اپنی پگڑی دوسری طرف رکھ دی اور ریڑھا چلا۔تینوں زیرلب کلمہ پڑھتے رہے اور ریڑھے کے پہیے جیسے ہچکیاں لیتے اور روتے رہے اور جب ریڑھا میاں جی کے مکان کے سامنے رکا تو ایک دم سارا محلہ جمع ہو گیا اور میاں سیف الحق کسی کو کچھ بتائے بغیر اندر لپک گئے۔
ذرا سی دیر کے بعد میاں سیف الحق کے گھر میں کہرام سا مچ گیا اور آس پاس کے گھروں سے عورتیں کھڑکیوں سے آدھی آدھی لٹک کر میاں جی کے گھر کی طرف دیکھنے لگیں۔ میاں جی کی بیوی اور نوکرانی کے رونے کی آوازیں گلی میں کھڑے ہوئے لوگوں تک پہنچنے لگیں اور میاں جی اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک پلنگ لے کر باہر آئے۔ انھوں نے محلے کے ایک بزرگ کو الگ لے جاکر اسے ساری بات مختصر لفظوں میں سمجھائی اور پھر یہ بات سارے مجمعے میں نشر ہوئی۔ سارے محلے میں پھیل گئی۔ آس پاس کے محلوں میں بھی اس کا ذکر ہونے لگا اور لوگ میاں جی کی گلی میں جوق در جوق جمع ہونے لگے۔
غفورے اور میاں سیف الحق نے کلی کی لاش کو پلنگ پر رکھا مگر غفورے نے اب کے کلی کی چوڑیاں نہیں بجنے دیں۔ پہلے چُوڑیاں بجی تھیں تو غفورے کوایسا لگا تھا جیسے کلی کی لاش پر سے چادر اُتر گئی ہے۔ میاں جی نے غفورے سے کہا: ‘‘یہ میرے بیٹے ہیں انھیں مرحومہ بی بی کے بھائی سمجھ لو’’۔
اس کا گلا بھر آیا تھا اس لیے صرف ‘‘جی’’ کہہ کر رہ گیااور ہجوم سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے وہیں گلی میں بیٹھ کر سر گھٹنوں میں چھپا لیا اور لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے جیسے انھیں کوئی عجوبہ ہاتھ آگیا ہے۔
میاں سیف الحق اور ان کے بیٹے کلی کی لاش کو اندر لے گئے اور جب پلنگ کو صحن میں اُتارا تو اس وقت پڑوس کے گھروں سے بہت سی عورتیں چھتیں پھاند کر میاں جی کے ہاں پہنچ چکی تھیں۔ رونے کا اتنا بڑا شور بلند ہوا کہ معلوم ہوتا تھا سارا لاہور ماتم کر رہا ہے۔
میاں جی کا ایک لڑکا قبرستان کی طرف چلا۔ دوسرا غسالن کو بلانے نکل گیا۔ تیسرے کو میاں سیف الحق نے عطرخس اور مشک کافور خریدنے کے سلسلے میں ہدایات دیں اور پھر کہا: ‘‘کفن بہترین لٹھے کا ہو۔ مہنگا ہو تو ہوا کرے۔ یوں سمجھو کہ تم حامد کے لیے کفن لا رہے ہو’’۔
پھر انھوں نے محلے کے ہمدرد بزرگوں کو بیٹھک میں بٹھایا۔ نوجوان گلی میں ٹولیاں بنائے کھڑے رہے اور میاں جی غفورے کو ساتھ لے کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں میز پر دھرے ہوئے رحل میں قرآن شریف، دعائے گنج العرش اور قصیدہ بردہ رکھے تھے اور ٹوٹے ہوئے شیشے والی کھڑکی کے نیچے تازہ اخبار پڑا تھا۔اور وہاں غفورے نے اپنے سر پر سے بھاری گٹھڑی اُتار دی اور اسے کھول کر اپناایک ایک دُکھ میاں سیف الحق کے سامنے رکھ دیا۔ ‘‘کلی اُمید سے تھی’’۔ اس نے بولنا شروع کیا۔ مگر گلا بھر آیا اور رُک گیا۔ پھر بولا: ‘‘معاف کرنا میاں جی، رونا مردوں کا کام نہیں پر کلی تو میرا سارا غرور لے گئی’’۔
میاں سیف الحق کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں جیسے غفورے کی تائید کر رہے ہوں۔
اب غفورے نے مسلسل بولنا شروع کر دیا۔ اس کی آواز کبھی گھٹ جاتی۔کبھی بھرا جاتی کبھی آنسوؤں میں گھل کر بہہ جاتی مگر وہ بولتا چلا گیا اور میاں سیف الحق بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتے چلے گئے۔
‘‘کلی اُمید سے تھی’’۔ اس نے کہا۔ ‘‘وہ کہتی تھی دیکھ غفورے یہ جو میری آنکھوں کے سامنے تر مرے ناچنے لگے ہیں تو یہ تو دوسری دنیا کی نشانیاں ہیں۔ پچھلے دس دن اسے اتنی تکلیف ہوئی کہ اگر اس کی عمر سولہ سترہ کی نہ ہوتی۔ میری طرح پینتیس چالیس کی ہوتی تو وہ اسی تکلیف میں مرگئی ہوتی۔ میں چونیاں میں ڈاک خانے کے ایک بابو کا نوکر ہوں۔ وہاں ایک سیانی سے بات کی۔ وہ بولی: کلی کا پیٹ کٹے گا۔ نہیں کٹے گا تو بچہ مر جائے گا اور بچہ پیٹ میں مر گیا تو یہ بھی مرجائے گی۔
کلی بولی: دیکھ غفورے، میرا پیٹ کٹوا دے، میں مرنا نہیں چاہتی۔ میں نے تو تم سے ابھی بہت تھوڑا سا پیار کیا ہے۔ ایسا کہا تھا اس نے۔ میں نے سیانی سے کہا: کاٹ دو۔ وہ بولی: لاہور لے جاؤ ، پیٹ لاہور میں اچھا کٹے گا۔ میں اسے بچے کی طرح اُٹھا کر لاری میں بیٹھا اور یہاں آگیا۔ یہاں مس نے کہا کہ کوئی پلنگ خالی نہیں ہے۔ میں نے کہا: ہم پلنگوں والے نہیں، ہمیں تو کھٹولا بھی نہ ملے تو زمین پر پڑ رہتے ہیں۔ اتنا بڑا ہسپتال ہے ۔ اسے کسی کونے کھدرے میں زمین پر ہی ڈال دو، پر اس کا کچھ کرو۔ مس نے میری بات نہیں مانی۔ پھر کلی نے کہا: ہم کسی درخت تلے پڑ رہتے ہیں ۔ پر اس مس کو ترس آگیا اور اسے ایک پلنگ دے دیا اور مجھ سے کہا: جاؤ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کلی نے یہ سنا تو زور زور سے رونے لگی اور کہنے لگی: دیکھ غفورے تو چلا گیا تو میں مر جاؤں گی۔ پر مس مجھے وہاں سے زبردستی باہر لے آئی اور مجھ سے میرا پتہ پوچھنے لگی۔ میں نے چونیاں کا پتہ لکھوایا تو بولی: یہاں کا پتہ بھی بتاؤ۔ میں نے کہا: میں تو ہر وقت ہسپتال کے دروازے پر مل جاؤں گا۔ میں تو یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ میں کہیں جاکر کیا کروں گا۔ پھر میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی اور کلی کہتی تھی۔ قرض کبھی نہ لینا ورنہ عمر بھر قرض ہی لیتے رہو گے۔ پرسوں شام کو میں ہسپتال میں گیا تو وہاں کوئی اور مس بیٹھی تھی۔ بولی: پیٹ کاٹنے سے پہلے ہی بچہ ہوگیا ہے۔ پر تم کلی کو نہیں دیکھ سکتے۔ وہ بے ہوش ہے۔ اس کا خون نہیں رُکتا۔ پھر بولی: جاؤ بچے کا نام سوچو۔ کل شام کو میں پھر اندر گیا۔ مس بولی: اب اس کی ناک سے بھی خون بہنے لگا ہے۔ میں کلی کے پاس گیا۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ میں نے کہا: ‘‘کلی!’’ تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور مسکرانے لگی۔ خدا کی قسم! میاں جی وہ مسکرائی۔ پھر وہ رو دی اور بولی: ‘‘دیکھ غفورے، تو نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ بچہ ہوتا ہے تو ایسا بھی ہوجاتا ہے’’۔ میں نے میاں جی اس وقت اس کے ماتھ میں موت کی لاٹ جلتی دیکھ لی تھی۔ پیلی تو وہ بہت ہوگئی تھی۔ پر یہ میلا رنگ پہلے اتنا چمکتا نہیں تھا۔ پرسوں رات چمک رہا تھا۔ میں نے کہا: تو رو نہیں کلی۔ تو اب ٹھیک ہوجائے گی۔ بولی: دیکھ غفورے دوپہر کو جب میری ناک سے خون جاری ہوگیا تھا تو اس ساتھ والی نے مس کو بلا کر کہا تھا: دیکھو یہ لڑکی مر رہی ہے، تب سے میں بڑی ڈر گئی ہوں۔ غفورے ایک بار مس بچے کو میرے پاس لائی ایسا لگا جیسے غفورا سمٹ کر ننھا سا ہوگیا ہے ۔ وہ میرے پاس آیا پر مجھے تو دودھ پلانا ہی نہیں آتا ۔ میں نے کہا: کیسے پلاؤں۔ تویہ اِدھر اُدھر والیاں ہنسنے لگیں۔ تب سے مجھے بڑا رونا آرہا ہے۔ ان کو پتہ نہیں نا کہ یہ میرا پہلا بچہ تھا اور میں بے چاری تو چونیاں کی رہنے والی ہوں’’۔ میں جب ہسپتال سے آنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ بولی: ‘‘آج رات نہ جاؤ’’۔ پھر جب میں نے کہا: سب ملاقاتی اُٹھے جارہے ہیں اور وقت ہوگیا ہے تو وہ بولی۔ ‘‘داتا گنج بخشؒ لاہور میں ہے نا غفورے،اس کے پاس جاؤ اور کہو۔ داتا کلی مرے نہیں، کلی نے تیرے نام کی منت مانی تھی تو غفورے کو پا لیا تھا اور کلی نے غفورے سے ابھی ذرا سا چھنگلیا کے ناخن جتنا پیار کیا ہے’’۔ اس کا ہاتھ بڑا ہی ٹھنڈا تھا میاں جی برف بھی ٹھنڈی ہوتی ہے پر وہ کچھ اور طرح ٹھنڈی ہوتی ہے۔ کلی کے ہاتھ میں کچھ عجیب سی ٹھنڈک تھی جو میری ہڈیوں تک میں اُتر گئی اور میں کانپنے لگا اور میں وہاں سے بھاگ آیا۔ پھر میں داتا کے پاس گیا اور جب واپس ہسپتال کے دروازے پر آیا تو وہ پہلے دن والی مس ادھ کھلے دروازے سے لگی کھڑی تھی۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بولی: کلی نے تم کو سلام بولا ہے۔ میں نے خوش ہوکر کہا: کلی تو لاہور میں آکر میم ہوگئی ہے۔ سلام بولنے لگی ہے۔ مس نے میرا ہاتھ بڑی سختی سے پکڑ لیا۔ بولی دیکھو کلی نے تم کو آخری سلام بولا ہے۔ میں وہاں سے پاگلوں کی طرح بھاگا۔ میرے پیچھے چوکیدار بھاگنے لگا۔ چوکیدار کے پیچھے مس بھاگنے لگی اور میاں جی جب میں کلی کے پاس پہنچا تو اسے وہاں سے کہیں اور لے جانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور مہترانیاں آئی ہوئی تھیں اور آس پاس کی عورتوں نے کروٹیں بدل لی تھیں۔ مہترانیوں نے مجھے روکا، چوکیدار نے مجھے پکڑ لیا مگر پھر مس آگئی۔ اس نے بتایا کہ یہ کلی کا گھروالا ہے۔ میں نے کلی کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا تو میاں جی میں نے دیکھا کہ کلی مرگئی ہے۔ اس کے اُوپر کے ہونٹ پر کہیں کہیں خون جم گیا تھا اور اس کی ناک میں مسوں نے روئی دے دی تھی۔ اس کی آنکھوں پر بھی کسی نے ہاتھ نہیں رکھا تھا اس کا ڈاٹھا بھی کسی نے نہیں باندھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی کہے گی : ‘‘دیکھ غفورے ’’۔ پر میاں جی۔ وہ تو مر گئی تھی۔ مس نے مجھے میرا بچہ دکھایا ۔ ایسالگتا تھا کلی سمٹ کر بالکل ننھی سی ہوگئی ہے۔ مس بولی: تم کلی کو دفن کر آؤ، پھر آکر لے لینا۔ پھر جب لاش کو ہسپتال سے باہر لایا گیا تو میں نے اسے یوں اُٹھالیا جیسے بچے کو اُٹھاتے ہیں۔ میرے ہرقدم پر کلی کی چوڑیاں بج اُٹھی تھیں میاں جی۔ پہلے تو جی چاہا کہ انھیں توڑ ڈالوں پھر جب میں نے کلی کو زمین پر لٹایا اور اس کی کلائی دیکھی تو وہ بڑی اچھی لگ رہی تھی۔ میں وہاں سڑک پر بیٹھ گیا اور ساری رات بیٹھا رہا۔ پولیس والوں نے بار بار پوچھا تو میں نے سچ سچ بتا دیا اور وہ بولے: ‘‘خدا کسی کو غریب نہ کرے’’۔ ایک دو بار تو جی چاہا میاں جی کہ وہیں پنجوں سے زمین کھود کر کلی کو سڑک کنارے دفن کر دوں، پر جنازہ بھی تو پڑھنا تھا۔ صبح کو اللہ نے آپ کو بھیج دیا۔ آپ نہ آتے تو میں کلی کو یوں اُٹھائے پھرتا جیسے بندریا اپنے مرے ہوئے بچے کو چمٹائے پھرتی رہتی ہے۔ بس یہ بات ہے میاں جی’’۔
اس نے ایک لمبی گہری سانس لی اور سر کو جھٹک کر پگڑی کے پلو سے آنکھیں پوچھیں اور پھر یوں بولا: جیسے ایک ضروری بات کہنا بھول گیا تھا۔ ‘‘کلی کو مجھ سے بڑا پیار تھا میاں جی۔ میں عمر میں اس سے کتنا بڑا ہوں پر وہ سب سے لڑ کر میرے پاس آگئی تھی اور میں نے بھی سب سے لڑ کر اس سے شادی کرلی۔ ہم نے ساری دنیا سے لڑ کر پیار کیا تھا میاں جی’’۔
پھر وہ ذرا دیر کو کچھ سوچ کر میاں سیف الحق کے قدموں سے لپٹ گیا اور بولا: ‘‘میں آپ کے سامنے کیسی باتیں کرنے لگا ہوں۔ میں نے تو ساری باتیں کردیں آپ کے سامنے آپ بھی کیا کہیں گے آپ بُرا تو نہیں مانیں گے میاں جی؟’’
میاں سیف الحق نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا اور رومال سے منہ صاف کر کے باہر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد واپس آئے اور بولے: ‘‘غسالن آگئی ہے، کفن بھی آگیا ہے، قبر کے لیے شفقت کہہ آیا ہے’’۔غفورا ان کے قریب آیا اور بچے کے سے بھولپن سے بولا: ‘‘غسل ہوجائے میاں جی تو ایک بار میں کلی کو دیکھوں گا’’۔
اور میاں سیف الحق منہ میں رومال ٹھونس کر باہر چلے گئے۔پھر جب وہ آئے تو ان کے ہاتھوں سے عطرخس اور کافور کی بو آرہی تھی۔ غسل دیا جاچکا تھا۔ وہ غفورے سے کچھ نہیں بولے۔ بس کمرے میں آئے تو وہ میزپوش کے ایک کونے کو ہاتھ پر پھیلائے کڑھے ہوئے پھول دیکھ رہا تھا۔ اس نے میاں سیف الحق کو دیکھا تو اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے پاس آیا اور بولا: ‘‘میاں جی میں آپ کو یہ تو بتانا بھول ہی گیا تھا کہ کلی بڑا اچھا کشیدہ کاڑھتی تھی’’۔ میاں جی کچھ بولے بغیر واپس جانے لگے اور غفورا ان کے پیچھے پیچھے ہولیا ۔ پھر دروازے پر رُک کر بولا: ‘‘آجاؤں میاں جی؟’’‘‘تم سے کون پردہ کرے گا بھئی؟’’ وہ بولے اور آگے بڑھ گئے۔ غفورا ان کے پیچھے تھا۔ صحن میں بہت سی عورتیں جمع تھیں۔ اکثر زارزار رو رہی تھیں۔ چند ایک طرف بیٹھی قرآن شریف کی تلاوت کر رہی تھیں اور غفورا اندر گیا تو اس سے کسی نے پردہ نہیں کیا۔ اس کے پہنچتے ہی رونے میں زیادہ شدت پیدا ہوگئی۔ سب سے پہلے میاں جی نے پانچ روپے کا ایک نوٹ نکال کر غسالن کی طرف بڑھایا مگر وہ سرخ سرخ آنکھیں مل کر بولی: ‘‘میاں جی ایک دن مجھے بھی مرنا ہے، کیا خبر اسی طرح سڑک کنارے دم نکل جائے ، نہیں جی میں نہیں لوں گی’’۔‘‘سڑک کنارے!’’ میاں جی کی بیوی کی چیخیں نکل گئی۔ ‘‘میرے حامد کی طرح’’۔
اور میاں سیف الحق بھی عورتوں کی موجودگی میں بے پروا ہوکر ٹوٹ کر رو دیئے۔ پھر انھوں نے رومال کو منہ میں ٹھونسا اور غفورے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعدانھوں نے رومال نکالا اور بولے: ‘‘میرے مولا کی دنیا میں کیاکچھ نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی سڑک کنارے مر گیا پر یہ بھی تو ہوتا ہے کہ اسے اچھا کفن دفن مل گیا۔ تم کہتی ہو حامد برسوں پہلے مرا تھا۔ میں تو کہتا ہوں وہ آج مرا ہے اور اس کا جنازہ یہ ہمارے سامنے رکھا ہے’’۔عورتیں پھر زور زور سے رونے لگیں۔غفورا چپ چاپ کھڑا کلی کی لاش پر بچھی ہوئی ریشمی گلابی چادر کو ہوا کے غیرمحسوس جھونکوں میں ہلتے ہوئے دیکھتا رہا۔ میاں جی کی بیوی نے اچھی طرح رو لینے کے بعد چادر ایک طرف سے اُٹھائی ، کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے کلی کے چہرے پر سے کفن سرکا دیا اور غفورے کی طرف دیکھنے لگیں۔ سب عورتیں غفورے کی طرف دیکھنے لگیں۔میاں سیف الحق نے بھی گھبرا کے غفورے کو دیکھا اور بولے: ‘‘کیوں میاں، پہچانا نہیں کیا، یہ میرا حامد ہے، یہ تمھاری کلی ہے’’۔
غفورے کی آنکھوں میں اُمڈے ہوئے آنسو بھی جیسے سوکھ گئے تھے اور دیر تک پلکیں جھپکے بغیر کلی کے چہرے کو دیکھتا رہا اور عورتیں بالکل خاموش ہوگئیں۔
پھر غفورے کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی۔ اس نے کلی کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میاں جی کی بیوی بولیں: ‘‘نہ نہ، ایسا نہیں کرتے۔ بیوی کے مرنے کے بعد اب تم اس کے محرم نہیں رہے، تمھارا تو اس پلنگ کو چھونا تک گناہ ہے’’۔
غفورے پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا ۔ وہ ذرا دیر تک جھکا ہوا ہاتھ بڑھائے یوں کھڑا رہا جیسے منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ پھر وہ سیدھا ہوگیا اور کلی کے چہرے پر ٹکٹکی باندھے رکھی۔
اچانک میاں سیف الحق نے اسے دونو ں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا اور بولے: ‘‘روؤ، خوب روؤ، کھل کر روؤ۔ تم روؤ گے نہیں تو مرجاؤ گے۔ تمھارے دل کی حرکت بند ہوجائے گی۔ تمھیں سکتہ ہوجائے گا۔ حامد مرا تھا تو مجھے بھی ایسا ہوگیا تھا۔ یوں سمجھو کہ یہ چھے برس میں نے سکتے کی حالت میں گزارے۔ میں آج رویا ہوں تو جیسے نئی زندگی پاگئی ہے’’۔
‘‘میں ٹھیک ہوں میاں جی’’۔ غفور آہستہ سے بولا۔ پھر وہ چلنے لگا۔ وہ صحن کے اس کونے میں جاکر رُک گیا جہاں کلی کو غسل دیا گیا تھا۔ اس نے مجرموں کی طرح میاں سیف الحق کی طرف دیکھا۔ پھر جھکا، ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑے چنے اور جیب میں ڈال لیے۔
اور عورتیں یوں ایک دم کڑک کڑک کر رونے لگیں کہ باہر بیٹھک میں بیٹھے ہوئے اور گلی میں کھڑے ہوئے لوگ بھی ایک بار تو دہل کر رہ گئے۔
اور جب غفورا چوڑیوں کے ٹکڑوں کو جیب میں ڈالے واپس آرہا تھا تو میاں سیف الحق نے کہا: ‘‘سب بیبیاں ایک طرف چلی جائیں، میں فتویٰ دیتا ہوں کہ غفورا اپنی بیوی کی میت کو چھو سکتا ہے’’۔‘‘نہ چھو سکا تو پاگل ہوجائے گا’’۔ انھوں نے قریب کھڑی ہوئی بیٹی کے کان میں سرگوشی کی۔
غفورا اسی سکتے کے عالم میں آگے بڑھا۔ کلی کے چہرے پر جھک گیا۔ اس کے چمکتے ہوئے زرد ماتھے پر سے ایک بال ہٹا کر اُوپر گیلے بالوں میں ملا دیا اور بجائے اس کے کہ کلی کو مخاطب کرتا۔ بولا: ‘‘دیکھ غفورے’’۔
پھر وہ اسی طرح خشک آنکھیں اور زرد چہرہ لیے باہر چلا گیا۔اور میاں جی بولے: ‘‘مجھے تو اب اس بدنصیب کی فکر پڑ گئی ہے’’۔
جب کلی کا جنازہ اُٹھا تو اس کے ساتھ بہت بڑا ہجوم تھا۔ بہت بارونق نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ نہایت خوبصورت قبر تیار ہوچکی تو غفورے نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ٹوٹی ہوئی چوڑی کا ایک ٹکڑا نکال کر قبر پر رکھ دیا۔
اور میاں سیف الحق لوگوں سے کہہ رہا تھے: ‘‘مجھے حامد کے کفن دفن کا موقع ملتا تو میں اس سے زیادہ اور کیا کرتا۔ میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے’’۔
میاں سیف الحق جب قبرستان سے پلٹے تو ایک عقیدت مند ہجوم ان کے ہمراہ تھا۔ ہر شخص کی زبان پر میاں جی کی خدا ترسی اور نیک نفسی کے قصے تھے اور سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ اس چودھویں صدی میں بھی آدمیت مری نہیں۔ ابھی اس میں زندگی کی ایک رمق باقی ہے اور اس رمق کا نام میاں سیف الحق ہے۔
میاں سیف الحق یہ باتیں سنتے تو گھبرا جاتے۔ ‘‘ارے بھئی میں کس لائق ہوں’’۔ وہ احتجاج کرتے: ‘‘بندہ کس لائق ہے، یہ تو توفیق کی بات ہے اور توفیق دینے والا میرا مولا ہے، یہ تو سب میرے مولا کا احسان ہے دوستو’’۔
پھر ان کی آنکھوں میں عجیب چمکتے دمکتے سے آنسو آجاتے اور وہ ایک لمبی گہری سانس لے کر کہتے: ‘‘میں نے ایک مسکین بی بی کو نہیں دفنایا۔ میں تو آج چھے برس کے بعد اپنے حامد کو دفنا کے آرہا ہوں۔ میں تو ہر محرم الحرام میں اس تربت پر فاتحہ پڑھنے اور پانی چھڑکنے آؤں گا’’۔ اور لوگ ان کے چہرے کے ارد گرد ہالا اُبھرتا ہوا دیکھنے لگتے۔
اپنی گلی میں آکر میاں سیف الحق نے لوگوں کو رخصت کیا ۔ چند بزرگوں کو وہ بیٹھک میں لے آئے اور پھر اچانک بولے: ‘‘غفورا کہاں ہے؟’’
بیٹھک میں چاروں طرف نظریں دوڑا کر وہ گلی میں آگئے اور بلندآواز میں جیسے اپنے آپ سے پوچھا: ‘‘ارے بھئی غفورا کدھر گیا؟’’وہ گلی کے اس پار سڑک تک قریباً دوڑتے چلے گئے اور انھیں اسی حالت میں دیکھ کر گھروں کو جاتے ہوئے لوگ ان کے آس پاس جمع ہوگئے۔ ‘‘جانے وہ غفورا کہاں گیا؟’’ میاں جی بولے۔‘‘ارے ہاں’’۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا ۔ ‘‘وہ تو سارے رستے نظر نہیں آیا۔
واپس آکر وہ سیدھے زنان خانے میں چلے گئے اور بولے: ‘‘جانے وہ غفورا کہاں غائب ہوگیا’’۔لیکن ان کی بیوی نے سوال کا جواب سوال میں دیا: ‘‘اب مجھے کب لے چلیں گے قبر دکھانے؟’’‘‘لے چلیں گے’’۔ میاں سیف الحق بولے۔
اور دوسرے روز وہ اپنی بیوی، تینوں بیٹوں اور چاروں بیٹیوں کے ہمراہ قبر دیکھنے گئے۔ کلی کی رسم قل بھی ادا ہوئی۔ چالیسویں تک ہر جمعرات کو محلے کی مسجد کے امام صاحب کو دعوت پر بھی بلایا اور فاتحہ پڑھوائی۔ پھر چالیسواں بھی ہوا اور اس روز حامد کی تصویر کو اس کی بہنوں نے ہار پہنائے۔
اور بہت بڑے نشیب کے بعد میاں سیف الحق کی زندگی بالکل ہموار لک پھری چمکتی ہوئی سڑک بن گئی جو حدِنظر تک خطِ مستقیم میں جاتی تھی اور جس کے دونوں طرف قدآور درخت سایہ کیے کھڑے رہتے تھے۔ وہ اس سڑک پر پھر سے کچھ ایسی بے تکلفی اور روانی سے چلنے لگے جیسے انسان کھانا کھاتے وقت چاہے بات جلیانوالہ باغ کی کر رہا ہو مگر نوالہ سیدھا منہ کو جائے۔ اب اس سڑک پر وہ فصیل بھی نہیں اُبھرتی تھی جس کے پاس کبھی کبھی ٹھٹک کر وہ خلا میں گھورتے رہ جاتے تھے۔ اب حدنظر تک مطلع صاف تھا۔
یہ کوئی سال بھر بعد کا ذکر ہے کہ میاں سیف الحق الصلٰوۃ خیر من النوم کی آواز پر جاگے اور نیلا رومال کندھے پر رکھ کر مسجد کی راہ لی۔ صندل کی تسبیح پر استغفار کا ورد کرتے ہوئے پلٹے۔ شریف چرسی کی دکان سے بچ کر نکلے اور گھر آگئے۔ قرآن شریف کے چند رکوع، دعائے گنج العرش اور قصیدہ بردہ پڑھے، اخباروالے نے اخبار گول کر کے اسے کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے اندر پھینک دیا اور بولا: ‘‘السلام علیکم میاں جی’’۔سینے پر چھو کر میاں سیف الحق نے کہا: ‘‘آگئے میاں؟ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ’’ اور اخبار اُٹھانے کو اُٹھے۔
اچانک ایک بار پھر آواز آئی: ‘‘السلام علیکم میاں جی’’۔‘‘آگئے میاں؟ انھوں نے عادتاً کہا اور وعلیکم السلام کہنے ہی کو تھے کہ ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور ٹوٹے ہوئے شیشے کے اس پار انھوں نے کچھ یوں آنکھیں سکیڑ کر دیکھنا شروع کیا جیسے ان کی نظروں کو کسی نے کس کر تان لیا ہے۔‘‘میاں جی’’ پھر آواز آئی۔اور میاں سیف الحق نے اس دوران میں پہلی بار آنکھیں جھپکیں اور دروازے کی طرف لپکے۔ ‘‘آجاؤ بھئی، آجاؤ، سناؤ کہاں رہے تم؟ کہاں غائب ہوگئے تھے؟ میں تو اس روز تمھیں گلی گلی پوچھتا پھرا اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ آؤ اندر آجاؤ، کمال ہے بھئی۔ میں تو سمجھا تھا کہ تم ___
غفورا اندر آگیا۔ اس نے ایک میلی سی چادر لپیٹ رکھی تھی۔ سر پر کھدر کی ایک پرانی چیکٹ ٹوپی تھی۔ آنکھیں بہت پیچھے ہٹ گئی تھیں اور بھوؤں اور گالوں کی ہڈیاں غیرفطری طور پر اُبھری ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ ناک جھک آئی تھی۔ ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بالکل کھچڑی ہورہی تھی۔ ہونٹ آپس میں کچھ یوں پیوست تھے جیسے الگ ہوئے تو ان سے خون بہنے لگے گا۔ وہ میاں سیف الحق کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے میں آیا اور وہیں جاکر کھڑا ہوگیا جہاں بیٹھ کر اس نے میاں جی کو اپنی ساری کہانی الف سے یے تک سنا ڈالی تھی۔
میاں سیف الحق غفورے کو دیکھتے ہوئے بھی خلا میں گھورتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ وہ بھی وہیں جاکھڑے ہوئے جہاں بیٹھ کر انھوں نے غفورے کی کہانی سنی تھی۔ پھر میاں جی بیٹھے تو غفورا بھی بیٹھ گیا۔ کھڑکی کے نیچے تازہ اخبار پڑا تھا اور سامنے میز پر دھرے ہوئے رحل میں قرآن شریف، دعائے گنج العرش اور قصیدہ بردہ رکھے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے غفورے نے جو کہانی آج سے ایک سال پہلے شروع کی تھی وہ اب تک جاری ہے اور اس شدت سے جاری ہے کہ وہ جس پہلو سے بیٹھے تھے اسی پہلو سے جم کر رہ گئے ہیں۔
‘‘ہم تو سمجھے تھے’’۔ میاں سیف الحق بولے کہ ‘‘تم ہمیں بھول بھال گئے ہوگے’’۔
‘‘میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں میاں جی’’۔ غفورا بولا: ‘‘جب تک میں کلی کو نہیں بھولتا، آپ کو بھی نہیں بھولوں گا اور میں کلی کو تو عمر بھر نہیں بھول سکوں گا میاں جی’’۔ذرا سے وقفے کے بعد غفورا بولا: ‘‘میاں جی! آپ کتنے نیک آدمی ہیں اور میں کتنا خود غرض آدمی ہوں۔ میں نے پہلی خودغرضی تو یہ کی کہ کلی دفن ہوگئی تو آپ سے ملا تک نہیں اور چلا گیا۔ دوسری خود غرضی یہ ہے میاں جی کہ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ___ ’’ رُک کر اس نے آنکھیں ملیں اور بولا: ‘‘مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کلی اب تک سڑک کنارے بے کفن پڑی ہے’’۔‘‘پاگل تو نہیں ہوگئے تم’’۔ میاں جی نے پیار سے ڈانٹا۔ ‘‘میں نے اس دن کہا تھا نا کہ کھل کر روؤ، نہیں تو پاگل ہوجاؤ گے’’۔
‘‘نہیں میاں جی’’۔ غفورا بولا۔ ‘‘پاگل کہاں ہوا ہوں۔ پاگل ہونا ہوتا تو اسی دن نہ ہوجاتا جب مری ہوئی کلی کی کلائیوں میں چوڑیاں بجی تھیں۔ میں سچ کہتا ہوں مجھے اس ایک سال میں ایک دن بھی تو ایسا نہیں ملا جب کلی کی یاد نے مجھے گالی نہ دی ہو اور یہ نہ کہا ہو کہ دیکھ غفورے میں تو اب تک سڑک کنارے چادر میں لپٹی رکھی ہوں’’۔
‘‘تمھیں کچھ ہوگیا ہے بھئی’’۔ میاں جی نے پریشان ہوکر کہا۔
‘‘میاں جی’’۔ ا ب غفورے کے آنسو آج سے ایک برس پہلے کی طرح بہنے لگے اور اس کی آواز بھرانے اور گھٹنے لگی۔ ‘‘کلی کو مجھ سے بڑا پیار تھا میاں جی۔ میں عمر میں اس سے کتنا بڑا تھا، پر وہ سب سے لڑ کر میرے پاس آگئی تھی۔ ہم نے ساری دنیا سے لڑ کر آپس میں پیار کیا۔ پر میں کیسا بُرا ہوں کہ میں اس کے جنازے پر ایک پیسہ بھی تو نہ لگا سکا۔ میں نے کلی کے مرنے کے بعد اس کا تو کوئی حق ادا نہ کیا نا میاں جی۔ میں نے اس ایک سال میں بڑی محنت کی۔ میں بیمار بھی ہوگیا۔ میں ہسپتال میں پڑا رہا۔ پر جو کچھ مجھ سے ہوسکا وہ کیا۔ میں نہیں جانتا آپ نے کلی کے جنازے پر کتنا خرچ کیا تھا۔ بہت کیا ہوگا کیونکہ آپ نے تو اسے بالکل اپنا بنا لیا تھا۔ اگر میں خود اس کے جنازے پر خرچ کرسکتا تو___ ’’اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر چند نوٹ نکالے۔ انھیں فرش پر رکھ دیا اور بولا: ‘‘تو اس سے زیادہ کیا کرتا کچھ کم ہی کرتا’’۔لمحہ بھر کو وہ خاموش رہا۔میاں جی بھی خاموش رہے۔کہیں اندر سے کلاک کی ٹک ٹک کی دبی دبی آواز آنے لگی۔پھر وہ بولا: ‘‘میاں جی! یہ آپ لے لیجیے’’۔میاں سیف الحق تڑپ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘نہیں میاں جی’’۔ غفورا بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ ‘‘میں آپ کو دُکھ دینے نہیں آیا۔ یہ رقم آپ لے لیجیے۔ آپ لے لیں گے تو میرے دل کو تسلی ہوگی۔ میں سمجھوں گا میں نے کلی کے کفن دفن کا سامان خود کیا۔ کلی بھی مجھے گالیاں نہیں دے گی اور اس کی روح بھی خوش ہوگی۔ لے لیجیے میاں جی’’۔
میاں سیف الحق جو اس دوران میں ہانپنے لگے تھے، گرج اُٹھے: ‘‘تو کیا میں نے تم سے کوئی سودا کیا تھا؟ لے جاؤ یہ روپے۔ کیا میں تمھارے ان چند روپوں کا بھوکا ہوں؟ کیا تم نے مجھے اپنی طرح___ ’’اور انھوں نے نوٹ اُٹھا کر غفورے کی طرف پھینک دیئے۔ یہ نوٹ ایک ایک کرکے فرش پر بکھر گئے اور غفورا خاموش کھڑا رہا۔
پھر جب اس نے دیکھا کہ میاں سیف الحق کانپنے بھی لگے ہیں تو وہ آہستہ سے بولا: ‘‘میاں جی دیکھئے، خفا نہ ہوجئے۔ آپ نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے۔ میں ایسا کمینہ نہیں ہوں کہ اس احسان کو بھول جاؤں۔ پر بات یہ ہے میاں جی کہ آپ نے تو کلی کی جگہ حامد میاں کو دفن کیا تھا اور میری کلی تو وہیں سڑک کنارے بے کفن پڑی رہ گئی۔ ان روپوں کو چاہے آپ نا لی میں پھینک دیجیے، پر میں نے تو آج ہی اپنی کلی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا ہے میاں جی’’۔