میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟

مصنف : سہیل صدیقی/ مہیش یوراج سی (مہسانہ، گجرات)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جون 2012

میں گجرات کے مہسانہ ضلع کے ایک گاؤں کے ٹھاکر زمین دار کا بیٹا ہوں۔ میرا پرانا نام یوراج سی ہے۔ یوراج سی سے ہی لوگ مجھے جانتے ہیں۔ بعد میں پنڈتوں نے میری راشی کے لیے مشہور نام ہٹا کر میرا نام مہیش رکھا، مگر یوراج سی مشہور ہو گیا۔

۱۳ اگست ۱۹۸۳ میری تاریخ پیدائش ہے۔ ہمارا خاندانی کالج ہے، اے جے جسپال ٹھاکر کالج۔ اس سے میں بی کام کر رہا تھا کہ مجھے تعلیم چھوڑنی پڑی۔ میرا ایک بھائی اور ایک بہن ہے۔ میرے بہنوئی بڑے نیتا ہیں۔ اصل میں وہ بی جے پی کے ہیں، مقامی راجنیتی (سیاست) میں اپنا وزن بڑھانے کے لیے انھوں نے اس سال کانگریس سے الیکشن لڑا ہے اور جیت گئے ہیں۔

گجرات کے گودھرا کانڈ کے بعد ۲۰۰۲ء کے فسادات میں ہم آٹھ دوستوں کا ایک گروپ تھا، جو فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ ہمارے علاقے میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا تھا۔ ہمارے گاؤں سے ۱۵ کلو میٹر دور سندر پور میں ۶۰، ۷۰ لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ ہم لوگ بھی جوانی کے زعم میں بہادری سمجھ کر اس میں حصہ لیتے تھے۔ ہمارے گھر کے قریب گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ لوگ کہتے تھے یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے۔ اس کو بڑے پیر صاحب، جن کو لوگ پیر ہمدانی کہتے تھے، نے بنوایا تھا۔ گجرات کے لوگ ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔ ہم لوگوں نے منصوبہ بنایا کہ اپنے گاؤں کی اس مسجد کو ہمیں ڈھا دینا چاہیے۔ ہم آٹھوں ساتھی اس کو گرانے کے لیے گئے۔ بہت کوشش کے باوجود اصل مسجد کو ہم گرا نہ سکے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے کدال لکڑی کے ہیں، لوہے کے نہیں۔ بہت مجبور ہو کر ہم نے باہر والی دیوار گرانی شروع کی، جو ابھی کچھ سال پہلے گاؤں والوں نے بنوائی تھی۔ اس دیوار کو گرا کر ہم نے سوچا کہ اس مسجد کو جلا دینا چاہیے۔ اس کے لیے پٹرول لایا گیا اور پرانے کپڑے میں پٹرول ڈال کر مسجد کوجلانے کے لیے ایک ساتھی نے آگ لگائی تو خود ا س کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل کر مر گیا۔ میں تو یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا۔ میرے ساتھی برابر کوشش کرتے رہے، مسجد کو کچھ نقصان تو پہنچا، لیکن دو ہفتوں کے اندر چار ساتھی اچانک ایک بعد ایک مر گئے۔ ان کے سر میں درد ہوتا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے۔ میرے علاوہ باقی دو پاگل ہو گئے۔ مجھ پر ڈر طاری ہو گیا۔ میں ڈرا ڈرا چھپا چھپا پھرتا تھا۔ رات کو اس ٹوٹی مسجد میں جا کر روتا تھا کہ اے مسلمانوں کے بھگوان! مجھے شما (معاف) کر دو۔ اپنا ماتھا وہاں ٹیکتا، اس دوران مجھے خواب بہت آنے لگے اور خواب میں نرک اور سورگ (دوزخ اور جنت) دونوں دکھتے۔

میں نے ایک بار دیکھا کہ میں نرک (جہنم) میں ہوں اور وہاں کا ایک داروغہ ہے۔ وہ میرے ان ساتھیوں کو جومسجد کو گرانے میں میرے ساتھ تھے، اپنے جلادوں سے سزا دلوا رہا ہے۔ اور سزا یہ ہے کہ لمبے لمبے لوہے کے کانٹوں کا ایک جال ہے، اس پر ڈال کر ان کو کھینچا جا رہا ہے، اور مانس (گوشت) اور کھال گردن سے پیروں تک اتر جاتی ہے، لیکن بدن پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ا سکے بعد ان کو الٹا لٹکا دیا گیا، اور نیچے آگ جلا دی گئی، جو منہ سے باہر آتی ہوئی اوپر کو نکل رہی ہے۔ اور دو جلاد ہنٹر سے ان کو مار رہے ہیں۔ وہ رو رہے ہیں، چیخ رہے ہیں کہ ہمیں معاف کر دو۔ ہم اب کسی مسلمان کو نہیں ماریں گے، نہ کوئی مسجد ڈھائیں گے۔ داروغہ جلال میں کہتا ہے کہ توبہ کا موقع ختم ہو گیا۔ موت کے بعد کوئی توبہ نہیں ہے۔ اس طرح کے وحشت ناک منظر مجھے روز روز دکھائی دیتے اور میں ڈر کے مارے پاگل سا ہونے کو ہوتا، تو پھر مجھے سورگ (جنت) دکھائی جاتی۔ سورگ (جنت) میں دیکھتا کہ تالاب سے بھی چوڑی دودھ کی نہر ہے۔ دودھ بہ رہا ہے، او رخوب صورت لہریں بن رہی ہیں۔ ایک نہر مدھو یعنی شہد کی ہے۔ ایک ٹھنڈے پانی، اتنی اچھی کہ میری تصویر اس میں صاف دکھ رہی ہے۔ ایک نہر مدرا (شراب) کی ہے۔ میں نے کہا شراب تو گندی چیز ہے،ہمارے پریوار (خاندان) میں شراب بری سمجھی جاتی ہے۔ جواب دیا گیا: یہ پاک اور خوشبو والی شراب ہے۔ اس کو پی کر نشہ نہیں ہوتا۔ ایک بار دیکھا کہ بہت خوبصورت درخت ہے۔ اتنا بڑا کہ ہزاروں اس کے سائے میں آ جائیں۔ کبھی بہت اچھے باغ دیکھتا اور ہمیشہ وہاں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی تین بار آواز آتی، مجھے اچھا نہ لگتا او رجب میں ساتھ میں اللہ اکبر نہ کہتا تو مجھے اٹھا کر سورگ (جنت) سے باہر پھینک دیا جاتا۔ میری آنکھ کھلتی تو میں بستر سے نیچے پڑا ملتا۔

ایک بار میں نے سورگ (جنت) کو دیکھا تو لا الہ الا اللہ کہا۔ وہاں کے بہت سارے لڑکے لڑکیاں، وہاں سورگ (جنت) میں میری خدمت میں لگ گئے۔ اس طرح کافی دن گزر گئے۔ گجرات میں فساد ہوتا رہا۔ مگر اب مجھے اندر سے ایسا لگتا تھا، جیسے میں مسلمان ہوں۔جب مسلمانوں کے قتل کی خبر سنتا تو میرا دل بہت دکھتا۔ میں ایک روز بیجاپور، کرناٹک گیا۔ وہاں ایک مسجد دیکھی۔ وہاں کے امام صاحب سہارنپور کے تھے۔ وہ ہریانہ میں مولوی کلیم صاحب کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ان کو میں نے پورا حال بتایا۔انھوں نے کہا کہ اللہ کو آپ سے بہت پیار ہے۔ اگر آپ سے پیار نہ ہوتا تو اپنے ساتھیوں کی طرح آپ بھی دوزخ میں جل رہے ہوتے۔ آپ اس رحمت کی قدر کریں اور اسلام قبول کر لیں۔ انھوں نے بتایا کہ بابری مسجد کو گرانے والے سب سے پہلے کدال چلانے والے دونوں نوجوان بھی ہمارے مولوی صاحب (مولوی کلیم صدیقی صاحب) کے ہاتھ پر مسلمان ہو چکے ہیں۔ شاید آپ کو بھی اللہ ہدایت دے کر سچے راستے پر لانا چاہتا ہے۔ اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہریانہ کے ایک دو ڈاکوؤں کے مسلمان ہونے کے قصے بھی انھوں نے سنائے۔ خوابوں سے پہلے اسلام کے نام سے میں چڑتا تھا۔ ٹھاکر کالج میں کسی مسلمان کو داخل بھی نہیں ہونے دیتا تھا، مگر نہ جانے کیوں اب اسلام کی ہر بات مجھے اچھی لگنے لگی۔ بیجاپور سے میں گھر آیا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے مسلمان ہو جانا چاہیے، ورنہ اپنے ساتھیوں کی طرح مجھے بھی نرک (جہنم) کی سزا بھگتنی پڑے گی۔

میں احمد آباد کی جامع مسجد گیا اور اسلام قبول کر لیا۔ امام صاحب نے مجھے اپنے گھر والوں سے اسلام کو چھپانے کو کہا۔ میں احمد آباد سے ‘رہبر نماز’ نام کی کتاب لے کر آیا اور نمازیاد کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ نماز یاد کر کے چھپ کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ امتحان کے بعد گرمیوں کی چھٹی ہوئی تو میں نے جماعت میں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ گھر والوں سے کہہ کر گوا گھومنے کے لیے ٹکٹ بنوایا اوراپنے بجائے اپنے دوست کو اپنے ٹکٹ پر بھیج دیا۔ میرا چلہ بڑودہ میں لگا۔ ‘فضائل اعمال’ اور ‘مرنے کے بعد کیا ہو گا؟’ میں نے پڑھیں تو جب میں اس میں جنت دوزخ کے حال کو پڑھتا تو وہ سب مجھے آنکھوں دیکھا لگتا تھا۔ چلہ لگا کر میں گھر آیا، تو چپکے چپکے نماز پڑھتا رہا۔ ایک روز ہمارا نوکر ویریندر سنگھ اچانک دودھ لے کر میرے کمرے میں آ گیا۔ اس نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے میرے پتا جی (والد صاحب) اور گھر والوں کو بتا دیا کہ چھوٹے بابو تو مسلمانوں کی بھانتی (مانند) نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے پتا جی (والد صاحب) دروازے ہی میں مجھے روک کر بولے: ہمیں معلوم ہو گیا کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔ اب یا تو اسلام یا گھر ایک چیز چھوڑنی پڑے گی۔ ایسے ادھرمی (بے دین) کے لیے اس گھر کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ میں جماعت میں تھا تو میں سوچتا تھا کہ اسلام کے لیے اگر مجھے دیش (ملک) چھوڑ کر بخارا جانا پڑے تو خوشی سے جاؤں گا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اسلام میرے رگ رگ میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ جان اور اسلام میں سے ایک چیز چھوڑنے کے لیے مجھ سے کہا جائے تو جان کا چھوڑنا میرے لیے آسان ہو گا۔ اسلام چھوڑنے کا تصور بھی میرے لیے جاں لیوا ہے۔ میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین پر کب تک گھٹ گھٹ کر جیوں گا۔ من چاہی چھوڑ کر رب چاہی جینے کا نام ہی تو اسلام ہے۔ جب من چاہی چھوڑی ہے تو رب چاہی کے لیے جن چاہی (لوگوں کی مرضی) چھوڑنا کیا مشکل ہے۔ میں نے پتا جی (والد صاحب) سے پورے وشواش (اعتماد و یقین) کے ساتھ کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں گھر چھوڑتا ہوں۔ اسلام چھوڑ دوں، یہ خیال بھی حماقت ہے۔ میرا موبائیل، میرا A.T.M اور میرا کریڈٹ کارڈ مجھ سے چھین لیا گیا۔ میں احمد آباد پہنچا، وہاں پر جوہا پور مسجد میں گیا، مگر وہاں پر سب لوگ ڈرے ہوئے تھے، اس لیے وہاں کے لوگوں نے مجھے رہنے کی اجازت نہیں دی۔ وہاں سے دریا پور پرانے مرکز گیا۔ انھوں نے میرے سرٹیفکیٹ و غیرہ دیکھے۔ انھوں نے فون وغیرہ کر کے میرے بارے میں تحقیق کی۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرے والد کے وہاں کے مشہور بی جے پی لیڈر جو اب منتری بھی بن گئے ہیں، سے تعلقات ہیں تو انھوں نے بھی وہاں رہنے کی اجازت نہیں دی اور معذرت کر دی۔ میرے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں چائے اور بسکٹ لیتا اور بسم اللہ پڑھ کر یقین سے کھا لیتا اور دعا کرتا۔ میرے اللہ! آپ ہر چیز پر قادر ہیں، مجھے اس چائے اور بسکٹ سے تین دن کی طاقت دے دے۔ میرے اللہ کا شکر ہے کہ تین دن تک مجھے بھوک نہ لگتی۔ ایک صاحب نے مجھے پالن پور بھیج دیا۔ وہاں پر ایک حاجی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اگر سدھ پور چلے جاؤ تو وہاں پر تمھارا انتظام ہو سکتا ہے۔ میں سدھ پور پہنچا، جہاں مجھے راجستھان میں نیو جے پور ہوٹل (جو جے پور اجمیرہائی وے پر ہے) بھیج دیا۔ ہوٹل کے مالک ذکرو بھائی نے مجھے ۲۵ دن وہاں رکھا۔ وہاں نماز پڑھتا اور اپنی مرضی سے کچھ ہوٹل کاکام بھی کرتا، حالانکہ وہ مجھے منع کرتے تھے۔ انھوں نے احمد بھائی ڈی لکس سے رابطہ کیا۔ و ہ مولوی کلیم صاحب کے خاص آدمی تھے۔ انھوں نے مجھے پھلت جانے کا مشورہ دیا۔ پتا لے کر میں دہلی آیا اور پہلے جامع مسجد پہنچا۔ خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ بنوا لوں، تاکہ لوگ شک نہ کریں۔ وہاں کوئی بخاری صاحب امام صاحب ہیں، انھوں نے مجھے جمعہ کو آنے کو کہا، لیکن میں (پھلت) آیا تو یہاں کا ماحول دیکھ کر بالکل ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے گھر میں آیا ہوں۔ یہاں پر ہم سب لوگ مولوی کلیم صاحب کو ابی جی کہتے ہیں۔ مجھے پھلت آ کر صحابہ کے وہ قصے جو ‘‘حکایت صحابہ’’ میں پڑھے تھے او رہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سارے حالات آنکھوں دیکھے لگنے لگے۔ کبھی کبھی گھر کی یاد آتی ہے۔ مولوی کلیم صاحب کے بارے میں جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج سفر سے آنے والے ہیں، پہلے سے خوشی ہونے لگتی ہے، اور مولوی صاحب آتے اور مصافحہ کرتے، کبھی گلے لگاتے، جس سے سارے غم دھل جاتے ہیں۔

کفر پر مر جانے کا تو تصور بھی میرے لیے دوزخ سے کم نہیں۔ مجھ پر بس اللہ کا کرم ہے، ورنہ اپنے ساتھیوں سے زیادہ دوزخ کا مستحق تھا۔ میں زمینداری اور مال داری کے زعم میں کیسے کیسے ظلم کرتا تھا۔ اللہ کی زمین پر چلتا، اس کا دیا کھاتا تھا۔ اس کے دیے ہوئے شریر (جسم) سے نہ صرف یہ کہ اس کا حق ادا نہیں کرتا تھا، بلکہ اس کی مرضی کے خلاف ہی ہر کام کرتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ایک روز گھر میں وشنو بھگوان کی مورت دیکھ رہا تھا، اس پر میری ماں نے پرساد چڑھایا تھا۔ دو تین چیونٹیاں اس پرساد میں سے کھینچ کر لے جا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ایک کتا باہر سے آ گیا۔ اس نے وہ پرساد کھایا اور پھر اسے چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر وہاں پیشاب کر دیا۔ نہ وہ چیونٹی کو روک سکے نہ کتے کو۔ میں اپنی عقل پر بہت ہنسا کہ سہیل! اگر میرے اللہ کی مجھ پر مہربانی نہ ہوتی اور اس نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی کیسی حماقت کے ساتھ اس مورتی کے آگے سر جھکا رہا ہوتا۔ جب کبھی اپنے ہندو بھائیوں سے بات کرتا تو مجھے اور بھی افسوس اور حیرت ہوتی وہ کہتے کہ دیکھو: ہم جس بھگوان کی مورتی کی پوجا کرتے ہیں، وہ تو ہمارے ساتھ ہے۔ مسلمان جس خدا کی پوجا کرتے ہیں، اسے کس نے دیکھا ہے؟ میں ان سے کہتا: اچھا بتاؤ، جس ہوا میں تم سانس لیتے ہو، اس میں آکسیجن ہے کہ نہیں؟ وہ کہتے: اگر آکسیجن نہ ہو تو ہم مر جائیں۔ میں نے کہا: جس آکسیجن سے تم سانس لیتے ہو، اس کو تم نے دیکھا ہے؟ وہ کہتے کہ ہم عقل سے محسوس تو کرتے ہیں۔ میں کہتا کہ آکسیجن کو تم بغیر دیکھے محسوس کرتے ہو اور وشواش (یقین) کرتے ہو اور آکسیجن کے پیدا کرنے والے مالک کو نہ محسوس کرتے ہو نہ ا سکے اوپر وشواس (یقین) کرتے ہو ، افسوس ہے تمھاری عقل پر۔

میرا ارادہ ہے ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو جائے تو ورلڈ نیوز میں اپنی کہانی بھیجوں گا ۔ اس لیے کہ ہمارا پریوار (خاندان) پورے علاقے میں ہر طرح سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ مجھے دیکھ کر یہ سمجھتے تھے کہ میں سورگ (جنت) میں رہتا ہوں۔ اسلام کے نام سے میں چڑتا تھا۔ شاید جو شبد (لفظ) میرے لیے سب سے گھر ڑاں (نفرت) کا تھا، وہ مسلمان تھا، مگر جب حق آیا اور میری عقل سے پردے ہٹے تو مجھے خیال ہوتا ہے کہ اپنے سچے مالک اور اس کی مرضی نہ مان کر میں کیسے نرک (جہنم) میں جی رہا تھا۔ اب سب سے پیارا لفظ کوئی ہے تو میرے لیے اسلام ہے۔ اگر کوئی مجھ سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جان اور خون مانگے تو میں سوچتا ہوں کہ میں اپنے لیے سوبھاگیہ (خوش قسمتی) سمجھ کر دوں گا۔ میں اس لیے لوگوں کے سامنے اپنی کہانی سنانا چاہتا ہوں کہ لوگ جانیں کہ ایسے بڑے گھر کا لڑکا کسی لالچ میں تو فیصلہ نہیں کرے گا۔ اسلام حق ہو گا، جو گھر بار چھوڑ کر اس نے اسلام قبول کیا۔

خون کا رشتہ ایک جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ اپنے گھر والوں کو بہت یاد کرتا ہوں، بلکہ گھر والوں سے زیادہ مجھے ان کی موت کے بارے میں بہت خیال آتا ہے، ابھی تو میرے لیے وہاں رابطہ کرنا بھی آسان نہیں۔ ہاں میں دعا کرتا ہوں۔ میں نے ابی جی (مولوی کلیم صاحب) سے بھی دعا کے لیے کہا ہے۔ مجھے یقین ہے، انھوں نے وعدہ کیا ہے او رمجھ سے کہا ہے کہ وہ دعا کرتے ہیں۔ اللہ ان کی دعا ضرور قبول کریں گے۔ اور ان شاء اللہ ضرور بالضرور میرا خاندان اسلام کے سائے میں آئے گا۔ ایک روز میں نے ابی جی مولوی کلیم صاحب سے کہا: آپ میرے باپ اور گرو (استاد) سب کچھ ہیں، آپ سے ایک چیز مانگوں گا تو آپ دیں گے؟ میرا نام امام جامع مسجد احمد آباد نے سہیل خان رکھا ہے، مگر دل چاہتا ہے کہ میرا نام آپ سے جڑے، کیونکہ آپ تومیرے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہیں، حقیقی ماں باپ نے تو مجھے دھکے دیے ہیں، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا نام سہیل صدیقی رکھ لوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں اپنا نام سہیل صدیقی رکھ لوں گا تو مولوی کلیم صدیقی کی طرح اللہ ہمیں بھی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں گے۔ کم از کم میرے پریوار (خاندان) کے لیے تو اسلام کے فیصلے ہو جائیں گے۔ ابی جی نے کہا: بیٹے! سچی بات یہ ہے کہ ابھی تو کلیم صدیقی خود بھی مسلمان نہیں ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سچی خبر دی ہے کہ قیامت سے پہلے ہر کچے پکے گھر میں اسلام داخل ہو جائے گا۔ وہ خبر تو سچ ہونی ہے، نام کلیم صدیقی کا ہو رہا ہے، ایسے گندے سے نسبت سے کیا فائدہ! اصل میں یہ صدیقی نسبت تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف ہے، جنھوں نے بغیر پس و پیش او رجھجک کے پہلے ہی لمحے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی، اس لیے وہ ‘‘صدیق’’ کہلائے۔ اسی طرح آپ نے بھی جنت و دوزخ خواب میں دیکھ کر اسلام کی سچائی کی تصدیق کی ہے۔ آپ اس نیت سے اپنے کو سہیل صدیقی کہا کریں۔ اس کے بعد ہی سے میں اپنا نام سہیل کے جگہ سہیل صدیقی بتاتا ہوں۔

ایک آدمی سفر کرتا ہے ریل میں، دو تین گھنٹے کا سفر، کبھی کبھی تو ریل میں چیکنگ ہو جاتی ہے، ورنہ جب اسٹیشن کے گیٹ سے گھر کے لیے جاتا ہے تو ٹکٹ چیک ہوتا ہے۔ اس دنیا کی ریل میں سے نکل کر اپنے اصلی گھر آخرت کے دروازے پر ٹکٹ کی چیکنگ ضرور ہونی ہے اور یہاں کا ٹکٹ ایمان ہے۔ بغیر ایمان کے (بلا ٹکٹ یاتری) کی طرح ہر آدمی نرک (دوزخ) کی جیل کے منہ میں ہے، اس لیے ہمیں ساری دنیا کے انسانوں کو اس ٹکٹ کے حاصل کرنے کے لیے کہنا تو چاہیے۔ اسلام ایسی سچائی ہے کہ اگر وہ لوگوں تک پہنچ جائے تو سب کا حال میری طرح بدل جائے گا، اور ہم مسلمانوں کی یہ خاص ذمہ داری ہے۔ جس کو آخرت اور جنت و دوزخ پر یقین نہ آئے، میرے دل سے پوچھ لے کہ دوزخ کیسی خطرناک جگہ ہے۔ اللہ بچائے، اللہ بچائے۔ اور جنت کیسی جگہ ہے، اس کے لیے آدمی قربان ہو جائے۔

٭٭٭

محسن نقوی کے آخری دو شعر، جو انہوں نے فائر لگنے کے بعد ایمبولینس میں کہے تھے

لے زندگی کا خْمس علی کے غْلام سے

اے موت! آ ضرور مگر احترام سے

عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے

شکوہ کروں گا تیرا، میں اپنے امام سے

٭٭٭