فکر ونظر
صرف اپنے کام کو دین کی خدمت سمجھنا
رعایت اللہ فاروقی
۱۹۹۱ء کی بات ہے، میں اپنے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ ایک روز ظہر کی نماز کے فوراً بعد تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب صاحب تشریف لے آئے۔ حضرت کا معمول تھا کہ جن لوگوں کی دل میں قدر ہوتی ان سے ملاقات اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے نہ فرماتے بلکہ اپنے ڈیسک کے سامنے آ کر کارپٹ پر تشریف فرما ہو جاتے۔ ایسی صورت میں ان کی ٹیم کے تمام اراکین بھی احتراماً اپنی اپنی نشست چھوڑ دیتے اور حلقہ بنا کر اس ملاقات میں شریک ہوجاتے۔ حضرت نے حاجی صاحب کے لئے نشست چھوڑ دی سو ہم سب بھی ملاقات کا حصہ بن گئے۔ حاجی صاحب نے فرمایا۔’’مجھے خبر ہوئی کہ آپ صبح مدنی مسجد تشریف لائے تھے اور مجھ سے کوئی کام تھا مگر میں موجود نہ تھا، اس لئے میں چل کر حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو دوبارہ زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ حضرت خیریت تو تھی ؟‘‘
یہ سن کر حضرت لدھیانوی رحمہ اللہ نے بہت ہی دھیمے لہجے میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا۔"تبلیغی جماعت سے متعلق شکایات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کی فکر۔۔۔۔"حضرت نے اتنا ہی فرمایا تھا کہ حاجی صاحب نے بات کاٹتے ہوئے فرمایا۔’’ارے حضرت ! آپ بھی لوگوں کی سنی سنائی باتوں میں آگئے !"
ہمارے حضرت کی قبر پر اللہ کی کروڑہا رحمتیں نازل ہوں، تھے تو پنجاب کے لیکن مزاج خالص پختونوں والا پایا تھا۔ حاجی صاحب کی یہ بات سنتے ہی جلال میں آگئے اور ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔"کیا کہا آپ نے ؟ میں لوگوں کی سنی سنائی باتوں میں آتا ہوں ؟ وقت کے شیخ الاسلام کا خط آیا ہے مجھے۔ اور اٹھارہ شکایات لکھی ہیں آپ کی جماعت کے خلاف۔ اور مجھ سے خط میں کہا ہے کہ میری بات شائد وہ قبول نہ کریں اور آپ چونکہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کے خلیفہ ہیں اس لئے ہوسکتا ہے آپ کی بات توجہ سے سن لیں اور اصلاح کی کوئی صورت بن جائے لہذا آپ ہی ان سے بات کیجئے۔ جبکہ آپ مجھ ہی سے کہہ رہے ہیں کہ میں سنی سنائی باتوں میں آجاتا ہوں ؟"یہ کہتے ہی حضرت نے مولانا سعید احمد جلالپوری کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا۔’’مولوی صاحب ! وہ خط ذرا لایئے ‘‘
مولانا سعید احمد جلالپوری اٹھے اور اپنی دراز سے خط نکال لائے۔ حضرت لدھیانوی شہید نے دو صفحے کا وہ خط کھولا تو میں نے گردن تھوڑی اونچی کرکے اس پر نگاہ ڈالی کہ آخر "شیخ الاسلام" کون ہیں ؟ دیکھا تو لیٹر پیڈ تھا جس کی لوح پر جلی حروف میں "محمد تقی عثمانی" لکھا ہوا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب میں نے کسی کی زبان سے مفتی صاحب کے لئے شیخ الاسلام کا لقب سنا تھا، اس زمانے میں وہ اس لقب سے معروف نہ تھے۔حضرت نے وہ خط حاجی صاحب کو پڑھ کر سنایا اور دکھایا۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا۔’’میری اپنی مسجد میں آپ کی تبلیغی جماعت کا میرے درس حدیث کا بائیکاٹ چل رہا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ حدیث کے درس سے تبلیغی نصاب کی تعلیم زیادہ ضروری اور بہتر ہے جبکہ بنارس کالونی میں ایک امام مسجد کو مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑ دی ہیں آپ کی جماعت نے کیونکہ وہ قرآن مجید کا درس دیتا تھا اور جماعت کا اصرار تھا کہ آپ یہ بند کریں، اس وقت میں ہمیں تبلیغی نصاب کی تعلیم کرنے دیں اور مولوی صاحب نہ مانے"
آخری بات حضرت نے یہ فرما کر ملاقات ختم کردی کہ ’’اپنے معاملات ٹھیک کریں ورنہ ہمیں آپ کے خلاف بھی اسی طرح اٹھنا پڑے گا جس طرح ہم۔۔۔ کی جماعت کے خلاف اٹھے تھے"
حاجی عبد الوہاب صاحب کو توفیق ہونی تھی اور نہ ہی ہوئی۔ اس جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ علماء سے لازماً الجھتی ہے اور انہیں اس حد تک حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے کہ اللہ کے ایک بڑے ولی حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ کا انتقال ہوا تو بنوری ٹاؤن کی مسجد سے جڑی مقامی جماعت کے امیر نے جنازے سے کچھ قبل ہم طلبہ سے پوچھا۔’’حضرت نے اللہ کی راہ میں وقت لگایا تھا ؟"یہ جماعت قران و حدیث کی خدمت سے جڑے لوگوں کے کام کو سرے سے اللہ اور اس کے رسول کا کام ہی نہیں مانتی تو دین کے دوسرے شعبوں یا اداروں والے کس شمار قطار میں آتے ہیں۔ وہ تو خدا کی رحمتیں نازل ہوں مولانا طارق جمیل صاحب پر کہ انہوں نے اس جماعت کے کام کو بچا لیا ورنہ حاجی صاحب تو آج سے دس پندرہ سال قبل ہی اس کی فاتحہ پڑھوا چکے ہوتے۔
اب اس پس منظر میں آپ مفتی تقی عثمانی صاحب کا آڈیو کلپ سنئے(یو ٹیوب پر موجود ہے) جس میں وہ پہلی بار اپنے بیان کے دوران غصے میں نظر آ رہے ہیں جو ان کا مزاج ہی نہیں۔ مفتی صاحب تبلیغی جماعت کی کلاس لیتے ہوئے کیا تاریخی جملے بول گئے ہیں۔’’لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے تمام افراد معصوم عن الخطا ہیں اور ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی۔ ان کی کسی خطا کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی اور اگر کوئی کہے تو وہ مخالف ہے تبلیغ کا۔ خدا کے لئے دماغ سے اس ذہنیت کو ختم کرو۔ یہ کسی دن تمہیں فرقہ بنا دے گی، یہ کسی دن تمہیں امتِ مسلمہ سے کاٹ کر رکھ دے گی"
ان سطور پر خاص طور پر علما بھی غور فرمائیں کیونکہ مفتی صاحب بین السطور میں یہ بتا رہے ہیں کہ یہ جو فرقہ بندیاں ہو چکیں یہ کس غلطی کا نتیجہ ہیں۔ !