مخبر

مصنف : احمد ندیم قاسمی

سلسلہ : ادب

شمارہ : مئی 2012

لالہ تیج بھان انسپکٹر نے دفتر آبکاری میں ملتان کے چُنے ہوئے مخبروں سے میرا تعارف کرایا اور جب وہ زرد چہروں اور میلی آنکھوں کی اس قطار کے آخر میں پہنچے تو بولے: ‘‘یہ خادو ہے’’۔

سب مخبر متعارف ہونے کے بعد باہر چلے گئے اور اب ہمارے سامنے صرف خادو کھڑا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے خادو کو کسی نے شکنجے میں سے نچوڑ کر نکال لیا ہے اور اب جیتے جاگتے انسان کے بجائے میرے سامنے انسان کا ایک مڑا تڑا چھلکا رکھاہے۔ وہ سر سے ننگا تھا۔ لمبے لمبے پٹے گردن تک لٹک رہے تھے۔ مانگ میں اینٹھن سی تھی۔ البتہ اس نے چوٹی پر مستطیل شکل کے ایک منڈے ہوئے حصے کی راہ سے سر کو خوب تیل پلا رکھا تھا۔ ایک کان پر سگریٹ کا ایک ٹکڑا اَٹکا ہوا تھا۔ اور دوسرے کان کی لو میں ایک چھلا سا لٹک رہا تھا۔ ‘‘استاد کی نشانی ہے’’ ۔ اس نے بعد میں مجھے بتایا ‘‘استاد نے کہا تھا تو پہلا آدمی ہے جو میری طرح بھنگ کا یہ گھڑا پی کر ایک منگرا اور مانگ رہا ہے ورنہ یہاں تو بڑے بڑے نشئی دو تین منگروں کے بعد ہی راجہ رسالو بن جاتے ہیں’’۔

آنکھوں میں سُرمہ لگا رکھا تھا مگر پتلیاں ایسی گدلی گدلی سی تھیں جیسے برسوں کی دھول سمیٹ رکھی ہو۔ ناک ہلدی کی گانٹھ معلوم ہوتی تھی اور ہونٹ اس کے چہرے سے کچھ زیادہ ہی سیاہ تھے۔ گردن کی ایک ایک رگ کچھ یوں غیرمعمولی طور پر اُبھری اور تنی ہوئی تھی جیسے اس کے دماغ اور دل میں رسہ کشی ہورہی ہے۔ کُرتے میں میل رچ بس گیا تھا اور تہ بند پر جابجا شوربے کے دھبے تھے۔

لالہ تیج بھان نے جب اس کا نام بتایا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور اس کے کالے حاشیوں والے لمبے لمبے دانت یوں ساتھ نمایاں ہوگئے جیسے کسی نے کچا تربوز چیرڈالا ہے۔ مگر مجھے اتنے بہت سے دانتوں کے آس پاس مسوڑے کا کوئی نشان نظر نہ آیا۔ ‘‘چرس نے کھا لیے’’۔ اس نے بعد میں بتایا تھا۔ ‘‘اور مسوڑوں کا کیا ہے سائیں۔ یہی ہوگا نا کہ دانت گر جائیں گے، گر جائیں، چرس تو پوپلے منہ سے بھی پی جاسکتی ہے’’۔ اس کے نیچے کے دو دانتوں پر چاندی کا ایک ایک تار لپٹا ہوا تھا اور دانتوں کی ریخوں میں دِنوں کا کوڑا گھسا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

لالہ جی اس کا نام بتا چکے تو ایک سکھ اندر آیا۔ لالہ تیج بھان کو جھک کر سلام کیا اور مجھے ایک اُچٹتی سی سر پرستانہ نظر سے دیکھ کر خادو کے پاس ہی کھڑا ہوگیا۔

لالہ جی بولے: ‘‘یہ خادو ہے، میں اسے خادو جادو کہتاہوں کیونکہ یہ سارے ملتان میں پہلا نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر مخبر تو یہ دلاسہ سنگھ بھی ہے ۔ پر بات یہ ہے کہ مجھے اس ضلع میں آئے ڈھائی برس ہو رہے ہیں۔ ڈھائی برس میں تیس مہینے ہوتے ہیں۔ خادو نے تیس مخبریاں کی ہیں اور تیس کی تیس سچی مخبریاں اور تیسوں اتنے بڑے مقدمے کہ ڈی سی نے چند مقدموں پر تو مجھے ‘‘ویل ڈن’’ دیا اور ایک مقدمے پر پانچ سو روپے انعام کی سفارش کردی۔ خادو نے بھی ان مخبریوں میں کوئی ہزار روپیہ تو کمایا ہوگا’’۔

خادو پہلی بار بولا: ‘‘اللہ نگہبان ہو، جھوٹ کیوں بولوں، آپ کے دربار سے میں نے تو گیارہ سو چھلڑ پائے، بچے دعائیں دیتے ہیں’’۔

لالہ تیج بھان بولے: ‘‘اب یہ خادو کا جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ اس کی کوئی بھی مخبری غلط نہ نکلی۔ ایک آدھ بار تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہو ہی جاتی ہے۔ اسی دلاسہ سنگھ کو لیجیے۔ شراب کی بھٹیوں کا مخبر ہے۔ آٹھ بھٹیاں پکڑوا چکا ہے مگر جب نویں کی باری آئی تو کیوں دلاسے یاد ہے؟ ہم کھیتوں میں پہنچے تو جہاں اس نے بھٹی کی نشان دہی کی تھی وہاں راکھ اُڑ رہی تھی۔ ہم نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو دلاسے کی مخبری کے مطابق بھٹی چلانے والا کاہن سنگھ کھیت کی مینڈھ پر کھڑا تھا۔ بولا: ‘‘ٹھہرو دروغے کھٹیا اُٹھا لاؤں، بیٹھو، گنے چوسو’’۔ اور جب میں نے پولیس کے سپاہیوں کے سامنے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے ڈپٹ کر کہا کہ یہاں خاک کی جگہ راکھ کیوں اُڑ رہی ہے تو وہ بولا: ‘‘وہ تو کوئی ایسی خاص بات نہیں دروغے۔ جہاں دو تین شراب کی بھٹیاں چلتی رہی ہوں وہاں تو خاک کی جگہ راکھ ہی اُڑے گی۔ ‘‘بات کا ڈھب بتا رہا تھا کہ ہمیں مخبری ہونے کے بعد اسے بھی مخبری ہوگئی تھی۔ سو بڑے سے بڑے مخبر پر ایسا وقت آ ہی جاتا ہے۔ پر یہ خادو توبہ! ایک بار آیا۔ بولا: بیس سیر افیون کا کیس ہے میں نے کہا۔ بھنگ پی کے تو نہیں آئے۔ بولا قسم ہے محکمہ آبکاری کی، پوری بیس سیر افیون ہے۔ اب آپ سوچئے کہ بیس سیر افیون میں سولہ سو تولے افیون ہوتی ہے اور ہم نے ایک ایک چھٹانک افیون کے مقدموں میں آدھے آدھے صفحے کی شاباشیاں لی ہیں۔ میں یونہی دل لگی کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔ اسٹیشن پر پہنچا، گاڑی آئی، سیکنڈ کے ایک ڈبے میں ایک سوٹڈ بوٹڈ مسافر بیٹھا تھا۔ خادو نے کہا: یہی ہے۔ سپاہیوں نے مسافر کو گھیرے میں لے لیا۔ سامان کی تلاشی ہوئی تو چار بکسوں کے خفیہ پیندوں میں پانچ پانچ سیر افیون پڑی مہک رہی ہے۔ ضلع میں دھوم مچ گئی۔ اخبارو ں میں خبریں چھپیں اور آبکاری کی نوکری کا مزا آگیا۔ اسی مقدمے پر میرے لیے پانچ سو روپے کے انعام کی سفارش ہوئی تھی۔ سو اس خادو کو بالکل سچا موتی سمجھئے۔ ایسے ایمان دار مخبر ذرا کم ہی ملتے ہیں کیوں خادو۔ اس اللہ بخش چنڈ و والے کا کیا بنا’’۔

خادو بولا: ‘‘اللہ نگہبان ہو وہ تو سائیں ابھی میں یاری ہی لگا رہا ہوں۔ چار بار سال سال کی قید بھگتی ہے تو اب بڑا کایاں ہوگیا ہے۔ جانے چنڈو کی شیشی کہاں رہتی ہے۔ حرام زادہ ہوا ہی نہیں دیتا۔ ایک بار اسے میرے ہاتھ میں شیشی دینے کا اعتبار آجائے۔ پھر دیکھئے کیسے شکرے کی طرح جھپٹتا ہوں۔ کل کہہ رہا تھا مجھے ان آس پاس کی قبروں والوں کی قسم! تو مجھے بڑا گھنا لگتا ہے۔ میں نے کہا: چنڈو پیتا ہوں تو کیا گھنا بھی نہ لگوں۔ ہنس دیا پر بڈھے کا ایمان مجھ پر جم نہیں رہا۔ میں بھی سوچتا ہوں کہ آخر کب تک ، صبر کا پھل تو آخر خدا دیتا ہی ہے۔ ایک دن اڑنگے پر لا کے ایسا ماروں گا کہ دن کو تارے نکل آئیں گے۔ اللہ نگہبان ہو’’۔

‘‘اور یہ دلاسہ سنگھ ہے’’۔ لالہ تیج بھان نے ادھیڑ عمر کے سکھ کی طرف اشارہ کیا۔

دلاسہ سنگھ نے میری طرف دیکھا ہی نہیں۔ وہ انسپکٹر کی طرف ہی دیکھتا رہا اور پھر اچانک تڑپ کر خادو سے بولا: ‘‘ابے اُوپر کیوں چڑھا آرہا ہے، ہٹ کر کھڑا ہو۔ لالہ جی کو بات کرنے دے’’۔

مگر لالہ جی نے سوائے اس کے کوئی بات نہ کی کہ ‘‘اس کی تعریف تو میں کر ہی چکا ہوں، میرا خاص الخاص آدمی ہے’’۔

دلاسہ سنگھ کے تیور بتا رہے تھے کہ اسے ٹرخا دیا گیا ہے۔ اس نے نچلے ہونٹ کے دانتوں میں دبا کر ڈاڑھی میں دو انگلیاں ڈالیں اور ٹھوڑی کو چھرر چھر رملا۔ پھر مجھے سلام کیے بغیر لالہ تیج بھان کے پیچھے پیچھے ان کے کمرے کی طرف جانے لگا۔

مجھے چند روز دفتر کی فضا اور بڑے بڑے رجسٹروں اور منشیات کے ٹھیکہ داروں سے مانوس ہونے میں لگے اور اپنے حلقے کے دُوردراز کے بعض قصبات میں بھنگ اور افیون کے ٹھیکوں کا معائنہ بھی کر آیا۔ ایک روز میں ایک ٹھیکہ دار کے ہمراہ ایک تانگے میں دفتر جا رہا تھا کہ میں نے کوچوان سے کہا: ‘‘بھئی خدا کے لیے تانگا احتیاط سے چلانا۔ تم تو سگریٹ میں چرس پی رہے ہو’’۔کوچوان نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ مسکرایا اور بولا: ‘‘پی تو رہا ہوں بابو، پر آج ہی تو نہیں پی رہا۔ برسوں سے چرس بھی چل رہی ہے اور تانگا بھی چل رہا ہے’’۔

ٹھیکیدار نے پاگلوں کی طرح میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور پھر کچھ اس قسم کی بے ہنگم آوازیں نکالیں جیسے مجھے کسی شعر پر داد دے رہا ہے۔ ‘آہاہاہا۔ واہ مزا آگیا’’۔ وہ بولا۔ ‘‘تیس برس ہوگئے آبکاری والوں سے نمٹتے ہوئے، پر بھگوان کی قسم! ایسا داروغہ آج ہی دیکھا کہ نوکری شروع ہوئے مہینہ بھی نہیں گزرا اور چرس کی بو پہچان لی۔ حد ہوگئی’’۔

ٹھیکیدار کی دادِ تحسین نے کچھ ایسا پھلا دیا کہ میں تانگے ہی میں بیٹھے بیٹھے انسپکٹر بن گیا مگر جب دفتر میں آکر چوتھے ہفتے کی ڈائری انسپکٹر کی خدمت میں پیش کی تو وہ بولے: ‘‘یہ آپ سیروسیاحت ہی کرتے رہیں گے یا کبھی کوئی مقدمہ بھی پکڑیں گے؟’’

‘‘مخبری ہوگی تو پکڑ لوں گا’’۔ میں نے اطمینان سے کہا۔‘‘اور اگر مخبری نہ ہوئی تو؟’’ لالہ تیج بھان نے پوچھا۔‘‘تو مجبوری ہے’’۔ میں نے اپنی طرف سے منطقی لحاظ سے معقول جواب دیا۔

مگر لالہ تیج بھان کو غصہ آگیا۔ ‘‘تو صاحب اس طرح گورنمنٹ بھی آپ کو نوکری سے جواب دینے پر مجبور ہوجائے گی’’۔

‘‘یعنی مخبری نہ بھی ہو، جب بھی کہیں سے کسی کو پکڑ لاؤں؟’’‘‘جی ہاں’’۔ لالہ بولے۔‘‘کمال ہے’’۔ میں نے بے بسی سے اپنے تعجب کا اظہار کیا۔‘‘کمال ہے’’۔ مجھے دوسرے روز پھر اسی تعجب کا اظہار کرنا پڑا کیونکہ ڈپٹی کمشنر نے بھی میری ڈائری پر دستخط کرتے ہوئے مجھے میری سستی اور کاہلی کے سلسلے میں ‘‘وارننگ’’ دے ڈالی تھی۔

لالہ تیج بھان نے نرمی سے کہا: ‘‘یہ کوئی خاص بات نہیں۔ شروع شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مدتوں سے خادو میرے پاس نہیں آیا۔ جانے بیمار ہوگیا یا کہیں باہر چلا گیا۔ وہ آجائے تو میں اسے آپ کے حوالے کردوں کہ کوئی بھنگ ونگ ہی کا کیس پکڑوا دے۔ میرے لیے تو صرف دلاسہ سنگھ کافی ہے۔ اپنے چپڑاسی کو شہر میں بھیجے کہیں سے خادو کو ڈھونڈ لائے۔ کسی تکیے میں پڑا ہوگا۔ مرے گا نہیں۔ چرسی لوگ آسانی سے نہیں مرتے’’۔ میں نے چپڑاسی کو حکم دیا کہ خادو کو ڈھونڈ لاؤ اور جب میں شام کو گھر پہنچا تو خادو میرے ملازم کے پاس بیٹھا اپنی آنکھوں میں گھستی ہوئی مکھیاں اُڑا رہا تھا اور اس کے سر کی منڈی ہوئی مستطیل پر گرد جمی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی فرشی سلام کیا، اور پھر رونے لگا۔

میں اسے باہر برآمدے میں لے آیا اور ایک کھاٹ پر بٹھا کر پوچھا: ‘‘بیمار ہو کیا؟’’

‘‘آپ تو سائیں بھولے بادشاہوں کی سی باتیں کرتے ہیں’’۔ وہ بولا: ‘‘بیماری کو مجھ سے کیا لینا ہے۔ میں تو ایک عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں سائیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ بیچارے سے کون سا گناہ ہوگیا جس تکیے پر جاؤں دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہوں۔ اللہ بشک چنڈ و والے پر آدھے مہینے سے ہاتھ پھیر رہا تھا پر اس کے پاس پرسوں گیا تو وہ بولا: ‘‘جا جا حرام زادہ مخبر کہیں کا۔ چنڈو پینے آتا ہے۔ صورت تو دیکھو چنڈو پینے والے کی۔ چنڈو تو بادشاہوں کا نشہ ہے اور پھر میں کہتا تھا نا کہ تو مجھے گھنا لگتا ہے۔ تیری آنکھوں میں حرص ہے ۔ آج کے بعد میرے تکیے میں آیا تو قبر میں زندہ گڑوا دوں گا۔ قبروں میں تو رہتا ہی ہوں’’۔ سو سائیں اللہ نگہبان ہو۔ یہ کہتا تھا وہ۔ میں تو بالکل اشتہار بن گیا ہوں۔ جو دیکھتا ہے پڑھ لیتا ہے۔ بھنگ کا مقدمہ میں نے آج تک نہیں پکڑوایا۔ اس لیے کہ بیچارے بوٹی بیچنے والے پیسے دو پیسے ہی کا تو سودا کرتے ہیں۔ پر میں نے تنگ آکر کہا: لاؤ اللہ یار بھنگ والے کو ٹٹولوں۔ میں وہاں گیا۔ کونڈی میں گھنگھرؤں بھر ا موسل چھما چھم چل رہا تھا۔ میں نے کہا: وقت پر پہنچے۔ اکنی کا مونگرا دے ڈالے تو فوراً آپ کے پاس پہنچوں اور بسم اللہ تو کراؤں۔ وہ مجھے دیکھ کر بولا۔ ‘‘آؤ بھئی خادو کیسے ہو۔ تم تو بڑے بڑے نشوں کی دنیا میں رہتے ہو۔ ہمارے یہاں تو تمھارا مدتوں بعد آنا ہوتا ہے۔ لاؤ تمھاری ذرا سی خاطر کر دوں’’۔ اور سائیں پتہ ہے اس نے میری خاطر کیسے کی؟ اُٹھا، اپنی ہی صورت کے دو کتے کھولے اور مجھ پر ہشکار دیئے۔ یہ پنڈلی کا زخم دیکھا ہے آپ نے؟’’ اس کی پنڈلی ٹخنے سے لے کر گھٹنے تک بانس کی طرح برابر چلی گئی تھی۔ اور ایک جگہ کتے کے کاٹے کا زخم تھا جس پر کھرنڈ آرہا تھا۔

وہ پھر رونے لگا اور رونی آواز ہی میں بولا: ‘‘سچ کہتا ہوں سائیں۔ میرا کوئی دشمن پیدا ہوگیا ہے ورنہ میں تو ہمیشہ جس تکیے میں گیا دنوں میں اعتبار جما لیا۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک تکیے پر استاد کو پکڑایا اور دوسرے دن اسی تکیے پر استاد کے خلیفے سے چرس خریدنے چلے گئے اور کسی نے شبہ بھی نہ کیا کہ اسی نے کل استاد کی بکری بٹھائی تھی۔ میں تو مارے شرم کے آپ کے پاس نہیں آیا۔ میں نے کہا: ادھر لالہ جی مجھے اتنا بڑا مخبر بتا رہے ہیں اور ادھر مجھ پر کتے چھوڑے جا رہے ہیں۔ میں حلالی تو جب تھا کہ ادھر آپ آئے تھے ادھر ایک کیس دے کر آپ کی پہلی ڈائری ٹھاٹھ سے بھرواتا، پر سائیں۔ اللہ نگہبان ہو۔ میری روزی پر کوئی ضرور لات مار رہا ہے۔ پتہ چلے تو___ ’’اور ایک لمبی دائرے دار گالی بک کر آنسو پونچھنے لگا۔

خادو کے آنسوؤں کا جادو مجھ پر نہ چل سکا۔ کیونکہ میرے لطیف احساسات پر تو ڈپٹی کمشنر کی ‘‘وارننگ’’ سوار ہوگئی تھی۔ میں نے اسے تسلی دے کر چلتا کیا اور سیدھا انسپکٹر کے ہاں جانکلا وہ اس وقت انگریزی شراب کے ٹھیکہ دار کی بیٹی کی شادی میں شمولیت کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ مجھے یوں بے وقت اپنے ہاں دیکھا تو ایک کونے میں لے جاکر بولے: ‘‘کوئی کیس ملا ہے؟’’‘‘کیس کہاں ملا ہے لالہ جی’’۔ میں نے کہا: ‘‘خادو ملا ہے؟’’

‘‘خادو ملا ہے تو سمجھئے کیس مل گیا’’۔ وہ اپنی نکٹائی کی جھریاں درست کرتے ہوئے مسکرائے۔ میں نے انھیں خادو کی بے بسی کی تفصیل بتائی تو وہ کچھ دیر تک ایک بوٹ کی ٹوکو کدال کی طرح زمین پر مارتے رہے۔ پھر بولے: ‘‘بات سمجھ میں نہیں آرہی’’۔ پھر دوسرے بوٹ کی ٹو سے تھوڑی سی مٹی کھودی اور بولے: ‘‘فکر نہ کیجیے۔ میں کوئی انتظام کر دوں گا۔ کیس نہ ملے تو کیس پیدا کرنا چاہیے’’۔ پھر مجھے حواس باختہ دیکھ کر بولے: ‘‘یہاں یونہی چلتا ہے صاحب۔ بڑے افسر یہی دیکھتے ہیں کہ کیس نہیں ملا۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کیوں نہیں ملا’’۔

میں کھویا کھویا سا گھر واپس آگیا۔ ایک دو روز خادو کے انتظار میں گزرے تیسرے روز میں دفتر جانے کو تیار بیٹھا تھا کہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے دلاسہ سنگھ کھڑا تھا۔ بولا: ‘‘چلئے ایک کیس پیش کردوں’’۔

میں نے کہا: بھئی دلاسہ سنگھ تم تو لالہ جی کے کوٹے میں شامل ہو۔ میرے حصے میں تو خادو آیا ہے’’۔بولا: ‘‘لالہ جی کی اجازت سے آیا ہوں۔ سنا ہے خادو پر تو تکیوں والے کتے چھوڑ رہے ہیں۔ مخبر کا پردہ ایک بار اُٹھا تو مرتے دم تک کے لیے ننگا ہوگیا۔ ہمارا کاروبار شراب کی بھٹیوں کا ہے۔کل ایک بھٹی پر ریڈ ہو رہا ہے۔ لالہ جی نے کہا: جاتے جاتے آپ کی ڈائری بھروا دوں۔ چنڈو کا کیس ہے میں ان گندے نشوں کی دنیا میں اب تک نہیں آیا تھا، پر آپ بھی ہمارے افسر ہیں اور سنا ہے صاحب ضلع نے آپ کو ڈانٹا ہے۔ سو اس نے صرف آپ کو نہیں ڈانٹا۔ دلاسے کوبھی ڈانٹ دیا ہے اوردلاسا زہر پی لے گا ، پر ڈانٹ نہیں پئے گا۔ اس وقت اینٹوں پر سر رکھے سب غٹ پڑے ہیں۔ راستے میں چار سپاہی لیجیے۔ میں چنڈو خرید کر اشارہ کردوں گا۔ پھر آپ جانیں اور آپ کا کام’’۔

چھاپہ کامیاب رہا۔ پانچ ملزموں کا چالان ہوا اور میری ڈائری پر ڈپٹی کمشنر نے مجھے ‘‘گڈ’’ دیا۔

اس کے بعد ایک ہی مہینے کے اندر میں نے بھنگ کے چار، افیون کا ایک اور چرس کے دو کیس پکڑے اور ان سب کا مخبر دلاسہ تھا۔ ایک کیس میں چرس ذرا سی کم تھی۔ دلاسے نے کہا: آپ استغاثہ تو لکھئے۔ استغاثے کے آخر میں جب میں نے چرس کا وزن پوچھا تو دلاسہ بولا۔ تول لیجیے۔ چرس تولی گئی تو سابقہ وزن سے ایک تولہ زائد نکلی۔ میں نے حیران ہوکر دلاسے کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے آنکھ مار دی اور میں نے استغاثہ کو ملزموں سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔

اس دوران میں ایک بارخادو سے سرِراہے ملاقات ہوئی۔ کان پر سگریٹ کا ایک ٹکڑا رکھے وہ ایک دیوار کا سہارا لیے کھڑا تھا۔ مَیں نے مزاج پوچھا تو بولا: ‘‘دَمہ ہوگیا سائیں۔ سانس پیٹ میں سما نہیں رہا۔ ہَوا کا اتنا بڑا گولہ یہاں چھاتی میں گھس گیا ہے۔ اللہ نگہبان ہو’’۔ پھر وہ رونے لگا۔

مجھے دھڑادھڑ کیس مل رہے تھے اس لیے اس کے آنسو اس کے گالوں کے گڑھوں ہی میں بہہ گئے۔ میرے دل پر نہ ٹپک سکے۔ میں نے کہا: ‘‘روتے کیوں ہو؟ محنت کرو۔ سارا ملتان پڑا ہے۔ تم تو صرف چار پانچ تکیوں سے نکالے گئے ہو اور یہاں ملتان میں تو ہر دسویں مکان کے بعد ایک تکیہ ہے’’۔

اچانک اس کے تیور بدل گئے۔ اس کی پتلیوں کے گدلے پن میں ڈراؤنی سی چمک پیدا ہوئی اور اس کے سیاہ حاشیوں والے تربوز کے بیجوں کے سے دانت ایک ساتھ نمایاں ہیں۔ یہ سب میرے مقدمے تھے۔ پر وہ حرام زدہ مجھے لوٹ لے گیا اور اسی نے میری مخبری کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ اب میں مقدمے تو کیا پکڑواؤں گا۔ ہاں یہ دمہ دُور ہو تو ایک چھرا دلاسے کے پیٹ میں اُتارنے کا بڑا ہی شوق ہے’’ اور وہ مجھے سلام کیے بغیر سیٹیوں بھری کھانسی کے دھکے کھاتا ہوا مخالف سمت کو رینگ گیا۔

چند روز بعد میں دفتر سے گھر آیا تووہ میرے ملازم کے پاس بیٹھا ایک ہاتھ سے آنکھوں میں گھستی ہوئی مکھیاں اُڑا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں گڑے ہوئے سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کے لیے مسلسل چٹکیاں بجا رہا تھا۔ مجھے دیکھا تو پہلے خوب رویا اور پھر بولا: ‘‘تین دن سے بھوکا بھی ہوں سائیں اور نشہ بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ نشہ تو خیر آپ کیا پورا کرائیں گے ۔ چپہ بھر روٹی مل جائے تو دلاسے کا پیٹ چاک کرنے کے لیے کچھ روز اور زندہ رہ جاؤں۔ اللہ نگہبان ہو’’۔

میں نے ملازم کو الگ لے جاکر کہا کہ وہ خادو کو کھانا کھلا دے اور پھر اسے چلتا کردے۔ اس نے ایسا ہی کیا مگر دوسرے تیسرے دن وہ پھر موجود تھا۔ رونے سے پہلے بے حیاؤں کی طرح مسکرایا تو میں نے دیکھا کہ اس کے نیچے کے دو دانت غائب ہیں۔ پھر ایک دم مجھے محسوس ہوا کہ وہ چھلا بھی اس کے کان کی لو میں موجود نہیں، جو استاد نے ضرورت سے زیادہ بھنگ پینے کی خوشی میں اسے دے ڈالا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو رونے لگا۔ بولا: ‘‘نشہ ٹوٹ رہا تھا اور آپ جانیں نشئی گردن تڑوا لے گا پر نشہ نہیں ٹوٹنے دے گا۔ میں نے دانتوں اور کان کے دونوں تار بیچ کر سگریٹ بھر چرس لے لی۔ آدھی یہ میرے کان پر رکھی ہے۔ میں نے سوچا اکھڑے ہوئے دانتوں کو کوئی کب تک تار میں جکڑے پھرے۔ کبھی کسی نے مرے ہوئے گھوڑوں کو بھی اصطبل میں باندھا ہے۔ رہا استاد کا دیا ہوا چھلا، سو اب کاہے کو مٹکوں بھنگ پینے کا اشتہار لیے پھروں۔ جب بوٹی کا ایک منگرا بھی نصیب نہیں ہوتا اللہ نگہبان ہو’’۔

میں نے اس سے آنے کا سبب پوچھا تو آنکھیں پونچھ کر بولا: ‘‘وہی چپہ بھر روٹی کے لیے آیا ہوں سائیں’’۔میں نے جل کر کہا: ‘‘کیا میں نے یہاں لنگر کھول رکھا ہے کہ چرسیوں لوفروں کو روزانہ کھانا ٹھنساتا پھروں۔ تم مخبر ہو، مخبری کرنا چاہو تو کرو اور سرکار سے انعام لو ورنہ مجھے بخشو۔ میں آبکاری کے ان داروغوں میں سے نہیں ہوں کہ اکنی کی بھنگ کے مقدمے کی خاطر مخبروں کو ہفتوں مہمانیاں کھلاتے رہیں۔ اگر کوئی کیس نہیں دے سکتے تو جاؤ کسی تکیے میں پڑ رہو’’۔ پھر میں نے وہیں سے ملازم کو حکم دیا کہ آئندہ خادو کو میری اجازت کے بغیر گھر میں نہ گھسنے دے۔

وہ اس تمام دوران میں پلکیں جھپکے بغیر میری طرف دیکھتا رہا اور جب میں ملازم کو ہدایات دے چکا تو وہ آہستہ سے بولا: ‘‘اجازت ہے؟’’میں نے کہا: ‘‘تو اور کس طرح اجازت دی جاتی ہے؟’’‘‘اللہ نگہبان ہو’’۔ وہ بولا۔ اور چپکے سے باہر نکل گیا۔

دوسرے روز دلاسہ سنگھ نے مجھے ناجائز شراب فروشی کا ‘‘دو بوتلی’’ کیس پکڑوا دیا۔ میں استغاثہ لکھ کر اور ملزم کو پولیس کے سپرد کر کے گھر آیا تو خادو باہر دروازے سے لگا بیٹھا تھا اور میرے ملازم نے اندر سے زنجیر چڑھا رکھی تھی۔میں نے چھوٹتے ہی کہا: ‘‘دیکھو خادو مجھ پر تمھارا جادو ذرا مشکل ہی سے چلے گا۔ میں دیکھ چکا ہوں تم کتنے پانی میں ہو۔ تم سے ایک بار کہہ چکا ہوں کہ میں نے چرسیوں، لوفروں کے لیے___’’‘‘ایک کیس ہے’’۔ وہ کچھ یوں بولا۔ جیسے ٹین کی چادر پر کنکر گر پڑے ہیں۔‘‘کیس ہے؟’’ گرمی سے نرمی کی طرف پلٹتے ہوئے میرے ذہن کو صرف یہی الفاظ سوجھے اور میرے سامنے آنے والے ہفتے کی ڈائری کے ورق کھل گئے۔‘‘جی’’۔ وہ اسی طرح بیٹھے بیٹھے ٹن سے بولا۔‘‘کیا کیس ہے؟’’‘‘چھوٹا سا کیس ہے۔ ایک آدمی بھنگ بیچ رہا ہے۔ پر کیس تو ہے سائیں’’۔‘‘ہاں کیس تو ہے’’۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ ‘‘کہاں ہے؟’’‘‘کالے منڈی میں’’۔‘‘کب چلیں؟’’

‘‘ابھی چلئے۔ نیا نیا آدمی ہے۔ وقت بے وقت کی پروا ہ نہیں کرتا۔ جب جایئے ٹکے میں منگرا خرید لیجیے۔ آپ نے انگریزی سوٹ پہن رکھا ہے۔ پر وہ آپ کو بھی دے دے گا۔ بڑا ہی بھولا آدمی ہے۔‘‘تو پھر چلو’’۔

‘‘چلئے، اللہ نگہبان ہو’’۔ وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ اُٹھا اور پھر جیسے چکرا کر دیوار کا سہارا لے لیا۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں اور گھٹنے کانپنے لگے۔ پھر اس پر کھانسی کا ایک دورہ پڑا اور وہ کمان کی طرح دوہرا ہوکر دیر تک کھانستا رہا۔ حتیٰ کہ کھانسی اس کے حلق سے سیٹیاں اور چیخیں بن کر نکلنے لگی۔میں دروازہ کھلوا کر اندر سے ایک مونڈھا اُٹھوا لیا مگر اس نے دھونکی کی طرح چلتی ہوئی سانسوں میں کہا: ‘‘نہیں جی، اس کی ضرورت نہیں، اللہ نگہبان ہو’’۔پھر وہ سیدھا ہوگیا۔ آستین سے آنکھیں پونچھیں کان پر سے سگریٹ کا ٹکڑا اُٹھا کر مجھ سے دیاسلائی مانگی اور سگریٹ جلا کر بولا: ‘‘چلیے’’۔

تھانے تک اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ صرف سگریٹ پیتا اور چرس کی بو پھیلاتا رہا۔ ہم تھانے کے پاس پہنچے تو وہ ایک بار پھر زور سے کھانسا اور اس کی ہر سانس کے ساتھ اس کے حلق سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے کچھ دُور سے آرہ کش ایک ساتھ لکڑیاں چیر رہے ہیں۔ میرے چہرے پر تردد کے آثار دیکھ کر وہ فوراً بولا: ‘‘اس کھانسی اور اس کھانسی میں بڑا فرق ہے سائیں۔ وہ کھانسی دمے کی تھی۔ یہ کھانسی چرس کی ہے۔ اس سے سینہ پھٹتا تھا۔ اس سے نشہ پاؤں کے ناخنوں سے ماتھے کی ٹھیکری تک پھیلتا ہے فکر کی بات نہیں۔ اللہ نگہبان ہو’’۔

تھانے سے میں نے پولیس کے چند سپاہی ساتھ لیے اور کالے منڈی کا رُخ کیا۔ بہت سی نیم تاریک اور سیلی سیلی گلیوں میں سے گزرنے کے بعد وہ رُکا۔ اس نے اپنے ہڈیوں بھرے ہاتھ سے میرا ہاتھ دبایا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا: ‘‘وہ سامنے جو دروازہ کھلا ہے نا اس میں آپ داخل ہوجایئے۔ سپاہیوں کو باہر رہنے دیجیے۔ آپ خود جاکر ٹکے کا منگرا خرید لیجیے۔ کیس یوں آپ کے سامنے رکھا ہے جیسے میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ چلئے___ بسم اللہ کیجیے، اللہ نگہبان ہو’’۔

وہ پلٹ کر گلی کے موڑ کی طرف رینگ گیا اور میں اس کے مشورے کے مطابق کھلے دروازے میں سے اندر داخل ہوگیا۔ خاصی معتبر صورت کا ایک آدمی پانچ آدمیوں کے درمیان بیٹھا نئے نئے موسل سے نئی نئی کونڈی میں بھنگ گھوٹ رہا تھا اور پانچوں آدمی مٹی کے نئے نئے مونگروں میں بھنگ پی رہے تھے۔ ایک طرف دو نئے نئے گھڑے رکھے تھے جن کے دہانوں پر سرخ ململ کی نئی نئی صافیاں بندھی تھیں اور چھوٹے سے آنگن کے ایک کونے میں تین کالے کالے بچے کھجور کی گٹھلیوں سے کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔معتبر صورت آدمی میری طرف دیکھ کر ذرا سا چونکا اور موسل چلانا بند کر دیا۔ مگر جب میں نے مسکرا کر بوٹی کا ایک منگرا طلب کیا تو اس نے اپنے نیچے سے پیڑھی نکال کر میری طرف بڑھا دی اور مجھے بیٹھنے کو کہا: ‘‘بسم اللہ’’۔ وہ بولا۔ ‘‘خشخش والی کہ سادہ؟’’

‘‘سادہ’’ میں نے کہا تاکہ دیر نہ لگے اور گلی میں کوئی آتا جاتا پولیس کے سپاہیوں کو نہ دیکھ لے۔ ایک منگرا اُٹھا کر اس نے ایک گھڑے کو جھکایا جس میں دڑ دڑ کی آوازیں پیدا ہوئیں۔ گھڑا بھنگ سے لبریز رکھا تھا۔ ایک اکنی جس پر میں نے پہلے سے چاقو کی نوک سے اپنے دستخط کر رکھے تھے۔ اس کی طرف پھینک کر میں نے منگرا ہاتھ میں لے لیا اور مجوزہ منصوبے کے مطابق کھانس دیا۔ سپاہی لپک کر آئے اور ملزم کے چہرے پر سے لے کر اس کے ہاتھوں کے ناخنوں تک پر ہلدی کھنڈ گئی۔ میں نے بھرے ہوئے دونوں گھڑوں کو سربمہر کرکے استغاثہ لکھا اور ملزم میراں بخش کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ تینوں بچے چیخ چیخ کر روتے ہوئے میراں بخش کی ٹانگوں سے چمٹ گئے۔ ایک عورت کو ٹھے سے نکل کر بین کرنے لگی۔ آس پاس کی چھتوں پر بکھرے بالوں اور میلے چہروں والی عورتوں کے ٹھٹ لگ گئے اور میراں بخش ہکابکا کھڑا سامنے کھلے دروازے سے پار دیکھتا رہ گیا۔

دوسرے روز میں دفتر گیا تو خادو پہلے سے دروازے میں موجود تھا۔ میں اندر کرسی پر جا کر بیٹھا تو وہ بھی اندر آگیا اور میرے قریب ہی فرش پر بیٹھ کر بولا: ‘‘کیس کیسا تھا سائیں؟’’

‘‘بہت اچھا تھا’’۔ میں نے کہا۔ ‘‘پورے دو گھڑے لبالب بھرے رکھے تھے’’۔ ‘‘پورے دو گھڑے؟’’ وہ ضرورت سے زیادہ حیران نظر آنے لگا۔ذرا سا وقفے کے بعد وہ بولا: ‘‘ایک بات کہوں سائیں’’۔‘‘کہو’’ ۔ میں نے کہا۔‘‘اللہ نگہبان ہو’’۔ وہ بولا ‘‘میرا ں بشک کے ساتھ ذرا سی رعایت ہوسکے گی؟’’ ‘‘رعایت؟’’ میں نے پوچھا۔ ‘‘رعایت کیسی؟’’

‘‘بات یہ ہے سائیں’’۔ خادو میری کرسی کے ساتھ لگ کر میری پنڈلی دبانے لگا۔ ‘‘میراں بشک سے میں نے ہی یہ کام شروع کرایا ہے۔ بے چارا بالکل بھولا ہے۔ پہلے کھجوروں کی چھابڑی لگاتا تھا۔ نیا نیا ہے، قید نہ ہو، جرمانہ ہوجائے بس اتنی رعایت چاہیے’’۔

میں نے سب انسپکٹر آبکاری کی حیثیت سے کہا: ‘‘وہ ملزم ہے اور ملزم سے کوئی رعایت نہیں کی جاسکتی’’۔‘‘پر سنیے تو سائیں’’۔ خادو نے اچانک بچے کی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے کہا: ‘‘یہ میراں بشک میرا بڑا بھائی ہے نا۔ جرمانہ ہوجائے تو اس کو پکڑوانے کا مجھے جو انعام ملے گا اسے میں جرمانے میں دے دوں گا۔ اللہ نگہبان ہو’’۔

٭٭٭