میں نے ایک کٹر عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میری والدہ ہمیں ہر ہفتے چرچ میں لے جانے کی کوشش کرتی تھیں، جبکہ میرے والد ریاضی کے استاد تھے۔ وہ بہت مذہبی نہیں تھے۔ میں اپنی تعلیم کے دوران حیران و پریشان رہا کرتی تھی، کیونکہ محض رسم و رواج اور چرچ میں حاضری کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں ایمانیات اور توحید سے متعلق بعض ایسے سوالات آتے تھے، جن کا جواب چر چ کے پاس نہیں تھا۔ پھر میں نے ناروے کی اوسلویونی یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے شعبے میں داخلہ لیا۔ وہاں تاریخ اور تقابل ادیان کے لیے گہری نظر سے مطالعے کے باوجود میں اسلام کے متعلق بدظنی کا شکار رہی۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے میں نے جو کتابیں پڑھی تھیں، وہ صحیح نہیں تھیں، کیونکہ وہ مستشرقین کی لکھی ہوئی تھیں۔ آخر میں مجھے شیخ مودودیؒ کی کتاب ‘‘دینیات’’ پڑھنے کو ملی اور سید قطب مصری ؒ کی ‘‘معالم فی الطریق’’ کا انگریزی ترجمہ ملا، جن سے مجھے اپنے سوالات کا تسلی بخش جوا ب ملا۔ اس کے بعد میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا، جنھیں مسلمان علما نے لکھا ہے۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خریدا اور اس کی آیات پر غور و خوض شروع کر دیا۔ جب میں اسلام کے متعلق پوری طرح یک سو اور مطمئن ہوگئی تو اسلام مرکز گئی اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔
میرے رشتے داروں نے اسے معمول کی بات سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی، لیکن میری چند سہیلیوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا، خصوصاً جب میں نے یونیورسٹی میں حجاب کرنا شروع کر دیا تو بعض دوستوں نے میرے ساتھ بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
نئی چیز ہمیشہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے اور شروع میں یقینا بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اب تو پردہ عام ہو چکا ہے۔ مجھے مشکلات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کریں او راس راستے میں آنے والے مصائب کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ الحمد للہ! حجاب کے سلسلے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔
میں نے اپنی تمام سہیلیوں کو اسلام کی دعوت دی ہے اور ان میں سے بعض نے اسلام قبول بھی کر لیا ہے، لیکن میری شادی کے بعد کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ میرے خاوند مجھ سے کہتے ہیں کہ جب تم نے خیر کو پا لیا ہے تو اسے دوسرے تک بھی پہنچاؤ۔ عربی سیکھنے میں انھوں نے میری بڑی مدد کی۔ الحمد للہ، میرے پاس روزانہ کی مصروفیات تدریس، لیکچرز، ٹیلی ویژن پروگرام او ردیگر پروگراموں میں شرکت پر مشتمل ہیں۔
اولا کی تربیت سب سے اہم کام ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دیگر طلبہ کی طرح ہمارے بچے بھی سویڈش اسکول میں جاتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ آموختہ کرتی ہوں اور ان کے ساتھ گفتگو کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ عربی سیکھنے کے لیے ویڈیو کیسٹ دیکھتے ہیں۔ نمازوں اور ذکر کے اہتمام کے ساتھ سونے سے پہلے ہم انھیں کوئی ایک آدھ اسلامی قصہ سناتے ہیں اور بعض نصیحتیں کرتے ہیں۔ ہر ہفتے کے آخر میں عربی پڑھنے اور سیکھنے کی مشق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بچوں کے اخلاقی اور تعلیمی امور بہت اچھے ہیں او روہ عربی، سویڈش اور نارویجین، تینوں زبانوں میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
عورت مرد کی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد یکساں طور پر گھر، اولاد اور دعوت دین کے لیے کام کریں۔ موجودہ زمانے میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ گھر عورت کے لیے بنیادی او راہم ذمہ داری ہے، لیکن جاہل عورت کوئی کام بھی صحیح طرح نہیں کر سکتی۔ بچوں کی تربیت کے لیے زندگی اور معاشرے کے تجربات اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی خدمت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ تربیتی نظام خواتین کو مربی اور داعی بنانے کے بجائے انھیں ناکارہ اور پس ماندہ بناتا ہے۔ حالانکہ وہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں۔
میں نے قرآن کا اسکنڈی نیوین زبان میں ترجمہ شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فریضۂ حج ادا کرنے کی میری نیت ہے اور میں صحابیات کی تقلید کرتے ہوئے مسلمان عورت کی مدد کرنا چاہتی ہوں، تاکہ وہ اپنا فریضۂ منصبی فعال طور پر ادا کرے۔ اللہ میری مدد فرمائے او رہماری تمام کوششوں کو اپنی رضا کے لیے خالص کر دے۔ آمین!
سویڈن میں مختلف قوموں کی مسلمان خواتین رہتی ہیں، جن کا تعلق یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور عرب ممالک سے ہے۔ ہم نے خواتین کی خدمت اور دعوت اسلامی کے کام میں تمام مسلمان خواتین کو شریک کرنے کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی، تاکہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین آسانی سے ہمارے ساتھ رابطہ کر سکیں۔
خواتین لڑکیوں اور بچوں کے لیے ہفتہ وار عربی اور سویڈش زبان میں درس ہوتے ہیں۔ عورت کے مسائل اور ضروریات سے متعلق سیمینار اور ورک شاپس منعقد ہوتی ہیں۔ تربیتی کیمپ اور سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عورت کے مسائل، مشکلات اور اس کے حقوق کے دفاع کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت مند اور پناہ گزینوں کے لیے ہم فنڈز جمع کرتے ہیں۔
ہماری سرگرمیوں کے نتیجے میں پروگراموں کی نوعیت او رخواتین کی ضرورت کے مطابق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بوسنیا اور یورپ کی خواتین قرآن و حدیث کی تعلیمات سیکھنے میں دلچسپی لیتی ہیں، عرب خواتین بچوں کی تربیت او رکھانے پکانے سے متعلق لیکچرز میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جبکہ صومالی خواتین کی کوشش عربی سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں میاں بیوی کی تعلیمی قابلیت اور مقام ان کے رجحان کی سمت متعین کرتا ہے، لیکن ہماری مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ ہم عورت کی مکمل مدد کریں، تاکہ وہ دین کے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کام کے لیے بڑے صبر و ضبط کی ضرورت ہے۔
عورت کی آزادی کا نعرہ خرافات اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم خواتین کو یہ باور کروائیں کہ اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کیا کردار ہے، لیکن عورت کو اس اخلاقی دائرے سے باہر لا کر آزادی کی بات کرنا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے لیے بیچے یا اپنی اولاد کو مامتا کی محبت سے محروم کر کے انھیں خادموں کے حوالے کرے اور خود دوسروں کی خدمت کرے یہ ہمیں ہر گز منظور نہیں ہے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عصمت کی حفاظت کرتی رہے۔ اس طرح فطری امنگوں کی تکمیل ہوتی ہے اور خاندان کے افراد میں محبت اور الفت پنپتی ہے اور پورے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کی سویڈن آمد پر میں نے سویڈن ٹی وی پر تبصرہ کیا تھا۔ تسلیمہ نسرین کا کوئی علمی مقام نہیں ہے۔ ا س نے سیاسی پناہ اور سستی شہرت کے حصول کے لیے مغرب کو استعمال کیا ہے، حالانکہ وہ اپنے مخالفین اور حامیوں دونوں کی طرف سے اس قسم کے اہتمام کی ہر گز مستحق نہیں تھی۔ قرآن پاک اس زمانے کا معجزہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا، چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ا س طرح کے لوگوں کو اہمیت نہ دیں اور انھیں آزادی اظہار کے ہیرو نہ بنائیں۔ قرآن تو اس لیے آیا ہے کہ وہ غلاموں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے، لیکن مسلمانوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ قرآن پاک کو آزادی رائے کے نظریے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے نہ کہ جذبات اور اشتعال کا اظہار کیا جائے۔
مجھے پہلے پاکستان، سوڈان اور الجزائر میں خواتین کانفرس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کے علاوہ میں نے تین بین الاقوامی کانفرنسوں عمان، لاہور اور استنبول میں شرکت کی ہے۔ الجزائر میں منعقد ہونے والی خواتین کانفرنس مجھے پسند آئی، جس میں معروف داعیہ زینب الغزالی اور اردن سے سمیرہ نے شرکت کی۔ یہ میری تمنا ہے کہ کارکنان کی فعالیت اور ان کی سرگرمیوں کو مربوط اور فعال بنانے کے لیے خواتین کانفرنسوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی موجودہ صورت حال بہت ناتواں ہے اور میرے خیال میں یہ داعی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خواتین اور بیٹیوں کو اس میدان میں جلد کام کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ وہ اسلامی دعوت و تبلیغ کا کام اس طرح انجام دیں، جس طرح وہ اپنی دیگر ضروریات اور مسائل کے لیے کرتی ہیں۔
مجھے عمرہ ادا کرنے سے بہت سکون حاصل ہوا۔ میں مکہ اور مدینہ بار بار جانا چاہتی ہوں۔ جدہ شہر کی ترقی اور جدت بہت پسند آئی، جبکہ اردن میں معاشرتی زندگی اور بالخصوص خواتین کی صورت حال دیگر اسلامی ممالک کی نسبت قابل اطمینان ہے۔ جہاں عورت معاشرے میں اپنا حقیقی کردار ادا کر رہی ہے۔ عمان ایک خوب صورت شہر ہے، خصوصاً موسم بہار اور گرمیوں کے شروع میں ہر شہر کی اپنی خصوصیات ہیں، جبکہ مصر کے لوگ مشکل زندگی او رغربت کے باوجود بڑے صابر اور قانع ہیں۔ مراکش کی صورت حال بھی دیگر شہروں سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے قدرتی مناظر قابل ذکر ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ممالک میں دین بس روایات اور رسم و رواج کا نام ہے، ماسوا اس کے کہ نوجوانوں میں اسلامی احیا اور معمول کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ میں نے یہ دورہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے یہ کام پہلے نہیں کیا تھا، کیونکہ اگر میں عرب اور اسلامی ممالک کا دورہ اس سے قبل کر لیتی تو شاید پھر میں دین پر اتنی سختی سے کاربند رہنے والی نہ بن سکتی، کیونکہ مطالعے کے دوران کتابوں میں میں نے اسلامی افکار، عقیدے اور ثقافت و تمدن کی جو حسین صورت دیکھی تھی، وہ ان ممالک کے لوگوں کی زندگیوں میں مفقود نظر آئی، بلکہ بعض ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے، جو بالکل اسلامی روح کے خلاف تھے۔
٭٭٭