۲۰۰۳ میں ابھی موبائل فون کا رواج اتنا عام نہ ہوا تھا اس لیے ہم بغیر موبائل لیے ہی عمر ہ ادا کرنے چل دیے ۔ اس مبارک سفر میں میرے ساتھ ، میری اہلیہ اور ان کی والدہ محترمہ تھیں۔ میرا یہ تیسرا سفر جبکہ میرے ہم سفرو ں کا پہلا سفر تھا۔ صبح سویرے مکہ مکرمہ پہنچے اور عمر ہ ادا کرنے کے بعد ہوٹل میں آرام کیاجو کہ صفا مروہ کی طرف تقریباً پون کلومیٹر دور تھا۔اس طرف سے آتے ہوئے ہمارا گزر اس لائبریری کے قریب سے ہوتا تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کا گھرہوا کرتا تھا۔ عشا کی نمازکے لیے بھی ہم اسی طرف سے داخل ہوئے اور مسجد کے قریب پہنچ کر میں نے دونوں خواتین سے کہا کہ میں عشا کی نماز کے آدھ پون گھنٹے بعد اسی لائبریری کے قریب آپ کو ملوں گا۔ آپ خواتین کے حصے میں نماز ادا کریں اور یہاں سے نکل کر اس جگہ میرا انتظار کریں،پھر ہم اکٹھے ہوٹل جائیں گے ۔ چونکہ ان کو ہوٹل کا راستہ معلوم نہ تھااور نہ ہی ہمارے پاس ہوٹل کا کوئی کارڈ تھا اس لیے یہ اہتمام ضروری تھا۔میں اپنی طرف سے مطمئن ہو کر حرم ِ پاک میں داخل ہو گیا اور دونوں خواتین بھی عورتوں والے حصے میں نماز اداکرنے جا پہنچیں ۔وہاں ایک بار پھر میں نے انہیں وہ دروازہ دکھایا کہ جس سے نکل کر وہ بآسانی مقررہ جگہ پر پہنچ سکتی ہیں۔نماز اداکرنے اورطواف کرنے کے بعد میں حرم شریف کے دوسری جانب کسی اچھے ریستوران کی تلاش میں نکل گیا کہ جہاں سے پاکستانی کھانا مل سکے کیونکہ ہماری جانب یہ سہولت موجود نہ تھی۔ اس کام کو نبٹانے کے بعد میں کافی مسافت طے کر کے اپنی مقرر کردہ جگہ پرپہنچا کہ وہ دونوں میرا انتظار کر رہی ہوں گی مگر جب وہاں پہنچا تو وہاں وہ موجود نہ تھیں۔ میں نے سوچا نمازاور طواف میں دیر ہو گئی ہو گی اس لیے انتظار کرتا ہوں۔ چنانچہ میں وہیں بیٹھ کر انتظارکر نے لگا۔دس منٹ ، پندرہ منٹ ، آدھ گھنٹہ اور پھر ایک گھنٹہ گز ر گیا مگر وہ نہ پہنچیں۔اب تومجھے تشویش لاحق ہوئی کہ اتنی دیر تو نہیں ہو سکتی ۔ یہ سوچ کر کہ شاید وہ خود ہی ہوٹل پہنچ گئی ہو ں ،میں ہوٹل پہنچامگر وہاں بھی کمرہ خالی پایا اور ریسیپشن پر کلرک نے بتایا کہ وہ تو نہیں آئیں۔ اب تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ اسی پریشانی کے عالم میں، پھر واپس مقررہ جگہ پہنچا مگر وہاں پھر کچھ نہ پایا۔ اب میں اس جگہ پہنچاجہاں ان کو نماز کے لیے چھوڑاتھا ،وہاں کچھ عورتیں تو تھیں مگر وہ نہ تھیں۔ سوچ او رپریشانی کے عالم میں پھر واپس ہوا اور اسی گھر کے پاس جا پہنچا جہا ں کبھی اللہ کے آخری رسول ؐرہا کرتے تھے ۔پریشانی اور فکر اتنی گہری تھی کہ میں اس لمحے یہ تصور بھی نہ کرسکا کہ یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں سے رسول اللہﷺ یقینا مسجد حرام کی طرف جاتے ہو ں گے اور یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں ابوبکر ، عمر ، عثمان و علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور سے ملنے آتے ہو ں گے ۔ رشتوں کا بندھن بھی عجب بندھن ہے کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہماری محبت تو اصل میں ان رشتوں کے ساتھ پکی ہے اور اللہ اور رسول کے ساتھ بھی ہے مگرشاید کچی۔
اب میں نے پورے حرم کاچکر لگانا شروع کیا اور ہر اس جگہ کو غو رسے دیکھتاجو خواتین کے لیے مخصوص ہے۔مگر ہزاروں لوگوں میں نظر کیا آتا، بس نظریں چکراکر رہ جاتیں۔تھک ہار کر پھر طواف میں جا پہنچا اور بغیر طواف کی نیت کے چکر لگانے لگا۔ لوگوں کو غور سے دیکھتا اور چکر لگاتا رہتا کہ شاید کہیں نظر آ جائیں۔پھر حرم کے باہر آیا او رچکر لگانا شروع کردیا مگر بے کار۔ پھر صحن کعبہ میں پہنچا اور اللہ کے حضورسجدہ ریز ہو گیا کہ یا اللہ مدد فرما۔سوچا کہ میں یہ تو کر نہیں سکتا کہ حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر لاہور فون کروں اور کسی سے کہوں کہ جاؤ داتا صاحب جا کر میرے لیے دعا کرو۔میں تو کائنات کے مقدس ترین مقام پر موجود ہوں اور میر ا اللہ وہ اللہ ہے جو ہر واسطے اور وسیلے کے بغیر سنتا ہے ، سمجھتا ہے اور عطا کرتا ہے مجھے تو بس اللہ ہی سے کہنا ہے اور اسی سے مانگنا ہے ۔چنانچہ کبھی نفل پڑھ کر اور کبھی غلاف کعبہ کو تھام کر دعائیں کرتا رہا۔مگر ابھی امتحان کے لمحات باقی تھے ۔ اس لیے خواتین نہ مل سکیں۔اب میرے دل میں یہ خیا ل جاگزیں ہو گیا کہ وہ ضرور کسی حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال جا پہنچی ہیں ۔ معلوم نہیں زندہ ہیں یا مردہ۔ لیکن کس ہسپتال میں،یہ کیسے معلوم ہو ۔اور دوسرے ان کے پاس پاسپورٹ یا کوئی اور شناخت بھی موجود نہیں۔اس لیے انہیں لا معلوم سمجھ کر دفن کر دیا جائے گا او رہم ساری عمر ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے اسی بات کو میری اہلیہ نے بعد میں یوں بیان کیا کہ ہم نے افریقی خواتین کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھ کر سوچا کہ شاید اب ہمارا مقدر بھی یہی ہے کیونکہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہیں ، نہ ٹکٹ اور نہ ہی ملک واپس جانے کے پیسے ، ہمیں کون وطن واپس بھیجے گا۔
اسی اثنا میں رات کا ایک بج چکا تھا اور میں حرم کے ارد گرد اور اندر کئی چکر لگا کر بے حال ہو چکا تھا۔ واپس ہوٹل پہنچا لیکن بے حاصل۔وہاں ہو ٹل کے فون سے جدہ ایک دوست کو فون کیا اور ساری صورت حال بتا کر مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا ، پریشان نہ ہوں میں فجر حرم میں پڑھوں گا اور پھر دیکھتے ہیں۔اس نے بتایا کہ نماز کے فوراً بعد آپ فلاں دروازے پر آ جائیے گا۔ میں وہاں ہو ں گا۔ فون کر کے میں پھر واپس حرم میں آگیا۔تہجد کا وقت شروع ہو چلا تھااور حرم میں پھر رش ہو نے لگا تھا لیکن میں چکر پہ چکر لگا رہاتھا۔پریشانی ،فکر اور غم کے ساتھ ساتھ ایک احساس ِجرم سا بھی ہو چلا تھا ۔یوں لگتا تھا کہ جیسے میں نے خوداپنے ہاتھ سے کوئی چیز کہیں گرا کر گم کر دی ہو اور اب خاندان والوں کو کیا جواب دوں گا۔کبھی بچوں کے چہرے سامنے آتے کہ وہ پوچھیں گے کہ ہماری ماں کو کہاں گم کر آئے اور کبھی اہلیہ کے بہن بھائی سامنے آتے کہ وہ بھی یہی سوال کریں گے۔ اسی طرح گشت کرتے کرتے، روتے روتے اور دعائیں کرتے فجر ہو گئی ۔ نماز پڑھی اور جہاں میرے دوست نے کہا تھاوہاں جاپہنچا۔ اللہ کا شکر کہ وہ پہلے سے وہاں موجود تھا ۔اس نے تسلی دی اور ایک بار پھر ہم ان ساری جگہوں گا جائزہ لینے لگے کہ جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن کچھ نہ بنا ۔ سورج کافی نکل آیا تھا اور میں انہیں زور دے رہا تھا کہ اب ہمیں ہسپتالوں کا جائزہ لینا چاہیے ۔اس کے ذہن میں خیال آیا کہ یہاں حرم میں ایک گمشدہ لوگوں کا مرکز ہے وہاں بھی شکایت درج کرانی چاہیے ۔ چنانچہ ہم اس مرکز کی طرف چل پڑ ے جو کہ باب عبدالعزیز کی طرف تھا۔آٹھ بج چکے تھے ، ہم نے وہاں نام وغیر ہ درج کروائے تو وہ صاحب کہنے لگے کہ اس نام کی شکایت تو پہلے بھی درج ہو چکی ہے ۔اس نے نام ملائے تو وہ وہی تھے جو میں نے لکھوائے تھے ۔ اس نے کہا، لگتا ہے کہ یہ آپ ہی کی خواتین ہیں ۔او رانہوں نے تھوڑی دیر قبل آپ کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ گم ہو گئی ہیں ان کی مدد کریں۔اس نے بتایا کہ وہ فلاں جگہ ( باب عبدالعزیز کے پاس ) بیٹھی ہیں چنانچہ ہم بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو واقعی وہ د ونو ں پریشان حال ایک پتھر پر بیٹھی تھیں۔انہیں زندہ سلامت واپس پا کر جو خوشی ہوئی ، الفاظ انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔اس خوشی کو نہ اہلیہ بیان کر سکیں نہ میں بیان کر سکا۔ اور اس خوشی کوشاید لفظوں میں پڑھ کر محسوس بھی نہیں کیا جاسکتا ہاں البتہ وہ ضرور اس کو محسوس کر سکتا ہے جس کا کوئی عزیز کبھی بچھڑا ہو اور پھر مل بھی گیا ہو۔بعد میں اہلیہ نے بتایا کہ وہ نمازعشا کے بعد غلطی سے کسی اور دروازے سے باہر نکل گئیں نتیجتاً مطلوبہ جگہ تک نہ پہنچ سکیں ۔ساری رات وہ بھی ڈھونڈتی رہیں اور میں بھی۔صبح انہوں نے ایک بندے کو پاکستانی (جو کہ فیصل آباد کا تھا ) سمجھ کر اس سے بات کی کہ ہم گم ہو گئی ہیں کوئی طریقہ بتائیں تو وہ ان کو اس مرکز گم شدہ چھوڑ گیا۔
اس واقعے کو بہت سال بیت گئے لیکن آج بھی سوچتا ہوں کہ مجھے جو خوشی اس موقع پر ہوئی، اللہ کریم کو ( ایک حدیث کے مطابق ) اپنے بچھڑے ہوئے بند ے کی واپسی (گناہگار کی واپسی اور توبہ) پہ اس سے بھی کہیں زیادہ خوشی ہو تی ہے لیکن ہم ہیں کہ پھر بھی اُس کی طرف نہیں لوٹتے ۔ وہ تو ہر روز آخر شب اپنے بچھڑے اور گمشدہ بندوں کو آواز پہ آواز دیے جاتا ہے کہ میرے بندو کہاں بھاگے چلے جاتے ہو۔کیا میرے علاوہ بھی کوئی جائے پناہ ہے ؟آج لوٹ آؤ ، تو اس کی قیمت ہے ورنہ کل تو تم سب کو میری ہی طرف لوٹنا ہے مگر اس لوٹنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا کہ وہ تو تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فائدہ لَوٹنے والے کو ہوتا ہے، لوٹائے جانے والے کو نہیں۔تو ہے کوئی لَوٹنے والا۔۔۔!