گمان کا مفہوم
گمان سے مراد کسی فرد یا شے کے بارے میں اندازہ لگانا اورکوئی ابتدائی رائے قائم کرنا ہے۔ گمان کرنے کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ مثال کے طور پر یہ ظن اور تخمین ہی سائنسی دریافتو ں کا سبب بنتا، عدالتی کارروائی میں معاون ہوتا اور معاشرتی امور میں مدد فراہم کرتا ہے۔ لیکن گمان اس وقت تک کار آمد ہے جب تک علم کامل نہ ہوجائے۔پہلے انسان کا گمان یا اندازہ تھا کہ زمین مرکز کائنات ہے لیکن گلیلیو کی دریافت نے بتایا کہ زمین تو سورج کے گرد محو گردش ہے۔ اس سے یہ غلط گمان دور ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گمان اس وقت تک اہم ہے جب تک کہ اس کا پورا علم نہ حاصل کرلیا جائے۔اگر علم کامل ہوجائے تو یہی گمان یقین میں بدل جاتا ہے یا پھر رد ہوجاتا ہے۔مثال کے طو ر پر ایک محلے میں ایک عورت آکر بسی۔ وہ اکیلی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ باریک ریشم کا لباس پہنتی ، بہت تیز خوشبو کا استعمال کرتی اور اکثر چہرے پر پاؤڈر لگاکے رکھتی تھی۔وہ جب بھی باہر نکلتی تو محو نگاہ ہوتی۔ اسکے گھر کے سامنے گاڑیاں آکر رکتیں جن میں مرد حضرات اور بعض اوقات خواتین بھی آتیں۔ محلے میں کوئی اس سے تعلق نہ رکھتاتھا۔محلے والے چہ مہ گوئیاں کرتے اور اشاروں کنایوں سے اس عورت کے بارے میں اپنی بد گمانی کا اظہار کرتے۔ایک دن وہ عورت کئی دنوں سے باہر سودا لینے نہیں آئی تو لوگوں کو تشویش ہوئی۔ایک پڑوسن ہمت کرکے اس کے گھر پہنچ گئی، وہ بیمار تھی۔ پوچھنے پر اس عورت نے بتایا کہ وہ جلد کی بیماری میں مبتلا ہے اس لئے وہ ریشم کے کپڑے پہنتی ، بدبو سے بچنے کے لئے خوشبو لگاتی ہے۔ جو گاڑیاں آکر رکتی ہیں وہ سب اسکے امیر بہن بھائی ہیں جو اس کا حال احوال پوچھنے آتے ہیں۔یہاں آپ دیکھیں کہ جیسے ہی آپ کا علم مکمل ہوا ، آپ کا گمان یا بدگمانی ختم ہوگئی اور اسکی جگہ یقین نے لے لی۔
کثرت ِگمان کا مفہوم
کثرتِ گمان کا مطلب لوگوں کے قول فعل یا اشیاء کے بارے میں بہت زیادہ اندازے لگانا اور وہم کی بنیاد پر رائے قائم کرنا کی عادت ڈالنا ہے۔اس عادت کے نتیجے میں ایسے گمان پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے جو معاشرتی فساد کا سبب بنیں یا وہ اپنی ذات میں گناہ ہوں۔بہت زیادہ گمان کرنے سے روکنے کی وجہ مسلمان معاشرے کو توہمات سے بچانا، نفرتیں ختم کرنا اور باہمی اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیناہے۔ قرآن مجید کاارشاد ہے ۔‘‘ اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔’’ (الحجرات۔۹۴:۲۱)
اچھا گمان رکھنا
گمان کلیتاََ حرام نہیں بلکہ صرف وہ گمان ممنوع ہے جو گناہ ہو یا گناہ کا سبب بنے۔مثال کے طور پر کسی اجنبی سے مل کر یہ گمان رکھنا کہ یہ نیک ہی ہوگا۔یا راہ چلتے ہوئے کوئی دھکا لگنے پر یہ سمجھنا کہ غلطی سے ہوگیا ہوگا یہ خوش گمانی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ رب العزت فرماتا ہے میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہے اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں (میری رحمت) اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ [صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2308]
بدگمانی کا مفہوم
اس سے مراد کسی فرد یا شے کے بارے میں کوئی ایسی منفی رائے یا اندازہ قائم کرنا ہے جس سے اخوت اور بھائی چارے پر اثر پڑے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو۔۔(بخاری ، جلد سوم:حدیث ۴۰۰۱)
بدگمانی کے اسالیب
۱۔ کسی کی باتوں کا غلط مفہوم اخذ کرنا جیسے کسی نے کہا کہ احمد بہت اچھا انسان ہے۔تو آپ نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے برا انسان سمجھتا ہے۔
۲۔ کسی کے چہرے مہرے یا با ڈی لینگویج سے اندازے لگانا مثلاََ کسی کی کرخت شکل دیکھ کر یہ سمجھنا کہ کہ ضرور جرائم پیشہ ہوگا۔
۳۔ کسی کے فعل کو غلط طور پر لینا جیسے کوئی شخص اذان سن کر بیٹھا رہا اور آپ نے یہ گمان کرلیا کہ وہ بے نمازی ہے۔یا جیسے کسی شخص نے آپ کی بات کا جواب نہ دیا تو آپ نے گمان کیا کہ یہ مغرور ہے۔
۴۔ کوئی قیمتی چیز (مثلاََ سونے کی چین) رکھ کر بھول جانا اور پھر کام کرنے والی ملازمہ پر شک کرنا۔
۵۔ ساس کا بہو اور بہو کا ساس کو اپنا دشمن سمجھنا۔
۶۔ مذہبی لوگوں کا مخالفین کو کافر، منافق، بدنیت سمجھنا۔
۷۔ توہمات پر یقین کرنا جیسے ہاتھ کی لکیروں یا ستاروں کی چالوں سے زندگی کے معاملات طے کرنا۔
بدگمانی کے اسباب
۱۔ ادھورا علم: یہ گمان کی وجہ اور بدگمانی کا بنیادی سبب ہے۔جیسے ایک شفیق خدا کو دشمن گرداننا۔ اسکی بنیادی وجہ خدا کی شفقت کا ادراک نہ ہونا ہے۔
۲۔ منفی سوچ: اس کا مطلب کسی بات کے منفی پہلو کو مثبت پر ترجیح دینے اور مایوس ہونے کی عادت ہے۔مثال کے طور پر ساس کا مہربان رویہ دیکھ کر یہ سوچنا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔
۳۔ غلط فہمی: جیسے دور ڈبل سواری پر آنے والے دو شریف لڑکوں کو ڈاکو سمجھ لینا۔
۴۔ کسی متعین شخص سے نفرت یا شکایت: جیسے ہندوؤں یا یہودیوں کو ظالم ، بددیانت اور سازشی سمجھنا۔
۵۔ ماضی کا تجربہ :کسی پولیس والے کی زیادتی کی بنا پر پولیس کے محکمے کو ظالم خیال کرنا۔
۶۔ عدم تحفظ کا احساس: اندھیرے میں بھوت پریت کو محسوس کرنا۔
۷۔ انسانی یا جناتی شیطان کی وسوسہ انگیزی: کسی کے بہکاوے میں آکر بدگمانی کا شکار ہوجانا۔
بدگمانی کے نقصانات
۱۔ نفسیاتی بیماریاں ۲۔ باہمی نفرتیں ، رنجشیں، رقابتیں ۳۔ معاشرے میں انتشار ۴۔ لڑائی جھگڑا اور قتال ۵۔ خاندانی ، قبائلی، لسانی اور اداروں کی رقابتیں
بدگمانی کا علاج
۱۔ اگر مسئلہ اہم ہے تو معلومات میں اضافہ کر کے گمان کو خاتمہ کردیں۔
۲۔ دوسروں کے متعلق بہت زیادہ سوچنے اور بلاوجہ رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔
۳۔ اپنی منفی سوچوں پر قابو رکھیں اور کسی بھی ناخوشگوار خیال پر گرفت کریں۔
۴۔ اگر کسی کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے تو آخری حد تک بدگمانی سے جنگ لڑیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص نے آپ سے بد تمیزی سے بات کی اور آپ نے یہ سوچا کہ شاید یہ میرا دشمن ہے۔ تو یہ گمان کریں کہ وہ میرا دشمن نہیں اور ممکن ہے وہ کسی گھریلو پریشانی میں الجھا ہوا ہو جس کی بنا پر وہ لڑا ہو۔
۴۔ اپنا حق لوگوں کے لئے چھوڑنا شروع کریں۔
۵۔ لوگوں کو انکی غلطی پر معاف کرنا سیکھیں کیونکہ اگر غلطی آپ کی ہے تو معا فی کیسی؟
۶۔ یہ ایک دن کا کام نہیں۔ لہٰذا ناکامی کی صورت میں کوشش جاری رکھیں۔
سوچیے اور غور فرمائیے!
سوال نمبر۱: برطانیہ میں صبح جب لوگ اپنے دفتر جاتے ہوئے سگنل پر گاڑی روکتے ہیں تو خیر سگالی کے طور پرایک دوسرے کو مسکر ا کر دیکھتے ہیں۔ اگر پاکستان میں ایسا ہو تو لوگ عام طور پر کیا سمجھیں گے؟
سوال نمبر۲: نوجوان لڑکا اور لڑکی اسکوٹر پر بیٹھ کر جارہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر با لعموم لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیا سوچنا چاہئے؟
سوال نمبر۳: افضل نے گھر کی بیل بجائی، اندر سے ایک بچہ باہر آیا اور بولا ، ابو گھر پر نہیں ہیں۔ حالانکہ ابو کی گاڑی باہر کھڑی تھی۔ افضل کا گمان کیا ہونا چاہئے۔
سوال نمبر ۴: ٹیچر نے کلاس لینا شروع کی۔اچانک محسوس ہو ا کہ ایک لڑکا مسلسل آنکھ کو اس طرح حرکت دے رہا ہے جیسے وہ آنکھ مار رہا ہو۔ ٹیچر کو غصہ آیا اور اس نے لڑکے کو باہر نکال دیا۔ بعد میں لڑکے نے بتایا اسکی دائیں آنکھ کا پپوٹا خراب ہے اور یہ مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ ٹیچر نے سوری کہا۔کیا اس کیس میں ٹیچر کا رویہ درست تھا؟
سوال نمبر ۵: دو بھائیوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔کیا اس میں بدگمانی شامل تھی کہ وہ ڈاکو ہیں؟
کیس اسٹڈی:
غزالہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو اچانک ساتھ والے کمرے سے ساس کی سرگوشیوں کی آواز آئی۔ وہ اپنے شوہر سے باتیں کررہی تھیں۔ غزالہ کے کان کھڑے ہوگئے‘‘ ضرور میرے خلاف باتیں ہورہی ہیں’’۔اس نے سوچا۔ وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوگئی اور باتیں سننے لگی۔‘‘ یہ لڑکی تو پاگل ہوگئی ہے، یہ چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کو لے کر الگ ہو جائے’’۔ اس کی ساس نے کہا۔ غزالہ کا غصے کے مارے برا حال ہوگیا۔ وہ دوبارہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر پر برس پڑی۔ شوہر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن غزالہ کسی طور بات سننے کو تیا ر نہ تھی۔چنانچہ شوہر نے بھی اسے کچھ سنادیا اور بات بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑوں کی اٹیچی تیار کی اور اپنی ماں کے گھر جاکے بیٹھ گئی۔ شوہر نے اس جھگڑے کا ذکر اپنی ماں سے نہ کیا اور غزالہ کے گھر سے جانے کا کوئی بہانہ کردیا۔ ایک ہفتے کے بعد معاملات میں بہتری آئی اور غزالہ اپنے سسرال واپس آگئی۔ اگلے دن ساس اس سے باتیں کررہی تھی کہ اچانک ساس نے پوچھا!‘‘ کیا تمہیں اپنی نند کے لچھن کا علم ہے ؟’’غزالہ نے نفی میں جواب دیا۔ ساس بولی۔‘‘ وہ سسرال سے الگ ہونا چاہتی ہے حالانکہ اسکے شوہر کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ گزارا کر سکے۔ یہی بات میں نے اس کے ابا کو بھی کہی تھی لیکن ہماری بیٹی ہماری تو سنتی ہی نہیں تم ہی اسے سمجھاؤ ’’۔ غزالہ اپنی ساس کی شکل دیکھتی رہ گئی، وہ بات جو اس نے اپنے متعلق سمجھی، وہ کسی اور کی تھی۔
ا۔ اس کیس میں بدگمانی کا مرتکب کون تھا۔ (۱۔غزالہ ۲۔ اسکا شوہر ۳۔ ساس ۴۔ سسر)
۲۔ اس کیس میں بدگمانی کا اصل سبب کیا تھا۔ (۱۔ساس سسر کی باتیں کرنا ۲۔ بات کا ادھورا سننا ۳۔ساس سے نفرت ۴۔ ان میں سے کوئی نہیں)
۳۔ بدگمانی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ (۱۔علم کی کمی ۲۔علم کی زیادتی ۳۔محبت ۴۔ ان میں سے کوئی نہیں)
۴۔ بیوی نے میاں کے مسلسل دفتردیر سے آنے پر سمجھا کہ کوئی چکر ہے۔اس کا حل کیا ہے۔ (۱۔ شوہر سے پوچھ لینا ۲۔ ٹوہ لینا ۳۔ انتقاماََخود بھی چکر چلالینا )
۵۔ دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے علماکو ان کے مخالفین کافر، فاسق، بدعتی جیسے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہو سکتا ہے۔ (۱۔ بدگمانی ۲۔ نفرت ۳۔ غلط فہمی ۴۔ ان میں سے کوئی بھی یا تمام ایک ساتھ)
۶۔ ایک لڑکے کا کسی لڑکی کو مسکراتے دیکھ کر یہ سمجھنا کہ وہ محبت کرتی ہے کیا ہوسکتا ہے۔ (۱۔ گمان ۲۔ بے وقوفی ۳۔ خوش فہمی ۴۔ تینوں )