پنسلین کے موجد ، سر الیگزینڈر فلیمنگ کا انٹرویو
باقی سائنسدانوں کی ذاتی زندگی کے متعلق تو میرا مطالعہ محدود ہے لیکن سر الیگزینڈر فلیمنگ کا ایک انٹرویو میری نظر سے گذرا۔ اسے پڑھ کر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ شخص مومن کی تعریف سے کتنا قریب ہے۔ اس کی اپروچ خدا کے متعلق کتنی صحیح اور جامع ہے۔ انٹرویوئر ایک مسلمان شخص ہے۔ طوالت کے پیش نظر بعض غیر ضروری جملوں کی تلخیص کر دی گئی ہے۔
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر فلیمنگ ، یہ ہوٹل آپ کے شایان شان نہیں ہے آپ ہمیں اطلاع کرتے ہم آپ کے شایان شان بندوبست کر دیتے ’’
‘‘انہوں نے کہا ‘‘ نہیں میرے حساب سے تو اچھا خاصا ہوٹل ہے۔’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر آپ جیسے لوگوں کو مہنگائی کی کیا پرواہ ، آپ تو پنسلین کے موجد ہیں ’’
کہنے لگے ‘‘ ہاں جب میں نے پنسلین کی ایجاد سے ہونے والی متوقع آمدنی کا تخمینہ لگایا تو یہی کوئی ہالینڈ اور بلجیم کے سالانہ بجٹ کے برابر تھی۔ یہ آمدنی اتنی زیادہ تھی کہ اس نے بڑھ بڑھ کر میرے گلے کا ہار بن جانا تھا۔ دیمک کی طرح مجھے چاٹ جانا تھا۔ اس کے مقابلے میں ، میں صرف زندہ رہنا چاہتا تھا۔ یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے ، ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے۔ اس کی ملکیت پوری خدائی ہے۔ میں نے دوائیں بنانے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ اس دنیا کا کوئی ملک ، کوئی شہر ، کوئی انسان ، کوئی معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہو گا اور اس پر میرا کوئی اجارہ نہ ہوگا۔’’
‘‘میں تھوڑی دیر تک سر جھکا کر بیٹھا رہا تو سر فلیمنگ مسکرا کر بولے ‘‘ تمہیں کہو مجھ جیسا نادار شخص بھلا اچھا ہوٹل کیسے افورڈ کر سکتا ہے۔ اس دنیا میں تو بہت سوں کو رہنے کے لیئے جھونپڑی تک میسر نہیں ’’۔
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر کیا آپ کو یقین ہے کہ پنسلین عطیہ خداوندی تھی اور اس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہ تھا ؟ ’’
کہنے لگے ‘‘ میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور تھا ، ایک آلہ ضرور تھا لیکن اس کا موجد یا مخترع نہیں تھا۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خدا کا کرم اور اس کی عنایت تھی۔ اصل میں جتنی بھی دریافتیں یا انکشافات ہوتے ہیں وہ خدا کے حکم اور فضل سے ہوتے ہیں۔ ’’
‘‘یہ کہہ کر وہ رکے اور کہنے لگے ‘‘ معاف کرنا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں ؟۔’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ بالکل رکھتا ہوں سر اور پورے کا پورا رکھتا ہوں ، وہ تو اصل میں ہے ہی ہمارا آپ یورپ والوں کو تو ہم نے ادھار پر دے رکھا ہے سو اب اس کی واپسی شروع ہو گئی ہے’’
‘‘کہنے لگے ’ میں نے اس لیئے پوچھا تھا کہ تم سے بہت سارے نوجوان خواہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ، اپنے علم کے زور پر خدا کے منحرف ہو گئے ہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ تم بھی انہیں میں سے ہو لیکن تمہارے بیان نے میرا اندازہ غلط ثابت کر دیا۔’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر علمی اور عقلی طور پر تو میں اپنے دہریے دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن جذباتی طور پر میں اب بھی خدا کا بندہ ہوں اور اس سے وابستہ ہوں ’’
‘‘ہنس کر کہنے لگے ‘‘ بس اس ضمن میں جذباتی وابستگی ہی کی ضرورت ہے ، سو ہے ، باقی رہے علم و عقل تو ان کے نشانے بدلتے رہتے ہیں۔ ان کی کچھ ایسی فکر نہیں کرنی چاہیئے ’’
‘‘میں نے کہا ‘‘سر یہ وضاحت فرمائیں کہ اصل میں جتنی بھی ایجادات و انکشافات ہوتی ہیں ، وہ خدا کے حکم سے ہوتی ہیں ؟۔’’
کہنے لگے ‘‘ خدا علیم ہے اور اس کائنات کے اندر اور اس سے باہر اسے ہر شے کا علم ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ، اپنے حساب سے ، اپنے ارادے سے ، انسانوں پر علم منکشف کرتا رہتا ہے۔ علم اسی کا عطا کردہ ہے ، نام بندے کا ہو جاتا ہے۔’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ اس کا ثبوت ؟’’
‘‘فرمانے لگے ‘‘ اگر انسان اپنی کوشش ، محنت ، جدوجہد ، اور لگن کے ساتھ کسی نادریافت کو دریافت کرنے پر تل جائے تو وہ اس وقت تک دریافت نہیں ہو سکتی ، جب تک اس کے اترنے کا حکم نازل نہ ہو جائے۔’’
‘‘ان کی بات پیچیدہ تو نہیں تھی لیکن نئی ضرور تھی۔ اس لئے میں ٹھیک سے سمجھ نہ سکا ، مسکرا کر بولے ‘‘ خدا علیم مطلق ہے اور اس کے پاس ہر شے کا علم ہے ، وہ جب چاہتا ہے ، جب پسند کرتا ہے ، جب مناسب خیال کرتا ہے ، اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے۔ نہ پہلے ، نہ بعد ، ٹھیک مقررہ وقت پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ میں نے اس اصول کو لندن کے ایک سکول میں بچوں کو یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ بے شمار علم کی پوٹلیاں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ جب وہ چاہتا ہے ، جب مناسب خیال کرتا ہے ، قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حکم دیتا ہے ‘‘ سنبھالو! علم آ رہا ہے۔ ‘‘ ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں ایک عرصے سے جھولی پھیلائے اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ان میں سے کسی کی جھوی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب انسان گردانا جاتا ہے ’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر پھر تو مزے ہیں۔ آدمی منہ اٹھا کر علم کی پوٹلی کے انتظار میں بیٹھا رہے اور جونہی علم کی پوٹلی قریب آئے ، اسے کاٹی مار کر لے بھاگے ’’۔
‘‘کہنے لگے ‘‘ اس سے پتنگ تو لوْٹے جا سکتے ہیں علم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کے لوگ آج تک پتنگ ہی لْوٹتے رہے ہیں۔ علم پر دسترس حاصل نہ کر سکے۔ علم کا اتار صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی لیبارٹریوں میں ، علم کی آرزو میں رقص بسمل کی طرح تڑپتے رہتے ہیں۔ ایک وقت مقررہ پر ان کی آرزو پوری ہو جاتی ہے۔ ان کے کسی ساتھی کوئی سرا مل جاتا ہے یہ بھید ان سب کی مشترکہ ملکیت ہوتا ہے۔ یہ مشرکہ ملکیت ان کی معرفت دنیائے انسان میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ کام ہمارا ہوتا ہے ، حکم اس کا۔ محنت ہماری ہوتی ہے ، آرڈر وہاں سے ہوتا ہے۔ کوشش ہم کرتے ہیں ، مختاری اس کی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ہم صرف محنت کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔ سر مارتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا ، لیکن مارتے رہنا پڑتا ہے کہ سر مارتے رہنے والے کے پاس ہی پیغام پہنچتا ہے۔ دریا کنارے بنسری بجانے والے کے پاس نہیں۔ پوٹلی وہیں گرتی ہے ، جہاں جھولی پھیلی ہوئی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ پوٹلی ایک ہی جھولی میں گرتی ہے۔ اور وقت مختار کْل کی طرف سے معین ہوتا ہے ’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ سر یہ پوٹلی گورے کی جھولی میں ہی کیوں گرتی ہے کالے کی جھولی میں کیوں نہیں گرتی ؟ ۔’’
‘‘کہنے لگے ‘‘ اس کے نزدیک گورے اور کالے میں کوئی فرق نہیں ہے۔سب اس کی مخلوق ہیں۔ جب وہ علم کی پوٹلی کاٹ کر نیچے روانہ کرتا ہے تو کالے کو بھی آواز دیتا ہے کہ جھولی پھیلاؤ علم آرہا ہے۔ دامن کشادہ کرو نئی بات آ رہی ہے۔ اس پر کالا ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ہے کہ دامن کدھر سے پھیلاؤں ، میں نے تو قمیص ہی نہیں پہنی ہوئی۔ حد درجہ گرمی ہے۔ پھر وہ پیرا شوٹ پوٹلی اپنا رستہ بدل لیتی ہے اور ان ہزاروں ، لاکھوں رقص کناں سائنس دانوں کے اوپر لہرانے لگتی ہے جو کئی سال سے آرزو کے چہرے اوپر اٹھائے اپنے عمل کی آنکھ پینل پر جمائے بے چینی سے گھوم رہے ہوتے ہیں ’’۔
‘‘میں نے کہا کہ ‘‘ سر آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب عطا سے تعلق رکھتا ہے اس میں انسانی عمل کی کوئی خوبی نہیں۔ ’’
کہنے لگے ‘‘ کوشش ، جدو جہد اور عمل سے کچھ نہیں ہوتا ، مگر کرتے رہنا چاہیئے ، یہی انسان کا کمال اور اس کی خوبی ہے۔ ’’
میں نے کہا ‘‘ یہ بات کہ علم اللہ کی طرف سے ملا ہے اور علم عالم مطلق کے حکم سے عطا ہوتا ہے ، ایک مقررہ وقت پر جاری کیا جاتا ہے ، اس کی کوئی سائینسی توجیہ تو میرے ذہن میں نہیں آتی۔ انسان اپنی زندگی کی ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ اس کے علم میں تدریجی طور پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ اپنے علم کی سیڑھیاں ایک ایک طے کر کے ان بلندیوں کی طرف بڑھتا ہے اس میں ڈیٹ کس طرح مقرر کی جاسکتی ہے ؟’’
‘‘کہنے لگے ، بدن کی ، ماحول کی اور روح کی ارتقائی منازل ایک ترتیب سے چلتی ہیں ، اور ان میں ذیل بندی سے ایک تسلسل ترقی ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن ذہن انسانی کسی ڈسپلن کا پابند نہیں ہوتا ، خیال کے دانے کسی مالا میں پروئے نہیں ہوتے۔ فکر اور تمثال میں صف بندی نہیں ہوتی۔ ذہن انسانی شاخ بہ شاخ ایک بندر کی طرح چھلانگیں مارتا رہتا ہے۔ کوئی بات پہلے ذہن میں آ جاتی ہے اور کوئی بعد میں۔ سوچ ارتقائی منازل طے کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایجاد اور اختراع کی دنیا میں انسان نے بہت ساری ایسی چیزوں کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جو آج تک مکمل نہیں ہو سکیں اور جو اب بھی انسانی دسترس سے باہر ہیں۔ بہت سی ایسی ہیں جن کی بابت اس نے سوچا تک نہ تھا اور وہ گھڑی گھڑائی اس کے قدموں میں آن گریں۔ کچھ خواب میں متشخص ہوئیں۔ کچھ رویا میں فارمولا بن کر سکرین کے سامنے آ گئیں۔ انسان ہل چلا سکتا ہے ، زمین تیار کر سکتا ہے پانی دے سکتا ہے ، بوائی کر سکتا ہے لیکن بیج پھاڑ کر اس میں سے بوٹا پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علم علیم و مطلق کے پاس ہے۔اگر اس نے چاہا اور اس نے پسند فرمایا تو یہ بوٹا پیدا کرنے کا علم بھی انسان کو عطا کرے گا۔ مگر اپنی مرضی سے اپنی پسند سے ، اپنے منتخب وقت کے مطابق۔’’
‘‘ میں تو ایک موٹی سی بات جانتا ہوں اور میرے مشاہدے میں لوٹ لوٹ کر یہی حقیقت نمایاں ہو رہی ہے کہ علم انسان کے اندر سے نمودار نہیں ہوتا ، ہمیشہ اوپر سے عطا ہوتا ہے۔ انسان کی کتنی آرزو تھی ہوا میں اْڑنے کی لیکن خدا کی بالکل مرضی نہ تھی کہ وہ اڑے ، چنانچہ سینکڑوں اس کوشش میں ہلاک ہوئے ، کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پھر جب علم اْتارا گیا ، ایک خاص وقت آنے پر، ہوا پیمائی کا اصل اصول ذہن میں ڈالا گیا۔ تو بات شیشہ ہو گئی اور انسان اپنی پہلی کوشش میں سمندر پار کر گیا ’’
’’میں نے کہا سر میں بھی یہی بات کہ رہا ہوں کہ انسان تجربے کر کر کے اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر انسان بالآخر کامیابی کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر ’’
‘‘ ضروری نہیں ، ضروری نہیں۔‘‘ انہوں نے بات کاٹ کر کہا ‘‘ انسان غلطیوں پر غلطیاں کیئے جاتا ہے ، سبق سیکھے جاتا ہے لیکن کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ ارد گرد غلطیوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ڈھیروں ڈھیر غلطیاں جمع ہو جاتی ہیں لیکن کامیابی کی منظوری کہیں اور سے ملتی ہے۔’’
‘‘کہنے لگے ‘‘ ایک بیماری ہے کینسر۔ دنیا کی ہر بڑی لیبارٹری میں اور سائینس کے ہر بڑے معاملہ میں اس پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ لاکھوں پونڈ اس کی ریسرچ پر لگ رہے ہیں۔ ہزاروں ماہرین اس پر ریسرچ کر کے آپس میں نوٹس ملا رہے ہیں۔ لیکن اس بیماری کا علاج ملتا ہی نہیں ہے۔’’
‘‘میں نے کہا ‘‘ اور علیم مطلق کے پاس اس بیماری کا علاج موجود ہے ؟۔’’
‘‘کہنے لگے ‘‘ بالکل بلا شک وشبہ اور سو فیصد تیر بہدف علاج موجود ہے ، لیکن انسان کو اپنی کوشش اور جدوجہد سے اس کے علاج کی الف بے بھی معلوم نہیں ہو سکی۔ ’’
‘‘ایک وقت آئے گا جب اس موذی مرض کا علاج ایک پوٹلی میں بندھا بندھایا پیراشوٹ میں رکھا ہوا آئے گا اور اس وقت جو طلبگار قسمت والا ہو گا اسے حاصل کر لے گا۔ ’’