میرا پورا نام رام ویر ولد عجب سنگھ تھا۔ ہم سات بھائی بہن تھے۔ دو کا انتقال ہو گیا۔ اب تین بھائی اور دو بہنیں بچی ہیں۔ میں کاکڑا ضلع مظفر نگر (یوپی) کا رہنے والا ہوں اور راشٹریہ انٹر کالج شاہ پور سے میں نے ہائی اسکول کیا ہے۔ میرے والد ایک شریف اور بھلے کسان ہیں، مگر ہمارا خاندان بہت دھارمک (مذہبی) ہندو خاندان ہے۔ ہندو جاٹ برادری سے میرا تعلق ہے۔
میرے اسلام قبول کرنے کا بھی عجیب اتفاق ہے۔ میرے ذہن میں تو اسلام قبول کرنے کی کوئی بات نہیں تھی اور پڑھائی چھوڑنے اور بیوی کو طلاق دینے کے بعد زندگی بالکل خراب ہو گئی تھی۔ ہر وقت جنگل میں رہنے اور لوگوں کو پریشان کرنے کے ساتھ نشے کا میں عادی ہو چکا تھا۔ میرا تعلق علاقے کے بدمعاشوں سے ہو گیا تھا اور میں جانور سپلائی کرنے والوں کو راستے میں روک کر پیسے چھین کر زندگی بسر کرتا تھا۔ گھر او رمحلے والے مجھ سے بہت پریشان تھے۔ گھر والوں نے عاجز آ کر مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا، مگر میں نے گھر سے نکلنے سے منع کر دیا اور ٹیوب ویل لگا کر کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے کھیت کے برابر میں یٰسین انصاری ہیں، ان کا پرانا ٹیوب ویل بند پڑا تھا۔ میں نے اس کو صحیح کرنے میں رات دن محنت کی، بالآخر وہ صحیح ہو گیا اور کام کرنے لگا، پھر میں نے اپنے ٹیوب ویل کے لیے موٹر اور پنکھا ادھار لیے اور چوری سے لائٹ کا کنکشن لیا، لیکن میرے ٹیوب ویل نے پانی نہیں اٹھایا۔ میں نے اسے چلانے کی بہت کوشش کی ۔ ٹریکٹر سے بھی پمپ چلوایا، لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا، بالآخر میں پنڈت کے پاس پہنچا۔ اس نے ٹیوب ویل پر چڑھاوا چڑھانے کو کہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا، آخر میرے دل میں آیا کہ دیوتا بھنگ سے خوش ہوتے ہیں۔ میں نے بھنگ مسل کر اس پر چڑھا دی، پھر بھی پانی نہیں آیا۔ ایک مرتبہ رات میں برابر کے کھیت والے یٰسین انصاری بھی میرے پاس ہی تھا۔ ہم دونوں ٹیوب ویل کے پاس مٹی پر ہی لیٹے ہوئے تھے۔ یٰسین کہنے لگے کہ اگر آج اس نے پانی اٹھایا تو میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ میں نے کہا کہ تم دو کی بات کرتے ہو، میں چار پڑھوں گا۔ اکثر رات کو ساڑھے دس بجے بجلی آ جاتی تھی، لیکن اس رات کو بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر لائٹ آئی۔ میں نے یٰسین سے کنکشن کرنے کو کہا۔ وہ کہنے لگے کہ تم ہی کر لو، مجھے تو بجلی سے ڈر لگتا ہے۔ میرے کنکشن کرتے ہی ٹیوب ویل نے تقریباً ڈھائی میٹر دور پانی پھینکنا شروع کر دیا اور ٹیوب ویل کے سامنے والی سڑک پر پانی گرنے لگا۔ سوکھی مٹی ہونے کے باوجود پانی کی تیز دھار سے سڑک پر تقریباً ڈیڑھ میٹر گڑھا ہو گیا۔
صبح جب محلے والوں نے دیکھا کہ یہ کامیاب ہو گیا ہے تو وہ سب جمع ہو کر آئے اور ٹیوب ویل بند کرا دیا۔ کہنے لگے کہ اس لائٹ سے ہم تمھارا ٹیوب ویل نہیں چلنے دیں گے۔ اپنی لائٹ منظور کراؤ۔ ٹیوب ویل بند ہونے کے بعد یٰسین نماز کے لیے کہنے لگے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے چار رکعت نماز پڑھنے کا نیم (نذر) کیا تھا، اب تمھیں پڑھنی چاہیے، کبھی ٹیوب ویل پھر نہ خراب ہو جائے۔ میں نے کہا: چلو، پڑھتے ہیں۔ ہم کبیر پور کھیت کے قریب ایک گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ یٰسین نے کہا کہ اپنے ٹیوب ویل میں وضو کریں گے۔ ہم وہاں آئے۔ یٰسین نے وضو کیا او رمجھے اچھی طرح غسل کرایا۔ اس کے بعد ہم نے نماز ادا کی۔ نماز کے بعد یٰسین کہنے لگے کہ تم مسلمان ہو جاؤ، ہم تمھاری بجلی بھی منظور کرا دیں گے۔ میں نے کہا: مجھ سے مسلمان بھی پریشان ہیں۔ وہ مجھے کہاں رکھیں گے۔ یٰسین نے کہا: جب تم مسلمان ہو جاؤ گے تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اور اگر تم ٹھیک نہ بھی ہو گے تو تب بھی مسلمان تمھیں رکھ لیں گے اور مسلمان نہ بھی رکھیں تو مرنے کے بعد اللہ تمھیں جنت میں رکھے گا۔ میں نے یٰسین سے کہا کہ تم مجھے ہرسولی مدرسے میں لے چلو۔ میں وہاں یہ معلوم کروں گا کہ مسلمان ہو جاؤں یا نہیں؟ ہم دونوں وہاں پہنچے۔ مولوی انیس صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میں نے مسلمان ہونے کے بارے میں معلوم کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان ایسے نہیں بنتے، بلکہ جماعت میں جا کر نماز وغیرہ سیکھنی ہو گی۔ تم چلہ لگاؤ اور دلی مرکز چلے جاؤ۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں تمھیں بھیج دو۔ انھوں نے مظفر نگر مرکز میں فون پر بات کی اور مظفر نگر جانے کو کہا۔ اس وقت میں تیار نہیں تھا، اس لیے میں نے اگلے دن جانے کا وعدہ کر لیا۔ جانے سے پہلے میں نے اپنی ماں کو بتایا کہ گھر والے مجھ سے بہت پریشان ہیں، اس لیے میں تو جا رہا ہوں، اور مسلمان ہو جاؤں گا۔ اس نے کہا: اچھا! چلے جانا، لیکن کھانا تو کھا لے۔ میں کھانا کھا کر او ردو گلاس دودھ پی کر راستے میں ایک شخص سے سات سو روپے لے کر مظفر نگر پہنچا۔ جہاں مرکز میں مولوی موسیٰ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں تو کوئی جماعت نہیں جا رہی ہے، تم پھلت چلے جاؤ۔ پھلت سے بھی جماعت جاتی ہے۔ میں پھلت چلا گیا۔ وہاں ابا الیاس سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے شام کومولوی کلیم صدیقی صاحب سے ملوایا۔ مولوی صاحب نے کلمہ پڑھوایا۔ پھر میری زندگی کے حالات معلوم کیے۔ جب انھوں نے میرے حالات سنے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ایمان و اسلام اصل میں ایمان و سلامتی میں خود رہنے، اور دوسروں کو امن و سلامتی میں رکھنے کا نام ہے۔ اس لیے اب تم مسلمان ہو گئے ہو، تم اگر یہ چاہتے ہو کہ خود بھی امن و سلامتی میں رہو اور اس دنیا کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں بھی سکون و چین اور امن و سلامتی میں رہو تو ضروری ہے کہ تم اس طرح زندگی گزارو کہ تم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور ہر آدمی کے یے امن و سلامتی کا ذریعہ بنو، اس کے لیے سب سے پہلے تمھیں نشے سے سچی توبہ کرنی ہو گی، اس لیے کہ سب سے زیادہ آدمی نشے کی حالت میں لوگوں کو ستاتا ہے۔ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم چودھری ہو، چودھری لوگ بڑے بہادر ہوتے ہیں۔ ایک جوان آدمی اگر کسی بات کا پکا ارادہ کر لے تو پہاڑ سے دودھ کی نہر کھود کر نکال سکتا ہے۔ ایک جوان مرد اگر پکا ارادہ کرے تونشہ چھوڑنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مولوی صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: پکا ارادہ کرو، مجھ سے وعدہ کرو کہ اب کسی طرح کا نشہ نہ کرو گے۔ اب تم ایمان والے ہو اور مسلمان ہو گئے ہو، اب تو نشہ بہت بڑا جرم ہے۔ میں نے مولوی صاحب سے وعدہ کیا۔ نشے کی مجھے اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں سوچتا تھا، یہ عادت میرے جیون کے ساتھ ہی جائے گی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ میں نشہ چھوڑنے کے ارادے کی بھی ہمت ہو جائے گی، مگر مولوی صاحب کے سامنے جب میں نے وعدہ کیا تو مجھے یہ نشہ چھوڑنا بالکل آسان لگا۔ شاید یہ میرے ایمان کی برکت تھی۔ میرے اللہ نے مجھے ہمت دی اور اس تجربے نے نہ صرف مجھے بہت سی برائیوں سے بچایا، بلکہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی ہمت دی ہے۔ پکا ارادہ کر کے انسان بڑے سے بڑے کام کر سکتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ میں نے نہ جانے کتنے لوگوں سے نشہ اور بیڑی، سگریٹ اور گٹکا چھڑوا دیا۔ پانچ چھ لوگوں سے جوا اور سٹہ چھڑوایا ۔ دو لوگوں سے عورتوں سے ناجائز تعلقات چھڑوائے، بس میرے اللہ کاکرم ہے۔
مولوی صاحب نے میرٹھ بھیج کر میرا سرٹیفکیٹ بنوایا۔ اتفاق سے اگلے دن پھلت سے جماعت جانی تھی، میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ وہاں نماز وغیرہ سیکھی، پھر چلہ پورا کرنے کے بعد پھلت واپس آ گیا۔ مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مولوی صاحب نے پوچھا: یہ زندگی اچھی ہے یا اسلام سے پہلے کی زندگی؟ میں نے بتایا: مولوی صاحب! مجھے توبہت سکون ملا ہے۔ ان چالیس دنوں میں نشہ تو دور کی بات،کوئی نشہ کرنے والا بھی قریب سے نہیں گزرا اور میری صحت بھی اچھی ہو گئی ہے۔ مجھے تو یہ زندگی بہت اچھی لگی۔ مولوی صاحب نے پوچھا: اب کہاں رہنا چاہو گے؟ میں نے کہا: جہاں آپ کہیں گے۔ انھوں نے میری تعلیم کے بارے میں معلوم کیا۔ میں نے بتا دیا۔ مولوی صاحب نے پوچھا: پڑھا سکتے ہو؟ میں نے کہا: چھوٹے بچوں کو پڑھا سکتا ہوں۔ مولوی صاحب نے مجھے سونی پت بھیج دیا۔
ایک سال بعد میری شادی ہو گئی۔ میری شادی الحمد للہ، بہت دین دار اور پڑھی لکھی نیک لڑکی سے ہوئی۔ وہ لوگ سکھوتی ٹانڈہ میرٹھ (یوپی) کے رہنے والے ہیں۔ سکھوتی ٹانڈہ میں ہمارے ہندو رشتے دار بہت سے رہتے ہیں۔ اس خیال سے کہ کہیں وہ فتنہ و فساد نہ کریں، مولوی صاحب نے میری شادی کا پروگرام کھتولی ضلع مظفر نگر (یوپی) میں میرے ساڑھو کے گھر سے بنایا۔ وہ لوگ لڑکی کو لے کر کھتولی آ گئے۔ مولوی صاحب دو تین لوگوں کے ساتھ مجھے لے کر کھتولی گئے اور الحمد للہ سادگی سے سنت کے مطابق نکاح اور رخصتی ہوئی۔ میرے والد بھی میرے ساتھ میرے نکاح میں شریک تھے۔ وہ بہت خوش تھے۔ مولوی صاحب کا بار بار شکریہ ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ نے میرے لڑکے کو سدھار دیا۔ اس سے پورا علاقہ پریشان تھا اور ہم سب لوگ عاجز تھے۔ پھلت سے رخصتی ہوئی تومیری والدہ بھی آ گئیں۔ میری اہلیہ سے مل مل کر خوشی سے روئیں اور بار بار ماتھا چومتی تھیں کہ کیسی سوہنی بہو میرے مالک نے مجھے دی ہے۔ میری اہلیہ نے بھی دو روز کی شادی کے باوجود میرے والدہ کی خوب خدمت کی۔ اچھے گھرانے میں شادی کی وجہ سے مجھے مضبوطی ملی اور مجھے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو اسلام کی دعوت دینے میں بڑی قوت ملی۔
میرے والد صاحب کوجب معلوم ہوا کہ مولوی صاحب نے سکھوتی میں ہمارے رشتہ داروں کے فتنے کے ڈر سے کھتولی لڑکی کو بلا کر شادی کی ہے، تو انھوں مولوی صاحب سے کہا: مولوی صاحب! آپ مجھے پہلے خبر کرتے،ہم کسی کے دباؤ میں نہیں رہتے۔ ان بے چاروں کو بے گھر کیا۔ میں خود بارات لے کر سکھوتی جاتا۔ میرے بیٹے نے کوئی جرم تو کیا نہیں۔ مسلمان ہو گیا تو اچھا ہی کیا ہے۔ کیا تھا، کیا ہو گیا؟ میں سا ت جنم تک آپ کا احسان نہیں اتار سکتا۔ میرے گاؤں والوں نے اس کے مسلمان ہونے کے بعد پنچایت کی کہ تیرا بیٹا ادھرم (بے دین) ہو گیا ہے۔ اس پر سختی کرو تو میں نے صاف کہہ دیا کہ وہ ادھرم (بے دین) نہیں، بلکہ دھارمک (مذہبی) ہو گیا ہے۔ دھرم (مذہب) اپنا اپنا معاملہ ہے۔ میں آپ میں سے کسی کا دیا نہیں کھاتا۔ اگر زیادہ کرو گے تو کھیت اور گھر بیچ کر میں بھی اس کے پاس جا رہوں گا۔ بیٹے کے ساتھ میں بھی مسلمان ہو جاؤں گا۔ جب ایسے بگڑے ہوئے کو مسلمانوں نے سدھار دیا تومجھ میں بھی سدھار آئے گا۔ کچھ لوگ ذرا غصے میں گالیاں دینے لگے تو میں پنچایت سے چلا آیا اور میں نے کہا: ابھی ایس پی کے یہاں جا کر رپٹ لکھواؤں گا۔ کچھ لوگوں نے مجھے روکا اور پھر میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگے۔ ہم تو تیری بھلائی میں پنچایت کر رہے تھے۔ آدمی میں ،میں ہونی چاہیے۔ میں جب اپنے گاؤں والوں سے نہیں ڈرا تو پھر سکھوتی والوں کا کیا ڈر تھا؟ مولوی صاحب نے فرمایا: ڈرتے تو ہم بھی نہیں، مگر شادی میں کوئی بات ہوتی توبدمزگی ہو جاتی۔
اور اب میں اپنی بیوی کے ساتھ سونی پت میں رہ رہا ہوں۔ میرے پڑوسی بہت اچھے ہیں۔ سب لوگ پانچوں وقت کے نمازی ہیں، اور میری عزت کرتے ہیں۔ مجھے ان سے بہت پیار ملا۔ وہ سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اصل میں جب میں سونی پت آیا تومدرسے والوں نے میرے لیے ایک کرائے کے مکان کا عید گاہ کالونی میں انتظام کر دیا۔ سب کو معلوم تھا کہ میں نے دو مہینے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے نماز کی پابندی اور تسبیح وغیرہ پڑھتے دیکھ کر لوگوں کو شرم آتی۔ میں نے اپنی اہلیہ سے عورتوں میں تعلیم شروع کرائی۔ میں گشت وغیرہ بھی پابندی سے کراتا تھا۔ رفتہ رفتہ پڑوسی نماز پڑھنے لگے۔ بہت سے بچے میں نے مدرسے میں داخل کرائے۔ الحمد للہ، کافی لوگ نماز کی پابندی کرنے لگے۔ وہ لوگ میرا بہت احترام کرتے ہیں۔ میرے محلے اور مدرسے والے جس طرح مجھے پیار کرتے ہیں، میں نے اپنے گھر والوں سے بھی ایسا پیار نہیں پایا۔ یہ محض میرے اللہ کا کرم اور میرے ایمان کا صدقہ ہے۔
مولوی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا تھا تو اس وقت مجھے سمجھایا تھا کہ اصل میں ایمان و اسلام خود امن و سلامتی سے رہنے اور دوسروں کو اپنے شر سے بچا کر امن وسلامتی سے رکھنے کا نام ہے۔ اسلام امن و سلامتی ہے۔ امن و سلامتی، ایمان و اسلام سے نکلی ہے۔ ایمان و اسلام کے بغیر نہ دنیا کے کسی آدمی کو خود امن و چین نصیب ہو سکتا ہے نہ دنیا کو بغیر اسلام و ایمان کے کسی سے امن و سلامتی نصیب ہو سکتی ہے۔ اس پر میں نے مولوی صاحب سے کہا بھی تھا کہ ساری دنیا کے اخباروں اور ٹی وی پر جو خبریں آتی ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ مسلمانوں نے ساری دنیا کے چین کو برباد کر رکھا ہے، اور وہ اسلام وجہاد سے پوری دنیا کو آتنک واد (دہشت گردی) کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے۔ کچھ جذباتی مسلمانوں کی ناسمجھی کے بعض فیصلوں سے فائدہ اٹھا کر اسلام مخالف لوگ اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں، اس کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل رہا ہے۔ مولوی صاحب نے چاروں طرف بیٹھے دسیوں لوگوں کا مجھ سے تعارف کرایا کہ یہ سب ان ہی دنوں میں اندھیرے سے نکل کر اسلام کے سایۂ رحمت میں آئے ہیں۔ انھوں نے قرآن پاک کی آیت پڑھ کر بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی ایک آدمی کی ناحق جان لینے کو پوری دنیا کا قتل بتایا ہے۔
قرآن کو ماننے والے آتنک وادی (دہشت گرد) نہیں ہو سکتے۔ اسلام رحمت اور امن کا مذہب ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ہم لوگ تو پشتوں سے مسلمان ہیں، اس لیے پرانے مسلمان صرف نام کے اور رسمی مسلمان ہیں۔ جب کسی جسم میں خون خراب ہو جائے تو زندگی کو معمول پر لانے اور صحت ٹھیک کرنے کے لیے نئے خون کی ضرورت ہے۔ اس دنیا کی امن و سلامتی کے لیے نئے خون یعنی سوچ سمجھ کر قرآن مجید کے اسلام قبول کرنے والے نو مسلموں کی ضرورت ہے، اس لیے آپ لوگوں پر زیادہ ذمہ داری ہے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ نئے لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عراق اور سعودی عرب میں مسلمانوں کا قتل کرنے اوران سے لڑنے والے امریکی فوجی مسلمان ہو رہے ہیں اور ان فوجیوں کا اسلام کیسا ہوتا ہے اس کے کچھ قصے سنائے۔
میں یہ بتا رہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اسلام میں امن وسلامتی پائی۔ میں اسلام سے پہلے گھر کے سائے سے محروم تھا۔ لوگوں کو ستانا،جنگلوں میں رہنا، لڑنا، مار دھاڑ کرنا میرا کام تھا۔ اب مسلمان ہونے کے بعد جس کے گھر میں جاتا ہوں، مجھے پیار ملتا ہے۔ لوگ میرا اکرام کرتے ہیں۔ شاید میں ایسا مسلمان ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے کوئی پریشانی نہیں جھیلی۔ میرے ہندو خاندان کی طرف سے میری مخالفت کے بجائے میری عزت ہوئی۔ اب وہ میری بات کو عزت سے سنتے ہیں۔ مجھ سے مشکل معاملات میں مشورہ کرتے ہیں۔ میرے اللہ نے مجھ بگڑے کوکیسے سنوار دیا۔ میں جان بھی دے دوں تو اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔
اللہ کا شکر ہے، مجھے کسی قسم کی پریشانی سے دوچار ہونا نہیں پڑا، کیونکہ میری تربیت اچھے عالموں کے سپرد رہی ہے۔ اسلام لانے کے بعد میں نے جو اطمینان و سکون حاصل کیا ہے، اس کے بارے میں تو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے نعمتوں کے درواز ے کھول رکھے ہیں۔ میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری اتنی اچھی زندگی ہو جائے گی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہر مسلمان کو میرے جیسی زندگی عطا فرمائے۔
الحمد للہ، میں اور میری اہلیہ دونوں گھر جاتے ہیں۔ میری والدہ پر ان کے گھر والوں کا دباؤ ہے، ورنہ وہ اندر سے مسلمان ہو گئی ہیں۔ میں نے ایک بار ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہے۔ میرے ایک بھائی مولوی صاحب کے پاس آتے ہیں۔ وہ مولوی صاحب سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید مولوی صاحب نے ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہے۔ اب وہ مندر بالکل نہیں جاتے۔ ان سے چھوٹا بھائی الحمد للہ، سونی پت آیا۔ اس نے اور میرے ایک بھتیجے دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک چلّے میں گیا ہوا ہے، دوسرا کچھ روز کے بعد ان شاء اللہ جماعت میں جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ میرے بہت سے دوست بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ وہ خود میرا حال دیکھ کر مولوی صاحب سے ملنے کے بڑے اچھک (مشتاق ہیں۔ مجھے جب بھی اپنے اسلام کا خیال آتا ہے، مجھے اپنے سارے رشتہ دار اور دوست یاد آتے ہیں، میں دل سے ان کی ہدایت کے لیے خوب دعا کرتا ہوں۔
میں مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اسلام کے اندر بہت سکون ہے اور یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ جو نماز کی پابندی کرے گا ، اس کو یہ سکون حاصل ہو گا اور جو فارملٹی پوری کرے گا، اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم سب مسلمان نماز کی قدر کرتے ہوئے اسے پابندی سے پڑھیں اور اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں، معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس کو ذریعہ بنا کر کامیابی اور کامرانی کا راستہ کھول دیں۔
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ دنیا میں امن، چین اور سلامتی کے لیے دنیا کے لوگوں کو اسلام کے سائے میں آنا ضروری ہے۔ یہ کیسا اندھیر ہے کہ لوگ امن و شانتی اور چین سلامتی کے مذہب کو دہشت گردی سمجھنے لگے ہیں۔ اس میں جہاں شیطان اور شیطانی چیلوں کا لوگوں کو اسلام اور جنت سے دور رکھنے کی سازش کا دخل ہے، وہیں مسلمانوں کے حالات بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ علاقے کی جیلوں میں جا کر دیکھیں تو زیادہ تر قیدی مسلمان ہیں، حالانکہ جن سنکھیا (تعداد) ہندوؤں کی زیادہ ہے۔ جب میں ایک دو بار مظفر نگر جیل میں گیا تو وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ قیدیوں میں ۷۶ فی صد مسلمان تھے، جبکہ ہمارے ضلع میں مسلمان شاید ۳۰ یا ۳۵ فی صد ہوں گے۔ مسلمانوں کے اس اندھیرے کردار کا پردہ بس سازشی لوگ لوگوں کے سامنے اسلام سے دور رکھنے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ اس سے دنیا امن سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ میری درخواست ہے کہ ہر ایمان والے کو اپنا مقام سمجھنا چاہیے کہ وہ ایمان والا اور مسلمان ہے، اس لیے وہ جہاں رہے اس کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ وہ رحمۃ للعالمین نبی کا امتی ہے۔ اس کو اپنے آپ کو امن و سلامتی کا پیامبر سمجھنا چاہیے۔ کم از کم وہ جہاں رہے، لوگوں کو شر سے بچائے۔ وہ دوسروں کی امن و سلامتی کی فکر کرے گا، تو اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سلامتی عطا فرمائیں گے۔ ہم اگر اپنے اسلام کا مطلب سمجھ لیں اور لوگوں کو اسلام علیکم کا مطلب سمجھا دیں کہ اسلام نے سلام کو پھیلانے کا حکم دیا تو بس اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آ جائے گی، اس طرف بہت سوچنے کی ضرورت ہے۔ سلام کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ تم پر سلامتی ہو، چاروں طرف سے تم پر سلامتی ہو، اس کو پھیلانے کا ہمارے نبی نے حکم دیا ہے، پھر اس دین کو ماننے والا کیسے ظالم ہو سکتا ہے؟ کیسے آتنک وادی (دہشت گرد) ہو سکتا ہے؟