مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی کے طریقے
موجودہ دور میں مسلم معاشرے بالعموم نفسیاتی غلامی کے سخت شکنجے میں مبتلا ہیں۔ نفسیاتی غلامی، غلامی کی ایسی صورت ہے جس میں قانونی اور معاشرتی طور پر تو کوئی شخص بالکل آزاد ہوتا ہے لیکن وہ کسی شخصیت کی متاثر ہو کر یا متاثر کر دیے جانے کے نتیجے میں اس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ اب اس شخص کی اپنی کوئی سوچ اور فکر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے نظریات وہی ہو جاتے ہیں جو اس کے فکری آقا کے نظریات ہیں۔ وہ اپنے ذہن کی بجائے اپنے آقا کے ذہن سے سوچنے لگتا ہے۔ اس کا آقا اسے جنت میں لے جائے یا جہنم میں، اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
انسان اپنی فطرت میں آزاد پیدا ہوا ہے۔ یہ آزاد رہنا چاہتا ہے لیکن بعض طالع آزما افراد انہیں اپنی ذہنی غلامی میں دھکیل دیتے ہیں۔ بعض انسان فطرتاً حساس ہوتے ہیں اور کسی کا اثر قبول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی غلام بنانے والوں کا خاص شکار ہوتے ہیں۔ ذہنی غلام بنانے والے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک اچھا بھلا حساس شخص آہستہ آہستہ ان کے نرغے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
ضروری نہیں کہ غلام بنانے والے تمام افراد انہیں شعوری طور پر غلام بنانا چاہتے ہوں۔ ان میں سے بعض لوگ دین اور انسانیت سے مخلص بھی ہوتے ہیں لیکن وہ کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے لاشعوری طور پر دوسروں کو اپنا ذہنی غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔
انسانوں کو ذہنی غلامی میں دھکیلنے کے جو طریق ہائے کار استعمال کئے جاتے ہیں، وہ وہی ہیں جو دنیا بھر میں برین واشنگ کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ان طریق ہائے کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین اس طریق کار سے اچھی طرح واقف ہو جائیں کہ ان کے راہنما ان کی کس طرح سے برین واشنگ کیا کرتے ہیں۔
جو لوگ برین واشنگ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، وہ کسی مخصوص مکتب فکر، مسلک، فرقے، قوم یا مذہب تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہر فرقے اور ہر قوم میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو برین واشنگ کے ذریعے لوگوں کو اپنا فکری غلام بنانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔
یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا لیڈر کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ یہ کام ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ جس گروہ سے وابستہ ہیں، اس میں ان تفصیلات کا عملی مشاہدہ خود کریں اور دیکھیں کہ انہیں بے وقوف کس طرح بنایا جاتا ہے۔ فکری غلام بنائے جانے کے طریق ہائے کار کو ہم ان عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں:
مذہبی راہنما کو مقدس بنائے جانے کی مہم
مقربین خاص کی ٹیم کی تیاری
مقدس مشن کی تخلیق
اپنے پیغام کو خدا کا پیغام بنا کر پیش کرنے کا عمل
عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی
اختلاف رائے کی مخالفت
"مخالفین" کی تخلیق
برین واشنگ کا طریق کار
برین واشنگ کے لئے مذہب کا استعمال
نفسیاتی غلامی کی آئندہ نسلوں کو منتقلی
مذہبی راہنما کو مقدس بنائے جانے کی مہم
نفسیاتی غلامی کا آغاز اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو غیر معمولی اہمیت دے دی جاتی تھی۔ یہ شخص عموماً کسی حلقے، جماعت، مدرسے، تنظیم یا فرقے کا سربراہ یا روحانی راہنما ہوتا ہے۔ لازمی طور پر یہ جس شخص کو راہنما کا درجہ دیا جاتا ہے، اس کی شخصیت میں بذات خود کچھ اچھی صفات پائی جاتی ہیں۔ ان صفات کے علاوہ اس شخص کے ساتھ کچھ اور صفات بھی منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں۔لوگوں کو راہنما سے متاثر کرنے کے لئے ایک پراپیگنڈا مشینری کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس سے متاثر ہونے لگیں، انہیں سختی سے تلقین کی جاتی ہے کہ وہ صرف اسی راہنما کی تقاریر سنیں، اسی کی کتب پڑھیں اور کسی اور جانب دیکھیں بھی نہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ حضرت جی کے فیض سے محروم رہیں گے۔ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ "حق" وہی ہے جو ہمارے اس راہنما نے دریافت کر لیا ہے اور اس کے علاوہ اور جو بھی لوگ ہیں، اگرچہ وہ کتنے بھی اچھے ہیں، لیکن ان میں ہمارے راہنما جیسی بات نہیں ہے۔
بعض حلقے جو شخصیت پرستی سے بچنے کا دعوی کرتے ہیں، ان کے ہاں عام طور پر ایک شخصیت کی بجائے متعدد شخصیات کی پروموشن کی مہم چلائی جاتی ہے۔ ایسے حلقوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر دو راہنماؤں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو ہر راہنما اپنے اپنے پیروکاروں کو لے کر جماعت کو تقسیم کر دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم گروہوں میں ایک سے زائد شخصیات پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
اپنی شخصیت کو مزید موثر بنانے کے لئے مذہبی راہنما یہ کام کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ "میں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ سب میرے فلاں استاذ، شیخ، مرشد کا فیض ہے۔" بسا اوقات یہ حضرات کسی بڑی ہستی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم، کسی صحابی یا بڑے عالم سے اپنے تعلق کا دعوی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو فلاں ہستی کے خوشہ چین ہیں اور انہی کے نظریات کو پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات تو اس ہستی سے بذریعہ کشف براہ راست تعلق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور جو نسبتاً معقولیت پسند (Rational) ہوتے ہیں، وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ میں، اس ہستی کی کتابوں سے یہ نظریات حاصل کر کے پیش کر رہا ہوں۔
مقربین خاص کی ٹیم کی تیاری
کسی راہنما کے لئے یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ اجتماعات میں اپنی تعریف خود کرے اگرچہ بعض راہنما یہ بھی کر گزرتے ہیں۔ اس وجہ سے شخصیت کو مقدس بنانے کی مہم کے لئے ایک باقاعدہ پروپیگنڈا ٹیم تیار کی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے۔ اس ٹیم کے اراکین کو راہنما کے "مقرب خاص" یا قریبی ساتھی کا نام دیا جاتا ہے۔
اس ٹیم کے اراکین عام اجتماعات، تنظیمی اجلاسوں، نجی محفلوں غرض ہر جگہ حضرت جی کے تقویٰ، شخصی اوصاف اور کرامات کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات سنائے جاتے ہیں کہ جس سے لوگ جھوم اٹھیں۔ جو لوگ اس شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں، وہ بذات خود اس مہم کا حصہ بنتے ہوئے انہی واقعات اور کرامات کو دوسروں تک سینہ بہ سینہ منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس ہستی کی کرامات کو تواتر کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
راہنما کی ہستی کو بالعموم عوام سے دور کر کے، اس کے اور عام لوگوں کے درمیان تقدس کا ایک ہالہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ اس راہنما سے رابطہ کرنا کسی عام مرید کے لئے ممکن نہیں رہتا بلکہ یہ صرف "مقربین خاص" کے حلقے سے توسط سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مقربین خاص کا یہ گروہ راہنما کی بھی راہنمائی کرتے ہوئے اسے بتاتا ہے کہ اسے کس طریقے سے عوام کے سامنے پیش ہونا ہے۔ کس کے سامنے کس بات کا خیال رکھنا ہے۔ کس کے سامنے کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں کرنی۔ راہنما کی ذاتی زندگی کو عام لوگوں کی نظر سے مکمل طور پر اوجھل کر دیا جاتا ہے۔
یہ حضرات جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو بھی یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ جب چاہے معجزہ دکھا دیں۔ ان کے معاملے میں بھی اللہ تعالی اپنی مرضی سے ہی معجزے کو ان کے ہاتھ پر ظاہر کرتا تھا۔ اس معجزے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ یہ واقعتاً خدا کا سچا رسول ہے۔ ختم نبوت کے بعد اب کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ اللہ کے کسی نیک بندے کے ساتھ کبھی کوئی محیر العقول واقعہ پیش آ جائے لیکن ان کرامتوں کا پیش کرنا اس نیک بندے کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ جب چاہے، کوئی بٹن دبا کر کرامت دکھا دے۔
مذہبی راہنماؤں کا ظاہری مشن اور خفیہ ایجنڈا
راہنما بالعموم کسی نہایت ہی اعلیٰ مقصد جیسے دعوت دین، عوام کی فلاح و بہبود وغیرہ کو اپنا مشن قرار دے کر اپنے پیروکاروں کو متحرک کرتا ہے۔ بہت مرتبہ وہ راہنما خود کبھی تو حقیقی اور کبھی مصنوعی عجز و انکسار کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس مشن کا نہایت ہی ادنی خادم ہے اور اس مشن کے لئے اگر اس کی جان بھی چلے جائے تو اسے پرواہ نہیں۔
اس ظاہری مشن سے ہٹ کر ایک "خفیہ مشن" بھی ہوتا ہے۔ اس خفیہ مشن کو نہ تو کہیں تحریر کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیان کیا جاتا ہے لیکن تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام کارکن اس خفیہ مشن کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور اسی کے حصول کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سی تحریکوں میں ظاہری مشن "اسلام کی تبلیغ" ہوتا ہے لیکن اس کے پردے میں "اپنے نظریات اور مسلک کی تبلیغ" حقیقی مشن کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص ان تحریکوں کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار کر اس خفیہ مشن سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔
اپنے پیغام کو خدا کا پیغام بنا کر پیش کرنے کا عمل
اس کے بعد وہ راہنما قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور قدیم بزرگوں کے حوالے پیش کر کر کے بتاتا ہے کہ جو بات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، وہ خدا کا پیغام ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس راہنما کے دعوی کو پرکھنے کے لئے قرآن و سنت کا مطالعہ کرنا شروع کر دے۔
علم دین پر اجارہ داری
چنانچہ علم کا رجحان رکھنے والے افراد کے لئے بطور خاص یہ تاکید کی جاتی ہے کہ خبردار! قرآن کا مطالعہ نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے لئے اکیس علوم پر کامل عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر تمہیں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو پھر صرف اور صرف اپنے ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کسی عالم کی زیر نگرانی ایسا کرو۔ جب وہ شخص ایسا کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسی راہنما کے پیروکار عالم، قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اس راہنما کے عقائد و نظریات کے مطابق ڈھال کر اسے تعلیم دیتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم اپنی بات کرنے کی بجائے پچھلی صدی کے ایک مورخ کے الفاظ ہی نقل کر رہے ہیں:
‘‘اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد الہی 'بلغ ما انزل الیک' کی تعمیل میں تبلیغ اسلام اور تبلیغ حق کو ہرگز ہرگز مخصوص حلقوں تک محدود نہیں رکھا۔ ادنیٰ سے ادنیٰ قابلیت کے لوگوں پر بھی تعلیم اسلام کا دروازہ اسی طرح کھلا رہا جیسا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ قابلیت کے لوگوں پر کھلا ہوا تھا۔ اسلام نے حقیقی مساوات قائم کر کے سب کے لئے یکساں تقرب الہی کے راستے کھول دیے۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو دوسری اقوام سے نسبی طور پر بھی برتر و بہتر قرار دیا۔ ہندوستان میں برہمنوں نے مذہب کو اپنی ملکیت بنا کر دوسری اقوام کو عبادات اور اعمال مذہبی میں اپنا دست نگر اور محکوم رکھنے کا نہایت زبردست انتظام کیا۔ہندوستان کے مسلمان جو اپنی بہت سے باتوں میں ہندوستان اور ہندوؤں کا اثر قبول کر چکے ہیں، وہ اثر مجلسوں، میلوں، شادی غمی کی تقریبوں میں بہت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ نفس پرست ائمہ مساجد اور زر طلب معلمین مکاتب بھی ہندوستان کے برہمنوں کی بہت سی باتوں کے چرا لینے میں کامیاب ہو گئے ۔یہ رنگ دیکھ کر بعض بلند مرتبہ علماء و فقہا بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر برہمنوں کی ڈگر پر چل نکلے اور علم دین کو اپنی ملکیت بنانے پر آمادہ نظر آنے لگے۔ سب سے زیادہ مدد تقلید شخصی کے نظریے سے لی گئی۔ پھر اکابر پرستی کو لازم قرار دیا گیا۔ پھر فتووں میں یہ التزام کیا گیا کہ فقہی کتب کے حوالے عربی الفاظ میں درج کر کے ان کے ترجمے درج کرنے سے اعراض کیا گیا کہ عام مسلمان ان فقہی کتابوں کے الفاظ کا مطلب نہ سمجھ سکیں اور ان کو چون و چرا کا موقع نہ مل سکے۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں افہام و تفہیم کے درپے ہو تو سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ تم نے علم کس سے پڑھا ہے اور تمہارے پاس سند ہے یا نہیں۔ اگر مولویت کی سند نہیں رکھتا تو وہ قابل خطاب نہیں ۔ان لوگوں کی سب سے زیادہ اذیت رساں کوشش یہ ہے کہ یہ فہم قرآن سے لوگوں کو دور و مہجور رکھنا چاہتے اور علوم قرآن کی اشاعت کو اپنی موت سمجھتے ہیں۔
اب سے قریباً دو سو سال (اور اب تین سو سال) پیشتر اسی ہندوستان میں مولویوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کے خلاف کفر کا فتوی صرف اس لئے صادر کیا تھا کہ انہوں نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں کیوں ترجمہ کیا اور عام لوگوں کو مطالب قرآنیہ کے سمجھنے کا موقع کیوں بہم پہنچایا۔ اب وہ حالت تو بحمد اللہ باقی نہیں رہی لیکن اب اسی کی مانند دوسری چیز یہ موجود ہے کہ ترجمہ میں تقلید کیوں نہیں کی گئی۔۔۔۔تدبر فی القرآن اور تفسیر بالرائے میں فرق نہ کر کے نام نہاد مولویوں نے تدبر فی القرآن کو گناہ عظیم قرار دے رکھا ہے’’۔ (اکبر شاہ خان نجیب آبادی، معیار العلماء)
عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی
عقل کے استعمال کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس نظریے کو بار بار بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان اپنی عقل کے باعث گمراہ ہوا۔ اگر تم نے عقل کو استعمال کیا تو تم بھی گمراہ ہو جاؤ گے۔ یہ حضرات شاید یہ نہیں جانتے کہ شیطان عقل کو استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تکبر کے جذبے کے باعث گمراہ ہوا۔ اگر وہ عقل استعمال کر لیتا تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں مردود نہ ٹھہرتا۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے پیروکاروں کو تو عقل کے استعمال سے روکتے ہیں مگر خود ہر معاملے میں اپنی عقل کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پیروکار بھی اگر عقل کو ان حضرات کی پیروی میں ان ہی کے خفیہ مشن کے لئے استعمال کریں تو اس شخص کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی عقل کو اس راہنما کے نظریات کا کسی دوسرے راہنما کے نظریات سے تقابل کرنے کے لئے استعمال کرے تو اس پر گمراہی سے لے کر کفر، ارتداد اور الحاد کے فتوے عائد کر دیے جاتے ہیں۔
اختلاف رائے کی مخالفت
پیروکاروں کے ذہنوں میں یہ بات اتاری جاتی ہے کہ راہنما سے اختلاف رائے کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ جو شخص ایسا کرے گا، وہ جہنم کا سزاوار ہو گا۔ اختلاف رائے کو اتحاد کا مخالف قرار دے کر اس پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ راہنما کی آرا کو مقدس قرار دے دیا جاتا ہے اور اس سے معمولی سا اختلاف رائے بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی شخص ذرا سا بھی اختلاف رائے کر لے تو اس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اسے نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ راہنما کی ناراضی سے لے کر حلقے سے اخراج کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو حلقے کے بھائیوں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
"مخالفین" کی تخلیق
ان حضرات کی دعوت کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی مخصوص شخص، گروہ، فرقے، ملک، یا مذہب کو مصنوعی طور پر اپنا ہدف بنا لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی صورت میں الفاظ کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ جو الزام کچھ حقیقت کے حامل ہوتے ہیں، ان میں زبردست مبالغہ کر کے ان کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں جو حقیقتاً کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اس عمل کو "فلاں کے خلاف جہاد" کا مقدس نام دے دیا جاتا ہے۔
راہنما کی شخصیت کے بے پناہ تقدس اور نظریاتی فریم ورک کو رگوں میں اتارنے سے پیروکاروں کی برین واشنگ کر کے انہیں راہنما کا مکمل غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریق ہائے کار اختیار کئے جاتے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:
تربیتی نشستیں
راہنما سے وابستہ افراد کی مخصوص تربیتی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ نشستیں بند ماحول میں کی جاتی ہیں۔ ان نشستوں میں خصوصی طور پر باہر کے افراد، جو اس راہنما سے متاثر نہیں ہیں، کو شریک ہونے سے روکا جاتا ہے۔
ان نشستوں میں فلموں کے سیٹ کی طرز پر ایک تصوراتی (Fantastic) سا ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جو پیروکاروں پر غیر معمولی لاشعوری اثر پیدا کرتا ہے۔ مختلف علامتوں (Symbols) کو بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ سلوگنز کے بینر ہر طرف لٹکائے جاتے ہیں۔ شرکاء کے سونے، جاگنے، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے اور حتی کہ استنجا کرنے کو نشستوں کے منتظمین کنٹرول کرتے ہیں اور یہ سارا عمل "ضبط نفس" یا ڈسپلن کے نام پر ہوتا ہے۔
خاص مبلغین کے بیانات
تربیتی نشستوں اور ان کے علاوہ دیگر مواقع پر راہنما کے مقربین خاص کے حلقے سے تعلق رکھنے والے خاص مبلغین کی تقاریر کروائی جاتی ہیں جن میں ظاہری و خفیہ مشن کی تفصیلات، راہنما کی شخصیت سے متعلق پروپیگنڈا اور قدیم لٹریچر کے حوالوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔
ان تقاریر کی خاص بات یہ ہے کہ سینئیر ساتھیوں کو پہلے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ راہنماؤں کے بیانات کے دوران، خواہ مصنوعی طور پر ہی سہی، یہ مظاہرہ کریں کہ ان کی بات کا زبردست اثر ہو رہا ہے۔ یہ چیز نئے آنے والے افراد پر زبردست اثر پیدا کرتی ہے۔ بہت سے مذہبی حلقوں میں اگرچہ موسیقی کے آلات کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن نثری تقریر کے ساتھ ساتھ بغیر آلات کے شعر و نغمہ کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ موسیقی کا اثر انسانی جذبات پر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
مکمل معلومات کی عدم فراہمی
اس تحریک کے مختلف اجتماعات اور نشستوں میں عام طور پر حقائق کی بجائے فینٹیسی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ ادھوری بات بتائی جاتی ہے جو تصویر کا صرف ایک رخ ہی پیش کرتی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ کبھی بھی نہیں دکھایا جاتا جو تحریک کے اصل مقاصد سے مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ عقلی و منطقی دلائل اگر بیان بھی کئے جاتے ہیں تو ان پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی بجائے واقعات بیان کر کے اور ان کی ویڈیوز دکھا کر ان کی اندھی تقلید پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
سماجی ری انفورسمنٹ (Social Reinforcement) اور جذباتی بلیک میل
حلقے یا تحریک کے پیروکاروں میں زبردست محبت و انس پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ان سب کارکنوں کو چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جو ایک ہی بڑے خاندان کا حصہ ہوتے ہیں۔ سادہ لوح پیروکار ایک دوسرے کی حقیقی برادرانہ محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ چالاک لیڈر مصنوعی طور پر ان سے محبت کا ناٹک رچاتے ہیں۔
اگر کوئی پیروکار تحریک کے اصل مقاصد (ظاہری مشن نہیں) سے انحراف کی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی تو اس کی غلطی پر سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے، کبھی اس کے جرم پر ٹسوے بہائے جاتے ہیں اور کبھی اس کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔
بعض غلطیوں پر حضرت ناراض ہوجاتے ہیں اور ان کے پیروکار، اس ناراضی کے بھیانک نتائج کا ایسا پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پیروکار راہنما کے قدموں میں گر جاتا ہے، گڑگڑاتا ہے اور ندامت کے آنسوؤں سے اپنی غلطی کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ شروع شروع میں مقربین خاص غلطی کر کے معافی مانگنے کا ڈرامہ ڈرامہ رچا کر لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں اور اس کے بعد سچے پیروکار پورے خلوص سے یہ سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔
انتہائی صورتوں میں ایسے شخص کو برادری سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ یہ تمام سزائیں پیروکاروں کے لئے جذباتی طور پر اتنے بڑے دھچکے کا باعث ہوتی ہیں کہ پیروکاروں کی اکثریت ان سے عبرت پکڑتے ہوئے معمولی سے انحراف کا خیال بھی دل میں نہیں لاتی۔
عقل کی بجائے جذباتیت کو اپیل
عام طور پر راہنما، اپنے پیروکاروں کی عقل کی بجائے ان کے جذبات کو اپیل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو عقلی طور پر اپنی بات پر قائل کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے جو ان حضرات کا کمزور پہلو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یہ بڑا آسان کام ہوتا ہے کہ کسی کے مخصوص جذبات جن میں غیرت، غصہ، محبت، عقیدت، وغیرہ شامل ہیں، انہیں بھڑکا کر اس پیروکار کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا جائے۔
پیروکار کے جذبے کو تحریک دینے کے لئے مختلف مناظروں یا میدانوں میں اپنی فتوحات اور مخالف کی شکست کے واقعات کو نمک مرچ لگا کر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ کام مقربین خاص کا حلقہ زبردست انداز میں اور راہنما عجز و انکسار کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
اہم لوگوں سے خصوصی ملاقات
ہر گروہ میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو دینی یا دنیاوی اعتبار سے اہم مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بات کو پہنچانے کی عام طور پر اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زیر تربیت افراد کی ایسے اہم لوگوں سے خصوصی ملاقات کروائی جاتی ہے۔
یہ ملاقات گو کہ ون ٹو ون ہوتی ہے لیکن دوستانہ سطح پر نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس اہم شخصیت کے اوقات اور حیثیت کے مطابق اس کا ایک امیج پہلے ہی زیر تربیت فرد کے ذہن میں اتارا جا چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شخص ملاقات سے پہلے ہی اس شخصیت سے متاثر ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملاقاتیں بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص زیادہ اہمیت کا حامل ہو جائے تو اس کی بڑے راہنما سے خصوصی ملاقات کا اہتمام بھی کر دیا جاتا ہے اور اسے اس شخص کی خدمات کا انعام قرار دے دیا جاتا ہے۔
وفاداری کا امتحان
مختلف درجے کے راہنما کبھی کبھار اپنے پیروکاروں کی وفاداری کا امتحان بھی لے لیتے ہیں۔ اس امتحان میں انہیں یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی اپنے راہنما کے وفادار ہیں۔ یہ امتحان چھوٹی موٹی قربانیوں سے لے کر جان کی قربانی پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہٹلر نے اپنے فوجی دستوں سے جان کی قربانی لے کر ان کا امتحان لیا تھا۔
نام کی تبدیلی
اپنے پیروکاروں کو نفسیاتی طور پر اپنا مطیع بنانے کے لئے بعض راہنما ان کے اچھے اچھے نام تک تبدیل کر دیتے ہیں۔ نفسیات کو اس طریقے سے مسخ کر دیا جاتا ہے کہ وہ پیروکار بھی فخر سے اپنا نیا نام دوستوں کو بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ میرے راہنما کا مجھ پر کرم ہے کہ انہوں نے نام بدلنے کے لئے میرا انتخاب فرمایا۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ پیروکار کی پرانی شخصیت کو ختم کر کے ایک بالکل نئی شخصیت پیدا کی جائے جو راہنما کی مکمل نفسیاتی غلام ہو۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بعض صحابہ کے نام تبدیل فرمائے تھے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کبھی کسی صحابی کا اچھا نام تبدیل نہیں کیا۔ استثنائی طور پر چند ایک واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں کسی شخص کے نام میں شرک یا کوئی اور اخلاقی برائی پائی جاتی تھی۔ اس صورت میں آپ نے اسے اپنا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تاکہ نام سے اس اخلاقی برائی یا شرک کے پہلو کو دور کیا جا سکے۔
سوالات کی حوصلہ شکنی
بہت سے گروہوں میں زیادہ سوالات پوچھنے اور بول چال پر پابندی بھی عائد کر دی جاتی ہے۔ زیادہ سوال کرنے کو پسند تو شاید ہی کسی حلقے میں کیا جاتا ہو۔ جس سوال کا جواب راہنما نہ دے سکتے ہوں، اس سوال کو "احمقانہ" قرار دے دیا جاتا ہے اور جس سوال کا جواب ان کے پاس موجود ہو، اس کا بڑھ چڑھ کر جواب دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو سوچنے کی زیادہ عادت نہ پڑے اور عقل کو زیادہ استعمال کر کے کہیں کسی اور ہی طرف نہ نکل جائیں۔
معاشرے سے قطع تعلق
لوگوں کو عام طور پر ان کے پرانے ماحول، جیسے والدین، اساتذہ، دوستوں اور رشتے داروں سے کاٹ کر نئے حلقے کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے لئے پرانے رشتوں کی اہمیت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نئے رشتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس گروہ سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کسی فرد سے معمولی سا تعلق رکھنا "گناہ کبیرہ" قرار دے دیا جاتا ہے۔ بعض گروہوں میں تو مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کو سلام کرنے یا اس سے مصافحہ کرنے کی صورت میں نکاح ٹوٹ جانے کا فتوی تک دے دیا جاتا ہے۔
مخصوص وضع قطع
بعض گروہوں میں یہ طریق کار بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ پیروکاروں کو ایک مخصوص وضع قطع اختیار کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گروہ معاشرے کے باقی حصوں سے الگ ہو کر ایک مخصوص شناخت حاصل کر لے۔ اس وضع قطع کوثواب ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور اس سے مختلف کسی بھی سنت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی پیروکار ایک مرتبہ اس وضع قطع کو اختیار کر لے تو پھر اس سے چھٹکارا اسے موت کی صورت میں ہی مل سکتا ہے۔ بلکہ بعض حلقوں میں تو یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ اسے کفن بھی اسی وضع قطع میں دیا جائے۔ اگر کوئی پیروکار اس وضع قطع کی خلاف ورزی کرے تو سماجی ری انفورسمنٹ کے طریقوں سے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس صورت کو دوبارہ اختیار کرے۔
برین واشنگ کے لئے مذہب کا استعمال
بہت سے مذہبی راہنما لوگوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنانے کے لئے اکثر اوقات مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریق کار صرف کسی مخصوص مذہب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے راہنما اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے راہنما لوگوں کو فکری غلام بنانے کے لئے مذہب کو جن طریقوں سے استعمال کرتے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:
خدا اور بندے کے درمیان واسطے کا تصور
یہ تصور دنیا کے بہت سے مذاہب میں موجود ہے کہ بندہ، اپنے خدا سے براہ راست رابطہ نہیں کر سکتا بلکہ ایسا کرنے کے لئے اسے کسی کا سہارا لینا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہر شخص اللہ تعالی کے حضور دعا کر سکتا ہے، گڑگڑا کر توبہ کر سکتا ہے، اپنی حاجات کو اس سے جب چاہے مانگ سکتا ہے لیکن اس سے قطع نظر بہت سے گروہوں میں اس نظریے کو پروان چڑھایا گیا کہ ایسا کرنا کافی نہیں ہے۔
یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ قرآن و سنت اگرچہ اہم تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی فیضان اس کے علاوہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے لے کر آج تک سینوں میں سے منتقل ہوتا ہوا آ رہا ہے۔ آج کے دور میں ان بزرگوں میں سب سے بہتر "ہمارے حضرت" ہیں۔ ان کی بیعت کر کے ان کی غلامی کا طوق پہن لیجیے تو یہ فیضان حاصل ہو جائے گا۔
اطاعت امیر کی احادیث کا استعمال
بہت سے مذہبی راہنما لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے اطاعت امیر سے متعلق احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلم امت کو انارکی اور لاقانونیت سے بچانے کے لئے حکومت کی اطاعت کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ صریحاً کفر کا ارتکاب نہ کرے۔
عہد صحابہ و تابعین میں لفظ "امیر" یا "اولو الامر" سے مراد ہمیشہ حکمران ہی سمجھا جاتا ہے اور لفظ "جماعت" کا معنی حکومت ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے آخری دور میں مسلمانوں کے ہاں جو دو فرقے پیدا ہوئے، ان میں سے چھوٹے فرقے کا نام اھل التشیع (یعنی گروہ کے پیروکار) اور بڑے فرقے کا نام اھل السن و الجماع (یعنی سنت اور حکومت کے پیروکار) رکھا گیا۔
جب سیدنا حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین صلح کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور مضبوط حکومت قائم ہوئی تو اس کا نام "عام الجماع’’ یعنی جماعت کا سال رکھا گیا۔ ہم یہاں صحیح مسلم کی صرف دو حدیث پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث میں لفظ "جماعت" اور دوسری میں لفظ "سلطان" آیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جماعت کا معنی حکومت ہی ہوتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی جماعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"
جنت اور جہنم کے عقیدے کا استعمال
قرآن مجید نے جنت کا مستحق ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو اللہ، اس کے رسولوں اور آخرت پر ایمان لائیں اور اپنی عملی زندگی میں اخلاقی اصولوں اور ان کی بنیاد پر نازل کردہ شریعت کی پیروی کریں۔ مذہبی راہنما اس نظریے کو اپنے حق میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس کے بعد اس راہنما کی اطاعت کی صورت میں جنت اور اس کی نافرمانی کی صورت میں جہنم لازم ہو جاتی ہے۔
اعتراف اور توبہ
کیتھولک عیسائیوں میں مذہبی راہنما کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس کے توسط سے توبہ کرنے کا تصور موجود ہے۔ اسلام میں اعتراف کا کوئی تصور تو موجود نہیں ہے لیکن بعض مذہبی راہنماؤں نے اجتماعی توبہ کی صورت میں یہ سلسلہ مسلمانوں کے ہاں بھی جاری کر رکھا ہے۔
بہت سے مذہبی راہنما اپنے پیروکاروں میں عجز و انکسار پیدا کر کے اس عاجزی کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ پیروکاروں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں۔ اس وجہ سے انہیں توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی یونہی کسی کو معاف کر دے، اس کا امکان کم ہے۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ حضرت کے توسط سے توبہ کی جائے۔ اس طرح سے اس کی قبولیت کا امکان زیادہ ہے۔ پیروکاروں کے اجتماعات میں ان سے کہا جاتا ہے کہ راہنما توبہ کروائیں گے، ہر شخص اپنے اپنے گناہوں کو یاد کر کے اشک باری اور توبہ کرے۔
اس اشک باری اور توبہ کے نتیجے میں روحانی لطف اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، اسے اللہ تعالی سے تعلق قائم کرنے کی بجائے راہنما کی ذات سے تعلق مضبوط کرنے کے لئے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ پیروکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکیزگی انہیں اس راہنما کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اگلی محفل میں آنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تنہائی میں اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کرے تو شاید اسے اس محفل کی نسبت زیادہ ہی پاکیزگی حاصل ہو جائے گی۔
"میں گناہ گار ہوں" کے نظریے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں۔ اگر وہ نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حضرت سے وابستہ ہو جائیں ورنہ ان کا مقدر جہنم ہو گی۔
روحانی تجربات
دنیا کے بہت سے مذاہب میں لوگ راہنما کے زیر تربیت روحانی تجربات حاصل کرتے ہیں جن میں کشف، اچھے خواب، انبیاء کرام علیہم السلام کا دیدار، فرشتوں کا نزول، مقدس مقامات کی روحانی زیارت وغیرہ شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ راہنما مخصوص ماحول میں مختلف نفسی علوم جیسے ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے پیروکاروں کے ذہن پر اثر انداز ہو کر انہیں روحانی تجربات سے گزارتے ہیں جن میں مقدس مقامات جیسے خانہ کعبہ یا روضہ رسولﷺ کا دیدار شامل ہوتا ہے۔
ایک صاحب کو میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنے پیروکاروں میں مقدس مقامات کی زیارت کی اتنی تڑپ پیدا کر دیتے تھے کہ ان پیروکاروں کے تصور میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے مقدس مقامات کی شبیہ رہتی تھی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ انہیں کبھی کبھار خواب میں یہی مقدس مقامات نظر آ جاتے۔ اس زیارت کو یہ لوگ "حضرت کا فیض" قرار دیا کرتے تھے۔ جس مرید کے ذہن پر ان کا اثر قائم ہو جائے، وہ خوش نصیب قرار پاتا ہے اور باقی افراد "دیدار کی بھیک کب بٹے گی؟" کی تڑپ لئے اگلی محفل کا انتظار کرتے ہیں۔
نفسیاتی غلامی کی اگلی نسلوں کو منتقلی
صرف پیروکاروں ہی کو غلام بنا لینے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی راہنما کی محفلوں میں لایا کریں۔ اس طریقے سے برین واشنگ کا یہ عمل کچی ذہن کے بچوں پر بھی دوہرایا جاتا ہے۔
نفسیاتی غلامی کو فروغ دینے کے اس عمل کی بہت سی تفصیلات ابھی باقی ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگ کھوٹے راہنماؤں کے مکر و فریب سے آگاہ ہو کر ان سے بچ سکیں۔
(بشکریہ مبشر نذیر ڈاٹ او آر جی)