گرامی قدر سید محمد صدیق بخاری صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جب سے سوئے حرم کا اجرا ہوا ، میں اس کا قاری ہوں۔ خداکرے کہ تادمِ زیست بلکہ بعد بھی میری اولاد اس کو جاری رکھے۔
یہ عریضہ لکھنے کا محرک آواز دوست کا عنوان ہے۔ بالیقیں آپ نے دردِ دل سے اِس قومی انحطاط کا تذکرہ کیا ہے۔ اے کاش کہ ایوانِ اقتدار کے دل میں یہ بات اتر جائے اور نواجوان نسل اپنی منزل کا تعین کر لے۔ اقبال نے تو مدتوں پہلے یہ رونا رویا تھا
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ایرانی
زبان قوموں کی اپنی پہچا ن ہوتی ہے اور آپ نے کیا خوب لکھا کہ کشکول زدہ ہاتھ کی عزت نفس کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے ۔ اب تو زبان کے علاوہ وہ لباس بھی ایسا پہنتے ہیں کہ مانگے تانگے کے لوگ لگتے ہیں۔ نوجوان بلکہ شرفا تک کو اپنی مشرقیت کا احساس نہیں ۔ بالخصوص شادیوں پر تو یہ ہیجڑے ہی نظر آتے ہیں۔ قمیض پر کشیدہ کاری زنانہ رنگ …… آخر ہم کہاں جا رہے ہیں۔
‘‘بنیاد’’ کے اشتہار پر شجر کی تصویر ہے۔ اس طرح تو کتاب کا نام ‘‘بنیادِ شجرِ زیست’’ ہونا چاہیے تھا۔ یہ محض میرا خیال ہے کوئی تنقید نہیں۔
اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
والسلام شیخ بشیر احمد ساجد
باہروال ضلع گجرات