عبدالماجد

مصنف : تحریم طارق

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : 2016 جنوری

مشاہیر اسلام آخری قسط
عبدالماجد دریا بادی

 

تحریم طارق

ماجد   کی اہلیہ کا تعلق سندیلہ کے مشہور خاندان دیوان جی سے تھا۔اس کے خسر اپنی ثروت کی بناء پر نوٹوں والے کے نام سے جانے جاتے تھے۔اب شادی کے بعد محبوب بیوی کی آسائش و آرام کی فکر لاحق ہوئی اور ملازمت کے لئے تگ و دو شروع کر دی۔اب کی بار بیوی کی قسمت بھی ساتھ تھی۔علی گڑھ کے صاحبزادہ آفتاب احمد خان نے ان کی کتاب دی سائیکالوجی آف لیڈر شپ پڑھ رکھی تھی ،خط لکھ کر علی گڑھ بلوایا۔ایجوکیشنل کانفرنس کے لٹریری اسسٹنٹ کے طور پر 200روپے ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھ لیا۔مسئلہ یہ تھا کہ نئی بیوی سے الگ علی گڑھ میں رہنا تھا فیصلہ گراں تھا لیکن بیوی نے حوصلہ دیا اور وہ چلا گیا۔
وہاں پہنچ کر محمد علی جوہر کو اطلاع دی نوکری کا احوال بتلایا۔ محمد علی کے جوابی خط نے اسے چوکنا کر دیا۔اس خط کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ آفتاب احمد خان کے ساتھ نباہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔وہ اس سے نوکری کا تجربہ کر چکے ہیں اور نباہ نہ ہو سکا تھا۔محمد علی جوہر کے خط سے صاحبزادہ کے لئے اچھی رائے کا اظہار نہ ہوا اس کا تماشہ خود اس نے بھی دیکھ لیا صاحب زادہ کے مزاج میں سختی اور درشتی تھی بات بات پر الجھ پڑتے تھے۔خود عبدالماجد بھی مزاج کا اکل کھرا تھا۔کسی کی آدھی بات سننے کا حوصلہ نہ تھا جس سرعت سے ملازمت ملی اتنی جلدی چھوٹ بھی گئی۔
انہی دنوں حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لئے تیاریاں جاری تھیں ذریعہ تعلیم اردو ہونا تھا ،کتب کے ترجمہ کے لئے ‘‘دارالترجمہ’’کا قیام عمل میں آیا بطور اہل علم عبدالماجد کا نام بھی نکل آیا جن کے بیشتر ترجمے داد وصول کر چکے تھے۔
1917 میں عبدالماجد حیدر آباد روانہ ہوئے۔اس بار بیوی ہمراہ تھیں۔اور تنخواہ300روپے ماہانہ۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر ریاستی سیاست سے ان کا نباہ کرنا مشکل ہو رہا تھا مزید یہ کہ ان کے اور مولوی عبدالحق کے درمیان زبردست شورش پیدا ہو گئی تھی۔یہاں کے ایک اخبارصحیفہ نے بھی اس کو خوب چوکھا رنگ دیا۔ان کی کتابیں پھر سے تبصرے کی زد میں آگئیں۔فضاایسی خلاف ہو گئی کہ ان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا گیا۔وہ اتنی شدید مخالفت کا سامنا نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کر واپس آگئے۔معاشی پریشانی لاحق ہو نا تھی کہ اس وقت دار المصنفین اعظم گڑھ ان کے کام آگیا۔ دارالمصنفین کی فرمائش پر انہوں نے جارج برکلے کی مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ مکالمات برکلےْ ْکے نام سے کیا جو اس خوبی سے ہوا کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی ’’معارف ‘‘کے لئے معاوضے پر لکھنا شروع کر دیا اور گزر بسر ہوتی رہی۔
1919 کے اوائل میں ماجد نے نظام حیدر آباد کو وظیفہ علمی کے لئے درخواست دی جس کی ضروری تفصیلات کے لئے انہیں ایک بار پھر سے حیدر آباد جانا پڑا۔وہاں ان شرائط پر وظیفہ کی منظوری ہوئی کہ وہ سال میں 1تصنیف پیش کیا کریں گے اور اسکے خاکے کا مسودہ محکمہ احتساب کی نظر سے گزارنا ہوگا ،محکمے کی منظوری کے بعد وہ کتاب مکمل کریں گے۔شرائط شائد اسی لئے لگائی گئی ہوں گی کہ عبدالماجدکے الحادی نظریات کو جانچ سکیں۔
125روپے وظیفہ ماہانہ تا حیات منظور ہو گیا جو گھر بیٹھے انہیں ہر ماہ ملنے لگا۔قیام کی کوئی قید نہ تھی جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔اس دور میں متعدد ترجمے ان کے قلم سے نکلے جن میں تاریخ،تمدّن ، تاریخ اخلاق یورپ اور ناموران سائنس بڑی اہم ثابت ہوئیں۔
10سالہ جنگ جو ان کے باطن میں نظریات و افکار کی چھڑی ہوئی تھی اس کے خاتمے کا دور آنے ہی والا تھا۔ایک ہلچل جو مچی تھی اس کو قرار ملنے ہی والا تھا۔تشکیک و الحاد کے اس حملے سے جس سے وہ مغلوب ہوئے تھا اب اس سے نجات کا دن قریب آرہا تھا۔ اور کے اندر ایک نیا انسان بیدار ہونے ہی والا تھا۔ اور اس نئے انسان کی بیداری میں اس کے دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا جو اس کے دور الحاد میں بھی اس کے ساتھ ہی رہے۔اس کو ٹوکتے رہتے،اس میں ایک ہاتھ ان کتابوں کا بھی تھا جو اس کے مطالعے میں رہتی تھیں انہوں نے اسے روشنی دی۔کتابوں ہی نے اے بھٹکایا اور اب کتابیں ہی اسے راہ راست پر لا رہی تھیں۔حکیم کنفیو شس کی تعلیمات، بھگوت گیتا، مثنوی مولانا روم، یہ وہ کتابیں تھیں جو اسے کچھ سوچنے پر مجبور کیا کرتی تھیں۔مگر خاص طور پر شبلی کی سیرت النبی کے مطالعے نے اس کی کایا ہی پلٹ دی تھی۔نفس شوم کو جو سب سے بڑی ٹھوکر لگی تھی وہ سیرت اقدس کی ہی تو تھی۔اور خاص طور پر غزوات و محاربات کا سلسلہ،ظالموں نے نجانے کیا کچھ اس کے دل میں بٹھا دیا تھا۔اور ذات مبارک کو نعوذباللہ ایک ظالم فاتح قرار دیا تھا۔ سیرت النبی نے اصل دوا اسی دردکی کی۔
مثنوی مولانا روم کے دفاتر کا مطالعہ شروع کیا پڑھتے گئے اور آنسو بہاتے گئے۔پھر یہی حال مکتوبات مجدد سرہندی کو پڑھ کر ہوا کہ کہیں کہیں چیخ بھی پڑے۔والد مرحوم نے اپنے لخت جگر کے لئے غلاف کعبہ پکڑ کر جو دعا مانگی اس کی قبولیت کا وقت آچکا تھا۔الحاد کی گرہ کھل چکی تھی۔
مدتوں بعد وضو کر کے وہ مصلّے پر بیٹھے اور خدا کے حضور کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے۔گناہوں کا خیال آیا تو چیخیں نکل گئیں۔عفت کی آنکھ کھلی تو دیکھا بھٹکے ہوئے عبدالماجد راہ راست پر آچکے تھے۔خدا کا شکر ادا کیا اور شوہر کے آنسوؤں میں ان کے آنسو بھی شامل ہو گئے۔رات بھر گھر میں استغفار کی آوازیں گونجتی رہیں اور صبح ہوئی تو فجر کی نماز کے لئے مسجد کو چل پڑے۔مسجد میں نما ز کے لئے آستین اونچی کی تو ایک باریش بزرگ نے ہاتھ پر کھدے ناخن کو دکھ کر عجیب سا منہ بنا لیا زبان سے تو کچھ نہ کہا۔اگلی نماز کے لئے گھر سے وضو بنا کر گئے کہ آستین اونچی نہ کرناپڑے۔ وہ آنکھیں عبدالماجد کو بڑے عرصے تک یاد آتی رہیں۔
اسی چھپا چھپی میں کئی دن گزر گئے احساس شرمندگی نے اسے جب نڈھال کر دیا تو مذہبی کتب میں نام کھدوانے کی وعیدیں دیکھیں اور اپنے دوست ڈاکٹر عبدالعلیٰ کو بلا لیا۔اور سارا ماجرا کہہ ڈالا اور ماضی کی اس یاد گار کو کھرج ڈالنے کے ارادے کا اظہار فرمایا۔انہوں نے بہت سمجھایا تکلیف دہ عمل کی وضاحتیں دیں پر وہ اللہ کی راہ پر چلنے کے لئے ہر تکلیف سہنے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے۔نام کھرچ دیا گیا۔ عرصہ تک مرہم پٹی ہوتی رہی۔لکھنے پڑھنے کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرتے رہے۔
ایک دن گھر پر بیٹھے بیٹھے اپنے نکاح کا خیال آگیا کہ میں تو اس وقت کسی اسلامی رسم کا قائل ہی نہ تھا جب نکاح ہو رہا تھا تو میں دل میں ہنس رہا تھا بس نمائش میں بیٹھا تھا دل سے تو قبول نہیں کیا تھا۔بس تجدید نکاح کی ٹھان لی بیوی سے ذکر کیا تو وہ ہنسنے لگیں کہ اس عمر میں دلہن بنواؤ گے؟انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا دلہن دلہا بننے کو کون کہہ رہا ہے بس تجدید نکاح ہوگا۔ بیوی نے کہا کہ وہم میں نہ پڑو ،اللہ نیت دیکھتا ہے۔انہوں نے کہا جبھی تو کہہ رہا ہوں کہ اس وقت میری نیت ٹھیک نہ تھی۔ عفت بھی تنک کر فوراًبولیں یعنی آپ مجھے بیوی بنانے پر آمادہ نہ تھے؟انہوں نے پھر سنجیدگی سے کہا کہ بالکل تھا ،مگر ایسے جیسے کہ ایک ہندو ہوتا ہے ،نکاح کے وقت جب آیات پڑھی جارہی تھیں تب میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کلام الہیٰ نہیں ہے۔پھر عفت کے پاس کہنے سننے کے لئے کچھ نہ رہ گیا تھا۔ایک مولوی بلوایا گیا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا۔
تجدید اسلامی کے بعد جوش اٹھا تو آستانہ اجمیری پر حاضری دی۔قوالیوں کی آوازیں چہار سو تھیں ،لوگ چادریں چڑھا رہے تھے منتیں مانی جا رہی تھیں عرس کا زمانہ تھا ہر جانب لوگ ہی لوگ تھے کسی نے اشارہ کر دیا کہ وہ دیکھو عبدالماجد دریا بادی۔کھدر کا لباس(گاندھی جی سے عقیدت کے باعث پہننا شروع کر دیا تھا)گورا رنگ،داڑھی سفید گول اور نورانی، نکلتا ہوا قد،آنکھوں پر چشمہ،لباس پر کھدر کی ایک عبا،اور سر پر اپنے ہی طرز کی ٹوپی جس کی بناوٹ اور اونچائی عام توپیوں سے ہٹ کر تھی۔
عارفانہ کلام پڑھا جا رہا تھا اور عبدالماجد جھوم رہے تھے۔لوگ حیران تھے مگر ان کے قلب کی کیفیت کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پھر چشم فلک نے انہیں درگاہ خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ میں دیکھا ،لکھنؤ میں شاہ مینا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دیتے دیکھا۔ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے پھیرے کاٹتے دیکھا۔جب تمام مزاروں کے چکر کاٹ چکے تو لکھنو کی رنگینی کو خیر باد کہہ کر مستقلاً دریا باد منتقل ہو گئے۔ حویلی سے متصل ان کے مورث اعلٰی حضرت مخدوم آبگش رحمتہ اللہ علیہ کا مزار تھا اس کی صفائی ستھرائی کرائی ،عرس کا زمانہ آیا تو قوالوں کو محمد علی جوہر اور اپنی تیار کردہ نعتیہ غزلیں یاد کروائیں،اور محفل سماع منعقد کروایا۔دریا باد کی خاموشی میں کام کرنے کا خوب موقع ملا۔وقت کے زیاں سے دور رہنے کے لئے طریقہ نکالا کہ جو بھی ملنے والا آتا اس کے سامنے ایک ٹائم پیس رکھ دی جاتی جو ہر 15منٹ بعد بجتی اور ملنے والا سمجھ جاتا کہ وقت ملاقات ختم ہوا۔دوسروں کے گھر جانے سے پرہیز کرتے کہ وہاں آدمی صاحب خانہ کا محتاج ہو جاتا ہے۔وقت کی بچت کے لئے انہوں نے دوپہر کا کھانا چھوڑ دیا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد جم کر لکھنے پڑھنے کا کام نہیں ہوپاتا۔بصارت بھی کمزور ہو چکی تھی سو علمی کاموں کی انجام دہی کے لئے دن کے اوقات ہی میسر تھے۔مغرب سے پون گھنٹہ پہلے سب کچھ سمیٹ کر گھر کے باہری حصے میں آجاتے جہاں علام لوگوں کے لئے گویا دیدار عام کی رسم ادا کی جاتی تھی۔اسلام کے شرف سے دوبارہ مشرف ہونے کے بعد ان کا میلان زیادہ تر قرآن اور متعلقات قرآن ہی پر وقف ہو گیا تھا۔ایسے ادبی مضامین قلم سے نکلے کہ جو ہمیشہ یاد رکھے گئے۔ان کے ادبی مضامین نے تنقید کی دنیا میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔’’غالب کا ایک فرنگی شاگرد،مرزا رسوا کے قصّے،اردو کا واعظ شاعر، پیام اکبر، اردو کا ایک بدنام شاعر،گل بکاؤلی اور مسائل تصوف اور موت میں زندگی ایسے ہی چند مضامین ہیں۔
تصوف اور قرآن اس دور میں خاص موضوع رہا خود بھی اسی دور سے گزر رہے تھے سو تحقیق اور عقیدت کا شاہکار اور ایک کتاب ’’تصوف اسلام ‘‘شائع کرادی۔رومی کے ملفوطات کو ترتیب دیا۔ قرآن کے انگریزی ترجمے اور تفسیر جیسے بلیغ کام کا آغاز کر دیا۔تفسیر لکھتے لکھتے کئی کتابیں ظہور میں آئیں جو بعد میں’’اعلام القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن’’وغیرہ کے نام سے شائع ہوئیں۔
بیسویں صدی کا ہندوستان ’’اخبارات ‘‘ کا ہندوستان تھا کئی اکابرین نے صحافت کے نئے باب رقم کئے تھے، ہندوستان کی سیاسی و مذہبی لہروں کی گونج اخبارات میں سنائی دے رہی تھی۔خود عبدالماجد ایک عرصہ اخبارات سے وابستہ رہے تھے سو جانتے تھے کہ ہنگامی موضوعات کو عوام تک پہنچانے کے لئے اخبارات سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔سوچا کیوں نہ اپنا ایک اخبار ہی نکالا جائے۔مولانا عبدالرحمٰن نگرامی نے اس کی حمایت کی اور اخبار کا نام ’’سچ‘‘ بھی تجویز کر دیا۔تیاریاں مکمل ہوئی اور عبدالماجد کی زیر ادارت ہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلنا شروع ہوگیا۔اصلاح معاشرہ ،ردبدعات ، تجدد اور ترقی پسندی کی مخالفت اس اخبار کے خاص موضوعات تھے۔
اسلام کی جانب واپسی پر خاندانی رویات بھی واپس آرہی تھیں۔خاندان نیم صوفی خاندان تھا۔والد صاحب بدعات سے بچتے ہوئے محفل سماع میں شریک ہوتے اور مزارات کے بھی معتقد تھے ان کی والدہ تک سلسلہ قادریہ رزاقیہ (بانسہ) میں بیعت تھیں۔عبدالماجد بھی کسی سے بیعت کا سوچنے لگے۔مسلم تصوف کی اہم کتابوں کے مطالعہ سے وہ بیعت کی اہمیت کے قائل ہو چکے تھے۔اب سوال تھا کہ بیعت کس سے کی جائے۔ عبدالماجد عام آدمی تو نہ تھے کہ آنکھ بند کر کے کسی کے بھی مرید ہو جائیں ان کا مرشد بھی انہی کے معیار کا ہونا چاہیئے تھا۔کبھی سوچا کہ محمد علی جوہر سے بیعت کروں تو کبھی کسی دوسرے کا خیال آتا۔ پھر آخر کار ہر جگہ سے مایوس ہو کر ایک راہ سوجھی کہ سفر پر نکلا جائے گوہر مقصود جہاں ملے ۔حیدر آباد ، دہلی، لکھنؤ، امیر ، کلیر ، دیوہ، بانسہ اور ردولی میں ہر چھوٹے بڑے مرکز میں جا کر بزرگان دین سے مل آئے۔حال والے بھی دیکھے اور قال والے بھی۔جھوٹوں کو بھی دیکھا اور سچوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ کہیں کچھ دیر کو دل اٹکا مگر پھر اکھڑ گیا۔واپس دریا باد آگئے۔ دنوں تک سوچ بچار کی دھیان میں پھر ایک نام’’دیو بند‘‘ کا آیا۔کسی نے وہاں مولانا حسین احمد مدنی کا نام لیا وہ ان کے دیکھے بھالے بھی تھی کہ خلافت کمیٹی کے سلسلے میں ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔
اسی سوچ و بچا رمیں تھے کہ وصل بلگرامی جن سے عبدالماجد کا ادیب کی حیثیت سے بڑا یارانہ تھا وہ خود اشرف علی تھانوی کے مرید تھے عبدالماجد کو بھی انہیں کا نام تجویز کیا۔ عبدالماجدنے جواب دیا کہ کیا سمجھتے ہو اتنا بڑا نام زیر غور نہ ہوگا۔پوچھا گیا پھر تکلف کس بات کا ہے ؟ماجد نے بیان کیا کہ تحریک خلافت کے سخت مخالف ہیں اسی لئے اعراض برت رہا ہوں۔وصل بلگرامی نے انہیں تھانوی صاحب کے ’’مواعظ ‘‘پڑھنے کو دیئے کہ اس کو پڑھ کر فیصلہ کیجئے۔ مواعظ پڑھنا تھے کہ حقائق و معارف سامنے آکھڑے ہوئے۔ایسا لگا حجاب ہٹ کر سامنے تھانوی قبلہ خود کھڑے ہیں۔دل خود ان کی جانب کھنچتا چلا گیا۔تھانوی صاحب سے مراسلات شروع کیے 1 سال تک مراسلات پر دلوں کا حال بیان ہوا پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔طویل نشستیں رہیں اور آخر کار عبدالماجد کو بیان دینا ہی پڑا کہ اگر میں عقیدہ تناسخ کا قائل ہوتا تو کہہ اٹھتا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔تھانوی صاحب نے عبدالماجدکا میلان دیکھتے ہوئے حسین احمد مدنی کو مشورہ دیا کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں۔ عبدالماجددیوبند گئے اور مدنی صاحب کے ہاتھ پر بیعت فرمائی۔بیعت مدنی صاحب کی ہوئی مگر مرکز عقیدت تھانہ بھون ہی رہا۔پھر عشق اتنا بڑھ گیا کہ تھانوی صاحب پر پوری ایک کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی ایسی کہ مرید کا نذرانہ مرشد کے لئے۔کئی لوگ عرصے تک اسی غلط فہمی کا شکار رہے کہ عبدالماجد اشرف علی تھانوی کے نیازمند نہیں مرید ہیں۔
دوسری جانب اخبار ’’سچ‘‘ ایسی معرکہ آرائیوں میں حصہ لے رہا تھا کہ جو اس کی مقبولیت کا سبب بن رہی تھیں۔سچ لکھنے کے لئے عبدالماجد نے کبھی مصلحت کو آڑے آنے نہ دیا۔خواجہ حسن نظامی ان کے نہایت اچھے دوست تھے لیکن جب نظامی صاحب نے مولانا محمد علی جوہر کو فاسق اور یزید کے نازیبا القابات سے یاد کیا اور متواتر اپنے پرچے میں ان کے خلاف لکھنا شروع کر دیا تو عبدالماجد سے ایک مصلح قوم کی توہین برداشت نہ ہو سکی،سو عبدالماجد نے خواجہ صاحب کی تعریضات کا نوٹس ’’سچ ‘‘کے صفحات میں لینا شروع کر دیااور خوب جواب دیا۔خواجہ حسن نظامی نے جب اپنے پرچے ’’منادی ‘‘میں خود کو برٹش گورنمنٹ کا ہمیشہ سے خیر خواہ ظاہر کیا پھر تو عبدالماجد نے خواجہ صاحب کے خوب لتے لئے۔
ایک صاحب تھے’’سید نذیر نیازی ‘‘انہوں نے ’’جوزف ہیل ‘‘کی ایک کتاب عربوں کا تمد ن اردو میں ترجمہ کراکے شائع کرادی ،جس میں اسلام اور حضرت محمد اور آل محمد سے متعلق نازیبا اور دل آزار کلمات تھے۔ عبدالماجدنے نہ صرف کتاب کی مخالفت و مذمت کی بلکہ دوسرے لکھنے والوں کو بھی اس مہم میں شامل کر لیا،جس میں مولانا ابو الکلام آزاد بھی شامل تھے۔ان حضرات کے مضامین اور مختصر احتجاجی مراسلے ’’سچ‘‘ میں شائع ہوئے،یہاں تک کہ جامعہ ملیہ کو یہ کتاب اپنی فہرست سے خارج کرنا پڑی۔
دوسروں سے معرکہ آرائیاں جاری تھیں کہ وہ خود بھی ایک معرکہ آرائی کی زد میں آگئے۔ ان کے وہ دوست جنہوں نے ان کے اخبار کا نام ’’سچ ‘‘تجویز کیا تھا عین جوانی میں انتقال کر گئے۔ایک بیوہ اور کم سن بچی ترکہ میں چھوڑی۔بیوہ کی عمر 26یا 27سال کی تھی۔ عبدالماجدکے بڑے بھائی عبدالمجید نے خط کے ذریعے انہیں بیوہ کا عقد ثانی کروانے کا مشورہ دیا۔ عبدالماجد مصروفیات کی بنا پر اس بات کو نظر انداز کرتے رہے۔بار بار خطوط کی آمد پر آخر کار انہیں دلچسپی ظاہر کرنا ہی پڑی،اس سلسلے میں ان کی بیوہ سے بھی کئی بار ملاقات ہوئی۔نکاح ثانی کی اپنی جانب سے کئی کوششوں میں ناکامی کے سامنے پر اور اپنی بیوی کی بیماری کو مدّنظر رکھتے ہوئے بیگم عفت النساء سے رضامندی حاصل کرنے کے بعد (کافی ردّوکد کے بعد)انہوں نے بیوہ سے عقد ثانی کر لیا۔
نکاح کے ردّعمل کے طور پر خاندان بھر میں ہلچل مچ گئی،جیسے گناہ عظیم کر لیا ہو۔سسرال والے برافروختہ تھے بار بار طلبی ہو رہی تھی دھمکیاں ملنے لگیں کہ طلاق دو،ہماری بہن کو رکھو یا دوسری عورت کو۔ادھر عبدالماجدبضد تھے کہ جس غریب بے آسرا عورت کو سہارادیا اب اس سے دست کش نہیں ہوں گے۔ادھر عفت کو ہسٹریا کے دورے پڑنا شروع ہو گئے بات بات پر لڑنے لگیں،کمزوری حدسے بڑھ گئی کھڑے کھڑے گرنے لگیں خوب چوٹیں آئیں۔حالانکہ رضامندی خود بھی ظاہر کر دی تھی مگر اب وہی ان کی زبان پر تھا جو ان کے گھر والے چاہتے تھے۔آخر کار 8ماہ بعد ہی عبدالماجد کو طلاق دیتے ہی بنی۔
اب طلاق کے بعد سب دشمن سامنے آگئے،وہ جن کی خبر ’’سچ ‘‘میں لی گئی تھی۔حالانکہ یہ ایک خانگی معاملہ تھا مگر مخالفین نے خوب اچھالا ،پھر ایک پمفلٹ بھی چھاپہ گیا اور اسے گھر گھر تقسیم کرایا گیا،اس میں عبدالماجد پر رکیک الزامات عائد تھے۔اور ان کی زندگی کو ایک مذاق بنادیا گیا تھا۔انہیں ظالم اور فریبی جانے کیا کچھ نہیں کہا گیا تھا۔عبدالماجد کو گمان تھا کہ اس کے پیچھے ’’نگار‘‘کے ایڈیٹر نیاز شیخ پوری ہیں۔نگار نے اس پمفلٹ کے بعد 8صفحات اس معاملے کے لئے مختص کر دئے تھے،اور عنوان لکھ ڈالا ’’عبدالماجد دریا بادی بے نقاب‘‘۔اس کے بعد مساجد کے باہر پوسٹر لگوائے گئے کہ جمعہ کے دن ہر مسجد کے منبر سے عبدالماجد پر لعنت کی جائے۔13سے14ماہ تک یہ ہنگامہ جاری رہا تب جا کر بالآخر یہ ذہنی اذیت کا باب بند ہوا۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ مرزا عظیم بیگ چعتائی کی چند تصانیف اور کتابیں جن میں ’’حدیث اور پردہ‘‘،’’قرآن اور پردہ’حریم‘‘،’’رقص و سرور ‘‘قابل ذکر ہیں میں افسوسناک عبادتوں اور خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔آیات کے غلط مطالب نکالے گئے تھے۔احادیث کو جھوٹ کا پلندہ (نعوذ باللہ)بتایا گیا تھا۔یہ وہی صاحب تھے جن کی بہن عصمت چغتائی نے لکھا کہ وہ قرآن لیٹی لیٹے پڑھتے اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرتے تھے۔قرآن پر اخبار چڑھا لیا کرتے کہ کوئی یہ نہ سمجھے قرآن مجید ہے قانون کی کتاب سمجھے۔ان کتابوں سے ایک ہلچل مچ گئی ہر وہ شخص جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان تھا اس کے دل کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اخبار رسائل جرائد ہر جگہ مضامین کی قطار لگ گئی۔مگر کوئی خاص بات بن نہیں رہی تھی کہ کتاب پر پابندی لگ سکے اب سب کی نگاہ ’’سچ ‘‘ پر ٹکی تھی کہ عبدالماجد ہی اس کتاب پر کچھ لکھیں تو بات بنے۔ ’’سچ‘‘ کے دفاتر میں خطوط کے انبار جمع تھے جن میں یہی درج تھا کہ اس وقت ’’سچ ‘‘خاموش کیوں ہے؟عبدالماجدنے مرزا عظیم کا نام سن رکھا تھا کسی تصنیف کا مطالعہ نہ کیا تھا کیونکہ مرزا عظیم مزاحیہ ناول لکھا کرتے تھے جو عبدالماجد کا میدان نہ تھا پھر عظیم کو جانے کیوں اچانک مذہبی تصانیف کا خیال آیا اور کئی کتابیں لکھ ڈالیں عبدالماجد پہلے تو وہ مسلکی فرق سمجھے اور نظر انداز کر ڈالیں۔ عبدالماجد کتابیں پڑھے بنا مجرم قرار نہیں دے سکتے تھے اس کا اظہار اخبار میں بھی کر دیا تھا ایک دن دکن سے کسی صاحب نے انہیں کتابیں بھیج دیں۔اب انہیں پڑھنا ضروری تھا۔کتاب اٹھائی ،ورق الٹے تو ایک جگہ لکھا دیکھا کہ’’حدیث بڑی فرسٹ کلاس ہے’’چونک گئے کہ یہ کون سا طرز بیان ہے،مزید ورق الٹے۔ایک جگہ لکھا پایا’’ملاّوں نے قرآن شریف کو محض سنی سنائی بات پر (جو دو ،ڈھائی سو سال برس بعد )سے قربان کر کے پھینک دیا۔۔۔۔‘‘
عبدالماجد ٹھنک اٹھے۔یہ شخص تو حدیث کو سنی سنائی بات سے تعبیر کرتا ہے،محدثین نے محنت کر کے اچھی طرح تحقیق کر کے جن احادیث کو جمع کیا اس کے نزدیک یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں اور پھر اس آدمی کا لہجہ کتنا تحقیر آمیز ہے۔’’ہم ان چاروں اماموں کے اقوال کو اٹھا کر زور سے دیوار پر مارتے ہیں کہ یہ تمام اقوال مردود ہیں۔‘‘
عبدالماجد سنبھل کر بیٹھ گئے اور مطالعہ شروع کر دیااب جوں جوں پڑھتے جاتے خون کھولتا جاتا غصے کی وہ پہلے ہی تیز تھے لیکن اس وقت مصنف سامنے نہ تھا اقتباسات نوٹ کرتے رہے۔یہ کتاب ختم ہوئی تو ’’تفویض ‘‘اٹھا لی ،اس کا بھی یہی حال تھا۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کی ناگفتہ حالت اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے،اور میں یہ کہتا ہوں کہ ان کی جان محض اس وجہ سے مصیبت میں ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔آج وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں اور کل ان کی دنیاوی مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔‘‘
اخلاق و متانت سے گری ان تحریروں کو دیکھ کرعبد الماجد نے مصنف کو سبق سکھانے کا سوچ لیا۔۔قلم اٹھایا اور’’امر عظیم‘‘ کے عنوان سے اپنی تحریر ’’سچ‘‘ کے سپرد کر دی۔
مضمون میں ان کے لہجے و رکیک جملوں پر خاص تنقید کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اگر پردے کے مسئلے میں جمہور مسلمین کی روش سے کوئی اختلاف ہے تو شرافت و متانت سے اس کے اظہارکریں۔محدیثین ،آئمہ کرام بلکہ خود صحابہ تک سے جس طرح زبان درازی کی گئی اس کا کیا جواز ان کے پاس ہے؟غلط بیانیوں کی تصحیح کی جا سکتی ہے لیکن ایک پڑھا لکھا شخص محض مسخرہ پن اور استہزا پر اتر آئے اور لاکھوں ،کروڑوں افراد کے بزرگوں اور ساتھ ساتھ اپنی فہم کی سنجیدگی کا بھی تمسخر کرنا شروع کر دے تو ملت کے عوام و خواص دونوں کے لئے صبرو قرار،ضبط و تحمل کا قائم رکھنا کس قدر دشوار ہو جائے گا۔
عبد الماجدکی ابتداء کرنی تھی کہ دوسروں کو بھی حوصلہ ملا اور اس طرح احتجاجی مراسلے و مضامین اشاعت کیلئے آنے لگے اور ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔چغتائی یہ سب دیکھ کر پریشان ہو گیا۔مزید یہ کہ ان تمام مضامین کی کتب بنا کر عظیم بیگ چغتائی کو بھجوادی گئیں اس طرح ان سے ان دونوں میں مراسلات کی ابتداء ہوئی۔بالآخر وہ اپنی صفائی میں مضمون دینے پر آمادہ ہو گئے۔یہ مضمون بھی چھپ گیا اور اس میں ان کا لہجہ بھی نہایت معقول تھا۔اس میں دل آزاری پر معافی اور اللہ سے توبہ کی درخواست کی گئی تھی۔مصنف (چغتائی )کو مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ اپنی کتاب ہندوستان کے مصنف اعظم مولانا سید سلیمان ندوی کی خدمت میں بھیج دیں جب تک وہ ضروری ترمیمات نہ کر لیں ان کی کتابوں کی اشاعت ملتوی جائے۔انہیں مشورہ ماننا پڑااور خط کے ذریعے اس کی اطلاع بھی ’’سچ ‘‘میں دی۔اس پر ’’اجر عظیم ‘‘کے عنوان سے عبدالماجد نے مضمون بھی لکھ دالا۔ابھی یہ ہنگامہ آرائی جاری تھی کہ لکھنؤ کے ایک ناشر نے’’انگارے ‘‘شائع کر دی۔ عبد الماجد نے اسے بھی آڑے ہاتھو ں لیا ’’سچ ‘‘کے ساتھ ساتھ دوسرے رسائل میں بھی مضامین لکھوائے ۔آخر حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔
سچ کی ہنگامہ آرائیوں میں مصروف رہ کر وہ اپنے علمی کاموں سے دور ہوتے جا رہے تھے،قرآن مجید کے انگریزی ترجمے اور تفسیر کا کام شروع کر چکے تھے جس کے لئے کافی وقت درکار تھا۔انہوں نے ’’سچ ‘‘کو اس کارنامہ عظیم کی خاطر بند کر دیا۔
دریا باد کی تنہائیوں میں وہ کام سرانجام دینے لگے جو علوم دینی میں ایک اہم باب کا اضافہ کرنے والا تھا۔اپنے آپ کو قرآن اور متعلقات قرآن تک محدود کر لیا تھا۔نہایت جانفشانی سے ترجمہ قران(انگریزی)مکمل کرنے کے بعد تفسیر ماجدی(انگریزی،اردو)کا کام شروع کر دیا۔تفسیر مکمل ہوئی تو نئے خاکے لکھنا شروع کر دیئے۔ جنہیں کتاب کی صورت ملنے لگی۔ان میں مسائل القصص، الحیوانات فی القرآن، ارض القرآن،اعلام القرآن، بشریت انبیاء ، سیرت نبوی قرآنی،اور مشکلات القرآن جیسی کتب پڑھنے والوں کے سامنے آئیں۔
وہ 2شخصیات کو کو قرآن کی تصانیف کیلئے اپنا محسن گردانتے تھے۔1۔جناب مولانا اشرف علی تھانوی اور2۔مولانا محمد علی جوہر،ان شخصیات نے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی ،قدم قدم معاون رہے۔انہوں نے انکی شکر گزاری کے لئے دونوں کی سوانح عمریاں تصنیف کیں۔ان کتابوں کو مولانا اشرف علی تھانوی پر ’’نقوش و تاثرات ‘‘اور مولانا محمد علی جوہر پر’’محمد علی ،ذاتی ڈائری کے چند اوراق ‘‘کے نام سے شائع کروایا۔
کسی عالم دین سے کب توقع تھی کہ وہ سوانح نگاری ،خاکہ نگاری اور انشائی تحریروں میں بھی دماغ کھپائے گا لیکن عبد الماجدنے تو جیسے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ادب کے ہر گھر میں جھانکے بنا نہیں رہیں گے۔شاعری بھی کی اور غزل کو ہاتھ لگایا۔تنقید بھی کی اور تحقیق تو ان کا خیر میدان ہی تھا ،غرض بڑی تعداد میں خاکے لکھے۔ عبد الماجد کو دینی صفات نے چھپا لیا ورنہ وہ بہت بڑے خاکہ نگار بھی تھے۔
عبد الماجدنے جس تصنیف میں بھی ہاتھ ڈالا اسے تکمیل تک پہنچا ڈالا۔ایسی عظیم الشان زندگی کہ ہر منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا سوائے 1منصوبہ جو مکمل نہ ہو سکا اور اگر وہ مکمل ہو جاتا تو اردو زبان اپنی خوش قسمتی پر نازاں اور فخر کرتی اور پوری اسلامی دنیا ان کی احسان مند ہوتی۔
ایک بار راجہ صاحب محمود آباد کے ساتھ ان کی اقامت گاہ پر عبد الماجد بیٹھے تھے کہ دوران گفتگو انگریزی زبان کے ذخیرہ علمی کا ذکر نکل آیا۔بات نکل آئی انسائکلو پیڈیا برٹانیکاکی۔راجہ صاحب نے اردو میں ترجمہ کی درخواست کی۔ عبد الماجدنے سرمایہ کثیر کی درخواست کی۔راجہ صاحب نے 1لاکھ کی خطیر رقم مختص کرنے کی رضامندی ظاہر کی اور مزید کا بھی وعدہ فرمایا۔وعدہ تو کر لیا مگر کسی سے مشورہ نہ کر سکے تھے ان کے مشیر و مصلح سید سلیمان ندوی تھے ان سے مشورہ کیا انہیں منصوبہ بھی پسند آیا اور ایک مشورہ بھی اس سلسلے میں دیا کہ ’’ترجمہ تو ترجمہ ہوتا ہے اصل تصنیف کا مقابلہ نہیں کر سکتا یہ تو اہل یورپ کی خدمت ہوگی۔انسائیکلو پیڈیا کے مصنفین کے ابواب کے پابند ہوں گے ،بہتر یہ ہے کہ برٹانیکا کے طرز پر ایک اردو انسائیکلو پیڈیا یا دائرہ معارف تیار ہو ،جس میں تاریخ، طب، قانون،سیاست، مذہب ،فلسفہ اور سائنس وغیرہ کی ہر شاخ پر مستند فاضلوں سے مقالے تیار کروائے جائیں۔یہ ایک اوریجنل چیز ہو گی جس کی وقعت بھی ہو گی اور اس میں ہم آزاد بھی ہوں گے۔‘‘
راجہ صاحب کو اس سے آگاہ کیا گیا انہوں نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی۔منصوبے کو مشتہر کرنے کے لئے سید سلیمان ندوی سے تفصیلی مضامین بھی شائع کروائے گئے۔جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ان مراسلوں کے جواب میں تجاویز بھی آئیں۔اس منصوبے کو سراہا بھی گیا مگر پھر چند نا گزیر وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوتی چلی گئی اور رفتہ رفتہ لوگ اسے بھول گئے کہ کس عظیم منصوبے کا آغازہونے والا تھا۔
عبد الماجدکی صحت ہمیشہ سے ہی ناساز رہی تھی 11یا12سال کی عمر میں ان پر ملیریا کا حملہ ہوا تھا عام سی بیماری تھی مگر ٹھیک ہوگئی مگر اگلے ہی سال پھر حملہ ہوا تو تشویش ہوئی یہاں تک کہ 18سے19سال تک سالانہ حملوں کے شکار ہوتے رہے۔پھر نزلہ وزکام کے بھی دائمی مرض میں مبتلا تھے۔جب حیدر آباد میں قیام پزیر تھے تب اپنڈکس کا بھی شکار ہوئے۔ایک حاذق حکیم سے ملاقات ہوئی تو بنا آپریشن تکلیف سے نجات ملی۔ان ملیریا کے سالانہ حملوں اور مسلسل نزلے کے باعث بینائی متاثر ہوئی۔نوجوانی میں کچھ خیال نہ کیا لیٹ کر اور کم روشنی میں پڑھا کرتے تھے،نتیجہ یہ ہوا کہ 37سال کی عمر میں رات کا مطالعہ چھوڑدینا پڑا۔40سال کی عمر میں صحت انتہائی خراب ہو چکی تھی۔مرض قلب میں مبتلا تھے۔ علاج جاری تھاپر افاقہ نہ آرہا تھا کسی کے مشورے پر صبح کی سیر کو معمول بنا لیا تھا اس ہوا خوری سے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔اور صحت سنبھلنے لگی۔مگر پھر بھی جب بھی سردیاں آتیں بیمار ضرور پڑتے اور ہفتوں مبتلا رہتے،مگر جوں جوں بڑھاپا آتا جارہا تھا قوت مدافعت جواب دیتی ہی جا رہی تھی بیماری ہفتوں سے مہینوں پر پھیلنا شروع ہو گئی۔اس پر یہ احساس کے عمر کم رہ گئی ہے مزید کام شروع کر دیا کہ جو کرنا ہے جلد کر لو نجانے کب رخصت ہوجانا پڑے۔80سال پار کرنے کے بعد قوت ارادی بھی جواب دے گئی۔یہاں تک کہ اخبار میں چاہنے والوں نے خبر بھی لگا ڈالی کہ ’’مولانا دریا بادی نے صحافتی قلم رکھ دیا۔‘‘پر کسے معلوم تھا کہ تیاری کسی اور طرف کی ہو رہی ہے۔
14جنوری۱۹۷۴ کو مغرب کی نماز کے بعد رہا سہا فالج کا حملہ بھی ہو گیا،اثر دائیں جانب ہواہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ڈاکٹری علاج کے بعد لکھنؤ میں ہومیوپیتھی کا شروع ہوا تو مرض جہا ں تھا وہیں رک گیا۔افاقہ ملتے ہی ایک مختصر سانوٹ لکھ اخبار میں بھیج دیا۔کہ پڑھنے والوں کو ان کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔لاکھوں صفحات لکھنے والے کو یہ چھوٹا رقعہ بھی لکھنے کے لئے ایسا لگا کہ گویا ایک پہاڑ ساکاٹ رہے ہوں۔اخبارات میں بار بار ان کی صحت کی خبریں دیکھ کر حکومت کو بھی ہوش آگیا،ریاستی گورنر خود عیادت کو آئے۔پھر تو حکومتی عہدیداران کا تانتا بندھ سا گیا۔صحت تو سنبھل گئی تھی پر حافظہ جاتا رہا تھا۔کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے قابل نہ رہے تھے۔ان کا لکھا ہواپڑھنا دشوار ہو جاتا تھا۔بولنے میں لکنت آگئی تھی کہ سمجھنا دشوار تھا۔اس پر بھی اللہ کا شکر تھا۔ایک سال جسم کو گھسیٹے رہے۔بصارت انتہائی کمزور ہو گئی تھی ایک انگریز ڈاکٹر سے کامیاب آپریشن بھی کروالیا مگر قریب کی نگاہ عینک لگانے کے باوجود لکھنے پڑھنے سے معذور تھی۔ان دنوں قیام لکھنؤ میں تھا مسلم یونیورسٹی کے کانووکیشن کے لئے انہیں علیگڑھ بلوایا گیا۔صحت آنے جانے کے قابل نہ تھی پر احباب کے مجبور کرنے پر اپنے بھتیجے کے ساتھ یورنیورسٹی پہنچے جہاں انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر پر اعزازی ڈگری دی گئی۔
رمضان آیا تو دریا باد چلے آئے۔پورا رمضان تراویح میں انتہائی ضعف کے باوجود قرآن مکمل سنا۔اکتوبر کی ایک رات آگئی۔کسی کام سے بستر سے اٹھے تو ٹھوکر لگ گئی پوری رات تکلیف میں گزاردی۔صبح ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو علم ہواکہ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ہڈی جوڑ پلاسٹر چڑھا دیا گیا۔چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ایک چوبی تخت تھا جس پر لیٹے رہا کرتے تھے،داہنی کروٹ پر لیٹ نہ سکتے تھے پلاسٹر جو چڑھا تھا۔لکھنے پڑھنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا کہ آنکھیں اب اس قابل ہی نہ تھیں۔سب کو یقین آگیا تھا کہ اب عبد الماجد کا وقت رخصت قریب ہے خود عبد الماجدبھی ہر ایک سے اپنی مغفرت کے لئے دعا کا کہتے تھے۔لڑکیوں کو اپنے پاس بلا لیا تھا کہ جب تک جیتے ہیں انہیں دیکھتے رہیں۔ایک دن لڑکیوں کو پاس بلا کر اپنی کتابوں کی تقسیم بھی کر وادی کہ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو،عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دی ہیں۔یہ جملہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آگئے۔منجھلی بیٹی نے عرض کیا کہ ہمیں علم ہے کس طرح آپ نے انہیں جمع کیا ہے اور اب تقسیم کر رہے ہیں،کتابیں ہمارے پاس اپنی نشانی کے طور پر ہی رہنے دیں۔جواب میں عبدالماجد نے کہا ’’اچھا یاد دلایا ایسے ہی جمع نہیں ہو گئیں تھیں کتابیں ‘‘،ناشتے میں انڈہ بہت پسند تھا لیکن میں نے ابلے آلو انڈے سمجھ کے کھانا شروع کر دئے پیسے جوڑے اور کتابیں خریدیں،کتابوں میں حالی ہیں،شبلی بھی ہیں دل ان سے جدائی کا نہیں چاہتا لیکن تم لوگ اپنے گھروں کی ہو۔کل چلو جاؤ گی کتب خانے کی حفاظت کون کرے گا ؟بیٹا ہوتا تو اور بات تھی۔
پہلی بار اپنی اولاد نرینہ کی کمی کا بہت احساس ہوا اور اس کا اظہار بھی کیا،یقیناً وہ2 بیٹے ضرور یاد آئے ہوں گے جو عالم شیر خوارگی ہی میں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ان کی 4بیٹیاں تھیں (رافت النساء، حمیرا خاتون، زہیرا خاتون اور زاہدہ خاتون)آخر کار وہ دن بھی آگیا جب علی گڑھ سے ٹرک کتابیں لینے ان کے دروازے پر کھڑا تھا اور وہ بے بسی سے اسے لادتے دیکھ رہے تھے۔بیٹی سے اظہار کیا کہ ایسا لگ رہا ہے ایک اور بیٹی کو رخصت کر رہا ہوں۔ان دنوں قیام لکھنؤ میں خاتون منزل پر تھا۔دسمبر کے مہینے کا آخر تھا کہ نیا حملہ فالج کا ہو گیا۔احباب ملنے آتے رہے سرہانے بیٹھتے اور چلے جاتے ،عبدالماجد کچھ بھی بولنے سے قاصر تھے ،آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔حواس قائم نہ رہے تھے،بار بار غفلت طاری ہو جاتی تھی لیکن اس عالم میں بھی بار بار ہاتھ کان تک اٹھاتے اور اس کے بعد نیچے لا کر نماز کے انداز میں باندھ لیتے تھے۔
ایک روز اپنی منجھلی بیٹی کو بلا کر کہنے لگے کہ
‘‘وہ جو آتا ہے ف۔۔۔’’
بیٹی نے جملہ مکمل کیا کہ’’فرشتہ؟‘‘
بولے۔’’ہاں‘‘اور داہنی جانب اشارہ کیا اور کہا ’’آگیا ہے۔‘‘
اس واقعے کے4دن بعد ہی 6جنوری ۱۹۷۷صبح ساڑھے4بجے خاتون منزل (لکھنؤ)میں عبدالماجد دریابادی خالق حقیقی سیجا ملے۔
نماز جنازہ ، وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعلما کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی نے پڑھائی۔اس کے بعد جسد خاکی کو دریا باد لے جایا گیا وہاں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ان کے مکان سے متصل ایک آبائی بزرگ حضرت آب کش کا مزار تھا اس کے قریب ہی آپ کی تدفین ہوئی۔
عالم دیں ،مفسر قرآن
مرد حق محرم رموز حیات
اپنے خالق سے جا ملا آخر
چھوڑ کر یہ جہان مکروہات
ہے کم و بیش یہی تاریخ
پاک دل ، پاک ذات، پاک صفات
1397 ھ 2361775۔378
پھر وہی ہوا کہ جو عظیم لوگوں کی وفات کے بعد ہوا کرتا ہے۔مجلس شوریٰ دارالعلم دیو بند، بزم اردو اور محمد علی اکادمی مدینہ ،اخبار رہنمائے دکن اور متعدد دیگر اداروں نے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں۔
تصانیف:
(تنقیدات)
اقبالیات ماجد، اکبر نامہ، انشائے ماجد، مضامین ماجد، مقالات ماجد،نشریات ماجد۔
(قرآنیات و متعلقات)
ارض القران، اعلام القران، بشریت انبیاء، تصوف اسلام، تفسیر ماجدی، تمدن اسلام کی کہانی، جدید قصص الانبیاء کے چند ابواب، خطبات ماجد، سچی باتیں، سلطان ما محمد، سیرت النبوی قرآنی، قتل مسیح سے یہودیت کی بریت، مسائل و قصص، مردوں کی مسیحائی، مشکلات القرآن، ندوۃ العلما کا پیام ،یتیم کا راج۔
(آپ بیتی و سوانح)
آپ بیتی(ماجد)، اردو کا ادیب اعظم، چند سوانحی تحریریں، حکیم الامت ، نقش و تاثرات، محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق،(جلد اول و دوم)محمود غزنوی معاصرین،وفیات ماجدی۔
(فلسفہ و نفسیات)
غذائے انسانی،فلسفہ اجتماع، فلسفہ جذبات، فلسفیانہ مضامین، مبادی فلسفہ، ہم آپ۔
(تراجم)
پیام امن، تاریخ اخلاق یورپ، تاریخ تمدن ، مکالمات برکلے، مناجات مقبول، ناموران سائنس۔
(سفر نامے)
تاثرات دکن، ڈھائی ہفتہ پاکستان میں ، سفر حجاز، سیاحت ماجدی۔
(انگریزی)
دی سائیکلوجی آف لیڈر شپ، قرآن حکیم(انگریزی ترجمہ و تفسیر)، ہولی قرآن ود انگلش ٹرانسلیشن

***