وہ بلوچستان کے علاقے خضدار میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس سفر میں اس کی ملاقات پوسٹ آفس کے ایک بڑے افسر سے ہوئی۔ اِس نے اْس کو اللہ کے راستے میں دین سیکھنے کے لیے وقت نکالنے اور سفر کرنے کی دعوت دی۔ جواب میں اس بڑے افسر نے کہا کہ وہ فیصل آباد کا رہنے والا ہے ۔اور اس کی تنخواہ اتنی کم ہے کہ سال کے بعد اس کے پاس اتنی بچت بھی نہیں ہوپاتی کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ فیصل آبا دکا سفر کر سکے۔ اس لیے کئی کئی سال اس کی فیملی فیصل آباد نہیں جا پاتی۔ اس نے مزید کہاکہ بیسویں گریڈ کا افسر ہونے کے باوجود اس کے پاس اتنی بچت نہیں ہوتی کہ وہ پنجاب کا سفر کر سکے ،لیکن تم لوگوں کے پاس اتنے پیسے کہا ں سے آجاتے ہیں کہ تم چالیس چالیس دن اور چار چار ماہ کے لیے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ جاتے ہو ؟اس ساری گفتگو کو اس نے تحمل سے سنا اور پھر اس افسر سے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں ، اس نے کہا تین۔دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ اس نے عمر پوچھی تو معلوم ہوا کہ بیٹی بڑی ہے اور اب وہ اس کی شادی کا سوچ رہا ہے ۔ اس پر اس نے پوچھا کہ وہ بیٹی کی شادی پر کتنا خرچ کرے گا۔افسر نے کہا کم سے کم بھی کریں تو دو تین لاکھ تو لگ ہی جائے گا۔(یہ ۱۹۸۶کی بات ہے)۔یہ سن کر اس مسافر نے کہا کہ و ہ شخص جس کے پاس سال کے بعد اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ فیصل آباد کا سفر کر سکے ، وہ دوتین لاکھ کہاں سے خرچ کرے گا؟افسر نے کہا کہ جی دیکھیں نا وہ تو پھر کرنا ہی پڑتا ہے ۔جواباً اس نے کہا کہ جناب پھر یہ بھی کرنا ہی پڑتا ہے ۔جس طرح شادی کو آپ ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کسی نہ کسی طرح بندوبست کرنے کے لیے تیار ہیں اسی طرح ہم لوگ اس کا م کوبھی ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے جیسے بھی ہو انتظام کرتے ہیں۔
قارئین ! یہ معمولی سا واقعہ آ ج کے مسلمان کی زندگی اور عملی رویے کی حقیقی تصویر ہے۔ آج کا مسلمان ہر کام پر خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے ، نہیں ہوتا تو دین اور آخرت کے لیے خرچ کرنے کو تیا ر نہیں ہوتا۔ مسئلہ صرف ترجیحات کا ہے ۔ جو چیز انسان کی نظرمیں ترجیح کی مستحق ہوتی ہے اس کے لیے وہ وقت بھی فارغ کر سکتا ہے ، مال بھی اور جان بھی۔مگر جو اس کی نظر میں اتنی ضروری اور ترجیح کی حامل نہیں ہوتی وہ نہ تو وقت حاصل کر پاتی ہے ، نہ ہی اس پر مال خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی انسا ن اس کے لیے جسمانی مشقت برداشت کرنا پسند کرتا ہے ۔ الا یہ کہ اس کی ضروری خواہشات پوری ہو چکی ہوں۔
اس دنیا میں انسان ہمیشہ کم وسائل اور زیادہ خواہشات کے چکر میں گرفتار رہا ہے ۔ اور اس مسئلے کووہ ترجیحات سے حل کرتا رہاہے ۔ جو خواہش زیادہ شدید ہوتی ہے اس کو پہلے حل کرتاہے اور باقی کو ملتوی کرتا رہتا ہے۔اس دنیا میں جو مسلمان آخرت کے لیے جیتا ہے تو آخرت اس کی اولین ترجیح بن جاتی ہے ۔اور جب آخرت اس کی اولین ترجیح بن جاتی ہے تو پھروہ دنیا کا ہر نقصان توبرداشت کر لیتا ہے مگر آخرت کا نہیں۔ اس کے برعکس جو دنیا کے لیے جیتا ہے وہ دو دو پیسے کے لیے بھی آخرت کو قربان کرتا رہتا ہے اور اسے کسی نقصان کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا۔بات وہی ترجیحات کی ہے ۔کامیاب ، مطمئن اور ایک مسلمان کی زندگی گزارنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم انتہائی سوچ بچار ،دور اندیشی اور اپنی منزل کوسامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی کی ترجیحات مقرر کر لیں ورنہ ززندگی خود اپنی ترجیحات بنا لے گی اور ہم سوچتے ہی رہ جائیں گے ۔ عقل مند وہی ہے جو اپنی ترجیحات کے تحت زندگی گزارے ورنہ زندگی اسے گزار ے گی اور وہ آخرت میں خالی ہاتھ کھڑا رہ جائے گا۔