یہ مضمون امام حمید الدین فراہی کے ‘‘رسالۃ فی اصلاح الناس’’ کا اردو ترجمہ ہے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے قلم سے ‘‘الاصلاح’’ میں شائع ہو چکا ہے۔
۱۔ جس طرح بیماریوں کے علاج میں ضروری ہے کہ اولاً مرض اور اسباب مرض کی تشخیص کی جائے اور جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے، پہلے اس کی طرف توجہ کی جائے۔ اسی طرح کسی قوم کی اصلاح میں سب سے پہلے خرابیوں کے اسباب اور اصل مرض کا سراغ لگانا چاہیے۔ اس کے بعد اگر پیش نظر دینی اصلاح ہے، توکتاب و سنت پر غور کرنا چاہیے۔ دینی اصلاح کی راہ یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح فرمائی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاح و دعوت کی صحیح راہ بتا دی، پھر ہم کو حکم دیا کہ ہم آپ کے نقش قدم کی پیروی کریں۔ اصلاح و دعوت کی تمام راہیں کتاب الٰہی میں موجود ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے وہ تمام راہیں ہمارے لیے کھول دی ہیں۔
پس کسی مصلح کے لیے یہ بات جائز نہیں ہو سکتی کہ وہ اس اہم کام میں کتاب و سنت کی رہنمائی سے بے پروا ہو کر تنہا اپنی رائے پر بھروسا کرے، جو شخص ایسا کرے گا وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو گا اور اس کی کوشش اصلاح سے زیادہ فساد کا باعث ہو گی۔ میں نے اس مسئلہ پر ایک زمانہ تک غور کیا ہے اور کتاب و سنت کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں، چند لفظوں میں ان کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔
۲۔ ایک مصلح کا فرض صرف اس قدر ہے کہ وہ اصلاح کی دعوت دے دے، لوگ اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں اس سے اس کو کوئی تعلق نہیں۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے دلوں کی خرابی کی وجہ سے نیکی کی دعوت پر کان نہیں دھرتے، فرعون کے ساتھیوں اور یہودیوں نے جان بوجھ کر دعوت حق سے اعراض کیا، پس کسی مصلح کی دعوت کی صحت اور سچائی کا معیار کامیابی نہیں۔ اس کا فرض صرف اس قدر ہے کہ جس بات کی سچائی اللہ تعالیٰ نے اس پر کھول دی ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہے، اندھیرے میں چلنے والوں کی طرح قدم قدم پر لڑکھڑائے نہیں۔
۳۔ افراد اور جماعتیں، دونوں کے امراض کبھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مختلف جماعتیں اپنی عقلی اور خلقی حیثیات میں ایک دوسری سے بالکل مختلف حالت میں ہوتی ہیں۔ مصلح کا فرض ہے کہ ان کو مخاطب کرتے وقت ان کے تفاوت حالات کو نظر انداز نہ کرے۔ اگرچہ راہ اصلاح کی منزلیں متعین ہیں، تاہم رعایت حالات ناگزیر ہے۔ یہی راز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو بعض خاص امور کا حکم دیا، اور بعض اوقات ایسا ہوا کہ ان کے حسن نیت کا اندازہ کر لینے کے بعد بعض معاملات میں ان کے طرز عمل کے اختلاف کو نظرانداز فرمایا۔
۴۔ اعمال کی بنیاد عقائد پر ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عقائد میں متفق ہونے کے باوجود لوگوں کے اعمال میں تفاوت ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم اور عمل کے درمیان کچھ وسائط ہیں۔ علم اور عقیدہ بعض اوقات فراموش ہو جاتا ہے اور فراموش ہو کر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں میں کسی کونے میں موجود ہوتا ہے، اور کبھی اس قدر چھپ جاتا ہے کہ گویا بالکل نابود ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں تذکیر کی ضرورت ہے۔ پے بہ پے تذکر ارادہ کو متحرک اور حالت کو بیدار کر دیتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مصائب کی یاد تم میں غم کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے، اسی لیے قرآن مجید میں تذکیر بہت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے: وَّذَکِّر فَاِنَّ الذِّکرٰی تَنفَعْ المْؤمِنِینَ. (الذاریات ۱۵:۵۵)
‘‘اور یاددہانی کرو، یاددہانی ایمان والوں کو نفع پہونچائے گی۔’’
تذکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفع و نقصان کا اس طرح تصور کرے کہ وہ بالکل نگاہ کے سامنے ممثل ہو جائیں اور ایسی چیزوں کو یاد کرے جو اس میں ایک کیفیت و حالت پیدا کر دیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے انعامات، اس کی عظمت و جلالت، اپنے ندامت انگیز معاصی، پس دوسری چیز گویا حالت و کیفیت کا پیدا کرنا ہے، اور یہ چیز نہایت اہم ہے۔ بعض اوقات تذکیر کسی غافل اور مدہوش اور شکی دل سے ٹکرا کر واپس ہو جاتی ہے اور اندر گھسنے کی راہ نہیں پاتی، اس لیے ضروری ہے کہ غفلت و قساوت اور شک کے اسباب دور کیے جائیں، تاکہ قلب اثرپذیر ہو سکے۔ اس کے بعد ترویض قلب کا درجہ ہے یعنی اس کو ایسا بنایا جائے کہ پیدا شدہ کیفیت باقی رہ سکے۔
قرآن مجید نے صلاحیت قلب کی علامات کی طرف بعض مقامات میں اشارہ کیا ہے، مثلاً: تَقشَعِرّْ مِنہْ جْلْودْ الَّذِینَ یَخشَونَ رَبَّہْم ثْمَّ تَلِینْ جْلْودْہْم وَقْلْوبْہْم اِلٰی ذِکرِ اللّٰہِ.(الزمر ۹۳: ۳۲)
‘‘جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اس (کے سننے) سے ان کے بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے جسم اور دل نرم ہو کر یادالٰہی کی طرف (راغب) ہوتے ہیں۔’’
دوسری جگہ فرمایا: اِنَّمَا المْؤمِنْونَ الَّذِینَ اِذَا ذْکِرَ اللّٰہْ وَجِلَت قْلْوبْہْم وَاِذَا تْلِیَت عَلَیہِم اٰیٰتْہ زَادَتہْم اِیمَانًا. الانفال ۸: ۲)
‘‘حقیقی مومن وہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام آتا ہے، ان کے دل کانپ جاتے ہیں، اور جب ان کو اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں، ان کے ایمان میں افزونی ہوتی ہے۔’’
پس اصلی چیز قلب کی اصلاح و درستی ہے۔
۵۔ میں نے یہ جاننے کے لیے کہ اصلاح قلب کی راہ میں پہلا قدم کیا ہے، بارہا کتاب و سنت پر غور کیا، بعض مرتبہ مجھے خیال ہوا کہ اس سوال کا جواب آیت ذیل سے مل سکتا ہے: فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالحْسنٰی فَسَنْیَسِّرْہ لِلیْسرٰی. (اللیل ۲۹: ۵۔۷) ‘‘تو جس نے (راہ خدا میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی، اور اچھی بات (دین اسلام) کو سچ سمجھا تو ہم آسانی کی جگہ (یعنی بہشت میں پہنچنے) کا راستہ، اس کے لیے آسان کر دیں گے۔’’
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی توفیق کس طرح حاصل ہوتی ہے، نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلی حجاب مال و اولاد کی محبت ہے، بخل و بزدلی کی تمام برائیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں، اور تمام اعمال صالحہ کی جڑ اور تمام معاصی سے روکنے والی چیز تقویٰ ہے، اور تصدیق حسنیٰ سے آدمی پر آخرت کی تیاریوں کی راہیں کھلتی ہیں۔
اس کے بعد مجھ پر ایک اور اہم حقیقت آشکارا ہوئی، اور دلائل نے اس کی تائید کی۔ وہ یہ کہ یہ نماز پہلی اور آخری دوا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نماز کا حکم دیا اور نماز کی حقیقت، ذکر اور تبتل بتائی، اور نماز کی جس قدر تاکید کی، ایمان کے بعد اس قدر تاکید کسی عمل صالح کی نہیں کی۔ پھر یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ذکر ہی سے قلب میں کیفیت و حالت پیدا ہوتی ہے اور قرآن کی تلاوت ہی سے دل زندہ ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن مجید ہی روشنی اور شفا ہے، اور قرآن مجیدکی تلاوت کا سب سے زیادہ موزوں وقت نماز ہے۔ کتاب و سنت سے اس کی تائید ہوتی ہے، پھر نماز کی اصلی روح خشوع ہے جو تقویٰ، شکر اور توحید و توکل کی جڑ ہے۔ نماز، ہدایت اور توفیق کی دعا ہے۔ نماز فواحش اور منکر سے روکنے والی ہے، بلکہ وہ جس قدر صحیح، باقاعدہ، زیادہ اور خالص ہوتی جائے گی، اسی قدر اس کی تاثیرات بڑھتی جائیں گی۔
ان باتوں نے مجھ پر یہ حقیقت کھول دی ہے کہ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم نماز ہے۔ آیت تیسیر جو اوپر گزر چکی ہے، تصحیح نماز کی طرف رہبری کرتی ہے۔ نمازی پر جو کیفیات طاری ہونی چاہییں، ان کا خلاصہ تین چیزیں ہیں: صدقہ، تقویٰ اور عاقبت حسنیٰ کا یقین۔ پس جو شخص اصلاح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ارادے سے اٹھے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو نماز اور خشوع کے ذریعہ جانچ کر درست کر لے، اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک کسی شخص کی نماز درست نہ ہو گی، اس وقت تک اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
۶۔ اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ مصلح کے لیے عمل اصلاح کے آغاز سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں خرچ کرے، تقویٰ اختیار کرے، متّقین کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے، اس کا یقین رکھے اور ایسی نماز پڑھے جو خشیت و شوق سے لبریز ہو۔ وہ صحیح نماز جس کا بیان سورۃ مومنون میں ہے، اس میں وہ تمام باتیں بیان کر دی گئی ہیں جو نماز سے پہلے، نماز کے اندر، اور نماز کے بعد ضروری ہیں اور ایک سے زیادہ آیات میں اس چیز کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے جو نماز کی روح ہے یعنی ذکر و انابت، اور احادیث میں ذکر کے معنی بھی بتا دیے گئے ہیں کہ بندہ خدا کی اس طرح عبادت کرے گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔
۷۔ تقویٰ ایک جامع لفظ ہے۔ یہ تمسّک بالکتاب کے ہم معنی ہے اور تمسّک بالکتاب، جیسا کہ قرآن مجید میں تصریح ہے، اتباع سنت کو شامل ہے۔ ان مقدمات کی توضیح دوسری جگہ ہو چکی ہے۔ پس میرے نزدیک مصلح کے لیے کتاب و سنت کا تمسّک اور نماز کی تصحیح ضروری ہے، اور نماز کی تصحیح اس کے شرائط کے بغیر ناممکن ہے۔
اس تفصیل کے بعد آیت ذیل کا مطلب آپ بآسانی سمجھ سکتے ہو جو طریق اصلاح کی طرف رہبری کر رہی ہے: وَالَّذِینَ یْمَسِّکْونَ بِالکِتٰبِ وَاَقَامْوا الصَّلٰوَۃ اِنَّا لاَ نْضِیعْ اَجرَ المْصلِحِینَ. (الاعراف۷:۱۷۰)
‘‘جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں بے شک ہم مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔’’